فاجتبہ ........................ الصلحین (86 : 05) ” آخر کار اس کے رب نے اسے برگزیدہ فرما لیا اور اسے صالح بندوں میں شامل کردیا “۔
یہ تجربہ خاتم النبین کے لئے پیش کیا گیا تاکہ آپ اپنے فرائض رسالت کی ادائیگی میں اس سے استفادہ کریں۔ کیونکہ آپ نے آخری رسالت کا کام تمام سابقہ تجربات کی روشنی میں کرنا تھا۔ تمام نصیحتیں ، تمام عبرتیں اور تمام تجربات کی فصل آپ نے کاٹنی تھی تاکہ آپ کے لئے اپنے کام میں فیصلے کرنے میں آسانی ہو۔ اور آپ یہ بوجھ اچھی طرح اٹھاسکیں۔ تاکہ آنے والے زمانے میں ، جدید سے جدید تر حالات میں بھی زندگی کی گاڑی ان اصولوں کے مطابق چلائی جاسکے اور جب مستقبل کوئی نیا مسئلہ لے کر آئے تو اس دعوت اور رسالت کے اصولوں میں اس کا حل موجود ہو۔
یہ تجربہ جس سے حضرت یونس (علیہ السلام) گزرے ، یہ نبی ﷺ کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں کہ انہی کی طرح لوگ ہٹ دھرمی ، تکذیب اور سرکشی پر اترے ہوئے ہیں اور یہ نصیحت آپ کو اس وقت کی گئی جب حق و باطل کے معرکے کی ذمہ داری سے آپ کو سبکدوش کردیا گیا۔ یہ ذمہ داری اللہ نے لے لی۔ جس طرح چاہے گا ، جنگ کرے گا ، جس وقت چاہے گا ، کرے گا۔ آپ کو یہ حکم دے دیا کہ آپ صبر اور ثابت قدمی سے اپنا کام یعنی ابلاغ کرتے رہیں ، چاہے اس راہ میں جو مشکلات بھی آئیں ، تمام فیصلے وقت پر ہوں گے۔ مقام دعوت نہ چھوڑیں نہ جلدی کریں۔
دعوت اسلامی کی مشکلات اور مشقتوں میں سے سب سے بڑی مشقت صبر کرنا ہے۔ اور اس وقت کا انتظار کرنا ہے کہ جب اللہ اپنا آخری فیصلہ صادر کردے کیونکہ دعوت کامیابی کے وقت کا فیصلہ اللہ کے پاس ہے اور یہ فیصلہ اللہ اپنی حکمت کے مطابق صار فرماتا ہے۔ اس فیصلے کی گھڑی کے آنے سے پہلے اس راہ میں بڑی مشقتیں آتی رہتی ہیں ، لوگ جھٹلاتے ہیں ، پھر تشدد کرتے ہیں۔ چالیں چلتے ہیں اور سخت عناد رکھتے ہیں۔ باطل اپنی قوت کا مظاہرہ کرتا ہے اور وہ اسے اس طرح بڑھا کر پیش کرتا ہے جس طرح غبارے میں ہوا بھردی جاتی ہے۔ اور وہ خوفناک نظر آتا ہے ، لوگ ظاہری کامیابی اور باطل کی چلت پھرت سے مرعوب ہوکر اس کے پیچھے ہو لیتے ہیں ، پھر مشکل ترین مشقت یہ ہوتی ہے کہ داعی نہایت ثابت قدمی ، استقلال ، سنجیدگی کے ساتھ جم کر کام کرتا رہے اور وعدہ حق کی آمد کا انتظار کرے۔ کوئی شک نہ کرے ، کوئی تردد اسے نہ ہو ، سیدھی راہ پر جارہا ہو ، اگرچہ راہ میں رکاوٹیں آئیں تو گویا وقت کے آنے کا انتظار بڑی مشقت ہے۔ رہا اصل معرکہ تو یہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ وہی اس معرکے میں فریق ہے ، وہی تدبیر کررہا ہے۔ وہ ظالموں کی رسی دراز کررہا ہے۔ اور اس میں حکمت پوشیدہ ہے۔ یہی وعدہ ان مشکل حالات میں نبی کریم ﷺ سے ہوا اور بعد کے حالات نے اس کی تصدیق کی۔
آخر میں کافروں کے ایک دوسرے منظر کو یہاں لایا جاتا ہے۔ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی دعوت اور تبلیغ سن کر سخت غصے میں آتے تھے اور جل بھن جاتے تھے اور ان کے دل میں سخت عناد اور حسد پیدا ہوتا ہے ، جس کا اظہار ان کی نظروں سے ہوتا ۔ زہر آلود اور قہر آمیز نظروں سے یہ لوگ آپ کو گھورتے ہیں۔ قرآن کریم ان کو نہایت ہی خوبصورتی سے بیان کرتا ہے جس پر اضافہ ممکن نہیں۔
آیت 50{ فَاجْتَبٰـٹـہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔ } ”تو اس کے ربّ نے اس کو ُ چن لیا اور اسے پھر صالحین میں سے کردیا۔“ حضرت یونس علیہ السلام کے ذکر کے حوالے سے یہاں حضور ﷺ کا ایک فرمان بھی سن لیجیے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے : لَا تُفَضِّلُوْنِیْ عَلٰی یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی 1 ”کہ مجھے یونس علیہ السلام ابن متیٰ پر بھی فضیلت نہ دو“۔ اس میں ان لوگوں کے لیے تنبیہہ ہے جو اپنا جوشِ خطابت اور زور قلم دوسرے انبیاء کرام پر حضور ﷺ کی فضیلت ثابت کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ آپ ﷺ بلاشبہ پوری نوع انسانی سے افضل اور سید الانبیاء والمرسلن ہیں۔ لیکن ع ”حاجت ِ مشاطہ ّنیست صورت دل آرام را“۔ آج پوری دنیا آپ ﷺ کی عظمت کی قائل ہے۔ اس حقیقت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ آج ایک عیسائی دانشور مائیکل ہارٹ اپنی کتاب ”The 100“ میں یہ لکھنے پر مجبور ہے :" My choice of Muhammad to lead the list of the worlds most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others , but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels."”حضرت محمد ﷺ کو دنیا کی بااثر ترین شخصیات میں سرفہرست رکھنے کے میرے اس فیصلے پر کچھ قارئین کو حیرت ہوگی اور بعض اس پر سوال بھی اٹھائیں گے ‘ لیکن پوری انسانی تاریخ میں صرف اور صرف آپ ﷺ ہی واحد شخص ہیں جو مذہبی اور سیکولر دونوں محاذوں پر پوری طرح کامیاب رہے۔“