سورہ نجم: آیت 19 - أفرأيتم اللات والعزى... - اردو

آیت 19 کی تفسیر, سورہ نجم

أَفَرَءَيْتُمُ ٱللَّٰتَ وَٱلْعُزَّىٰ

اردو ترجمہ

اب ذرا بتاؤ، تم نے کبھی اِس لات، اور اِس عزیٰ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaraaytumu allata waalAAuzza

آیت 19 کی تفسیر

لات ایک سفید پتھر تھا جس پر نقش ونگار تھے۔ طائف میں اس کے اوپر ایک مکان اور درگاہ بنی ہوئی تھی جو طائف میں تھی اور اس کے اوپر پجاری متعین تھے۔ اس درگاہ کے اردگرد ایک بڑی چار دیواری تھی اور اہل طائف اس کا بہت احترام کرتے تھے یعنی فخر کرتے تھے ماسوائے قریش کے کہ ان کے پاس کعبہ تھا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ لات کا لفظ مونث ہے اللہ کا جو اس سے پاک ہے۔

اور عزی ایک درخت تھا جس کے اوپر بھی ایک عبادت گاہ بنی ہوئی تھی اور پردے تھے اور یہ نخلہ کے مقام پر تھی جو مکہ اور طائف کے درمیان تھی۔ اس کی تعظیم قریشی بھی کرتے تھے جس طرح احد کے دن ابوسفیان نے کہا۔

لنا العزی ولا عزی لکم ” ہمارا عزی ہے اور تمہارا کوئی عزی نہیں “ تو حضور ﷺ نے فرمایا یہ جواب دو ۔

اللہ مولنا ولا مولی لکم ” اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں ہے “ اور العزی عزیز کی مونث بتلائی جاتی ہے۔

مناة کا بت قدید کے قریب مشلل میں تھا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ خزاعہ ، اوس اور حزرج اس کی تعظیم کرتے تھے اور قدید یا مشلل سے مکہ کے لئے احرام باندھتے تھے۔ مناة کے احترام میں۔

ان کے علاوہ اور بھی بہت بت تھے جن کو عرب میں پوجا جاتا تھا مگر یہ تین بڑے آستانے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ تینوں نام تین ملائکہ کے نام تھے جنہیں عرب اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور اسی وجہ سے یہ ان کی عبادت کرتے تھے اور جس طرح اصول ہے کہ چلتے چلتے یہ تینوں بذات خود معبود ہوگئے اور جمہور عوام نے اللہ کو بھلا کر ان بتوں کو بذات خود معبود مطلق سمجھ کر پوجنا شروع کردیا۔ کم ہی لوگ اس قسم کے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کی عبادت اس وجہ سے ہے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔

ان معبودوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی تعجب انگیز انداز میں کیا جس طرح کہ عبارت سے اچھی طرح واضح ہوتا ہے۔

افرءیتم ........ الاخری (35 : 02) ” اب ذرا بتاؤ تم نے کبھی اس لات اور اس عزی اور تیسری ایک دیوی مناة کی حقیقت پر غور کیا ہے ؟ “ تعجب لفظ افرءیتم (ذرا بتاؤ کیا تم نے سو چاہے ؟ ) سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس فعل کو نہایت ہی مضحکہ خیز سمجھتا ہے لیکن اس تعجب کے اظہار کے بعد ان پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ یہ اللہ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اور اپنے لئے بیٹے۔

آیت 19{ اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی۔ } ”تو کیا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کے بارے میں غور کیا ہے ؟“ اب یہاں سے مکی سورتوں کے عمومی مضامین کا آغاز ہو رہا ہے۔

بتکدے کیا تھے ؟ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ مشرکین کو ڈانٹ رہا ہے کہ وہ بتوں کی اور اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کرتے ہیں اور جس طرح خلیل اللہ نے بحکم اللہ بیت اللہ بنایا ہے یہ لوگ اپنے اپنے معبودان باطل کے پرستش کدے بنا رہے ہیں۔ لات ایک سفید پتھر منقش تھا جس پر قبہ بنا رکھا تھا غلاف چڑھائے جاتے تھے مجاور محافظ اور جاروب کش مقرر تھے اس کے آس پاس کی جگہ مثل حرم کی حرمت و بزرگی والی جانتے تھے اہل طائف کا یہ بت کدہ تھا قبیلہ ثقیف اس کا پجاری اور اس کا متولی تھا۔ قریش کے سوا باقی اور سب پر یہ لوگ اپنا فخر جتایا کرتے تھے۔ ابن جریر فرماتے ہیں ان لوگوں نے لفظ اللہ سے لفظ لات بنایا تھا گویا اس کا مؤنث بنایا تھا اللہ کی ذات تمام شریکوں سے پاک ہے ایک قرأت میں لفظ لات تاکہ تشدید کے ساتھ ہے یعنی گھولنے والا اسے لات اس معنی میں اس لئے کہتے تھے کہ یہ ایک نیک شخص تھا موسم حج میں حاجیوں کو ستو گھول گھول کر پلاتا تھا اس کے انتقال کے بعد لوگوں نے اس کی قبر پر مجاورت شروع کردی رفتہ رفتہ اسی کی عبادت کرنے لگے۔ اسی طرح لفظ عزیٰ لفظ عزیر سے لیا گیا ہے مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں یہ ایک درخت تھا اس پر بھی قبہ بنا ہوا تھا چادریں چڑھی ہوئی تھیں قریش اس کی عظمت کرتے تھے۔ ابو سفیان نے احد والے دن بھی کہا تھا ہمارا عزیٰ ہے اور تمہارا نہیں جس کے جواب میں حضور ﷺ نے کہلوایا تھا اللہ ہمارا والی ہے اور تمہاری کوئی نہیں صحیح بخاری میں ہے جو شخص لات عزیٰ کی قسم کھابیٹھے اسے چاہیے کہ فورا لا الہ الا للہ کہہ لے اور جو اپنے ساتھی سے کہہ دے کہ آ جوا کھیلیں اسے صدقہ کرنا چاہیے، مطلب یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں چونکہ اسی کی قسم کھائی جاتی تھی تو اب اسلام کے بعد اگر کسی کی زبان سے اگلی عادت کے موافق یہ الفاظ نکل جائیں تو اسے کلمہ پڑھ لینا چاہیے حضرت سعد بن وقاص ایک مرتبہ اسی طرح لات و عزیٰ کی قسم کھا بیٹھے جس پر لوگوں نے انہیں متنبہ کیا یہ حضور ﷺ کے پاس گئے آپ نے فرمایا دعا (لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر) پڑھ لو اور تین مرتبہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر اپنی بائیں جانب تھوک دو اور آئندہ سے ایسا نہ کرنا مکہ اور مدینے کے درمیان قدید کے پاس مثلل میں مناۃ تھا۔ قبیلہ خزاعہ، اوس، اور خزرج جاہلیت میں اس کی بہت عظمت کرتے تھے یہیں سے احرام باندھ کر وہ حج کعبہ کے لئے جاتے تھے اسی طرح ان تین کی شہرت بہت زیادہ تھی اس لئے یہاں صرف ان تین کا ہی بیان فرمایا۔ ان مقامات کا یہ لوگ طواف بھی کرتے تھے قربانیوں کے جانور وہاں لے جاتے تھے ان کے نام پر جانور چڑھائے جاتے تھے باوجود اس کے یہ سب لوگ کعبہ کی حرمت و عظمت کے قائل تھے اسے مسجد ابراہیم مانتے تھے اور اس کی خاطر خواہ توقیر کرتے تھے۔ سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ قریش اور بنو کنانہ عزیٰ کے پجاری تھے جو نخلہ میں تھا۔ اس کا نگہبان اور متولی قبیلہ بنو شیبان تھا جو قبیلہ سلیم کی شاخ تھا اور بنو ہاشم کے ساتھ ان کا بھائی چارہ تھا اس بت کے توڑنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے بعد حضرت خالد بن ولید کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور کہتے جاتے تھے یا عزی کفرانک لا سبحانک انی رایت اللہ قد اھانک اے عزیٰ میں تیرا منکر ہوں تیری پاکی بیان کرنے والا نہیں ہوں میرا ایمان ہے کہ تیری عزت کو اللہ نے خاک میں ملا دیا۔ یہ ببول کے تین درختوں پر تھا کاٹ ڈالے گئے اور قبہ ڈھا دیا اور واپس آ کر حضور ﷺ کو اطلاع دی آپ نے فرمایا تم نے کچھ نہیں کیا لوٹ کر پھر دوبارہ جاؤ حضرت خالد کے دوبارہ تشریف لے جانے پر وہاں کے محافظ اور خدام نے بڑے بڑے مکرو فریب کئے اور خوب غل مچا مچا کر یا عزیٰ یا عزیٰ کے نعرے لگائے حضرت خالد نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک ننگی عورت ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور اپنے سر پر مٹی ڈال رہی ہے آپ نے تلوار کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کیا اور واپس آکر حضور ﷺ کو خبر دی آپ نے فرمایا عزیٰ یہی تھی۔ لات قبیلہ ثقیف کا بت تھا جو طائف میں تھا۔ اس کی تولیت اور مجاورت بنو معتب میں تھی یہاں اس کے ڈھانے کے لئے نبی ﷺ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت ابو سفیان صخر بن حرب کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے معدوم کر کے اس کی جگہ مسجد بنادی، مناۃ اوس و خزرج اور اس کے ہم خیال لوگوں کا بت تھا یہ مثلل کی طرف سے سمندر کے کنارے قدید میں تھا یہاں بھی حضور ﷺ نے حضرت ابو سفیان کو بھیجا اور آپ نے اس کے ریزے ریزے کر دئیے۔ بعض کا قول ہے کہ حضرت علی کے ہاتھوں یہ کفرستان فنا ہوا۔ ذوالخعلہ نامی بت خانہ دوس اور خشعم اور بجیلہ کا تھا اور جو لوگ اس کے ہم وطن تھے یہ تبالہ میں تھا اور اسے یہ لوگ کعبہ یمانیہ کہتے تھے اور مکہ کے کعبہ کو کعبہ شامیہ کہتے تھے یہ حضرت جریر بن عبداللہ کے ہاتھوں رسول اللہ ﷺ کے حکم سے فنا ہوا فلس نامی بت خانہ قبیلہ طے اور ان کے آس پاس کے عربوں کا تھا یہ جبل طے میں سلمیٰ اور اجا کے درمیان تھا اس کے توڑنے پر حضرت علی مامور ہوئے تھے آپ نے اسے توڑ دیا اور یہاں سے دو تلواریں لے گئے تھے ایک رسوب دوسری مخزم آنحضرت ﷺ نے یہ دونوں تلواریں انہی کو دے دیں، قبیلہ حمیر اہل یمن نے اپنا بت خانہ صنعاء میں ریام نامی بنا رکھا تھا مذکور ہے کہ اس میں ایک سیاہ کتا تھا اور وہ دو حمیری جو تبع کے ساتھ نکلے تھے انہوں نے اسے نکال کر قتل کردیا اور اس بت خانہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور رضا نامی بت کدہ بنو ربیعہ بن سعد کا تھا اس کو مستوغر بن ربیعہ بن کعب بن اسد نے اسلام میں ڈھایا۔ ابن ہشام فرماتے ہیں کہ ان کی عمر تین سو تیس سال کی ہوئی تھی جس کا بیان خود انہوں نے اپنے اشعار میں کیا ہے ذوالکعبات نامی صنم خانہ بکر تغلب اور یاد قبیلے کا سنداد میں تھا پھر فرماتا ہے کہ تمہارے لئے لڑکے ہوں اور اللہ کی لڑکیاں ہوں ؟ کیونکہ مشرکین اپنے زعم باطل میں فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں سمجھتے تھے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم آپس میں تقسیم کرو اور کسی کو صرف لڑکیاں اور کسی کو صرف لڑکے دو تو وہ بھی راضی نہ ہوگا اور یہ تقسیم نامنصفی کی سمجھی جائے گی چہ جائیکہ تم اللہ کے لئے لڑکیاں ثابت کرو اور خود تم اپنے لئے لڑکے پسند کرو پھر فرماتا ہے ان کو تم نے اپنی طرف سے بغیر کسی دلیل کے مضبوط ٹھہرا کر جا چاہا نام گھڑ لیا ہے ورنہ نہ وہ معبود ہیں نہ کسی ایسے پاک نام کے مستحق ہیں خود یہ لوگ بھی ان کی پوجا پاٹ پر کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتے صرف اپنے بڑوں پر حسن ظن رکھ کر جو انہوں نے کیا تھا یہ بھی کر رہے ہیں مکھی پر مکھی مارتے چلے جاتے ہیں مصیبت تو یہ ہے کہ دلیل آجانے اللہ کی باتیں واضح ہوجانے کے باوجود بھی باپ دادا کی غلط راہ کو نہیں چھوڑتے۔ پھر فرماتا ہے کیا ہر انسان تمنا پر تمہارے لئے کیا لکھا جائے گا ؟ تمام امور کا مالک اللہ تعالیٰ ہے دنیا اور آخرت میں تصرف اسی کا ہے جو اس نے جو چاہا ہو رہا ہے اور جو چاہے گا ہوگا۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بڑے سے بڑا فرشتہ بھی کسی کے لئے سفارش کا لفظ بھی نہیں نکال سکتا۔ جیسے فرمایا آیت (مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَلَهٗٓ اَجْرٌ كَرِيْمٌ 11ۚ) 57۔ الحدید :11) کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش پیش کرسکے اس کے فرمان کے بغیر کسی کو کسی کی سفارش نفع نہیں دے سکتی۔ جبکہ بڑے بڑے قریبی فرشتوں کا یہ حال ہے تو پھر اے ناوافقو ! تمہارے یہ بت اور تھان کیا نفع پہنچا دیں گے ؟ ان کی پرستش سے اللہ روک رہا ہے تمام رسول ﷺ اور کل آسمانی کتابیں اللہ کے سوا اوروں کی عبادت سے روکنا اپنا عظیم الشان مقصد بتاتی ہیں پھر تم ان کو اپنا سفارشی سمجھ رہے ہو کس قدر غلط راہ ہے۔

آیت 19 - سورہ نجم: (أفرأيتم اللات والعزى...) - اردو