آیت 75 ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ اللہ تعالیٰ ان کے شرک کی نفی کے لیے یہ مثال بیان کر رہا ہے کہ ایک بندہ وہ ہے جو کسی کا غلام اور مملوک ہے ‘ اس کا کچھ اختیار نہیں ‘ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔وَّمَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَـنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّجَهْرًارزق میں مال علم اور صلاحیتیں سب شامل ہیں۔ یعنی وہ شخص مال بھی خرچ کر رہا ہے ‘ لوگوں کو تعلیم بھی دے رہا ہے ‘ اور کئی دوسرے طریقوں سے بھی لوگوں کو مستفید کر رہا ہے۔ هَلْ يَسْتَوٗنَ ۭ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ایک طرف اللہ کا وہ بندہ ہے جو اس کے دین کی خدمت میں مصروف ہے ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض سر انجام دے رہا ہے ‘ لوگوں میں دین کی تعلیم کو عام کر رہا ہے ‘ یا اگر صاحب ثروت ہے تو اپنا مال اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے خرچ کر رہا ہے اور محتاجوں کی مدد کر رہا ہے۔ جب کہ دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جس کے پاس کچھ اختیار وقدرت نہیں ہے ‘ وہ اپنی مرضی سے کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ تو یہ دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟
مومن اور کافر میں فرق ابن عباس ؓ وغیرہ فرماتے ہیں یہ کافر اور مومن کی مثال ہے۔ پس ملکیت کے غلام سے مراد کافر اور اچھی روزی والے اور خرچ کرنے والے سے مراد مومن ہے۔ مجاہد فرماتے ہیں اس مثال سے بت کی اور اللہ تعالیٰ کی جدائی سمجھانا مقصود ہے کہ یہ اور وہ برابر کے نہیں۔ اس مثال کا فرق اس قدر واضح ہے جس کے بتانے کی ضرورت نہیں، اسی لئے فرماتا کہ تعریفوں کے لائق اللہ ہی ہے۔ اکثر مشرک بےعلمی پر تلے ہوئے ہیں۔