وان یکاد .................................... للعلمین
یہ ممکن تھا کہ یہ خشمگیں نظریں حضور اکرم ﷺ کے قدم ہلادیں اور آپ پھسل جائیں۔ اور آپ ڈگمگانے لگیں۔ ان کی نظروں میں جس قدر قہر ، غضب ، شرارت ، جوش انتقام اور حسد اور گرمی تھی ، قرآن کریم نے اسے بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ اور ان نظروں کے ساتھ وہ سب وشتم اور اتہام والزام بھی لگاتے اور کہتے۔
انہ لمجنون (86 : 15) ” یہ تو ایک مجنون ہے “۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جسے دست قدرت کا قلم ہی رقم کرسکتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دعوت اسلامی اس ابتدائی دور میں کس قدر مشکل حالات سے گزر رہی تھی۔ اس وقت مکہ کے مخالفین کا حلقہ بااثر مجرمین کا ایک وسیع حلقہ تھا۔ ان کے دل جل رہے تھے اور آنکھیں مارے غضب کے پھٹ رہی تھیں۔ لیکن اللہ فرماتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر احمق ہیں کہ مکہ کے اس چھوٹے سے شہر میں جل بھن رہے ہیں یہ تو ایک عالمی پروگرام ہے۔
آیت 51{ وَاِنْ یَّـکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَـیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ } ”اور یہ کافر تو ُ تلے ہوئے ہیں اس پر کہ اپنی نگاہوں کے زور سے آپ ﷺ کو پھسلا دیں گے جب وہ قرآن سنتے ہیں“ مشرکین ِمکہ نے حضور ﷺ کی قوت ارادی کو توڑنے کے لیے ہر ممکن طریقہ آزمایا اور اس مقصد کے لیے آپ ﷺ کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ایک مرحلے پر انہوں نے اس مقصد کے لیے ایسے عاملوں کی خدمات بھی حاصل کیں جو اپنی نگاہوں کی خصوصی طاقت کے ذریعے کسی کو نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ شاید طبعی طور پر ایسا ممکن ہو۔ ہوسکتا ہے کوئی شخص خصوصی مشقوں exercises کے ذریعے اپنی آنکھوں میں اپنی قوت ارادی کو اس انداز میں مجتمع کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہو کہ اس کے بعد جب وہ کسی دوسرے شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے تو وہ اس کی نظروں کی تاب نہ لاسکے۔ بہرحال اس آیت میں مشرکین مکہ کے ایسے ہی اوچھے ہتھکنڈوں کا ذکر ہے۔ { وَیَـقُوْلُوْنَ اِنَّـہٗ لَمَجْنُوْنٌ۔ } ”اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔“ سورت کے آغاز اور اختتام کا باہمی ربط نوٹ کیجیے۔ جس مضمون سے سورت کا آغاز ہوا تھا اسی پر اس کا اختتام ہو رہا ہے۔ کفار حضور ﷺ کو مجنون کہتے تھے۔ ان کے اس الزام کی تردید سورت کے ابتدا میں بھی کی گئی اور آخر میں بھی۔ پھر یہاں یہ نکتہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس سورت کے آغاز میں حرف نٓ کیوں آیا ہے۔ دراصل ن کے معنی ”مچھلی“ کے ہیں ‘ جیسا کہ سورة ا الانبیاء کی آیت 87 میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر ذوالنُّون مچھلی والے کے لقب سے کیا گیا ہے۔ چناچہ حرف ن کا معنوی ربط سورت کی ان اختتامی آیات کے ساتھ ہے جن میں صَاحِب الْحُوت حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔