سورۃ القلم (68): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Qalam کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ القلم کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ القلم کے بارے میں معلومات

Surah Al-Qalam
سُورَةُ القَلَمِ
صفحہ 566 (آیات 43 سے 52 تک)

خَٰشِعَةً أَبْصَٰرُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ وَقَدْ كَانُوا۟ يُدْعَوْنَ إِلَى ٱلسُّجُودِ وَهُمْ سَٰلِمُونَ فَذَرْنِى وَمَن يُكَذِّبُ بِهَٰذَا ٱلْحَدِيثِ ۖ سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ وَأُمْلِى لَهُمْ ۚ إِنَّ كَيْدِى مَتِينٌ أَمْ تَسْـَٔلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ أَمْ عِندَهُمُ ٱلْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ فَٱصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ ٱلْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ لَّوْلَآ أَن تَدَٰرَكَهُۥ نِعْمَةٌ مِّن رَّبِّهِۦ لَنُبِذَ بِٱلْعَرَآءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ فَٱجْتَبَٰهُ رَبُّهُۥ فَجَعَلَهُۥ مِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ وَإِن يَكَادُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَٰرِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا۟ ٱلذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُۥ لَمَجْنُونٌ وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَٰلَمِينَ
566

سورۃ القلم کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ القلم کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اِن کی نگاہیں نیچی ہوں گی، ذلت اِن پر چھا رہی ہوگی یہ جب صحیح و سالم تھے اُس وقت اِنہیں سجدے کے لیے بلایا جاتا تھا (اور یہ انکار کرتے تھے)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

KhashiAAatan absaruhum tarhaquhum thillatun waqad kanoo yudAAawna ila alssujoodi wahum salimoona

آیت 43{ خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ } ”ان کی نگاہیں زمین پر گڑی رہ جائیں گی“ { تَرْہَقُہُمْ ذِلَّـــۃٌط } ”ان کے چہروں پر ذلت چھا رہی ہوگی۔“ { وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ وَہُمْ سٰلِمُوْنَ۔ } ”اور ان کو دنیا میں پکارا جاتا تھا سجدے کے لیے جبکہ یہ صحیح سالم تھے۔“ دنیا میں وہ لوگ اذان کی آواز پر کبھی توجہ ہی نہیں کرتے تھے اور کوئی مجبوری و معذوری نہ ہونے کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز نہیں ہوتے تھے۔ قیامت کے دن میدانِ حشر میں وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن نہیں کرسکیں گے۔

اردو ترجمہ

پس اے نبیؐ، تم اِس کلام کے جھٹلانے والوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو ہم ایسے طریقہ سے اِن کو بتدریج تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ اِن کو خبر بھی نہ ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fatharnee waman yukaththibu bihatha alhadeethi sanastadrijuhum min haythu la yaAAlamoona

آیت 44{ فَذَرْنِیْ وَمَنْ یُّکَذِّبُ بِہٰذَاالْحَدِیْثِ } ”تو اے نبی ﷺ ! آپ چھوڑ دیجیے مجھے اور ان لوگوں کو جو اس کلام کی تکذیب کر رہے ہیں۔“ جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے اس گروپ کی سورتوں میں یہ کلمہ ذَرْنِیْ ‘ فَذَرْنِیْ اور یہ اسلوب بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ اس میں ایک طرف حضور ﷺ کی دلجوئی کا پہلو ہے تو دوسری طرف آپ ﷺ کے مخالفین کے لیے بہت بڑی وعید ہے ‘ کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان لوگوں کی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں ‘ ان کا معاملہ آپ مجھ پر چھوڑ دیجیے ‘ ان سے میں خود ہی نمٹ لوں گا۔ { سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ } ”ہم انہیں رفتہ رفتہ وہاں سے لے آئیں گے جہاں سے انہیں علم تک نہیں ہوگا۔“ علماء کے ہاں ”استدراج“ کا لفظ بطور اصطلاح استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد ایسا عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ کی ڈھیل سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے باعث کسی قوم یا کسی فرد پر درجہ بدرجہ درجہ ‘ تدریج اور استدراج کا مادہ ایک ہی ہے مسلط ہو۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے غلط راستے پر جا رہا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے کچھ دیر کے لیے ڈھیل دیتا ہے ‘ بلکہ بعض اوقات اس راستے پر اسے طرح طرح کی کامیابیوں سے بھی نوازتا ہے تاکہ اس کے اندر کی خباثت پوری طرح سے ظاہر ہوجائے۔ جب وہ شخص اپنی روش کو کامیاب دیکھتا ہے تو سرکشی میں مزید دیدہ دلیری دکھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی مہلت کا وقت پورا ہوجاتا ہے اور پھر اچانک اسے عذاب کے شکنجے میں کس لیا جاتا ہے۔ استدراج کی مثال کانٹے کے ذریعے مچھلی کے شکار کی سی ہے۔ شکاری جب دیکھتا ہے کہ مچھلی نے کانٹا نگل لیا ہے تو وہ ڈور کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے اور پھر جب چاہتا ہے ڈور کھینچ کر اسے قابو کرلیتا ہے۔ لفظ استدراج کی وضاحت کرتے ہوئے یہاں مجھے مولانا حسین احمد مدنی - کا وہ قول یاد آگیا ہے جس میں انہوں نے قیام پاکستان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ استدراج بھی ہوسکتا ہے۔ مولانا صاحب رمضان ہمیشہ سلہٹ میں گزارتے تھے۔ 1946 ء کے رمضان میں انہوں نے کہہ دیا تھا کہ ملاء اعلٰی میں پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اس کے ٹھیک ایک سال بعد اگلے رمضان لیلۃ القدر میں پاکستان کا قیام واقعتا عمل میں آگیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا مدنی رح کو بذریعہ کشف قیام پاکستان کے بارے میں جس فیصلے کا علم ہوا تھا ‘ ملاء اعلیٰ میں وہ فیصلہ 1946 ء کی لیلۃ القدر میں اس اصول کے تحت ہوا تھا جس کا ذکر سورة الدخان کی آیت 4 میں آیا ہے۔ اس آیت میں لیلۃ القدر لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ کے بارے میں فرمایا گیا ہے : { فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ۔ } کہ اس رات میں آئندہ سال کے دوران رونما ہونے والے اہم امور کے فیصلے کردیے جاتے ہیں۔ مولانا صاحب نظریاتی طور پر قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ ان کے اس انکشاف کے بعد ان کے عقیدت مندوں نے بجاطور پر ان سے پوچھا کہ اس فیصلے کا علم ہوجانے کے باوجود بھی آپ قیام پاکستان کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں ؟ اس پر مولانا صاحب رح نے جو جواب دیا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا تکوینی کائنات کی سلطنت کا انتظامی فیصلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس سے کیا منظور ہے ‘ اس کا ہمیں علم نہیں۔ ہمیں چیزوں کے ظاہر اور سامنے نظر آنے والے حالات کو دیکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیکھنے سننے ‘ سمجھنے وغیرہ کی صلاحیتیں اسی لیے دی ہیں کہ وہ ان صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے فیصلے کرے۔ چناچہ اس معاملے میں ہمیں وہی موقف اپنانا چاہیے جس میں ہمیں مسلمانانِ برصغیر کی بہتری نظر آتی ہو۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ اپنی حکمت اور مشیت کے مطابق کیا ہے۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ ”استدراج“ کی غرض سے کیا گیا ہو۔ یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس خطے کے مسلمانوں کو ڈھیل دے کر انہیں عذاب میں مبتلا کرنا چاہتا ہو۔ قیامِ پاکستان کے بعد کے حالات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مدنی رح کا خدشہ کافی حد تک درست تھا۔ اہل پاکستان پر عذاب کا ایک کوڑا تو 1971 ء میں برسا تھا۔ اس کے بعد بھی ملک کی مجموعی صورت حال کبھی تسلی بخش نہیں رہی ‘ بلکہ پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ اب ایک فیصلہ کن عذاب ہمارے سر پر آیا کھڑا ہے۔ لیکن میری رائے میں اس کا سبب ”قیامِ پاکستان نہیں“ بلکہ بحیثیت قوم ہمارا وہ مجموعی طرزعمل ہے جو قیام پاکستان کے بعد ہم نے نظام اسلام کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔

اردو ترجمہ

میں اِن کی رسی دراز کر رہا ہوں، میری چال بڑی زبردست ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waomlee lahum inna kaydee mateenun

اردو ترجمہ

کیا تم اِن سے کوئی اجر طلب کر رہے ہو کہ یہ اس چٹی کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہوں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Am tasaluhum ajran fahum min maghramin muthqaloona

آیت 46{ اَمْ تَسْئَلُہُمْ اَجْرًا فَہُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ۔ } ”اے نبی ﷺ ! کیا آپ ان سے کوئی اجرت مانگتے ہیں جس کے تاوان کے بوجھ تلے یہ دبے جا رہے ہیں ؟“ ان لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے آپ ﷺ سالہا سال سے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ اپنی اس محنت کے عوض جب آپ ﷺ ان سے کسی معاوضے یا اجرت کے طلب گار بھی نہیں ہیں تو یہ لوگ آخر کس لیے پریشان ہیں ؟

اردو ترجمہ

کیا اِن کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Am AAindahumu alghaybu fahum yaktuboona

آیت 47{ اَمْ عِنْدَہُمُ الْغَیْبُ فَہُمْ یَکْتُبُوْنَ۔ } ”یا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہیں ؟“ یہ دونوں آیات 46 ‘ 47 جوں کی توں سورة الطور میں آیات 40 اور 41 کے طور پر بھی آچکی ہیں۔

اردو ترجمہ

پس اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو اور مچھلی والے (یونس علیہ اسلام) کی طرح نہ ہو جاؤ، جب اُس نے پکارا تھا اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faisbir lihukmi rabbika wala takun kasahibi alhooti ith nada wahuwa makthoomun

آیت 48{ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ } ”تو اے نبی ﷺ ! آپ انتظار کیجیے اپنے رب کے حکم کا“ { وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ 7 } ”اور دیکھئے ‘ آپ ﷺ اس مچھلی والے کی طرح نہ ہوجایئے گا !“ ”مچھلی والے“ سے یہاں حضرت یونس علیہ السلام مراد ہیں۔ آپ علیہ السلام کی قوم پر جب عذاب کا فیصلہ ہوگیا تو آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کیے بغیر ہی اپنی قوم کا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کا ذکر سورة الانبیاء کی آیت 87 میں اس طرح آیا ہے : { اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا } ”جب وہ چل دیا غصے میں بھرا ہوا“۔ آپ علیہ السلام کا یہ غصہ حمیت حق میں تھا اور قوم کی طرف سے مسلسل ہٹ دھرمی اور کفر کی وجہ سے تھا۔ لیکن اس میں خطا کا پہلو یہ تھا کہ آپ علیہ السلام نے ہجرت کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار نہ کیا۔ { اِذْ نَادٰی وَہُوَ مَکْظُوْمٌ۔ } ”جب اس نے پکارا اپنے رب کو اور وہ اپنے غم کو اندر ہی اندرپی رہا تھا۔“ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں انتہائی رنجیدہ حالت میں اللہ سے فریاد کر رہے تھے : { لآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَق اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔ } الانبیاء ”تیرے سوا کوئی معبود نہیں ‘ تو پاک ہے اور یقینا میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔“

اردو ترجمہ

اگر اس کے رب کی مہربانی اُس کے شامل حال نہ ہو جاتی تو وہ مذموم ہو کر چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lawla an tadarakahu niAAmatun min rabbihi lanubitha bialAAarai wahuwa mathmoomun

آیت 49{ لَوْلَآ اَنْ تَدٰرَکَہٗ نِعْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآئِ وَہُوَ مَذْمُوْمٌ۔ } ”اگر اس کی دست گیری نہ کرتا اس کے رب کا ایک انعام اور احسان تو وہ ملامت زدہ ہو کر پھینک دیاجاتا کسی چٹیل زمین پر۔“ حضرت یونس علیہ السلام قدیم عراق کے شہر نینوا میں مبعوث ہوئے تھے۔ یہ شہر بعلبک کے شمال میں واقع تھا۔ دریائے فرات اور دریائے درجلہ اس علاقہ سے گزرتے ہوئے خلیج فارس میں آکر گرتے ہیں۔ آج کل تو یہ دونوں دریا سکڑ کر چھوٹی چھوٹی ندیوں میں تبدیل ہوگئے ہیں ‘ لیکن پرانے زمانے میں تو ظاہر ہے یہ بہت بڑے بڑے دریا ہوں گے۔ حضرت یونس علیہ السلام نینوا شہر سے نکل کر ان میں سے کسی دریا کو پار کرنے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے۔ کشتی میں آپ علیہ السلام کے ساتھ وہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر اشارتاً سورة الصّٰفّٰتکی آیت 141 میں آیا ہے۔ اس کے نتیجے میں آپ علیہ السلام کو کسی وہیل مچھلی نے نگل لیا۔ وہ مچھلی خلیج فارس سے ہوتی ہوئی مکران کے ساحل پر پہنچی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس ساحل کے کسی مقام پر اس نے آپ علیہ السلام کو اگل دیا۔ اس وقت آپ علیہ السلام کی حالت بہت خراب تھی۔ اس موقع پر آپ علیہ السلام کو سایہ اور غذا وغیرہ فراہم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ’ یقطین ‘ کا وہ پودا اگایا جس کا ذکر سورة الصّٰفّٰت ‘ آیت 146 میں آیا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں اسی پودے کی طرف اشارہ ہے جو اس وقت آپ علیہ السلام کے لیے واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ثابت ہوا۔ یَقْطِینکے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ ہو سورة الصّٰفّٰت ‘ آیت 146 کی تشریح۔

اردو ترجمہ

آخرکار اُس کے رب نے اسے برگزیدہ فرما لیا اور اِسے صالح بندوں میں شامل کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faijtabahu rabbuhu fajaAAalahu mina alssaliheena

آیت 50{ فَاجْتَبٰـٹـہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔ } ”تو اس کے ربّ نے اس کو ُ چن لیا اور اسے پھر صالحین میں سے کردیا۔“ حضرت یونس علیہ السلام کے ذکر کے حوالے سے یہاں حضور ﷺ کا ایک فرمان بھی سن لیجیے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے : لَا تُفَضِّلُوْنِیْ عَلٰی یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی 1 ”کہ مجھے یونس علیہ السلام ابن متیٰ پر بھی فضیلت نہ دو“۔ اس میں ان لوگوں کے لیے تنبیہہ ہے جو اپنا جوشِ خطابت اور زور قلم دوسرے انبیاء کرام پر حضور ﷺ کی فضیلت ثابت کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ آپ ﷺ بلاشبہ پوری نوع انسانی سے افضل اور سید الانبیاء والمرسلن ہیں۔ لیکن ع ”حاجت ِ مشاطہ ّنیست صورت دل آرام را“۔ آج پوری دنیا آپ ﷺ کی عظمت کی قائل ہے۔ اس حقیقت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ آج ایک عیسائی دانشور مائیکل ہارٹ اپنی کتاب ”The 100“ میں یہ لکھنے پر مجبور ہے :" My choice of Muhammad to lead the list of the worlds most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others , but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels."”حضرت محمد ﷺ کو دنیا کی بااثر ترین شخصیات میں سرفہرست رکھنے کے میرے اس فیصلے پر کچھ قارئین کو حیرت ہوگی اور بعض اس پر سوال بھی اٹھائیں گے ‘ لیکن پوری انسانی تاریخ میں صرف اور صرف آپ ﷺ ہی واحد شخص ہیں جو مذہبی اور سیکولر دونوں محاذوں پر پوری طرح کامیاب رہے۔“

اردو ترجمہ

جب یہ کافر لوگ کلام نصیحت (قرآن) سنتے ہیں تو تمہیں ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ گویا تمہارے قدم اکھاڑ دیں گے، اور کہتے ہیں یہ ضرور دیوانہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain yakadu allatheena kafaroo layuzliqoonaka biabsarihim lamma samiAAoo alththikra wayaqooloona innahu lamajnoonun

آیت 51{ وَاِنْ یَّـکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَـیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ } ”اور یہ کافر تو ُ تلے ہوئے ہیں اس پر کہ اپنی نگاہوں کے زور سے آپ ﷺ کو پھسلا دیں گے جب وہ قرآن سنتے ہیں“ مشرکین ِمکہ نے حضور ﷺ کی قوت ارادی کو توڑنے کے لیے ہر ممکن طریقہ آزمایا اور اس مقصد کے لیے آپ ﷺ کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ایک مرحلے پر انہوں نے اس مقصد کے لیے ایسے عاملوں کی خدمات بھی حاصل کیں جو اپنی نگاہوں کی خصوصی طاقت کے ذریعے کسی کو نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ شاید طبعی طور پر ایسا ممکن ہو۔ ہوسکتا ہے کوئی شخص خصوصی مشقوں exercises کے ذریعے اپنی آنکھوں میں اپنی قوت ارادی کو اس انداز میں مجتمع کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہو کہ اس کے بعد جب وہ کسی دوسرے شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے تو وہ اس کی نظروں کی تاب نہ لاسکے۔ بہرحال اس آیت میں مشرکین مکہ کے ایسے ہی اوچھے ہتھکنڈوں کا ذکر ہے۔ { وَیَـقُوْلُوْنَ اِنَّـہٗ لَمَجْنُوْنٌ۔ } ”اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔“ سورت کے آغاز اور اختتام کا باہمی ربط نوٹ کیجیے۔ جس مضمون سے سورت کا آغاز ہوا تھا اسی پر اس کا اختتام ہو رہا ہے۔ کفار حضور ﷺ کو مجنون کہتے تھے۔ ان کے اس الزام کی تردید سورت کے ابتدا میں بھی کی گئی اور آخر میں بھی۔ پھر یہاں یہ نکتہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس سورت کے آغاز میں حرف نٓ کیوں آیا ہے۔ دراصل ن کے معنی ”مچھلی“ کے ہیں ‘ جیسا کہ سورة ا الانبیاء کی آیت 87 میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر ذوالنُّون مچھلی والے کے لقب سے کیا گیا ہے۔ چناچہ حرف ن کا معنوی ربط سورت کی ان اختتامی آیات کے ساتھ ہے جن میں صَاحِب الْحُوت حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔

اردو ترجمہ

حالانکہ یہ تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama huwa illa thikrun lilAAalameena

آیت 52{ وَمَا ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ } ”اور نہیں ہے وہ ‘ مگر ایک یاد دہانی تمام جہان والوں کے لیے۔“ یہاں پر ھُوَکی ضمیر قرآن کے لیے بھی ہے اور حضور ﷺ کے لیے بھی۔ قرآن مجید کے ذکر یاد دہانی اور نصیحت ہونے کا تذکرہ تو قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے ‘ جبکہ اپنی ذات میں حضور ﷺ بھی قیامت تک کے لوگوں کے لیے یاد دہانی ہیں ‘ بلکہ آپ ﷺ اپنی ذات میں مجسم قرآن ہیں۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رض کا فرمان ہے : کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ ”آپ ﷺ کا اخلاق قرآن ہی تو تھا۔“] بعض مترجمین نے یہاں ”ذِکْر“ کا ترجمہ ”شرف“ بھی کیا ہے۔ یعنی آپ ﷺ سارے جہانوں کے لیے وجہ عزو شرف ہیں۔ مرتب [

566