اس خوفناک منظر اور اس خوفناک تہدید کی فضا میں یہ مکالمہ یوں اختتام پذیر ہوتا ہے ، ان کے موقف پر تعجب کیا جاتا ہے اور چیلنج دیا جاتا ہے۔
ام تسئلھم ................ مثقلون (86 : 64) ” کیا تم ان سے کوئی اجر طلب کررہے ہو کہ یہ اس چٹی کے بوجھ تلے دبے جارہے ہوں ؟ “ کیا اسلام میں داخل کرنے کی کوئی بڑی فیس ہے جس سے یہ لوگ ڈر رہے ہیں اور بوجھ کو برداشت نہیں کرسکتے۔ اور منہ موڑ رہے ہیں۔ اور اس لئے مجبور ہیں کہ یہ برا انجام ہی اختیار کریں۔ محض اس لئے کہ ادائیگی مشکل ہے۔
آیت 46{ اَمْ تَسْئَلُہُمْ اَجْرًا فَہُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ۔ } ”اے نبی ﷺ ! کیا آپ ان سے کوئی اجرت مانگتے ہیں جس کے تاوان کے بوجھ تلے یہ دبے جا رہے ہیں ؟“ ان لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے آپ ﷺ سالہا سال سے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ اپنی اس محنت کے عوض جب آپ ﷺ ان سے کسی معاوضے یا اجرت کے طلب گار بھی نہیں ہیں تو یہ لوگ آخر کس لیے پریشان ہیں ؟