سورہ نحل (16): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Nahl کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النحل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نحل کے بارے میں معلومات

Surah An-Nahl
سُورَةُ النَّحۡلِ
صفحہ 269 (آیات 15 سے 26 تک)

وَأَلْقَىٰ فِى ٱلْأَرْضِ رَوَٰسِىَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَٰرًا وَسُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ وَعَلَٰمَٰتٍ ۚ وَبِٱلنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ أَفَمَن يَخْلُقُ كَمَن لَّا يَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ وَإِن تَعُدُّوا۟ نِعْمَةَ ٱللَّهِ لَا تُحْصُوهَآ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ وَٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْـًٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ أَمْوَٰتٌ غَيْرُ أَحْيَآءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَٰحِدٌ ۚ فَٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْءَاخِرَةِ قُلُوبُهُم مُّنكِرَةٌ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ لَا جَرَمَ أَنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْمُسْتَكْبِرِينَ وَإِذَا قِيلَ لَهُم مَّاذَآ أَنزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوٓا۟ أَسَٰطِيرُ ٱلْأَوَّلِينَ لِيَحْمِلُوٓا۟ أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۙ وَمِنْ أَوْزَارِ ٱلَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ أَلَا سَآءَ مَا يَزِرُونَ قَدْ مَكَرَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى ٱللَّهُ بُنْيَٰنَهُم مِّنَ ٱلْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ ٱلسَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَىٰهُمُ ٱلْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ
269

سورہ نحل کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نحل کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اُس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے اس نے د ریا جاری کیے اور قدرتی راستے بنائے تاکہ تم ہدایت پاؤ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalqa fee alardi rawasiya an tameeda bikum waanharan wasubulan laAAallakum tahtadoona

اب اس سبق میں آیات و دلائل کائنات کا آخری گروپ۔

آیت نمبر 15 تا 16

پہاڑوں کو زمین میں میخ بنایا۔ جدید علم جغرافیہ اس کے اسباب سے بحث کرتا ہے ، لیکن علم جدید نے یہ نہیں بتایا کہ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو زمین ایک طرف ڈھلک جاتی ۔

یہ حقیقت صرف قرآن مجید نے بیان کی ہے۔ جدید علم جغرافیہ پہاڑوں کے وجود کے متضاد اسباب بیان کرتا ہے ۔ مثلاً یہ کہ زمین کا اندرون ایک گرم لاوا ہے۔ وہ جب ٹھنڈا ہوتا ہے تو سکڑ جاتا ہے اور اس کے اوپر زمین کی سطح بھی سکڑ کر ایک شکن کی صورت میں پہاڑ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یوں اونچے اونچے پہاڑ اور وادیاں وجود میں آجاتی ہیں۔ لیکن قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ یہ پہاڑ زمین کے اندر توازن رفتار پیدا کرتے ہیں۔ علم جدید نے شاید ابھی تک اس پہلو پر غور نہیں کیا۔

ان پہاڑوں کے بالمقابل بڑی بڑی وادیاں ہیں اور ان میں مختلف راستے اور ندیاں نالے ہیں۔ اس کی طرف بھی متوجہ کیا جاتا ہے۔ پہاڑوں کے ساتھ ندی نالے طبعی تعلق رکھتے ہیں۔ پہاڑوں سے دریا نکلتے ہیں۔ پہاڑوں کے اوپر برف پڑتی ہے اور بارش ہوتی ہے اور پھر اس سے دریاؤں اور ندی نالوں سے راستے نکلتے ہیں۔ پھر ان راستوں پر لوگ چلتے ہیں۔ سامان پہنچاتے اور باربرداری کا کام کرتے ہیں۔ پھر ان راستوں کے لئے نشانات راہ وضع ہوتے ہیں ، جس طرح یہ پہاڑ راستوں کا نشان ہوتے ہیں ، اسی طرح صحراؤں اور سمندروں میں ستارے راہنمائی کا کام کرتے ہیں۔ غرض اللہ کی یہ پوری کائنات انسان کے لئے مفید ہے۔

آیات تخلیق اور نشانات انعامات باری اور حکمت تدبیر کائنات کے بیان بعد اب وہ بات واضح طور پر بیان کی جاتی ہے جس کے لئے یہ پورے دلائل و شواہد پیش کئے گئے۔ یہ تمام شواہد اس مقصد کے لئے لائے گئے تھے کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے اور وہ ان باتوں سے منزہ ہے جو یہ لوگ اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اس نے زمین میں راستہ بتانے والی علامتیں رکھ دیں، اور تاروں سے بھی لوگ ہدایت پاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAAalamatin wabialnnajmi hum yahtadoona

اردو ترجمہ

پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے، دونوں یکساں ہیں؟ کیا تم ہوش میں نہیں آتے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaman yakhluqu kaman la yakhluqu afala tathakkaroona

آیت نمبر 17 تا 21

اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں ، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں۔ مردہ ہیں نہ کہ زندہ۔ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا۔

یہ نتیجہ نہایت ہی موزوں وقت میں نکالا جاتا ہے ، ایسے حالات میں کہ نفس انسانی اور عقل سلیم اس کے مضمون کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔

افمن یخلق کمن لا یخلق (16 : 17) ” پھر جو پیدا کرتا وہ اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے دونوں یکساں ہیں “۔ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔ کیا کوئی حساس اور غوروفکر کرنے والا انسان اس ذات والا صفات کو جس نے یہ عظیم الشان کائنات کی تخلیق کی ہے اس شخص کے برابر تصور کرسکتا ہے جس نے کوئی چیز بھی پیدا نہیں کی۔ نہ بڑی اور نہ چھوٹی۔

افلا تذکرون (16 : 17) ” کیا تم ہوش میں نہیں آتے “۔ اس کے لئے تو محض یادداشت تازہ کرنے کی ضرورت ہے ، یہ امر تو تمہاری فطرت کے اندر موجود ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کے کئی رنگ اور کئی پہلو بیان کرنے کے بعد یہ کہا :

وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا (16 : 18) ” اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے “۔ شکر ادا کرنا تو دور کی بات ہے اس لیے کہ نہ ان کا شمار ممکن ہے اور نہ شکر ، بلکہ اللہ کے اکثر انعامات ایسے ہیں جن کے بارے میں ابھی تک انسان کو علم ہی حاصل نہیں ہوسکا۔ کیونکہ بعض امور کو انسان روٹین کے امور سمجھتا ہے۔ ان کا اسے شعور ہی نہیں ہوتا۔ اسے تب احساس ہوتا ہے جب کوئی نعمت چھن جاتی ہے۔ ذرا انسان کے جسم کی میکان کی ترکیب کو دیکھو ! جس کا ہر حصہ ایک فریضہ ادا کر رہا ہے اور انسان کو احساس اس وقت ہوتا ہے جب کوئی پرزۂ جسم ناکارہ ہوجائے۔ پھر پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر عظیم نعمت سے محروم ہوگیا ہے۔ بس انسان پر تقصیر اور ضعیف کی مدد کو تو اللہ کی صفت رحمت اور صفت عفو ریت پہنچتی ہے۔

ان اللہ لغفور رحیم (16 : 18) ” بیشک اللہ بڑا ہی درگزر کرنے والا رحیم ہے “۔ وہ خالق ایسی ذات ہے جو ہمارے کھلے اور پوشیدہ تمام امور سے واقف ہے۔

واللہ یعلم ما تسرون وما تعلنون (16 : 19) ” اور اللہ تمہارے کھلے سے بھی واقف ہے اور چھپے سے بھی “۔ لہٰذا یہ بات تعجب انگیز ہے کہ لوگ اللہ کی ذات کو ان اشخاص و اشیاء کے ساتھ برابر کرتے ہیں جو نہ کوئی حقیر سی شے بھی پیدا کرسکتے ہیں ، نہ کوئی چیز جانتے ہیں ، بلکہ وہ تو مردہ ہیں ، ان کے اندر زندگی داخل ہی نہیں ہو سکتی اور یہی وجہ ہے کہ وہ شعور نہیں رکھتے۔

والذین یدعون ۔۔۔۔۔ وھم یخلقون (20) اموات ۔۔۔۔۔ یبعثون (21) (16 : 20- 21) ” اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں ، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں ، مردہ ہیں نہ کہ زندہ۔ اور ان کو کچھ معلوم نہیں کہ انہیں کب اٹھایا جائے گا “۔

یہاں جو بعث بعد الموت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے خالق تو وہ ہوتا ہے جسے بعث کا علم ہو ، کیونکہ تخلیق کی تکمیل تب ہوگی جب قیامت برپا ہوگی اور اس وقت تمام ذی عقل افراد کو ان کے کئے کی جزاء وسزا دی جائے گی۔ لہٰذا ایسے خدا جن کو بعث بعد الموت کا علم ہی نہیں ہے وہ خدایا الٰہ ہونے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ یہ تو ایک مذاق ہے کہ ایک خالق کو نہ اپنی مخلوق کا پتہ ہو اور نہ یہ علم ہو کہ اس مخلوق کو کب اٹھایا جائے گا۔

اردو ترجمہ

اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain taAAuddoo niAAmata Allahi la tuhsooha inna Allaha laghafoorun raheemun

اردو ترجمہ

حالانکہ وہ تمہارے کھلے سے بھی واقف ہے اور چھپے سے بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAllahu yaAAlamu ma tusirroona wama tuAAlinoona

اردو ترجمہ

اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena yadAAoona min dooni Allahi la yakhluqoona shayan wahum yukhlaqoona

اردو ترجمہ

مردہ ہیں نہ کہ زندہ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Amwatun ghayru ahyain wama yashAAuroona ayyana yubAAathoona

اردو ترجمہ

تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے اُن کے دلوں میں انکار بس کر رہ گیا ہے اور وہ گھمنڈ میں پڑ گئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ilahukum ilahun wahidun faallatheena la yuminoona bialakhirati quloobuhum munkiratun wahum mustakbiroona

درس نمبر 120 ایک نظر میں

درس سابق میں ہمیں بتایا گیا کہ خالق کائنات کی اس عظیم مخلوق میں بیشمار آیات و نشانات موجود ہیں۔ اس عظیم تخلیق میں حضرت انسان کے فائدے ہی فائدے ہیں اور یہ کہ خالق حقیقی انسان کے ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہے ۔ جبکہ جن ہستیوں اور اشیاء کو تم الٰہ سمجھتے ہو ، ان کی کوئی تخلیق نہیں ہے۔ وہ خود مخلوق ہیں ، وہ کسی چیز کا علم و شعور نہیں رکھتے ، بلکہ وہ مردہ ہیں اور ان کو اب اس جہان میں زندگی حاصل نہیں ہو سکتی ، یا وہ حیات کے قابل ہی نہیں ہیں۔ نیز ان ہستیوں کو اس قدر بھی معلوم نہیں ہے کہ سزاء و جزاء و جزاء کے لئے ان کو کب اٹھایا جائے گا۔ یہ تمام دلائل قطعاً اس بات کو ثابت کردیتے ہیں کہ یہ ہستیاں عبادت کے لائق نہیں ہیں اور یہ کہ عقیدۂ شرک سرے سے باطل اور لغو ہے۔ اس سورة میں عقیدۂ توحید کے بیان کا یہ پہلا دور تھا جس میں قیام قیامت کی طرف بھی اشارہ تھا۔

اس سبق میں بھی وہ مضمون ہے جو ہم نے پچھلے سبق میں چھوڑا۔ بیان توحید کا یہ دوسرا دور ہے ، اس کا آغاز اس دعویٰ سے ہوتا ہے کہ تمہارا الٰہ بس ایک ہی الٰہ ہے۔ اور جو لوگ صرف ایک ہی الٰہ کو نہیں مانتے درحقیقت ان کے دل منکر ہیں۔ چونکہ انکار ان کے دلوں کے زند جاگزیں ہے اسی لیے اس کائنات کے شواہد و افرہ کے ہوتے ہوئے بھی وہ اقرار نہیں کرتے۔ دل میں انکار کی جاگزینی کے ساتھ ساتھ یہ لوگ غرور اور کبر کی بیماری میں مبتلا ہیں اور یہ کبر بھی انہیں حقیقت کو تسلیم کرنے سے روکتا ہے۔ یہ مضمون ایک موثر منظر پر یوں ختم ہوجاتا ہے کہ اس کائنات میں تمام سائے در حقیقت ذات کبریا کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اس کائنات کے تمام جانور بھی اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ملائکہ بھی الٰہ واحد کے سامنے جھکتے ہیں جن کی ذات استکبار سے خالی اور جن کے قلوب خوف سے پاک ہیں اور ہر وقت بلا کسی چوں و چرا کے اللہ کے احکام بجا لاتے ہیں اور اطاعت امر کے یہ مظہر مستکبرین کے استکبار کے بالمقابل بیان ہوئے جو اس سبق کے آغاز میں بیان ہوا۔

اس سبق کے آغاز اور اختتام کے درمیان قرآن مجید ان مستکبرین کے نقطہ نظر کو بھی قارئین کے سامنے رکھتا ہے کہ ان کا موقف کیا ہے ؟ یہ کہ وحی اور قرآن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ پرانے قصے ہیں اور یہ کہ وہ کیوں شرک کرتے ہیں ؟ وہ ان چیزوں کو کیوں حرام قرار دیتے ہیں جن کو اللہ نے حرام قرار نہیں دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی مرضی ہے ، اگر اللہ نہ چاہتا تو وہ کب ایسا کرسکتے۔ قیامت کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ وہ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ ہرگز مردوں کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا۔ ان کے ان تمام مزعومات کو اس سبق میں سختی سے رد کیا جاتا ہے اور رد کا انداز یہ ہے کہ جب قیامت کے روز یہ اٹھیں گے تو یہ بذات خود اپنے ان نظریات کا صاف صاف انکار کردیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہلاک شدہ امتوں کے بعض واقعات بطور مثال پیش کئے جاتے ہیں اور ان کو ڈرایا جاتا ہے کہ تم پر بھی رات اور دن کی کسی گھڑی میں اسی طرح عذاب آسکتا ہے جبکہ آپ کو کوئی توقع نہ ہوگی اور بعض صورتیں ایسی بھی ہو سکتی ہیں کہ تم کو عذاب کی توقع ہوگی اور تم انتظار کر رہے ہوگے۔ اس کے بالمقابل اس سبق میں مومنین کے موقف اور نظریات کی ایک جھلک بھی دکھائی جاتی ہے ، خصوصاً جبکہ موت اور بعث بعد الموت کے وقت ان کا مکالمہ فرشتوں سے ہوگا ۔ اس طرح یہ سبق ختم ہوتا ہے جس میں خشوع و خضوع اور اطاعت وامتنال امر الٰہی کے مناظر بھی ہیں اور انکار کے بھی اور یہ پوری کائنات ، اس کے سائے ، فرشتے اور گردش لیل و نہار اور ارض و سما سب کے سب امتثال امر الٰہی کے نشانات ہیں۔

آیت نمبر 22 تا 23

ترجمہ : یہاں اللہ وحدہ پر ایمان اور یوم آخرت پر ایمان کو یکجا کیا گیا ہے بلکہ اللہ وحدہ پر ایمان کا لازمی نتیجہ آخرت پر ایمان کو قرار دیا گیا ہے کیونکہ اللہ وحدہ کی بندگی کا براہ راست تعلق عقیدۂ آخرت اور جزاء وسزا کے قیام سے ہے۔ صرف اسی صورت میں خالق حقیقی کی حکمت تخلیق کا اظہار اور مکمل انصاف ہو سکتا ہے۔

الھکم الہ واحد ( 16 : 22) “ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے ”۔ اس سورة میں تخلیق باری کے جو نشانات گنوائے گئے۔ اللہ کے جن جن انعامات کا ذکر ہوا ، اور اللہ کے علم و حکمت کی جن باتوں کو بیان کیا گیا ، وہ سب اس حقیقت عظیہ کی متقاضی ہیں کہ اللہ ایک ہے ، اس کے آثار اس کائنات کے قوانین قدرت اور نوامیس فطرت میں عیاں ہیں ، اور ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور باہم تعاون اور توافق پایا جاتا ہے اور یہ تمام قوانین ہمقدم ہیں۔

لہٰذا جو لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے وہ آخرت کو تسلیم نہیں کرتے۔ جو لوگ اللہ کی تخلیق ، اس کی وحدانیت اور اس کی حکمت اور عدل پر ایمان لاتے ہیں ، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ پھر قیام قیامت پر ایمان لائیں ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس کا سبب دلائل و نشانات کی کمی نہیں ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ انکار کی علت خود ان کی ذات کے اندر پوشیدہ ہے۔ ان کے مزاج میں انکار ہے اور ان کے دل انکار کرنے والے ہیں۔ ان کے دل و دماغ میں پہلے سے انکار بیٹھا ہوا ہے۔ اس لیے وہ دلائل وبراہین کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور دلائل وبراہین کی طرف توجہ کیوں نہیں کرتے ؟ اس لیے کہ وہ مستکبرین ہیں اور اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھتے ہیں۔ وہ نہ دلائل کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ حضرت نبی ﷺ کی قیادت کو تسلیم کرتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ اللہ کی بندگی کرنا نہیں چاہتے۔ لہٰذا انکار کرتے ہیں اور اس کا حقیقی سبب خود ان کے نفوس کے اندر ہے۔

اللہ جس نے تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے وہ اپنی مخلوق کے ہر کل پرزے سے واقف ہے ، وہ ان امور سے بھی واقف ہے جو پوشیدہ ہیں اور ان سے بھی جو ظاہر ہیں وہ لاریب سب کچھ جانتا ہے اور ان کے اس رویے کو ناپسند بھی کرتا ہے۔

انہ لا یحب المسکتبرین (16 : 23) “ اور اللہ ان لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا جو غرور نفس میں مبتلا ہیں ”۔ ایک متکبر دل سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس کائنات کے دلائل و شواہد پر مطمین ہوجائے اور سر تسلیم خم کر دے۔ چناچہ وہ اللہ کی طرف سے ناپسندیدہ لوگ ہیں کیونکہ وہ غرور نفس میں مبتلا ہیں اور اللہ ان کے حالات اور حقیقت سے خوب واقف ہے اور ان کے ہر ظاہر و باطن سے بھی واقف ہے۔

اردو ترجمہ

اللہ یقیناً اِن کے سب کرتوت جانتا ہے چھپے ہوئے بھی اور کھلے ہوئے بھی وہ اُن لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا جو غرور نفس میں مبتلا ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La jarama anna Allaha yaAAlamu ma yusirroona wama yuAAlinoona innahu la yuhibbu almustakbireena

اردو ترجمہ

اور جب کوئی ان سے پوچھتا ہے کہ تمہارے رب نے یہ کیا چیز نازل کی ہے، تو کہتے ہیں "اجی وہ تو اگلے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha qeela lahum matha anzala rabbukum qaloo asateeru alawwaleena

آیت نمبر 24 تا 25

یہ مستکبرین اور منکر دل والوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ ما ذا انزل ربکم (16 : 24) “ تمہارے رب نے یہ کیا چیز نازل کی ہے ”۔ یہ لوگ اس سوال کا صحیح جواب نہیں دیتے۔ حالانکہ جواب سیدھا سادہ ہے۔ یہ لوگ قرآن کریم کو پڑھ سکتے ہیں ، اس کے مفہوم کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ اگر ایمان نہ بھی لائیں پھر بھی دیانت داری سے صحیح جواب تو دے سکتے تھے لیکن انہوں نے سیدھا جواب دینے کے بجائے یہ جواب دیا :

اساطیر الاولین (16 : 24) “ وہ تو اگلے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں ”۔ اساطیر ان کہانیوں کو کہا جاتا ہے جو وہم سے پر ہوں اور خرافات پر مشتمل ہوں۔ یہ لوگ قرآن کے بارے میں ایسے ریمارکس پاس کرتے ہیں حالانکہ قرآن مجید انسانی عقل ، انسانی نفسیات ، انسانی طرز زندگی ، لوگوں کے عمومی طرز عمل ، سوسائٹی کے طبقات کے باہم تعلق اور انسان کے ماضی ، اس کے حال اور اس کے مستقبل پر نہایت ہی معقول تنقیدہ تبصرہ کرتا ہے اور حقیقی راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآن نے امم ماضیہ کے واقعات بیان کئے ہیں ، لہٰذا اس کے بارے میں ان کی یہ سطحی رائے ہے۔ یوں یہ لوگ خود اپنے گناہوں کا بوجھ بھی بڑھاتے ہیں اور اپنے متبعین کے گناہوں کا بھی ایک حصہ اپنے بوجھ میں ڈالتے ہیں۔ کیونکہ ان کی باتوں سے ان کے پیروکار گمراہ ہوتے ہیں اور اسلام اور ایمان سے رک جاتے ہیں۔ یہ متبعین چونکہ خود جاہل ہیں کوئی صحیح رائے وہ خود قائم نہیں کرسکتے۔ قرآن کریم ان لوگوں کے گناہوں کی تعبیر ایک ایسے بوجھ سے کرتے ہیں جو کوئی مسافر اٹھاتا ہے۔ یہ بوجھ زیادہ ہوتا ہے لیکن یہ احمق مسافر اس کو اور زیادہ کرتا جاتا ہے۔ یہ بوجھ نفس انسانی کو اس قدر جھکا دیتا ہے ، اس قدر مشقت میں ڈال دیتا ہے جس طرح بھاری بوجھ کمر کو دہرا کردیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روحانی اور نفسیاتی بوجھ بھی انسان کے لئے اس طرح باعث درماندگی ہوتا ہے جس طرح جسمانی بوجھ جسم کے لئے تھکن کا موجب ہوتا ہے بلکہ نفسیاتی بوجھ جسم کو جسمانی بوجھ کے مقابلے میں زیادہ چور چور کردیتا ہے۔

ابن ابو حاتم ، سدی سے روایت کرتے ہیں کہ قریش نے ایک میٹنگ کی اور اس میں قرار دیا کہ حضرت محمد ﷺ شیریں زبان ہیں۔ جب وہ کسی سے بات کرتے ہیں تو اس کی عقل جاتی رہتی ہے ۔ لہٰذا قریش میں سے چند ایسے افراد کا انتخاب کرو جو معروف ہوں اور ان کا نسب بھی معروف ہو۔ ان کو مکہ کی راہوں پر ایک دو رات کے لئے بٹھا دو تا کہ جو شخص بھی محمد ﷺ سے ملاقات کے لئے آئے وہ اسے واپس کردیں۔ چناچہ کچھ لوگ نکلے اور مکہ کے راستے پر بیٹھ گئے۔ جو شخص بھی اپنی قوم کی طرف سے محمد ﷺ کے حالات معلوم کرنے کے لئے مکہ آتا ، تو ان میں سے جو شخص راستے میں بیٹھا ہوتا وہ کہتا میں فلاں ابن فلاں ہوں۔ تو یہ شخص اسے پہچان لیتا کیونکہ وہ مشہور شخص ہوتا۔ پھر وہ کہتا کہ میں تمہیں محمد ﷺ کے بارے بتاتا ہوں ۔ وہ ایک بہت بڑا جھوٹا شخص ہے۔ اس معاملے میں اس کے متبعین یا تو بیوقوف لوگ ہیں یا غلام ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ رہے اس کی قوم کے اکابر اور شیوخ تو وہ سب کے سب اس کے خلاف ہیں۔ اس طرح وہ شخص معتبر دیہہ کی بات سن کر واپس ہوجاتا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

واذا قیل لھم ۔۔۔۔۔ الاولین (16 : 24) “ اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا نازل کیا ہے تو کہتے وہ تو پرانے زمانے کی کہانیاں ہیں ”۔ اب اگر یہ شخص صاحب عزم صمیم ہوتا اور اس کے لئے ہدایت لکھی ہوئی ہوتی تو یہ لوگ جب اپنی بات کرتے تو وہ کہتا میں اپنی قوم کا کس قدر بےکار نمائندہ ہوں گا کہ میں دور کا سفر کر کے آیا اور ایک دن کا سفر رہ گیا اور اب میں اس شخص سے ملے بغیر واپس چلا جاؤں ۔ یہ دیکھے بغیر کہ وہ کیا کہتا ہے اور قوم کے پاس کوئی مصدقہ بیان لے کر نہ جاؤں۔ تو ایسا شخص مکہ میں داخل ہوتا۔ وہ مومنین سے ملتا اور پوچھتا کہ حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کیا ہیں ، تو وہ اس کو اچھی باتیں بتاتے ”۔

قریش نے تحریک اسلامی کے خلاف ایک زبردست مخالفانہ پروپیگنڈے کی مہم شروع کر رکھی تھی۔ قریش کے بعد بھی ہر زمان و مکان میں مستکبرین پر تحریک اسلامی کے خلاف ایسی ہی مخالفانہ مہم چلاتے ہیں کیونکہ ان کا غرور اور استکبار ان کو دلیل اور سچائی کے اتباع سے روکتا ہے۔ پس قریش کے یہ مستکبرین ، پہلے منکر اور معاندنہ تھے۔ قرآن کریم ان کے سامنے ان مستکبرین کا انجام واضح طور پر پیش کرتا ہے جس سے ان سے قبل کے مستکبرین دوچار ہوئے ، خصوصاًقیامت کے دن ان کا جو انجام ہونے والا ہے ، بلکہ یہ انجام ان کا قیامت سے بھی پہلے اس وقت شروع ہونے والا ہے جونہی ان کی روح جسد خاکی سے نکل جائے گی۔ قرآن کریم ان کے سامنے ، یہ مناظر نہایت ہی موثر انداز میں پیش کرتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کا اسلوب ہے۔

اردو ترجمہ

یہ باتیں وہ اس لیے کرتے ہیں کہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے اٹھائیں، اور ساتھ ساتھ کچھ اُن لوگوں کے بوجھ بھی سمیٹیں جنہیں یہ بر بنائے جہالت گمراہ کر رہے ہیں دیکھو! کیسی سخت ذمہ داری ہے جو یہ اپنے سر لے رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Liyahmiloo awzarahum kamilatan yawma alqiyamati wamin awzari allatheena yudilloonahum bighayri AAilmin ala saa ma yaziroona

اردو ترجمہ

اِن سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لیے) ایسی ہی مکاریاں کر چکے ہیں، تو دیکھ لو کہ اللہ نے اُن کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آ رہی اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا اُن کو گمان تک نہ تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad makara allatheena min qablihim faata Allahu bunyanahum mina alqawaAAidi fakharra AAalayhimu alssaqfu min fawqihim waatahumu alAAathabu min haythu la yashAAuroona

آیت نمبر 26 تا 29

قد مکرالذین من قبلھم (16 : 26) “ ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لیے ) ایسے ہی مکاریاں کرچکے ہیں ”۔ قرآن کریم ان کے پروپیگنڈے کو ایک ایسی عمارت سے تعبیر کرتا ہے جس کی بنیادیں بھی ہیں اور ستون بھی اور چھت بھی ہے۔ اس میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ ان کا پروپیگنڈا بڑ اگہرا ، مضبوط ، پختہ اور ضخیم تھا لیکن اللہ کی قوت اور تدبیر کے مقابلے میں یہ کامیاب نہ ہوا۔

فاقی اللہ بنیانھم من القواعد فخر علیھم الشقف من فوقھم (16 : 26) “ تو دیکھ لو کہ اللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آرہی ”۔ یہ ایک ایسا منظر اور ایسی تصویر کشی ہے جس سے مکمل تباہی کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ یہ تباہی اوپر سے بھی آتی ہے اور نیچے سے بھی آتی ہے کیونکہ جن بنیادوں پر یہ عمارت کھڑی تھی وہی گر گئیں اور اوپر سے چھت ان پر اس طرح آگری کہ وہ دب گئے اور دفن ہو کر رہ گئے۔

واتھم العذاب من حیث لا یشعرون (16 : 26) “ اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کے ان کو گمان تک نہ تھا ”۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ جس عمارت کو انہوں نے نہایت ہی پختہ کر کے تعمیر کیا تھا اور ان کو پورا بھروسہ تھا کہ وہ اس میں پناہ لیں گے وہی ان کا مقبرہ بن گئی اور وہ ان پر ایسی ہلاکت لائی کہ اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی ان پر تباہی آئی۔ وہ عمارت انہوں نے اس قدر مضبوط بنائی تھی کہ اس کی کسی جہت سے بھی ان کو تباہی کا ڈر نہ تھا۔

تبایہ و بربادی کا یہ ایک مکمل منظر ہے۔ یہ مکر کرنے والوں کے مکر اور مخالفانہ تدابیر کرنے والوں کی تدابیر کے ساتھ معنی خیز مذاق ہے۔ جو لوگ تحریک اسلامی کی راہ روکنے کے لئے مکر کرتے ہیں یہ سوچتے ہیں کہ ان کے مکر کا کوئی توڑ نہ ہوگا اور یہ کہ ان کی تدابیر ناکام نہ ہوں گی حالانکہ اللہ ان کی تمام مکاریوں اور تدابیر کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

یہ منظر قریش کے دور کے بھی دیکھا گیا ۔ ان سے پہلے بھی تاریخ نے بھی بارہا دیکھا اور بعد کے ادوار میں بھی دیکھا گیا۔ دعوت اسلامی آج تک اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ مکر کرنے والے جس قدر چاہیں تدابیر سوچیں ، جس قدر چاہیں ، مکاریاں کریں۔ تحریک اسلامی کے کارکن ان تاریخی مناظر کو بار بار پڑھ کر دیکھتے ہیں جس طرح قرآن کریم نے منظر کشی فرمائی۔

فاتی اللہ بنیانھم ۔۔۔۔۔ لا یشعرون (16 : 26) “ تو دیکھ لو کہ اللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آرہی اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا ان کو گمان تک نہ تھا ”۔ یہ تو ان کا انجام ہوا اس دنیا میں اور اس کرۂ ارض پر۔ لیکن تم ثم یوم القیمۃ یخزیھم ویقول این شرکاءی الذین کنتم تشاقون فیھم (16 : 27) “ پھر قیامت کے روز اللہ انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان سے کہے گا اب بتاؤ کہاں ہیں وہ شریک جن کے لئے تم اہل حق سے جھگڑے کیا کرتے تھے ”۔ قرآن کریم یہاں مشاہد قیامت سے ایک منظر تصویر کشی کر رہا ہے۔ یہ مکار مستکبرین اس منظر میں نہایت ہی شرمندگی کی حالت میں ہیں۔ ان کا تکبر کافور ہوچکا ہے اور ان کی مکاریوں کے دن لد گئے ہیں۔ اب وہ اس ذات کبریا کے دربار میں ہیں جو تخلیق کا بھی مالک ہے اور فیصلے بھی اب اسی کے چلتے ہیں۔ اللہ اب ان کو مزید شرمندہ اور خوار کرنے کے لئے سوال کرتے ہیں۔

این شرکاءی الذین کنتم تشاقون فیھم (16 : 27) “ کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے بارے میں تم جھگڑتے رہتے تھے ”۔ جن جعلی شریکوں کے متعلق تم رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان سے جھگڑتے تھے وہ کہاں تھے۔ جو لوگ عقیدۂ توحید کے قائل تھے تم ان سے مناظرے کیا کرتے تھے۔

یہاں یہ لوگ گم سم کھڑے ہیں۔ شرمندگی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لیکن فرشتے ، رسول ، اہل علم اور اہل ایمان کو اب بولنے کی اجازت ہوگی کیونکہ یہ لوگ تو اب کامیاب ہوچکے ہوں گے لہٰذا بولنا اب ان کا حق ہوگا۔

قال الذین ۔۔۔۔۔ علی الکفرین (16 : 27) “ جن لوگوں کو دنیا میں علم حاصل تھا وہ کہیں گے ، آج رسوائی اور بدبختی ہے کافروں کے لئے ”۔ فی الواقعہ آج رسوائی اور بدبختی صرف کافروں کے لئے ہے۔

الذین تتوفھم الملئکۃ ظالمی انفسھم (16 : 28) “ انہی کافروں کے لئے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے جب ملائکہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ”۔ اب قرآن کریم ان لوگوں کو ایک قدم پیچھے لے جاتا ہے ، قیامت سے قبل ان لوگوں کی موت کا وقت قریب ہے ، ملائکہ ان کی روح قبض کرتے ہیں ، ان کے جسم سے ان کی روح کو نہایت ہی کرختگی کے ساتھ کھینچ کر نکالا جاتا ہے ، اس لیے کہ یہ لوگ ایمان و یقین سے محروم تھے۔ انہوں نے اپنی روحی کو ہلاکت میں ڈال دیا تھا۔ پھر ان کی جانیں آگ اور دائمی کے عذاب کے حوالے ہوگئیں۔

جب ان لوگوں کی موت قریب آئی اور ابھی تو زمین میں یہ جھوٹ ، مکر اور فریب کا کاروبار کر رہے تھے تودیکھو کہ یہ کس قدر ساؤ ہوگئے ہیں۔

فالقوا السلم ما کنا نعمل من سوء (16 : 28) “ تو یہ لوگ فوراً ڈگیں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں “ ہم تو کوئی قصور نہیں کر رہے تھے ”۔ یہ مستکبرین اب تو سلامتی کے پیغامبر بن گئے ہیں ، وہ تو اس سر تسلیم خم کرنے اور اطاعت کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ یہ بھی ان کا جھوٹ ہے اور یہ جھوٹ ان کے دنیاوی سلسلہ جھوٹ کا حصہ ہے۔ یہ نہایت ہی عاجزی سے کہتے ہیں۔

ما کنا نعمل من سوء (16 : 28) “ ہم تو قصور نہیں کر رہے تھے ”۔ یہ بھی نہایت ہی شرمساری اور ذلت کا منظر ہے۔ ان مستکبرین کو دیکھو اور ان کی اس حالت کو دیکھو۔

لیکن اللہ کی طرف سے جواب آئے گا “ ہاں ” اور یہ جواب علیم وخبیر کی طرف سے ہوگا۔

بلیٰ ان اللہ علیم بما کنتم تعملون (16 : 28) “ ہاں اللہ تمہارے کرتوتوں سے خوب واقف ہے ”۔ لہٰذا اب یہاں جھوٹ ، مغالطہ اور ملمع کاری نہیں چل سکتی۔

اب ان کے فیصلے اور جزاء کا وقت آتا ہے ۔ یہ متکبرین کی جزاء ہے۔

فادخلوا ابواب ۔۔۔۔۔ المتکبرین (16 : 29) “ اب جاؤ، جہنم کے دروازوں میں گھس جاؤ۔ وہیں تم کو ہمیشہ رہنا ہے ”۔ پس حقیقت یہ ہے کہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے متکبروں کے لئے ”۔ اب فریق بالمقابل ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے تقویٰ کی راہ اختیار کی۔ یہ لوگ متکبرین اور مستکبرین کے مد مقابل ہیں شروع سے انتہا تک۔

269