سورۃ المومنون: آیت 27 - فأوحينا إليه أن اصنع الفلك... - اردو

آیت 27 کی تفسیر, سورۃ المومنون

فَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ أَنِ ٱصْنَعِ ٱلْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَآءَ أَمْرُنَا وَفَارَ ٱلتَّنُّورُ ۙ فَٱسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ ٱثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ ٱلْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ وَلَا تُخَٰطِبْنِى فِى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓا۟ ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ

اردو ترجمہ

ہم نے اس پر وحی کی کہ "ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے اُن کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faawhayna ilayhi ani isnaAAi alfulka biaAAyunina wawahyina faitha jaa amruna wafara alttannooru faosluk feeha min kullin zawjayni ithnayni waahlaka illa man sabaqa AAalayhi alqawlu minhum wala tukhatibnee fee allatheena thalamoo innahum mughraqoona

آیت 27 کی تفسیر

فاوحینا مغرقون آیت نمبر (27) ”

یوں سنت الہیہ نے زندگی کی ترقی اور نشونما کی راہ سے یہ روڑا ، قوم نوح کا روڑا دور کیا۔ تاکہ اسانی زندگی شاہراہ ترقی پر آگے بڑھے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں انسانیت کی نشو نما کا آغاز ہوا تھا ، اور آغاز کے ساتھ ہی اس میں ٹھہرائو اور جمود پیدا کیا جس طرح کسی نازک پودے کو زمین سے نکلتے ہی آفات سماوی یا اور کوئی مشکلات درپیش ہوجائیں اور وہ مرجھاجائے اور خشک ہوجائے جبکہ وہ ناتواں ہو۔ ان مشکلات کو دور کرنے کے لیے طوفان ایک بہترین علاج تھا۔ یاد رہے کہ طوفان زمین کو دھوا ڈالتا ہے اور طوفان زمین کو دھو ڈلتا ہے اور طوفان کے بعد اس زمین فصل اگتی ہے ۔ اسی طرح زمین کو قوم نوح کی گندگی سے پاک کردیا گیا تاکہ اس کہ اس کرئہ ارض پر درست زندگی کا آغاز از سر نو کیا جائے اور انسانی زندگی بحسن و خوبی شاہراہ ترقی پر گامزن ہو سکے۔

فا و حینا الیہ ان اصنع الفلک با عیننا (23 : 27) ”“ ہم نے اس پر وحی کی کہ ہماری نگرانی اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر “۔ یہ کشتی طوفان سے نجات کا ذریعہ تھی اور پھر ان لوگوں کے بچنے کی تدبیر بھی تھی جو ایمان لاچکے تھے تاکہ آئندہ کے لیے نسل کی بقا کا سامان ہو جس طرح چیزکا بیچ محفوظ کرکے بویا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی مثیت یہ تھی کہ حضرت نوح یہ کشتی اپنے ہاتھ سے تیار کریں۔ اس میں یہ سبق تھا کہ انسان نے اس زمین پر زندگی اسباب و وسائل کے مطابق گزارنی ہے اور زندگی بسر کرنے کے لیے ہر انسان نے پوری پوری جدو جہد کرنی ہے تا کہ وہ اپنے رب کی طرف سے امداد کا مستحق ہوجائے کیونکہ اللہ کی امداد صرف ان لوگوں کو ملتی ہے جو ان تھک جدو جہد کرتے ہیں ، ان کو نہیں ملتی جو ہر وقت عیش و عشرتم میں مگن رہتے ہیں اور آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ وہ لوگ جو صرف دوسروں کا انتظار کرتے اور اس کے سوا کسی اور چیز کے لیے جدو جہد نہیں کرتے۔ حضرت نوح کے بارے میں اللہ کی اسکیم یہ تھی کہ وہ انسانوں کے آدم ثانی ہوں۔ اس لیے آپ کو یہ سبق دیا گیا کہ آپ اپنی زندگی کے لیے اسباب و وسائل خود اختیار کریں۔ اللہ کی نگرانی تمہارے شامل حال رہے گی۔ اللہ آپ کو وسائل اختیار کرنے کی تعلیم بہر حال دے رہا ہے۔ یہ کشتی تیار کریں تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کی مثیت پوری ہو۔ اس کرئہ ارض کی صفائی کے اس عمل کے آغاز کے لیے اللہ نے نوح کے لیے ایک علامت مقرر فرمادی تھی۔

وو حینا فاز جاء امرنا و فار التنور (23 : 27) ” پھر جب ہمارا حکم آجائے اور وہ تنور ابل پڑے “۔ یعنی تنور سے پانی ابل پڑے تو یہ ہوگی طوفان آنے کی علامت اور تب حضرت نوح کا فرض ہوگا کہ وہ جلدی سے کشتی پر سوار ہوں اور اپنے ساتھ کشتی میں زندگی کا تخم بھی سوار کرلیں۔

فاسلک فیھا من کل زوجین ائنین (23 : 27) ” تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے اس میں سوار ہو جائوـ“۔ یعنی تمام حیوانات ، تمام پرندے نباتات وغیرہ سے جو اس وقت انسان کو معلوم تھے اور جن سے بنی نوع انسان استفادہ کرتا تھا۔

واھلک الا من سبق علیہ القول منھم (23 : 27) ” اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکاہیـ“۔ اور یہ فیصلہ ان لوگوں کے بارے میں تھا جنہوں نے کفر کیا تھا اور حضرت نوح کی تکذیب کی تھی۔ اور ان کے بارے میں فیصلہ ہوچکا تھا کہ ان کو ہلاک کردیا جائے کیونکہ انہوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی تھی اور مکذبین کے بارے میں یہ اللہ کی سنت ہے کہ انہیں ہلاک کردیا جاتا ہے۔

حضرت نوح (علیہ السلام) کو آخری حکم دیا گیا کہ وہ اب ان لوگوں کے ساتھ کوئی مباحثہ اور مجادلہ نہ کریں اور نہ کسی کو بچانے کی کوشش کریں اگر چہ ان میں سے کوئی قریبی رشتہ دار ہو کیونکہ اللہ نے سب کافروں کی ہلاکت کا فیصلہ کرلیا ہے۔

والا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون (23 : 27) ” اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے نہ کہنا ، یہ اب غرق ہونے والے ہیں “۔ کیونکہ اللہ کی سنت کسی دوست یا رشتہ دار کی رد رعایت نہیں کرتی۔ اس کی راہ بالکل سیدھی ہے ۔ اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کی تفصیلات یہاں نہیں دی جاتیں کیونکہ یہ کہہ دیا گیا کہ یہ سب کے سب غرق ہونے ہونے والے ہیں ۔ اب حضرت نوح کو بتایا جاتا ہے کہ وہ اللہ کے انعامات پر شکر کس طرح ادا کریں گے کس طرح اللہ کی حمد پڑھیں گے اور کس طرح اللہ سے ہدایت کے طلبار گار ہوں گے۔

فَاسْلُکْ فِیْہَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ”ہر قسم کے جاندار ‘ حیوانات وغیرہ میں سے ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ کو بھی اس کشتی میں سوار کرلینا تاکہ ان کی نسل محفوظ رہ سکے۔وَاَہْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ مِنْہُمْ ج ”اس استثناء میں آپ علیہ السلام کی بیوی اور ایک بیٹا شامل تھے ‘ جن کے بارے میں پہلے ہی ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا تھا۔

آیت 27 - سورۃ المومنون: (فأوحينا إليه أن اصنع الفلك بأعيننا ووحينا فإذا جاء أمرنا وفار التنور ۙ فاسلك فيها من كل زوجين اثنين وأهلك...) - اردو