اس صفحہ میں سورہ Al-Qasas کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ القصص کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
اب قیامت کے مناظر جس میں ان لوگوں سے یوں سوال و جواب ہوگا اور اس سے اندازہ ہوگا کہ وہاں ان کی حالت زار کیسی ہوگی ۔
ویوم ینادھم فیقول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان یکون من المفلحین (62 – 67)
پہلاسوال تو سرزنش کے لیے ہوگا اور اس سے محض ان کو شر مندہ کرنا مطلوب ہوگا۔
این شرکاءی الذین کنتم تزعمون (28: 62) ” کہاں ہیں وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے “۔ اللہ کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ اس دن اس قسم کے کسی شریک کا وجود نہ ہوگا ۔ اور اس دن ان کے متبعین کو بھی کچھ پتہ نہ ہوگا کہ ان شرکاء کا کوئی وجود ہے یا نہیں ۔ نہ یہ لوگ ان شرکاء تک پہنچ سکیں گے ۔ یہ سوال دراصل ان لوگوں کو مجمع عام میں شرمندہ کرنے اور سرزنش کرنے کے لیے کیا جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ جن کے متعلق یہ سوال کیا گیا وہ یہاں جواب نہیں دیتے کیونکہ یہ سوال جواب طلب ہی نہیں ہے بلکہ وہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے جو متبعین گمراہ ہوئے اور ان کی پیروی اختیار کی ان کے اس جرم سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیں ۔ جیسا کہ کبراء قریش لوگوں کو گمراہی پر آمادہ کرتے تھے اور ان کو اللہ کی راہ سے روکتے تھے ۔ اسلیے ان کا جواب یوں ہوگا
ربنا ھولاء الذین ۔۔۔۔۔۔۔ یعبدون (28: 63) ” اے ہمارے رب ، بیشک یہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا ۔ انہیں ہم نے اسی طرح گمراہ کیا جس طرح ہم خود گمراہ ہوئے ۔ ہم آپ کے سامنے برات اظہار کرتے ہیں ۔ یہ ہماری کوئی بندگی نہ کرتے تھے “۔ ہمارے رب ہم نے ان کو زبر دستی گمراہ نہیں کیا ۔ ان کے دل دماغ پر ہمیں کوئی کنٹر ول حاصل نہ تھا ۔ یہ لوگ اپنی مرضی اور آزادانہ اختیار سے گمراہی میں پڑے جیسا کہ ہم خود بغیر کسی مجبوری کے گمراہی میں پڑے ۔
تبرانا الیک (28: 63) ” ہم آپ کے سامنے برات اظہار کرتے ہیں “ کہ ہم نے ان کو گمراہ کیا ہے ۔
ما کانوا ایانا یعبدون (28: 63) ” یہ ہماری بندگی تو نہ کرتے تھے “۔ بلکہ یہ بتوں ، آستانوں اور دوسری مخلوقات کی بندگی کرتے تھے۔ ہم نے ان سے یہ نہ کہا تھا کہ ہم تمہارے الٰہ ہیں ، اور نہ وہ وہاں ہماری عبادت کرتے تھے۔
اب ان کو اس مقام شرمندگی کی طرف لایا جا رہا ہے جس کی طرف وہ بات کا رخ کرنا نہیں چاہتے جس سے وہ بات کر پھیر کر دوسری طرف لے جانا چاہتے ہیں یعنی وہ شرکاء جو ان لوگوں کو اللہ کے سوا پکڑے ہوئے تھے۔
وقیل ادعوا شرکآء کم (28: 64) ” پھر کہا جائے گا کہ پکارو ، ان ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو “۔
یعنی ان کو پکارو ، اور ان کی سیرت سے بہ بھاگو ، ان کو پکارو کہ وہ اب تمہیں تمہاری پکار کو پہنچیں۔ تمہیں اس مصیبت سے چھڑائیں ، ان کو پکارو کہ آج دن ہے ان کے کام کرنے کا۔ یہی تو ان کا فائدہ تھا۔ یہ بدبخت لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان شرکاء کو آج پکارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، لیکن بامر مجبوری وہ احکام الہیہ کو بچا لائیں گے۔
فدعوھم فلم یستجیبو الھم (28: 64) ” یہ انہیں پکاریں گے مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے “۔ ان شرکاء سے یہی توقع تھی کہ وہ کوئی جواب نہ دیں گے۔ البتہ آواز اس لیے دلوائی جائے گی تاکہ یہ پکارنے والے اچھی اطرح ذلیل ہوں۔
ورآوا العذاب (28: 64) ” اور یہ لوگ عذاب دیکھ لیں گے “۔ یعنی اس بحث و مباحثے کے درمیان ہی عذاب دیکھ لیں گے۔ یہ اس عذاب ہی کی طرف بڑھ رہے ہوں گے اور عذاب ان کو نظر آجائے گا۔ اس ذلیل کرنے والے منظر کے بعد پھر اسی عذاب کا منظر ہوگا۔
یہ شرمسار کنندہ منظر جب اپنی انتہاؤں پر ہوتا ہے تو اچانک ان پر وہ ہدایت پیش کردی جاتی ہے کہ کاش تم اسے قبول کرلیتے۔ اس برے حال میں یہ لوگ یہی آرزو کرتے ہوں گے کہ اے کاش کہ وہ ایسا کرتے ، دنیا میں تو یہ ہدایت ان کے دسترس میں تھی اور اگر وہ لبیک کہہ کر اسے قبول کرلیتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔
لو انھم کانوا یھتدون (28: 64) ” کاش وہ ہدایت اختیار کرنے والے ہوتے “۔ اب سیاق کلام انہیں اس کربناک منظر کی طرف لے جاتا ہے۔
ویوم ینادھم فیقول ماذا اجبتم المرسلین (28: 65) ” اور وہ دن جب وہ ان کو پکارے گا اور پوچھے گا کہ جو رسول بھیجے گئے تھے انہیں تم نے کیا جواب دیا تھا ؟ “ اور اللہ کو تو خوب معلوم ہے کہ انہوں نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا۔ لیکن یہ باز پرس محض ذلیل اور شرمسار کرنے کیلئے ہوگا۔ اس سوال کے جواب میں وہ خاموش ہوں گے بلکہ مدہوش کھڑے ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ سخت کرب میں مبتلا ہوں گے اور ان کو سمجھ میں نہ آ رہا ہوگا کہ وہ کیا جواب دیں۔
فعمیت علیھم ۔۔۔۔۔ لا یتسائلون (28: 66) ” اس وقت کوئی جواب ان کو نہ سوجھے گا اور نہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ سکیں گے “۔ انداز گفتگو اس منظر میں لوگوں کی ایسی تصویر کھینچتا ہے کہ گویا وہ اندھے ہیں۔ گویا ” خبریں “ اندھی ہوگئی ہیں اور وہ ان تک پہنچ نہیں پاتیں۔ جس طرح اندھا آدمی کسی جگہ نہیں پہنچ جاتا۔ وہ کچھ نہیں جانتے۔ نہ پوچھ سکتے ہیں ، نہ جواب دے سکتے ہیں۔ مدہوشی کی سی حالت میں کھڑے ہیں۔
فاما من تاب ۔۔۔۔۔ من المفلحین (28: 67) ” البتہ جس نے آج توبہ کرلی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے وہی یہ توقع کرسکتا ہے کہ وہاں فلاح پانے والوں میں سے ہوگا ؟ “ یہ صفحہ بالمقابل ہے ۔ جب غم اور تکلیف مشرکین کے لیے عروج پر ہوگی ، اس وقت توبہ کرنے والوں ، ایمان لانے والوں اور عمل کرنے والوں کے لئے ایسی فلاح ہوگی۔ اس لیے اے لوگو ! یہ موقع ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ، ابھی تمہارے سامنے کھلا وقت ہے ، بہتر ہے کہ اسے اختیار کرلو۔
اب ہر امر اور ہر چیز کو نتیجہ ارادہ الٰہی قرار دیا جاتا ہے ، کیونکہ وہی ذات ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور تمام معاملات اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔ اول میں بھی آخر میں بھی۔ دنیا میں بھی وہی قابل تعریف ہے اور آخرت میں بھی وہی قابل تعریف ہے۔ دنیا میں بھی اس کا حکم چلتا ہے اور آخرت بھی اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔ لوگوں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے خود کوئی فیصلہ کرسکیں نہ دوسروں کے بارے میں یہاں کوئی انسان کوئی فیصلہ کرسکتا ہے۔ اللہ جو چاہتا ہے ، تخلیق کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، اختیار کرلیتا ہے۔
وربک یخلق ۔۔۔۔۔۔ والیہ ترجعون (68: 70)
” ۔ ۔ “۔
یہ تبصرہ ان لوگوں کے اس ریمارکس کے بعد آیا ہے کہ اگر ہم نے ہدایت کو قبول کرلیا تو ہم اپنی زمین سے اچک لے جائیں
گے۔ اسی قول کے بعد یوم الحساب کا ایک منظر پیش کیا گیا اور اس میں مشرکین کے موقف کو پیش کیا گیا۔ اب اس دوسرے تبصرے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کا اختیار تو خود ان کے نفوس کے بارے میں بھی نہیں ہے کہ وہ ازخود امن اور خوف کا کوئی راستہ اپنے لیے اختیار کریں۔ اس لیے اللہ کی وحدانیت کے اختیارات کی وجہ سے آخر کار تمام امور میں اللہ ہی موثر ہے۔
وربک یخلق ما یشآء ویختار ما کان لھم الخیرۃ (28: 68) ” اور تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور منتخب کرلیتا ہے اور یہ انتخاب ان لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے “۔ یہ وہ عظیم حقیقت ہے جسے بسا اوقات لوگ بھال دیتے ہیں یا اس کے بعض پہلوؤں کو لوگ بھلا دیتے ہیں کہ اللہ جو چاہتا ہے ، پیدا کرتا ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اللہ کے کاموں کے سلسلے میں کچھ تجاویز دے یا اللہ کی تخلیق میں ۔۔۔۔ اضافہ کرے یا اس کی تخلیق میں تغیر و تبدل کرے۔ وہ اپنی مخلوق میں سے مختلف چیزوں کو مختلف فرائض کے لیے اختیار کرلیتا ہے۔ مختلف مقامات میں مختلف چیزیں اپنا فریضہ ادا کرتی ہیں۔ اس لیے کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ اللہ کے سامنے کسی شخص کو تجویز کرے ، کسی حادثہ کی تجویز کرے ، کسی حرکت ، کسی بات اور کسی فعل کی تجویز کرے۔ اور نہ ایسا کام اختیار کرنے کا اللہ نے کسی کو اختیار دیا ہے۔ نہ اپنے نفسوں کے بارے میں اور نہ دوسروں کے بارے میں۔ غرض تمام امور کے فیصلے اللہ کرتا ہے ، چھوٹے ہوں یا بڑے۔
اگر لوگوں کے دل و دماغ میں صرف یہ ایک حقیقت بیٹھ جائے تو لوگوں پر جو مصائب آتے ہیں وہ ان کی وجہ سے ہرگز پریشان نہ ہوں ، یا ان کی اپنی وجہ سے ان کو جو تکلیف پہنچتی ہے اس کی وجہ سے بھی وہ پریشان نہ ہوں ، نہ وہ اس چیز کی وجہ سے پریشان ہوں جو ان کے ہاتھوں سے نکل گئی یا وہ محروم ہوگئے کیونکہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ ہی ہے جو واقعات کا انتخاب کرتا ہے اور اس کو اختیارات ہیں۔
لیکن اس کا مفہوم یہ بھی نہیں ہے کہ لوگ اپنی عقل کو معطل کردیں ، اداروں کو موقوف کردیں اور سرگرمیاں چھوڑ کر ٹھنڈے ہوکر بیٹھ جائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان غوروفکر کرکے ، اچھی سوچ کے بعد پوری جدوجہد کرے اور اپنی پوری قوت استعمال کرتے ہوئے ایک کام کرے اور اس کے بعد جو نتائج ہوں ، ان کو اللہ پر چھوڑ دے۔ نتائج کو تسلیم ورضا سے قبول کرے۔ کیونکہ اس کے دائرہ قوت میں جو کچھ تھا ، اس نے کرلیا۔ اس کے بعد کے امور اللہ کے لیے ہیں۔
مشرکین اللہ کے ساتھ خود ساختہ الہوں کو بھی شریک کرتے تھے۔ اور ان کو بھی پکارتے تھے۔ حالانکہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور وہی اختیار و انتخاب کرتا ہے۔ اس تخلیق میں کوئی شریک نہیں اور نہ اس کے اختیارات میں کوئی شریک ہے۔
سبحن اللہ و تعلی عما یشرکون (28: 68) ” اللہ پاک ہے ، اور بہت بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں “۔
وربک یعلم ۔۔۔۔۔۔ وما یعلنون (28: 69) ” اور تیرا رب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں “۔ اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں “۔ اس لیے وہ ان کی جن باتوں کو جانتا ہے ، ان پر ان کو سزا دیتا ہے۔ ان کے لیے نتائج وہ منتخب کرتے
ہیں ان کے لیے ہدایت و ضلالت کا فیصلہ بھی وہی کرتا ہے۔
وھو اللہ لا الہ الا ھو (28: 70) “ وہ ایک اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ لہٰذا خلق میں یا اختیارات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
لہ الحمد فی الاولی والاخرۃ (28: 70) ” اس کے لیے حمد ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی “۔ اس بات پر کہ وہ کسی کے لیے کیا انجام اختیار کرتا ہے ، کسی کے لئے کیا انعامات تجویز کرتا ہے ، کسی کے لیے کیا حکمت و تدبیر اختیار کرتا ہے ، کسی کے ساتھ کیا انصاف کرتا ہے اور کسی پر کیا رحمت کرتا ہے ۔ حمد و ثنا صرف اسی کے لیے ہے۔
ولہ الحکم (28: 70) ” حکم اس کا ہے “۔ اس لیے وہ اپنے بندوں کے درمان جو فیصلے چاہتا ہے ، کرتا ہے اس کے کسی امر کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے۔ اور نہ اس کے فیصلوں کو کوئی بدل سکتا ہے۔
والیہ ترجعون (28: 70) ” اور اس کی طرف تم سب پلٹ کر جانے والے ہو “۔ اور آخری فیصلہ بھی وہاں اللہ ہی اپنے پورے اختیارات کے ساتھ کرے گا۔
یوں اللہ تعالیٰ یہ شعور اہل ایمان کے گلے میں تعویذ کی طرح باندھ دیتا ہے کہ اس کائنات میں صرف اللہ کا ارادہ چلتا ہے۔ اور یہ بھی سمجھا دیتا ہے کہ اللہ رازوں کو بھی جانتا ہے ، اس سے کوئی چیز خفیہ نہیں ہے۔ سب نے اس کی طرف لوٹنا ہے۔ اس سے کوئی شخص بچ کر نہیں نکل سکتا۔ کس طرح یہ لوگ اللہ کے ساتھ شرک کی جرات کرتے ہیں حالانکہ یہ لوگ اس کے قبضے میں ہیں۔ اس سے نکل نہیں سکتے۔
اس کے بعد ایک سفر اس پوری کائنات کا بھی کرایا جاتا ہے جس میں یہ لوگ رہتے ہیں لیکن اس کے اندر اللہ کی جو گہری تدبیر و حکمت کام کر رہی ہے اس سے غافل ہیں۔ حالانکہ ان کی زندگی اور ان کی معیشت کے تمام فیصلے اللہ کے اختیار میں ہیں۔ اس طرح اللہ ان کے شعور کو اس کائنات کے دو بہت اہم مظاہر کی طرف متوجہ کرتا ہے یعنی گردش لیل و نہار کی طرف۔ اور اس امر کی طرف کہ گردش لیل و نہار کے اس نظام کے اندر اللہ وحدہ کی وحدانیت اور اس کے اختیار مطلق کے کیسے شواہد ہیں۔