سورہ القدر: آیت 4 - تنزل الملائكة والروح فيها بإذن... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورہ القدر

تَنَزَّلُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ

اردو ترجمہ

فرشتے اور روح اُس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tanazzalu almalaikatu waalrroohu feeha biithni rabbihim min kulli amrin

آیت 4 کی تفسیر

تنزل ............................ کل ام (4:97) فرشتے اور روح ، اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں “۔ آج جب ہم صدیوں پیچھے کی طرف نظر دوڑاتے ہیں اور پھر ہماری نگاہ اس بزرگ اور عظیم رات پر پڑتی ہے۔ اور ہم اس جشن پر غور کرتے ہیں جو اس رات دیکھا گیا۔ پھر ہم ان امور کو دیکھتے ہیں جو اس رات میں فیصلہ ہوئے اور مکمل ہوئے اور دیکھتے ہیں کہ انسانی تاریخ نے کیا سفر طے کیا ، کیا واقعات وحادثات رونما ہوئے ، اس رات کے فیصلوں کے نتیجے میں انسانی قلب ونظر میں کیا کیا تبدیلیاں ہوئیں تو ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ یہ ایک عظیم رات تھی اور میں بتایا جانے والا یہ حسن نوبہاراں بھی فی الواقعہ بجا تھا اور آج ہمیں اللہ کا یہ کلام اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے۔

وما ادرک .................... القدر (2:97) ” تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے “۔ اور یہ کہ اس رات تمام حکیمانہ امور طے ہوئے ، اس رات اساس دین ، دینی اقدار اور حسن وقبح کے پیمانے طے ہوئے۔ اس رات افراد کے علاوہ حکومتوں ، ملتوں اور اقوام کی قسمتوں کا فیصلہ ہوا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جس اہم چیز کا فیصلہ ہوا وہ یہ ہے کہ حق کا معیار طے ہوا۔ مستقل قدریں طے ہوئیں۔ طریق زندگی اور نظام شریعت طے ہوا اور روحانی اقدار طے ہوئیں۔ سلم ” وہ رات سراسر سلامتی ہے “ ۔ انسانیت نے اپنی جہالت اور بدبختی کی وجہ سے شب قدر کی قدر و قیمت کو بھلا دیا ہے۔ اور اس عظیم واقعہ کی اہمیت کو دل سے محو کردیا ہے ، حالانکہ انسانی تاریخ کا یہ ایک عظیم واقعہ تھا ، اور جب سے انسانیت نے اس عظیم واقعہ کو بھلایا اور اس عظیم پیغام کے حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیا تو انسانیت اللہ کی عظیم ترین رحمت وسعادت سے محروم ہوگئی۔ وہ کیا تھی ؟ حقیقی امن وسلامتی کی سعادت ، انسانی ضمیر ونفسیات میں امن وسلامتی کی سعادت ، انسانی خاندان میں امن وسلامتی کی سعادت ، وہ ہمہ گیر سعادت تھی جس سے اسلام نے دنیا کو مالا مال کردیا تھا۔ یہ درست ہے کہ انسان نے اس عرصہ میں بےپناہ مادی ترقی کی ، دنیاکو خوب آبادوشاداب کیا۔ لیکن اسلام نے جو امن وسلامتی عطا کی ہے اسے انسان نہ پاسکا۔ باوجود مادی ترقی اور بےپناہ پیداوار کے انسانیت بدبخت ہی رہی۔ وہ خوبصورت نور بجھ گیا جس نے کبھی اس کی روح کو روشن کردیا تھا۔ اور وہ روشن خوشی ختم ہوکر رہ گئی جس نے اسے زمین کے بندھنوں سے آزاد کرکے عالم بالا کے ساتھ معلق کردیا تھا ، اور وہ مجموعی سلامتی ختم ہوگئی۔ جس کے فیوض وبرکات انسانی قلب اور ارواح سے سرشار ہوگئے تھے۔ لیکن یہ سب کچھ کھو چکنے کے بعد انسان نے نہ روحانی خوشی پائی ، نہ آسمانی روحانیت ملی اور نہ انسان کو یہ آزادی ملی کہ وہ زمینی بوجھ سے ذرا اٹھ کر آسمانوں تک پہنچے۔

آیت 4{ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ۔ } ”اس رات میں اُترتے ہیں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے۔“ روح سے مراد یہاں روح الامین یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں انہیں خصوصی مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ جیسا کہ سورة التکویر میں فرمایا گیا : { ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ - مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ۔ } ”وہ جبرائیل علیہ السلام بہت قوت والا ہے ‘ صاحب عرش کے قرب میں اس کا ٹھکانہ ہے۔ اس کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہاں وہ امانت دار بھی ہے“۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام اور فرشتوں کا ذکر آتا ہے تو ان علیہ السلام حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر عام طور پر علیحدہ کیا جاتا ہے۔ لیلۃ القدر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام اور فرشتوں کا خصوصی نزول دراصل اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل و تنفیذ کے حوالے سے ہوتا ہے۔ سورة الدخان میں لیلۃ القدر یا لیلۃ مبارکہ کے بارے میں ایک خصوصی بات یہ بتائی گئی ہے : { فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ۔ } کہ اس رات میں تمام ُ پر حکمت امور کے فیصلے صادر کیے جاتے ہیں۔ سورة الدخان کے مطالعے کے دوران اس آیت کے تحت اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوچکی ہے۔ مختصراً یہ کہ لیلۃ القدر اللہ تعالیٰ کی تکوینی سلطنت سے متعلق فیصلوں کے لیے سالانہ بجٹ سیشن کا درجہ رکھتی ہے۔ اس رات میں اگلے سال کے لیے تمام اہم امور کے فیصلے کر کے تعمیل و تنفیذ کی غرض سے فرشتوں کے حوالے کردیے جاتے ہیں۔ چناچہ فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی قیادت میں ان احکامات پر عمل درآمد کے لیے پوری زمین میں پھیل جاتے ہیں۔ نظامِ کائنات سے متعلق اللہ تعالیٰ کی اس ”تدبیر ِامر“ کا ذکر سورة السجدۃ کی اس آیت میں بھی آیا ہے : { یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ } آیت 5 ”وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف ‘ پھر وہ امر چڑھتا ہے اس کی طرف“۔ گویا اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کے بعد متعلقہ فرشتے تکمیلی رپورٹیں بھی بھیجتے ہیں۔

آیت 4 - سورہ القدر: (تنزل الملائكة والروح فيها بإذن ربهم من كل أمر...) - اردو