آیت نمبر 24 تا 25
یہ مستکبرین اور منکر دل والوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ ما ذا انزل ربکم (16 : 24) “ تمہارے رب نے یہ کیا چیز نازل کی ہے ”۔ یہ لوگ اس سوال کا صحیح جواب نہیں دیتے۔ حالانکہ جواب سیدھا سادہ ہے۔ یہ لوگ قرآن کریم کو پڑھ سکتے ہیں ، اس کے مفہوم کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ اگر ایمان نہ بھی لائیں پھر بھی دیانت داری سے صحیح جواب تو دے سکتے تھے لیکن انہوں نے سیدھا جواب دینے کے بجائے یہ جواب دیا :
اساطیر الاولین (16 : 24) “ وہ تو اگلے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں ”۔ اساطیر ان کہانیوں کو کہا جاتا ہے جو وہم سے پر ہوں اور خرافات پر مشتمل ہوں۔ یہ لوگ قرآن کے بارے میں ایسے ریمارکس پاس کرتے ہیں حالانکہ قرآن مجید انسانی عقل ، انسانی نفسیات ، انسانی طرز زندگی ، لوگوں کے عمومی طرز عمل ، سوسائٹی کے طبقات کے باہم تعلق اور انسان کے ماضی ، اس کے حال اور اس کے مستقبل پر نہایت ہی معقول تنقیدہ تبصرہ کرتا ہے اور حقیقی راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآن نے امم ماضیہ کے واقعات بیان کئے ہیں ، لہٰذا اس کے بارے میں ان کی یہ سطحی رائے ہے۔ یوں یہ لوگ خود اپنے گناہوں کا بوجھ بھی بڑھاتے ہیں اور اپنے متبعین کے گناہوں کا بھی ایک حصہ اپنے بوجھ میں ڈالتے ہیں۔ کیونکہ ان کی باتوں سے ان کے پیروکار گمراہ ہوتے ہیں اور اسلام اور ایمان سے رک جاتے ہیں۔ یہ متبعین چونکہ خود جاہل ہیں کوئی صحیح رائے وہ خود قائم نہیں کرسکتے۔ قرآن کریم ان لوگوں کے گناہوں کی تعبیر ایک ایسے بوجھ سے کرتے ہیں جو کوئی مسافر اٹھاتا ہے۔ یہ بوجھ زیادہ ہوتا ہے لیکن یہ احمق مسافر اس کو اور زیادہ کرتا جاتا ہے۔ یہ بوجھ نفس انسانی کو اس قدر جھکا دیتا ہے ، اس قدر مشقت میں ڈال دیتا ہے جس طرح بھاری بوجھ کمر کو دہرا کردیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روحانی اور نفسیاتی بوجھ بھی انسان کے لئے اس طرح باعث درماندگی ہوتا ہے جس طرح جسمانی بوجھ جسم کے لئے تھکن کا موجب ہوتا ہے بلکہ نفسیاتی بوجھ جسم کو جسمانی بوجھ کے مقابلے میں زیادہ چور چور کردیتا ہے۔
ابن ابو حاتم ، سدی سے روایت کرتے ہیں کہ قریش نے ایک میٹنگ کی اور اس میں قرار دیا کہ حضرت محمد ﷺ شیریں زبان ہیں۔ جب وہ کسی سے بات کرتے ہیں تو اس کی عقل جاتی رہتی ہے ۔ لہٰذا قریش میں سے چند ایسے افراد کا انتخاب کرو جو معروف ہوں اور ان کا نسب بھی معروف ہو۔ ان کو مکہ کی راہوں پر ایک دو رات کے لئے بٹھا دو تا کہ جو شخص بھی محمد ﷺ سے ملاقات کے لئے آئے وہ اسے واپس کردیں۔ چناچہ کچھ لوگ نکلے اور مکہ کے راستے پر بیٹھ گئے۔ جو شخص بھی اپنی قوم کی طرف سے محمد ﷺ کے حالات معلوم کرنے کے لئے مکہ آتا ، تو ان میں سے جو شخص راستے میں بیٹھا ہوتا وہ کہتا میں فلاں ابن فلاں ہوں۔ تو یہ شخص اسے پہچان لیتا کیونکہ وہ مشہور شخص ہوتا۔ پھر وہ کہتا کہ میں تمہیں محمد ﷺ کے بارے بتاتا ہوں ۔ وہ ایک بہت بڑا جھوٹا شخص ہے۔ اس معاملے میں اس کے متبعین یا تو بیوقوف لوگ ہیں یا غلام ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ رہے اس کی قوم کے اکابر اور شیوخ تو وہ سب کے سب اس کے خلاف ہیں۔ اس طرح وہ شخص معتبر دیہہ کی بات سن کر واپس ہوجاتا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
واذا قیل لھم ۔۔۔۔۔ الاولین (16 : 24) “ اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا نازل کیا ہے تو کہتے وہ تو پرانے زمانے کی کہانیاں ہیں ”۔ اب اگر یہ شخص صاحب عزم صمیم ہوتا اور اس کے لئے ہدایت لکھی ہوئی ہوتی تو یہ لوگ جب اپنی بات کرتے تو وہ کہتا میں اپنی قوم کا کس قدر بےکار نمائندہ ہوں گا کہ میں دور کا سفر کر کے آیا اور ایک دن کا سفر رہ گیا اور اب میں اس شخص سے ملے بغیر واپس چلا جاؤں ۔ یہ دیکھے بغیر کہ وہ کیا کہتا ہے اور قوم کے پاس کوئی مصدقہ بیان لے کر نہ جاؤں۔ تو ایسا شخص مکہ میں داخل ہوتا۔ وہ مومنین سے ملتا اور پوچھتا کہ حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کیا ہیں ، تو وہ اس کو اچھی باتیں بتاتے ”۔
قریش نے تحریک اسلامی کے خلاف ایک زبردست مخالفانہ پروپیگنڈے کی مہم شروع کر رکھی تھی۔ قریش کے بعد بھی ہر زمان و مکان میں مستکبرین پر تحریک اسلامی کے خلاف ایسی ہی مخالفانہ مہم چلاتے ہیں کیونکہ ان کا غرور اور استکبار ان کو دلیل اور سچائی کے اتباع سے روکتا ہے۔ پس قریش کے یہ مستکبرین ، پہلے منکر اور معاندنہ تھے۔ قرآن کریم ان کے سامنے ان مستکبرین کا انجام واضح طور پر پیش کرتا ہے جس سے ان سے قبل کے مستکبرین دوچار ہوئے ، خصوصاًقیامت کے دن ان کا جو انجام ہونے والا ہے ، بلکہ یہ انجام ان کا قیامت سے بھی پہلے اس وقت شروع ہونے والا ہے جونہی ان کی روح جسد خاکی سے نکل جائے گی۔ قرآن کریم ان کے سامنے ، یہ مناظر نہایت ہی موثر انداز میں پیش کرتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کا اسلوب ہے۔
آیت 24 وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ نبی اکرم کی دعوت کا چرچا جب مکہ کے اطراف و اکناف میں ہونے لگا تو لوگ اہل مکہ سے پوچھتے کہ محمد جو کہہ رہے ہیں کہ مجھ پر اللہ کا کلام نازل ہوتا ہے تم لوگوں نے تو یہ کلام سنا ہے چناچہ تمہاری اس کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ اس کے مضامین کیا ہیں ؟قَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ کہ یہ کلام تو بس پرانے قصے کہانیوں پر مشتمل ہے۔ یہ سب گزشتہ قوموں کے واقعات ہیں جو ادھر ادھر سے سن کر ہمیں سنا دیتے ہیں اور پھر ہم پر دھونس جماتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔
قرآن حکیم کے ارشادات کو دیرینہ کہنا کفر کی علامت ہے ان منکرین قرآن سے جب سوال کیا جائے کہ کلام اللہ میں کیا نازل ہوا تو اصل جواب سے ہٹ کر بک دیتے ہیں کہ سوائے گزرے ہوئے افسانوں کے کیا رکھا ہے ؟ وہی لکھ لئے ہیں اور صبح شام دوہرا رہے ہیں پس رسول ﷺ پر افترا باندھتے ہیں کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی اس کے خلاف اور کچھ کہنے لگتے ہیں۔ دراصل کسی بات پر جم ہی نہیں سکتے اور یہ بہت بری دلیل ہے ان کے تمام اقوال کے باطل ہونے کی۔ ہر ایک جو حق سے ہٹ جائے وہ یونہی مارا مارا بہکا بہکا پھرتا ہے کبھی حضور رسول ﷺ کو جادوگر کہتے، کبھی شاعر، کبھی کا ھن، کبھی مجنون۔ پھر ان کے بڈھے گرو ولید بن مغیرہ مخزومی نے انہیں بڑے غور و خوض کے بعد کہا کہ سب مل کر اس کلام کو موثر جادو کہا کرو۔ ان کے اس قول کا نتیجہ بد ہوگا اور ہم نے انہیں اس راہ پر اس لئے لگا دیا ہے کہ یہ اپنے پورے گناہوں کے ساتھ ان کے بھی کچھ گناہ اپنے اوپر لادیں جو ان کے مقلد ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے ہدایت کی دعوت دینے والے کو اپنے اجر کے ساتھ اپنے متبع لوگوں کا اجر بھی ملتا ہے لیکن ان کے اجر کم نہیں ہوتے اور برائی کی طرف بلانے والوں کو ان کی ماننے والوں کے گناہ بھی ملتے ہیں لیکن ماننے والوں کے گناہ کم ہو کر نہیں۔ قرآن کریم کی اور آیت میں ہے (وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ) 29۔ العنکبوت :13) یہ اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ہی ساتھ اور بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان کے افترا کا سوال ان سے قیامت کے دن ہونا ضروری ہے۔ پس ماننے والوں کے بوجھ گو ان کی گردنوں پر ہیں لیکن وہ بھی ہلکے نہیں ہوں گے۔