سورۃ المنافقون: آیت 3 - ذلك بأنهم آمنوا ثم كفروا... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورۃ المنافقون

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ ءَامَنُوا۟ ثُمَّ كَفَرُوا۟ فَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ

اردو ترجمہ

یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لا کر پھر کفر کیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika biannahum amanoo thumma kafaroo fatubiAAa AAala quloobihim fahum la yafqahoona

آیت 3 کی تفسیر

سوال یہ ہے کہ یہ لوگ یہ کام کرتے ہیں ؟ جھوٹی شہادت ، جھوٹی قسمیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کا عمل نامشکور کیوں کرتے ہیں ؟ یہ اس لئے کہ انہوں نے ایمان کے بعد کفر اختیار کرلیا ہے۔ یعنی اسلام کو اچھی طرح جاننے اور دیکھنے کے بعد انہوں نے کفر پر چلنے کا ارادہ کرلیا ہے۔

ذلک بانھم ................ یفقھون (36 : 3) ” یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لاکر پھر کفر کیا ، اس لئے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے “۔

انہوں نے اسلام کو اچھی طرح پہچان لیا ہے۔ لیکن اعلان کرنے کے بعد انہوں نے دوبارہ کفر کی طرف لوٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کوئی سمجھ دار ، باذوق اور زندہ دل انسان یہ نہیں کرسکتا ایمان لانے کے بعد دوبارہ کفر کی طرف لوٹ جائے۔ کون ایسا ہوسکتا ہے جو ذوق رکھتا ہو ، معرفت رکھتا ہو۔ جو اس کائنات کے ایمانی تصور سے واقف ہو ، جس نے ایمانی زندگی کا مزہ چکھا ہو ، اور ایمان کی پاکیزہ فضا میں زندگی بسر کی ہو ، ایمان کی روشنی میں سیدھی راہ چلاہو ، جو ایمان کے سایوں میں رہاہو ، اور پھر وہ کفر کی سیاہ رات اور کفر کی گرم اور جھلسادینے والی فضاﺅں میں جانا پسند کرے۔ یہ حرکت وہی شخص کرسکتا ہے جس کا ذوق نہ ہو ، جس کا دل حسد سے بھرا ہوا ہو۔ جس کے اندر کوئی احساس و شعور نہ ہو اور جو سیاہ سفید میں تمیز نہ کرسکتا ہو۔

فطبع ................ یفقھون (36 : 3) ” اس لئے ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی ہے ، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے “۔

اس کے بعد ان کی ایک نہایت منفرد تصویر پیش کی جاتی ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر حقارت ، نفرت پر بےاختیار ہنسی آتی ہے کہ یہ عجیب کندہ ناتراش ہیں۔ اندھے اور بہرے ہیں۔ بےعقل ، خالی الدماغ ، اندھے ، بزدل ، سخت بخیل اور حاسد بلکہ وہ کندہ ناتراش کی طرح ایک دیوار کے ساتھ چنے ہوئے ہیں۔

آیت 3{ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا } ”یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے“ یعنی ان کی منافقت شعوری نہیں ہے کہ وہ بدنیتی سے دھوکہ دینے کے لیے ایمان لائے ہوں۔ دین اسلام کی دعوت جب ان لوگوں تک پہنچی تھی تو ان کی فطرت نے گواہی دی تھی کہ یہ سچ اور حق کی دعوت ہے اور اس وقت وہ نیک نیتی سے ایمان لائے تھے۔ کچھ دیر کے لیے انہیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی تھی ‘ لیکن ایمان لاتے وقت انہیں معلوم نہیں تھا کہ ع ”یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے“۔ اہل ِایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے : { وَلَـنَـبْلُوَنَّــکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِط } البقرۃ : 155 کہ ہم تمہیں کسی قدر خوف ‘ بھوک اور مال و جان کے نقصانات جیسی سخت آزمائشوں سے ضرور آزمائیں گے۔ لیکن منافقین کو اس صورت حال کا اندازہ نہیں تھا۔ منافقین ِمدینہ میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے قبیلے کے سردار کے پیچھے ایمان لے آئے تھے۔ جیسے اوس اور خزرج کے قائدین ایمان لے آئے تو پورا پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ انہیں کیا پتا تھا کہ عملی طور پر ایمان کے تقاضے کیا ہیں۔ وہ تو برف کے تودے کی اوپری سطح tip of the iceberg ہی کو دیکھ رہے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اس تودے کے نیچے کیا ہے۔ بہرحال ایسے لوگ ایمان تو سچے دل سے لائے تھے ‘ لیکن ان کا ایمان تھا کمزور۔ اسی لیے تکلیفیں اور آزمائشیں دیکھ کر ان کے پائوں لڑکھڑاگئے۔ البتہ ضعیف الایمان مسلمانوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اپنی تمامتر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود ایمان کے دامن سے وابستہ رہے۔ ان سے جب کوئی کوتاہی ہوئی تو انہوں نے اس کا اقرار بھی کیا اور اس کے لیے وہ معافی کے طلب گار بھی ہوئے۔ سورة التوبہ میں ان لوگوں کا ذکر گزر چکا ہے اور وہاں ان کے ضعف ِایمان کا علاج بھی تجویز کردیا گیا : { خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْط } التوبۃ : 103 ”ان کے اموال میں سے صدقات قبول فرما لیجیے ‘ اس صدقے کے ذریعے سے آپ ﷺ انہیں پاک کریں گے اور ان کا تزکیہ کریں گے ‘ اور ان کے لیے دعا کیجیے“۔ یعنی انفاق فی سبیل اللہ سے ان کے ایمان کی کمزوری دور ہوجائے گی۔ بہرحال جو لوگ ایک دفعہ ایمان لانے کے بعد مشکلات سے گھبرا کر ایمان کے عملی تقاضوں سے جی چرانے لگے اور اپنی اس خیانت کو جھوٹے بہانوں سے چھپانے لگے وہ منافقت کی راہ پر چل نکلے۔ { فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا یَفْقَہُوْنَ۔ } ”تو ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ‘ پس یہ سمجھنے سے عاری ہوگئے۔“ ان کی منافقانہ روش کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی۔ چناچہ اب ان کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت مفقود ہوچکی ہے اور یہ حقیقی تفقہ سے عاری ہوچکے ہیں۔

آیت 3 - سورۃ المنافقون: (ذلك بأنهم آمنوا ثم كفروا فطبع على قلوبهم فهم لا يفقهون...) - اردو