سورہ نازیہ: آیت 24 - فقال أنا ربكم الأعلى... - اردو

آیت 24 کی تفسیر, سورہ نازیہ

فَقَالَ أَنَا۠ رَبُّكُمُ ٱلْأَعْلَىٰ

اردو ترجمہ

"میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faqala ana rabbukumu alaAAla

آیت 24 کی تفسیر

انا ربکم الاعلیٰ (24:79) ” میں ہی تمہارا رب اعلیٰ ہوں “۔ اگر اس کی قوم میں ایمان ہوتا ، عزت نفس ہوتی۔ وہ ایک آزاد قوم ہوتی اور ذی شعور قوم ہوتی تو اسے یہ بات کہنے کی جرات نہ ہوتی۔ کیونکہ وہ تو جانتا تھا کہ وہ تو دوسروں کی طرح ایک محتاج اور ضعیف بندہ ہے۔ وہ کوئی فوق الفطرت قوت نہیں رکھتا۔ اگر مکھی اور مچھر بھی اس سے کچھ لے بھاگے تو اس کی افواج اور وہ اسے نہیں پکڑ سکتے۔

آیت 24{ فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی۔ } ”پس کہا کہ میں ہوں تمہارا سب سے بڑا ربّ !“ ظاہر ہے فرعون نے خود کو ”ربّ“ اس معنی میں نہیں کہا تھا کہ وہ اس کائنات کا یا اپنے ملک کے لوگوں کا خالق ہے ‘ بلکہ وہ تو خود باطل معبودوں کو پوجتا تھا سورة الاعراف کی آیت 127 سے ثابت ہوتا ہے کہ فرعون اور اس کی قوم کے لوگوں نے پوجا پاٹ کے لیے اپنے کچھ معبود بھی بنا رکھے تھے۔ پھر اس کی رعیت میں بہت سے بڑے بوڑھے لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کے سامنے وہ پیدا ہوا ہوگا اور جنہوں نے اس کا بچپن بھی دیکھا ہوگا۔ گویا اسے خود بھی معلوم تھا اور اس کی رعیت کے تمام لوگ بھی جانتے تھے کہ وہ عام انسانوں کی طرح پیدا ہوا ہے اور بحیثیت انسان وہ دوسرے عام انسانوں جیسا ہی ہے۔ چناچہ اس کا مذکورہ دعویٰ دراصل حکومت اوراقتدارِ اعلیٰ کے مالک ہونے کا دعویٰ تھا۔ اپنے اس دعوے کی مزید وضاحت اس نے ان الفاظ میں کی تھی : { یٰـــقَوْمِ اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْج } الزخرف : 51 ”اے میری قوم کے لوگو ! کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے ؟ اور کیا یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟“ کہ دیکھو اس پورے ملک پر میرا حکم چلتا ہے ‘ پورے ملک کا نہری نظام بھی میرے تابع ہے ‘ میں جسے جو چاہوں عطا کروں اور جسے چاہوں محروم رکھوں ‘ میں مطلق اختیار اور اقتدار کا مالک ہوں۔ یہ تھا اس کا اصل دعویٰ اور یہی دعویٰ اپنے زمانے میں نمرود کا بھی تھا۔ یہ دعویٰ دراصل اللہ تعالیٰ کے اقتدار و اختیار کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اور اس لحاظ سے بہت بڑا شرک ہے۔ آج بدقسمتی سے یہ سیاسی شرک ”عوام کی حکومت“ کے لیبل کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ نمرودی اور فرعونی دور میں تو شرک کی گندگی کا یہ ٹوکرا کوئی ایک شخص اٹھائے پھرتا تھا ‘ یعنی ”حاکمیت“ کا دعوے دار کوئی ایک شخص ہوا کرتا تھا ‘ جبکہ آج اس گندگی کو تولوں اور ماشوں میں بانٹ کر ملک کے ہر شہری کو اس میں حصہ دار بنا دیا گیا ہے۔ ”جدید دور“ میں اس سیاسی شرک کو نئے بھیس میں متعارف کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس کی تعبیر علامہ اقبال نے اپنی نظم ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ میں ابلیس کی زبان سے اس طرح کی ہے : ؎ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

آیت 24 - سورہ نازیہ: (فقال أنا ربكم الأعلى...) - اردو