سورۃ المومنون (23): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Muminoon کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المؤمنون کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المومنون کے بارے میں معلومات

Surah Al-Muminoon
سُورَةُ المُؤۡمِنُونَ
صفحہ 343 (آیات 18 سے 27 تک)

وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّٰهُ فِى ٱلْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍۭ بِهِۦ لَقَٰدِرُونَ فَأَنشَأْنَا لَكُم بِهِۦ جَنَّٰتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَٰبٍ لَّكُمْ فِيهَا فَوَٰكِهُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَيْنَآءَ تَنۢبُتُ بِٱلدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْءَاكِلِينَ وَإِنَّ لَكُمْ فِى ٱلْأَنْعَٰمِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِى بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَٰفِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ وَعَلَيْهَا وَعَلَى ٱلْفُلْكِ تُحْمَلُونَ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَقَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥٓ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ فَقَالَ ٱلْمَلَؤُا۟ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِن قَوْمِهِۦ مَا هَٰذَآ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَأَنزَلَ مَلَٰٓئِكَةً مَّا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِىٓ ءَابَآئِنَا ٱلْأَوَّلِينَ إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌۢ بِهِۦ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا۟ بِهِۦ حَتَّىٰ حِينٍ قَالَ رَبِّ ٱنصُرْنِى بِمَا كَذَّبُونِ فَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ أَنِ ٱصْنَعِ ٱلْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَآءَ أَمْرُنَا وَفَارَ ٱلتَّنُّورُ ۙ فَٱسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ ٱثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ ٱلْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ وَلَا تُخَٰطِبْنِى فِى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓا۟ ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ
343

سورۃ المومنون کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المومنون کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھیرا دیا ہم اُسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanzalna mina alssamai maan biqadarin faaskannahu fee alardi wainna AAala thahabin bihi laqadiroona

اردو ترجمہ

پھر اس پانی کے ذریعہ سے ہم نے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کر دیے، تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سے لذیذ پھل ہیں اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faanshana lakum bihi jannatin min nakheelin waaAAnabin lakum feeha fawakihu katheeratun waminha takuloona

اردو ترجمہ

اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طور سیناء سے نکلتا ہے، تیل بھی لیے ہوئے اگتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Washajaratan takhruju min toori saynaa tanbutu bialdduhni wasibghin lilakileena

اردو ترجمہ

اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز ہم تمہیں پلاتے ہیں، اور تمہارے لیے ان میں بہت سے دوسرے دُوسرے فائدے بھی ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainna lakum fee alanAAami laAAibratan nusqeekum mimma fee butooniha walakum feeha manafiAAu katheeratun waminha takuloona

اردو ترجمہ

اُن کو تم کھاتے ہو اور اُن پر اور کشتیوں پر سوار بھی کیے جاتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAAalayha waAAala alfulki tuhmaloona

اردو ترجمہ

ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا "اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی اور معبود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad arsalna noohan ila qawmihi faqala ya qawmi oAAbudoo Allaha ma lakum min ilahin ghayruhu afala tattaqoona

درس نمبر 149 تشریح آیات 23 تا 52

اس سبق کا مضمون اب دلائل النفس و آفاق سے براہ راست عقیدہ توحید کی طرف آجاتا ہے جو تمام انبیاء کا مدار دعوت رہے ہے اور تمام رسول اس کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ تمام رسولوں نے تمام زمانوں میں لوگوں کو اسی عقیدے کے طرف بلایا اور تمام رسولوں کا استقبال ان کی امتوں نے کس طرح کیا۔ اس دعوت کے مقابلے میں ان کا رد عمل کیسا رہا۔ چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر آج تک تمام رسولوں نے کلمہ توحید کی طرف دعوت دی جس کا مفہوم عربی زبان میں یوں رہا کہ تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے کیونکہ تمام رسول دعوت اپنی قوم کی زبان ہی میں دیتے تھے۔ چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بھی وہی بات کی جو آپ کے بعد دوسرے رسولوں نے اپنی اپنی اقوام کے سامنے کی اور تمام امتوں نے ایک ہی جواب دیا ۔ حالانکہ ان امم کے درمیان زمان و مکان کے طویل فاصلے تھے۔

ولقد حین (آیت نمبر 25 تا 22)

بقوم اعبدو اللہ مالکم من الہ غیرہ (23 : 23) ” اے میری قوم کے لوگوں ، اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی معبود نہیں ہے “۔ یہ وہ کلمہ ہے جو تمام رسولوں کی دعوت ہے ، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ یہ پوری کائنات اس کلمے پر قائم ہے۔ یہ پوری کائنات اس کے لیے شاید بھی

افا تتقون (32 : 32) کیا تم ڈرتے نہیں ہو ۔ یعنی تم اس انکار کے انجام بد نہیں درتے جو تم اس عظیم حقیقت کے حوالے سے کرتے ہو۔ حالانکہ تمام دوسرے حقائق اس حقیقت کا نتیجہ ہیں اور تمہارا انکار اس عظیم حقیقت پر دست درازی ہے اور جو قوم اس حقیقت کا انکار کرے ، وہ لازماً عظیم عذاب کے مستحق بن جاتی ہے۔

لیکن حضرت نوح کے حوالے سے کرتے ہو ۔ حالانکہ تمام دوسرے حقائق اس کا نتیجہ ہیں اور تمہارا نکار اس عظیم حقیقت پر دست درازی ہے اور جو قوم اس حقیقت کا انکار کرے ، وہ لازماً عظیم عذاب کا مستحکم بن جاتی ہے۔

لیکن حضرت نوح کی قوم کے یہ کبراء اور بااثر لوگ اس کلمے کے سچ ہونے میں شک و شبے کا اظہار نہیں کرتے نہ وہ اس کلمے کے بارے میں کسی ثبوت کا مطالبہ کرتے ہیں ، نہ اس پر غور و فکر کرتے ہیں۔ وہ دراصل اپنی شخصیات کی تنگ نظری میں گرفتار ہیں اور اس سے وہ اپنے آپ کو نہیں چھڑا سکتے۔ ان کی سوچ داعی کی شخصیت تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ ان کو یہ توفیق نہیں ہے کہ ذرا اس محدود سوچ سے بلند ہو کر اس عظیم حقیقت پر غور کریں جسے حضرت نوح (علیہ السلام) پیش فرماتے ہیں۔ چناچہ انہوں نے حضرت نوح کی اصولی اور عظیم دعوت کے بارے میں کچھ کی بجائے حضرت نوح کی شخصیت پر اظہار خیال شروع کردیا حالانکہ یہ پوری کائنات حضرت نوح کے نظریہ اور دعوت پر شاید عادل ہے اور دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص کہتا کہا ہے۔ یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ کہتا کون ہے۔

فقال الملئو الذین کفرو من قومہ ھذآ انا بشر مثلکم یرید ان تتفضل علیکم (32 : 24) ” اس قوم کے سرداروں نے ماننے سے انکار کیا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر اس ایک بشر تیم ہی جیسا ، اس کی غرض یہ ہے کہ تم پر تری حاصل کرے “۔ حضرت نوح کی قوم نے ان کے معاملے کو اور اس عظیم دعوت کو نہایت ہی تنگ نظری اور کوتاہ بینی سے دیکھا چناچہ اپنی اس تنگ نظری اور کو تا بینی کی وجہ سے وہ اس قابل ہی نہ تھے کہ اس دعوت کی حقیقت کو سمجھ سکتے یا اس کے نتائج کا ادراک کرسکتے۔ ان کی معتبر اور جھوٹی شخصیات نے اس کی دعوت کی حقیقت اور اس کے جوہر کو ان کی نظروں سے اوجھل رکھا۔ وہ اندھے بنے رہے اور ان کے اور اس دعوت کے درمیاں ان کے اس اندھے پن کی وجہ سے پردے حائل ہوگئے۔ ان کا نقطہ نظر داعی کی شخصیت کے دائرے سے نہ نکل سکا۔ بس وہ یہ سمجھ سکے کہ اگر ہم اس دعوت کو قبول کریں تو نوح جیسا عام شخص ایک عظیم شخص بن جائے گا۔ ظاہر ہے کہ ہامرے ایمان لاتئے ہی وہ ہمارا پیشوا اور بڑا آدمی بن جائے گا۔

ان لوگوں نے اپنی تنگ نظری کی وجہ سے یہ سمجھا کہ حضرت نوح صرف اپنی شخصیت کے لیے کام کررہے ہیں اور انہوں نے اسی لیے نبوت کا دعویٰ بھی کیا ہے لیکن اپنی اس کوتاہ بینی کی وجہ سے وہ صرف حضرت نوح کی فضیلت ہی کا انکار نہیں کردیتے بلکہ دراصل لوگ انسانیت کے ملنے والی ایک عظیم فضیلت کا بھی انکار کردیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو جنس بشر کو یہ عزت اس لیے دی تھی کہ وہ اس نے ایک سوچنے والی مخلوق پیدا کی تھی۔ ان لوگوں کی سوچ یہ تھی کہ اگر اللہ کسی کو نبی بنا کر بھیجتا تو لازماً اس شخص کو ملائکہ میں سے ہونا چاہیے تھا۔ گویا یہ لوگ انسانیت کو اس شرف سے محروم رکھنا چاہتے تھے۔

ولو شاء اللہ لا نزل ملئکۃ (23 : 24) ” اللہ کو اگر رسول بھیجنا ہوتا تو فرشتے بھیجتا “۔ یہ بات وہ اس لیے کہتے ہیں کہ ان کی روح می نووہ قوت نہیں ہے جو انہیں عالم بالا سے مربوط کرے تاکہ وہ اس بات پر یقین کرسکیں کہ انسانوں میں سے مختار لوگ عالم بالا سے فیض حاصل کرسکتے ہیں۔ اپنے دوسرے بھائیوں کو ہدایت دے سکتے ہیں اور انہیں اللہ سے جوڑ سکتے ہیں۔

یہ لوگ اس اہم معاملے کو اب اپنے آبائو اجداد سے مالوف افکار کی روشنی میں سوچتے ہیں۔

ما سمعنا بھذا فی ابآء ن الاولین (23 : 24) ” یہ بات تو کبھی ہم نے اپنے باپ دادا کے وقتوں میں نہیں سنی “۔ جب تقلید انسان کے قلب و نظر کو بھجادیتی ہے جس طرح آگ بجھ جاتی ہے اور جب انسانی سوچ اپنا کام چھوڑ دیتی ہے تو لوگ انسانیت کو درپیش مسائل کے بارے میں سوچنا بند کردیتے ہیں۔ اگر ان کو اپنی جاہلی روایات میں کوئی بات نہ ملے تو وہ اس بات کو ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں۔ بس یہ لوگ پیچھے ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔

ان جامد اور بجھی ہوئی سوسائٹیوں کا طرزعمل یہ ہوتا ہے اور ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ جو بات ایک بار ہوجائے وہ دوبارہ ہوسکتی ہے اور جو بات کبھی وقوع پذیر نہیں ہوئی اس کا وقوع ممکن نہیں ہے۔ یوں ان کی زندگی میں جمود آجاتا ہے۔ زندگی متحرک نہیں رہتی اور لوگ صرف ابن اقدامات کے تنگ دائرے تک محدود ہوجاتے ہیں جو ان کے آباء و اجداد میں کبھی ہوئے تھے۔

اے کاش کہ اس قسم کے لوگ یہ سوچ سکتے کہ وہ جامد اور مقلد ہیں اور وہ الٹے ان لوگوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں جو حریت فکر اور سوچ کی دعوت دیتے ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں کہ وجود کائنات میں پائے جانے والے دلائل ایمان پر غور و فکر کریں۔ لیکن یہ لوگ حریت فکر کی اس دعوت کا جواب نہایت ہی مذاق اور الزام تراشیوں سے دیتے ہیں۔

ان ھو الا رجل جنۃ فتربصو ابہ حتی حین (23 : 25) ” کچھ نہیں بس اس آدمی کو ذرا جنوں لاحق ہوگیا “۔ کچھ مدت دیکھو تو یعنی ذرا انتظار کرلو یہ مر جائے تمہاری جان چھوٹ جائے گی۔ اس سے بھی اور اس کی دعوت سے بھی۔ اور تمہیں اس کی دعوت کا جواب دینے کی بھی ضرورت نہ رہے گی۔

ان لوگوں کا انکار اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ان کے دلوں تک دعوت اسلامی گو پہنچانے کے لیے کوئی راہ نہیں پاتے اور ان کی جانب سے مذاق اور ایذا رسانی سے بھی ان کو کوئی جائے پناہ نہیں مل رہی ہے۔ اب وہ اپنے رب کی طرف ہی متوجہ ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے رب سے اپنی مشکلات پر نصرت کے طلبگار ہیں۔

اردو ترجمہ

اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا وہ کہنے لگے کہ "یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا اِس کی غرض یہ ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے اللہ کو اگر بھیجنا ہوتا تو فرشتے بھیجتا یہ بات تو ہم نے کبھی اپنے باپ دادا کے وقتوں میں سنی ہی نہیں (کہ بشر رسول بن کر آئے)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faqala almalao allatheena kafaroo min qawmihi ma hatha illa basharun mithlukum yureedu an yatafaddala AAalaykum walaw shaa Allahu laanzala malaikatan ma samiAAna bihatha fee abaina alawwaleena

اردو ترجمہ

کچھ نہیں، بس اس آدمی کو ذرا جنون لاحق ہو گیا ہے کچھ مدت اور دیکھ لو (شاید افاقہ ہو جائے)"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In huwa illa rajulun bihi jinnatun fatarabbasoo bihi hatta heenin

اردو ترجمہ

نوحؑ نے کہا "پروردگار، ان لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر اب تو ہی میری مدد فرما"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala rabbi onsurnee bima kaththabooni

قال کذبون (26)

جب زندہ انسان اس طرح پتھروں کی طرح جمود اختیار کرلیں۔ زندگی آگے بڑھنا رک جائے اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ترقی و کمال کے جو مدارج مقرر کر رکھے ہیں۔ انسان اس کی طرف برھنا چھوڑ دیں تو ایسے انسان انسانی ترقی کی راہ میں روڑہ بن جاتے ہیں۔ اب دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو زندگی کو اس جگہ پر جامد چھوڑ دیا جائے اور یا پھر انکو پاش پاش کردیا جائے جس نے زندگی کی گا ڑی کو آگے بڑھنے سے روک دیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں یہی فیصلہ ہوا کہ اسے انسانیت کی راہ سے برطرف کردیا جائے۔ کیونکہ حضرت نوح السلام کا دور آغاز انسانیت کا دور ہے ۔ اس لیے اللہ نے انسانیت کی راہ میں اس بھاری پتھر کو ایک طرف پھینک دیا۔

اردو ترجمہ

ہم نے اس پر وحی کی کہ "ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے اُن کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faawhayna ilayhi ani isnaAAi alfulka biaAAyunina wawahyina faitha jaa amruna wafara alttannooru faosluk feeha min kullin zawjayni ithnayni waahlaka illa man sabaqa AAalayhi alqawlu minhum wala tukhatibnee fee allatheena thalamoo innahum mughraqoona

فاوحینا مغرقون آیت نمبر (27) ”

یوں سنت الہیہ نے زندگی کی ترقی اور نشونما کی راہ سے یہ روڑا ، قوم نوح کا روڑا دور کیا۔ تاکہ اسانی زندگی شاہراہ ترقی پر آگے بڑھے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں انسانیت کی نشو نما کا آغاز ہوا تھا ، اور آغاز کے ساتھ ہی اس میں ٹھہرائو اور جمود پیدا کیا جس طرح کسی نازک پودے کو زمین سے نکلتے ہی آفات سماوی یا اور کوئی مشکلات درپیش ہوجائیں اور وہ مرجھاجائے اور خشک ہوجائے جبکہ وہ ناتواں ہو۔ ان مشکلات کو دور کرنے کے لیے طوفان ایک بہترین علاج تھا۔ یاد رہے کہ طوفان زمین کو دھوا ڈالتا ہے اور طوفان زمین کو دھو ڈلتا ہے اور طوفان کے بعد اس زمین فصل اگتی ہے ۔ اسی طرح زمین کو قوم نوح کی گندگی سے پاک کردیا گیا تاکہ اس کہ اس کرئہ ارض پر درست زندگی کا آغاز از سر نو کیا جائے اور انسانی زندگی بحسن و خوبی شاہراہ ترقی پر گامزن ہو سکے۔

فا و حینا الیہ ان اصنع الفلک با عیننا (23 : 27) ”“ ہم نے اس پر وحی کی کہ ہماری نگرانی اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر “۔ یہ کشتی طوفان سے نجات کا ذریعہ تھی اور پھر ان لوگوں کے بچنے کی تدبیر بھی تھی جو ایمان لاچکے تھے تاکہ آئندہ کے لیے نسل کی بقا کا سامان ہو جس طرح چیزکا بیچ محفوظ کرکے بویا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی مثیت یہ تھی کہ حضرت نوح یہ کشتی اپنے ہاتھ سے تیار کریں۔ اس میں یہ سبق تھا کہ انسان نے اس زمین پر زندگی اسباب و وسائل کے مطابق گزارنی ہے اور زندگی بسر کرنے کے لیے ہر انسان نے پوری پوری جدو جہد کرنی ہے تا کہ وہ اپنے رب کی طرف سے امداد کا مستحق ہوجائے کیونکہ اللہ کی امداد صرف ان لوگوں کو ملتی ہے جو ان تھک جدو جہد کرتے ہیں ، ان کو نہیں ملتی جو ہر وقت عیش و عشرتم میں مگن رہتے ہیں اور آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ وہ لوگ جو صرف دوسروں کا انتظار کرتے اور اس کے سوا کسی اور چیز کے لیے جدو جہد نہیں کرتے۔ حضرت نوح کے بارے میں اللہ کی اسکیم یہ تھی کہ وہ انسانوں کے آدم ثانی ہوں۔ اس لیے آپ کو یہ سبق دیا گیا کہ آپ اپنی زندگی کے لیے اسباب و وسائل خود اختیار کریں۔ اللہ کی نگرانی تمہارے شامل حال رہے گی۔ اللہ آپ کو وسائل اختیار کرنے کی تعلیم بہر حال دے رہا ہے۔ یہ کشتی تیار کریں تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کی مثیت پوری ہو۔ اس کرئہ ارض کی صفائی کے اس عمل کے آغاز کے لیے اللہ نے نوح کے لیے ایک علامت مقرر فرمادی تھی۔

وو حینا فاز جاء امرنا و فار التنور (23 : 27) ” پھر جب ہمارا حکم آجائے اور وہ تنور ابل پڑے “۔ یعنی تنور سے پانی ابل پڑے تو یہ ہوگی طوفان آنے کی علامت اور تب حضرت نوح کا فرض ہوگا کہ وہ جلدی سے کشتی پر سوار ہوں اور اپنے ساتھ کشتی میں زندگی کا تخم بھی سوار کرلیں۔

فاسلک فیھا من کل زوجین ائنین (23 : 27) ” تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے اس میں سوار ہو جائوـ“۔ یعنی تمام حیوانات ، تمام پرندے نباتات وغیرہ سے جو اس وقت انسان کو معلوم تھے اور جن سے بنی نوع انسان استفادہ کرتا تھا۔

واھلک الا من سبق علیہ القول منھم (23 : 27) ” اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکاہیـ“۔ اور یہ فیصلہ ان لوگوں کے بارے میں تھا جنہوں نے کفر کیا تھا اور حضرت نوح کی تکذیب کی تھی۔ اور ان کے بارے میں فیصلہ ہوچکا تھا کہ ان کو ہلاک کردیا جائے کیونکہ انہوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی تھی اور مکذبین کے بارے میں یہ اللہ کی سنت ہے کہ انہیں ہلاک کردیا جاتا ہے۔

حضرت نوح (علیہ السلام) کو آخری حکم دیا گیا کہ وہ اب ان لوگوں کے ساتھ کوئی مباحثہ اور مجادلہ نہ کریں اور نہ کسی کو بچانے کی کوشش کریں اگر چہ ان میں سے کوئی قریبی رشتہ دار ہو کیونکہ اللہ نے سب کافروں کی ہلاکت کا فیصلہ کرلیا ہے۔

والا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون (23 : 27) ” اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے نہ کہنا ، یہ اب غرق ہونے والے ہیں “۔ کیونکہ اللہ کی سنت کسی دوست یا رشتہ دار کی رد رعایت نہیں کرتی۔ اس کی راہ بالکل سیدھی ہے ۔ اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کی تفصیلات یہاں نہیں دی جاتیں کیونکہ یہ کہہ دیا گیا کہ یہ سب کے سب غرق ہونے ہونے والے ہیں ۔ اب حضرت نوح کو بتایا جاتا ہے کہ وہ اللہ کے انعامات پر شکر کس طرح ادا کریں گے کس طرح اللہ کی حمد پڑھیں گے اور کس طرح اللہ سے ہدایت کے طلبار گار ہوں گے۔

343