سورۃ المنافقون: آیت 9 - يا أيها الذين آمنوا لا... - اردو

آیت 9 کی تفسیر, سورۃ المنافقون

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَٰلُكُمْ وَلَآ أَوْلَٰدُكُمْ عَن ذِكْرِ ٱللَّهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَٰسِرُونَ

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la tulhikum amwalukum wala awladukum AAan thikri Allahi waman yafAAal thalika faolaika humu alkhasiroona

آیت 9 کی تفسیر

اب اللہ تعالیٰ ان مومنین کو آخری بار پکارتا ہے ، وہ مومنین جن کے رسول کو اور خود ان کو اللہ نے اپنی عزت سے معزز بنایا ، اللہ کی طرف سے ان کی طرف اب اس سورت میں آخری ندا آتی ہے کہ وہ عزت اور شرف کے اس مقام تک بلند ہوجائیں اور منافقین کی تمام صفات اپنے اندر سے نکال دیں۔ اور مال اور اولاد سے بلند ہوکر شرف کا یہ مقام حاصل کریں ، دیکھو دنیا کا کوئی مفاد ، چاہے مال ہو یا اولاد ہو ، تمہیں روک نہ دے۔

اگر انسان کا قلب زندہ نہ ہو تو مال اور اولاد انسان کو غافل کردینے والے بن جاتے ہیں۔ یہ سامان لہو ولعب ہیں۔ قلب زندہ ہوگا تو معلوم ہوگا کہ انسان کا مقصد وجود کیا ہے۔ اسے معلوم ہوگا کہ اللہ نے اسے پیدا کیا ہے اور اس کے اندر اپنی روح پھونکی ہے۔ اس کی روح کے اندر ایک ایسا روحانی شوق پیدا کیا جو انسان کو ، انسانی طاقت کی حدود کے اندر ، صفات الٰہیہ کا عکس دیتا ہے۔ یہ مال واولاد تو دنیا کے عارضی انتظام اور دنیا میں رہنے کی حد تک ، محدود ذمہ داریاں ہیں ، جو انسان پر ڈالی گئی ہیں۔ اس لئے نہیں کہ یہ انسان کو آخرت کی اصل باقی اور دائمی زندگی سے غافل کردیں اور انسان اللہ اور اللہ تک پہنچنے کے اعلیٰ مقصد کو بھلا ہی دے اور انسان وہ سبق بھلا دے جو عالم بالا سے اسے ملتا ہے۔ یوں وہ غافل ہوکر خسارے میں پڑجائے۔

فاولئک ھم الخسرون (36 : 9) ” جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔ “ یوں ان کو پہلا خسارہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ انسانی صفات بھلا دیتے ہیں۔ کیونکہ انسان مکمل انسان تب ہی بنتا ہے کہ اسے عالم بالا سے اتصال حاصل ہو اور جو شخص انسانیت ہی گنوادے ، اس نے گویا سب کچھ گنوادیا۔ اس نے گویا اموال واولاد کو بھی گنوادیا۔

اب دوسرے رکوع کی تین آیات میں اس بیماری کا علاج بتایا گیا ہے۔ جس طرح طب میں ایک مرض کا علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے ‘ ایک حفاظتی preventive قسم کا علاج ہے اور دوسرا معالجاتی curative طرز کا ‘ اسی طرح یہاں بھی مرض نفاق کے علاج کے ضمن میں یہ دونوں پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کسی بیماری کے حوالے سے انسان کی پہلی کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ وہ اس بیماری کی چھوت سے بچا رہے۔ اس کے لیے ظاہر ہے اسے پرہیزی اقدام preventive measures اپنانے کی ضرورت ہوگی۔ جیسے آج کل کسی بیماری سے بچنے کا موثر طریقہ یہی ہے کہ آپ متعلقہوی کسی نیشن کا انجکشن لگوالیں۔ چناچہ اب اگلی آیت میں اس اقدام کا ذکر ہے جسے نفاق کی بیماری سے بچنے کے لیے حفظ ِماتقدم کے طور پر اپنانا ضروری ہے۔آیت 9{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِکُمْ اَمْوَالُــکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ } ”اے اہل ایمان ! تمہیں غافل نہ کرنے پائیں تمہارے اموال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے۔“ یہاں دو چیزوں کو معین کیا گیا ہے جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کرنے کا باعث بنتی ہیں ‘ یعنی مال اور اولاد۔ یہی مضمون آگے چل کر سورة التغابن میں نہایت واضح شکل میں بایں الفاظ آیا ہے : { اِنَّمَـآ اَمْوَالُــکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌط } آیت 15 ”جان لو تمہارے مال اور تمہاری اولاد ہی ذریعہ آزمائش ہیں“۔ یہی تو وہ کسوٹی ہے جس پر تمہیں پرکھا جا رہا ہے۔ چناچہ متنبہ کردیا گیا کہ اہل ایمان ! دیکھنا تمہیں تمہارے اموال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں۔ { وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۔ } ”اور جو کوئی ایسا کریں گے تو وہی خسارے میں رہیں گے۔“ یہاں اللہ کے ذکر سے مراد صرف یہی نہیں کہ انسان ہر وقت تسبیحات وغیرہ پڑھتا رہے ‘ بلکہ اس کا وسیع تر مفہوم یہ ہے کہ انسان کو اللہ ہر وقت یاد رہے اور اسی بنا پر وہ اپنے جملہ فرائض کی ادائیگی کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہے۔ تو اے اہل ایمان ! کہیں ایسا نہ ہو کہ اموال واولاد کے معاملات میں منہمک ہو کر تم لوگ اللہ ہی کو بھلا دو۔ جیسا کہ آج کل ہماری اکثریت کا حال ہے۔ آج اگر آپ لوگوں کو اللہ اور دین کی طرف بلائیں تو آپ کو عام طور پر یہی جواب ملے گا کہ کیا کریں جی وقت ہی نہیں ملتا ! اب ظاہر ہے جو شخص ایک خاص ”معیارِ زندگی“ کو اپنا معبود بنا کر دن رات اس کی پوجا میں لگا ہو تو اس کے پاس معبودِ حقیقی کی طرف رجوع کرنے کے لیے وقت کیونکر بچے گا ؟ چناچہ مرض نفاق کی چھوت سے بچنے کے لیے پرہیزی اقدام یہ بتایا گیا کہ اللہ کی یاد کسی وقت بھی تمہیں بھولنے نہ پائے۔ اور ساتھ ہی اللہ کی یاد کو بھلانے والے دو اہم ترین عوامل کی نشاندہی بھی کردی گئی۔ ظاہر ہے کسی بھی بیماری کا علاج کرنے کے لیے اس کے اصل اور بنیادی سبب کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ جب بیماری کا سبب ڈھونڈ کر اس کی بیخ کنی کردی جائے گی تو وہ بیماری دور ہوجائے گی۔ نفاق کی بیماری کا اصل سبب چونکہ دنیا کی محبت ہے اور دنیا کی محبت کا سب سے بڑا مظہر مال کی محبت ہے ‘ لہٰذا اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دل سے مال کی محبت ختم کردی جائے اور اس محبت کو ختم کرنے کا موثر طریقہ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے :

مال و دولت کی خود سپردگی خرابی کی جڑ ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ بکثرت ذکر اللہ کیا کریں اور تنبیہہ کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ مال و اولاد کی محبت میں پھنس کر ذکر اللہ سے غافل ہوجاؤ، پھر فرماتا ہے کہ جو ذکر اللہ سے غافل ہوجائے اور دنیا کی زنت ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے اپنے رب کی اطاعت میں سست پڑجائے، وہ اپنا نقصان آپ کرنے والا ہے۔ پھر اپنی اطاعت میں مال خرچ کرنے کا حکم دے رہا ہے کہا پنی موت سے پہلے خرچ کرلو، موت کے وقت کی بےبسی دیکھ کر نادم ہونا اور امیدیں باندھنا کچھ نفع نہ دے گا، اس وقت انسان چاہے گا کہ تھوڑی سی دیر کے لئے بھی اگر چھوڑ دیا جائے تو جو کچھ نیک عمل ہو سکے کرلے اور اپنا مال بھی دل کھول کر راہ اللہ دے لے، لیکن آہ اب وقت کہاں آنے والی مصیبت آن پڑی اور نہ ٹلنے والی آفت سر پر کھڑی ہوگئی اور جگہ فرمان ہے (ترجمہ) الخ، یعنی لوگوں کو ہوشیار کر دے جس دن ان کے پاس عذاب آئے گا تو یہ ظالم کہنے لگیں گے اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت مل جائے تاکہ ہم تیری دعوت قبول کرلیں اور تیرے رسولوں کی اتباع کریں۔ اس آیت میں تو کافروں کی مذمت کا ذکر ہے، دوسری آیت میں نیک عمل میں کمی کرنے والوں کے افسوس کا بیان اس طرح ہوا ہے۔ (ترجمہ) یعنی جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے " میرے رب مجھے لوٹا دے تو میں نیک اعمال کرلوں۔ " یہاں فرماتا ہے " موت کا وقت آ گے پیچھے نہیں ہوتا، اللہ خود خبر رکھنے والا ہے کہ کون اپنے قول میں صادق ہے اور اپنے سوال میں حق بجانب ہے یہ لوگ تو اگر لوٹائے جائیں تو پھر ان باتوں کو بھول جائیں گے اور وہی کچھ کرنے لگ جائیں گے جو اس سے پہلے کرتے رہے، ترمذی میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ہر وہ شخص جو مالدار ہو اور اس نے حج نہ کیا ہو یا زکوٰۃ نہ دی ہو وہ موت کے وقت دنیا میں واپس لوٹنے کی آرزو کرتا ہے ایک شخص نے کہا حضرت اللہ کا خوف کیجئے واپسی کی آرزو تو کافر کرتے ہیں آپ نے فرمایا جلدی کیوں کرتے ہو ؟ سنو قرآن فرماتا ہے پھر آپ نے یہ پورا رکوع تلاوت کر سنایا اس نے پوچھا زکوٰۃ کتنے میں واجب ہے فرمایا دو سو اور اس سے زیادہ میں پوچھا حج کب فرض ہوجاتا ہے فرمایا جب راہ خرچ اور سواری خرچ کی طاقت ہو، ایک مرفوع روایت بھی اسی طرح مروی ہے لیکن موقوف ہی زیادہ صحیح ہے، ضحاک کی روایت ابن عباس والی بھی منقطع ہے، دسری سند میں ایک راوی ابو جناب کلبی ہے وہ بھی ضعیف ہے، واللہ اعلم، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ کے سامنے صحابہ نے زیادتی عمر کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا جب اجل آجائے پھر موخر نہیں ہوتی زیادتی عمر صرف اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو نیک صالح اولاد دے جو اسکے لئے اس کے مرنے کے بعد دعا کرتی رہے اور دعا اسے اس کی قبر میں پہنچتی رہے۔ اللہ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے سورة منافقون کی تفسیر ختم ہوئی۔ فالحمد اللہ

آیت 9 - سورۃ المنافقون: (يا أيها الذين آمنوا لا تلهكم أموالكم ولا أولادكم عن ذكر الله ۚ ومن يفعل ذلك فأولئك هم الخاسرون...) - اردو