سورۃ المومنون: آیت 26 - قال رب انصرني بما كذبون... - اردو

آیت 26 کی تفسیر, سورۃ المومنون

قَالَ رَبِّ ٱنصُرْنِى بِمَا كَذَّبُونِ

اردو ترجمہ

نوحؑ نے کہا "پروردگار، ان لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر اب تو ہی میری مدد فرما"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala rabbi onsurnee bima kaththabooni

آیت 26 کی تفسیر

قال کذبون (26)

جب زندہ انسان اس طرح پتھروں کی طرح جمود اختیار کرلیں۔ زندگی آگے بڑھنا رک جائے اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ترقی و کمال کے جو مدارج مقرر کر رکھے ہیں۔ انسان اس کی طرف برھنا چھوڑ دیں تو ایسے انسان انسانی ترقی کی راہ میں روڑہ بن جاتے ہیں۔ اب دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو زندگی کو اس جگہ پر جامد چھوڑ دیا جائے اور یا پھر انکو پاش پاش کردیا جائے جس نے زندگی کی گا ڑی کو آگے بڑھنے سے روک دیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں یہی فیصلہ ہوا کہ اسے انسانیت کی راہ سے برطرف کردیا جائے۔ کیونکہ حضرت نوح السلام کا دور آغاز انسانیت کا دور ہے ۔ اس لیے اللہ نے انسانیت کی راہ میں اس بھاری پتھر کو ایک طرف پھینک دیا۔

جب نوح ؑ ان سے تنگ آگئے اور مایوس ہوگئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میرے پروردگار میں لاچار ہوگیا ہوں میری مدد فرما۔ جھٹلانے والوں پر مجھے غالب کر اسی وقت فرمان الہٰی آیا کہ کشتی بناؤ اور خوب مضبوط چوڑی چکلی۔ اس میں ہر قسم کا ایک ایک جوڑا رکھ لو حیوانات نباتات پھل وغیرہ وغیرہ اور اسی میں اپنے والوں کو بھی بٹھالو مگر جس پر اللہ کی طرف سے ہلاکت سبقت کرچکی ہے جو ایمان نہیں لائے۔ جیسے آپ کی قوم کے کافر اور آپ کا لڑکا اور آپ کی بیوی۔ واللہ اعلم۔ اور جب تم عذاب آسمانی بصورت بارش اور پانی آتا دیکھ لو پھر مجھ سے ان ظالموں کی سفارش نہ کرنا۔ پھر ان پر رحم نہ کرنا نہ ان کے ایمان کی امید رکھنا۔ بس پھر تو یہ سب غرق ہوجائیں گے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہوگا۔ اس کا پورا قصہ سورة ھود کی تفسیر میں گزر چکا ہے ہے اس لئے ہم نہیں دہراتے۔ جب تو اور تیرے مومن ساتھی کشتی پر سوار ہوجاؤ تو کہنا کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی جیسے فرمان ہے کہ اللہ نے تمہاری سواری کے لئے کشتیاں اور چوپائے بنائے ہیں تاکہ تم سواری لے کر اپنے رب کی نعمت کو مانو اور سوار ہو کر کہو کہ وہ اللہ پاک ہے جس نے ان جانوروں کو ہمارے تابع بنادیا ہے حالانکہ ہم میں خود اتنی طاقت نہ تھی بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ حضرت نوح ؑ نے یہی کہا اور فرمایا آؤ اس میں بیٹھ جاؤ اللہ کے نام کے ساتھ اس کا چلنا اور ٹھیرنا ہے پس شروع چلنے کے وقت بھی اللہ کو یاد کیا۔ اور جب وہ ٹھیرنے لگی تب بھی اللہ کو یاد کیا اور دعا کی کہ اے اللہ مجھے مبارک منزل پر اتارنا اور تو ہی سب سے بہتر اتارنے والا ہے اس میں یعنی مومنوں کی نجات اور کافروں کی ہلاکت میں انبیاء کی تصدیق کی نشایاں ہیں اللہ کی الوہیت کی علامتیں ہیں اس کی قدرت اس کا علم اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ یقینا رسولوں کو بھیج کر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش اور ان کا پورا امتحان کرلیتا ہے

آیت 26 - سورۃ المومنون: (قال رب انصرني بما كذبون...) - اردو