سورۃ القصص: آیت 68 - وربك يخلق ما يشاء ويختار... - اردو

آیت 68 کی تفسیر, سورۃ القصص

وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ ٱلْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَٰنَ ٱللَّهِ وَتَعَٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

اردو ترجمہ

تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور (وہ خود ہی اپنے کام کے لیے جسے چاہتا ہے) منتخب کر لیتا ہے، یہ انتخاب اِن لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے، اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Warabbuka yakhluqu ma yashao wayakhtaru ma kana lahumu alkhiyaratu subhana Allahi wataAAala AAamma yushrikoona

آیت 68 کی تفسیر

اب ہر امر اور ہر چیز کو نتیجہ ارادہ الٰہی قرار دیا جاتا ہے ، کیونکہ وہی ذات ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور تمام معاملات اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔ اول میں بھی آخر میں بھی۔ دنیا میں بھی وہی قابل تعریف ہے اور آخرت میں بھی وہی قابل تعریف ہے۔ دنیا میں بھی اس کا حکم چلتا ہے اور آخرت بھی اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔ لوگوں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے خود کوئی فیصلہ کرسکیں نہ دوسروں کے بارے میں یہاں کوئی انسان کوئی فیصلہ کرسکتا ہے۔ اللہ جو چاہتا ہے ، تخلیق کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، اختیار کرلیتا ہے۔

وربک یخلق ۔۔۔۔۔۔ والیہ ترجعون (68: 70)

” ۔ ۔ “۔

یہ تبصرہ ان لوگوں کے اس ریمارکس کے بعد آیا ہے کہ اگر ہم نے ہدایت کو قبول کرلیا تو ہم اپنی زمین سے اچک لے جائیں

گے۔ اسی قول کے بعد یوم الحساب کا ایک منظر پیش کیا گیا اور اس میں مشرکین کے موقف کو پیش کیا گیا۔ اب اس دوسرے تبصرے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کا اختیار تو خود ان کے نفوس کے بارے میں بھی نہیں ہے کہ وہ ازخود امن اور خوف کا کوئی راستہ اپنے لیے اختیار کریں۔ اس لیے اللہ کی وحدانیت کے اختیارات کی وجہ سے آخر کار تمام امور میں اللہ ہی موثر ہے۔

وربک یخلق ما یشآء ویختار ما کان لھم الخیرۃ (28: 68) ” اور تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور منتخب کرلیتا ہے اور یہ انتخاب ان لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے “۔ یہ وہ عظیم حقیقت ہے جسے بسا اوقات لوگ بھال دیتے ہیں یا اس کے بعض پہلوؤں کو لوگ بھلا دیتے ہیں کہ اللہ جو چاہتا ہے ، پیدا کرتا ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اللہ کے کاموں کے سلسلے میں کچھ تجاویز دے یا اللہ کی تخلیق میں ۔۔۔۔ اضافہ کرے یا اس کی تخلیق میں تغیر و تبدل کرے۔ وہ اپنی مخلوق میں سے مختلف چیزوں کو مختلف فرائض کے لیے اختیار کرلیتا ہے۔ مختلف مقامات میں مختلف چیزیں اپنا فریضہ ادا کرتی ہیں۔ اس لیے کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ اللہ کے سامنے کسی شخص کو تجویز کرے ، کسی حادثہ کی تجویز کرے ، کسی حرکت ، کسی بات اور کسی فعل کی تجویز کرے۔ اور نہ ایسا کام اختیار کرنے کا اللہ نے کسی کو اختیار دیا ہے۔ نہ اپنے نفسوں کے بارے میں اور نہ دوسروں کے بارے میں۔ غرض تمام امور کے فیصلے اللہ کرتا ہے ، چھوٹے ہوں یا بڑے۔

اگر لوگوں کے دل و دماغ میں صرف یہ ایک حقیقت بیٹھ جائے تو لوگوں پر جو مصائب آتے ہیں وہ ان کی وجہ سے ہرگز پریشان نہ ہوں ، یا ان کی اپنی وجہ سے ان کو جو تکلیف پہنچتی ہے اس کی وجہ سے بھی وہ پریشان نہ ہوں ، نہ وہ اس چیز کی وجہ سے پریشان ہوں جو ان کے ہاتھوں سے نکل گئی یا وہ محروم ہوگئے کیونکہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ ہی ہے جو واقعات کا انتخاب کرتا ہے اور اس کو اختیارات ہیں۔

لیکن اس کا مفہوم یہ بھی نہیں ہے کہ لوگ اپنی عقل کو معطل کردیں ، اداروں کو موقوف کردیں اور سرگرمیاں چھوڑ کر ٹھنڈے ہوکر بیٹھ جائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان غوروفکر کرکے ، اچھی سوچ کے بعد پوری جدوجہد کرے اور اپنی پوری قوت استعمال کرتے ہوئے ایک کام کرے اور اس کے بعد جو نتائج ہوں ، ان کو اللہ پر چھوڑ دے۔ نتائج کو تسلیم ورضا سے قبول کرے۔ کیونکہ اس کے دائرہ قوت میں جو کچھ تھا ، اس نے کرلیا۔ اس کے بعد کے امور اللہ کے لیے ہیں۔

مشرکین اللہ کے ساتھ خود ساختہ الہوں کو بھی شریک کرتے تھے۔ اور ان کو بھی پکارتے تھے۔ حالانکہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور وہی اختیار و انتخاب کرتا ہے۔ اس تخلیق میں کوئی شریک نہیں اور نہ اس کے اختیارات میں کوئی شریک ہے۔

سبحن اللہ و تعلی عما یشرکون (28: 68) ” اللہ پاک ہے ، اور بہت بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں “۔

وربک یعلم ۔۔۔۔۔۔ وما یعلنون (28: 69) ” اور تیرا رب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں “۔ اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں “۔ اس لیے وہ ان کی جن باتوں کو جانتا ہے ، ان پر ان کو سزا دیتا ہے۔ ان کے لیے نتائج وہ منتخب کرتے

ہیں ان کے لیے ہدایت و ضلالت کا فیصلہ بھی وہی کرتا ہے۔

وھو اللہ لا الہ الا ھو (28: 70) “ وہ ایک اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ لہٰذا خلق میں یا اختیارات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

لہ الحمد فی الاولی والاخرۃ (28: 70) ” اس کے لیے حمد ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی “۔ اس بات پر کہ وہ کسی کے لیے کیا انجام اختیار کرتا ہے ، کسی کے لئے کیا انعامات تجویز کرتا ہے ، کسی کے لیے کیا حکمت و تدبیر اختیار کرتا ہے ، کسی کے ساتھ کیا انصاف کرتا ہے اور کسی پر کیا رحمت کرتا ہے ۔ حمد و ثنا صرف اسی کے لیے ہے۔

ولہ الحکم (28: 70) ” حکم اس کا ہے “۔ اس لیے وہ اپنے بندوں کے درمان جو فیصلے چاہتا ہے ، کرتا ہے اس کے کسی امر کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے۔ اور نہ اس کے فیصلوں کو کوئی بدل سکتا ہے۔

والیہ ترجعون (28: 70) ” اور اس کی طرف تم سب پلٹ کر جانے والے ہو “۔ اور آخری فیصلہ بھی وہاں اللہ ہی اپنے پورے اختیارات کے ساتھ کرے گا۔

یوں اللہ تعالیٰ یہ شعور اہل ایمان کے گلے میں تعویذ کی طرح باندھ دیتا ہے کہ اس کائنات میں صرف اللہ کا ارادہ چلتا ہے۔ اور یہ بھی سمجھا دیتا ہے کہ اللہ رازوں کو بھی جانتا ہے ، اس سے کوئی چیز خفیہ نہیں ہے۔ سب نے اس کی طرف لوٹنا ہے۔ اس سے کوئی شخص بچ کر نہیں نکل سکتا۔ کس طرح یہ لوگ اللہ کے ساتھ شرک کی جرات کرتے ہیں حالانکہ یہ لوگ اس کے قبضے میں ہیں۔ اس سے نکل نہیں سکتے۔

اس کے بعد ایک سفر اس پوری کائنات کا بھی کرایا جاتا ہے جس میں یہ لوگ رہتے ہیں لیکن اس کے اندر اللہ کی جو گہری تدبیر و حکمت کام کر رہی ہے اس سے غافل ہیں۔ حالانکہ ان کی زندگی اور ان کی معیشت کے تمام فیصلے اللہ کے اختیار میں ہیں۔ اس طرح اللہ ان کے شعور کو اس کائنات کے دو بہت اہم مظاہر کی طرف متوجہ کرتا ہے یعنی گردش لیل و نہار کی طرف۔ اور اس امر کی طرف کہ گردش لیل و نہار کے اس نظام کے اندر اللہ وحدہ کی وحدانیت اور اس کے اختیار مطلق کے کیسے شواہد ہیں۔

آیت 68 وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَیَخْتَارُ ط ”تمام مخلوق اسی کی ہے ‘ اپنی مخلوق میں سے اس نے جس کو چاہا منتخب کرلیا اور رسول بنا لیا : اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلآءِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ط الحج : 75 ”اللہ چن لیتا ہے اپنے پیغامبر فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے ”۔ سورة آل عمران میں یہی مضمون اس طرح آیا ہے : اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ”یقیناً اللہ نے چن لیا آدم علیہ السلام کو اور نوح علیہ السلام کو اور آل ابراہیم علیہ السلام کو اور آل عمران کو تمام جہان والوں پر۔“مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُط سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ”اللہ تعالیٰ کی ذات ان لوگوں کے اوہام اور من گھڑت عقائد سے وراء الوراء ‘ منزہّ اور ارفع ہے۔

ٖصفات الٰہی ساری مخلوق کا خالق تمام اختیارات والا اللہ ہی ہے۔ نہ اس میں کوئی اس سے جھگڑنے والا نہ اس کا شریک و ساتھی۔ جو چاہے پیدا کرے جسے چاہے اپنا خاص بندہ بنالے۔ جو چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا ہو نہیں سکتا۔ تمام امور سب خیرو شر اسی کے ہاتھ ہے۔ سب کی باز گشت اسی کی جانب ہے کسی کو کوئی اختیار نہیں۔ یہی لفظ اسی معنی میں آیت (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ 36؀ۭ) 33۔ الأحزاب :36) میں ہے دنوں جگہ ما نافیہ ہے۔ گو ابن جریر نے یہ کہا کہ ما معنی میں الذی کے ہے یعنی اللہ پسند کرتا ہے اسے جس میں بھلائی ہو اور اس معنی کو لے کر معتزلیوں نے مراعات صالحین پر استدلال کیا ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہاں مانفی کے معنی میں ہے جیسے کہ حضرت ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے۔ یہ آیت اسی بیان میں ہے کہ مخلوق کی پیدائش میں تقدیر کے مقرر کرنے میں اختیار رکھنے میں اللہ ہی اکیلا ہے اور نظیر سے پاک ہے۔ اسی لیے آیت کے خاتمہ پر فرمایا کہ جب بتوں وغیرہ کو وہ شریک الٰہی ٹھہرا رہے ہیں جو نہ کسی چیز کو بناسکیں نہ کسی طرح اختیار رکھیں اللہ ان سب سے پاک اور بہت دور ہے۔ پھر فرمایا سینوں اور دلوں میں چھپی ہوئی باتیں بھی اللہ جانتا ہے اور وہ سب بھی اس پر اسی طرح ظاہر ہیں جس طرح کھلم کھلا اور ظاہر باتیں۔ پوشیدہ بات کہو یا اعلان سے کہو وہ سب کا عالم ہے رات میں اور دن میں جو ہو رہا ہے اس پر پوشیدہ نہیں۔ الوہیت میں بھی وہ یکتا ہے مخلوق میں کوئی ایسا نہیں جو اپنی حاجتیں اس کی طرف لے جائے۔ جس سے مخلوق عاجزی کرے، جو مخلوق کا ملجا وماوٰی ہو، جو عبادت کے لائق ہو۔ خالق مختار رب مالک وہی ہے۔ وہ جو کچھ کر رہا ہے سب لائق تعریف ہے اسکا عدل وحکمت اسی کے ساتھ ہے۔ اس کے احکام کو کوئی رد نہیں کرسکتا اس کے ارادوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ غلبہ حکمت رحمت اسی کی ذات پاک میں ہے۔ تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے وہ سب کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ اس پر تمہارے کاموں میں سے کوئی کام چھپا ہوا نہیں۔ نیکوں کو جزا بدوں کو سزا وہ اس روز دے گا اور اپنی مخلوق میں فیصلے فرمائیں گا۔

آیت 68 - سورۃ القصص: (وربك يخلق ما يشاء ويختار ۗ ما كان لهم الخيرة ۚ سبحان الله وتعالى عما يشركون...) - اردو