سورۃ المومنون: آیت 23 - ولقد أرسلنا نوحا إلى قومه... - اردو

آیت 23 کی تفسیر, سورۃ المومنون

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَقَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥٓ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ

اردو ترجمہ

ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا "اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی اور معبود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad arsalna noohan ila qawmihi faqala ya qawmi oAAbudoo Allaha ma lakum min ilahin ghayruhu afala tattaqoona

آیت 23 کی تفسیر

درس نمبر 149 تشریح آیات 23 تا 52

اس سبق کا مضمون اب دلائل النفس و آفاق سے براہ راست عقیدہ توحید کی طرف آجاتا ہے جو تمام انبیاء کا مدار دعوت رہے ہے اور تمام رسول اس کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ تمام رسولوں نے تمام زمانوں میں لوگوں کو اسی عقیدے کے طرف بلایا اور تمام رسولوں کا استقبال ان کی امتوں نے کس طرح کیا۔ اس دعوت کے مقابلے میں ان کا رد عمل کیسا رہا۔ چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر آج تک تمام رسولوں نے کلمہ توحید کی طرف دعوت دی جس کا مفہوم عربی زبان میں یوں رہا کہ تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے کیونکہ تمام رسول دعوت اپنی قوم کی زبان ہی میں دیتے تھے۔ چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بھی وہی بات کی جو آپ کے بعد دوسرے رسولوں نے اپنی اپنی اقوام کے سامنے کی اور تمام امتوں نے ایک ہی جواب دیا ۔ حالانکہ ان امم کے درمیان زمان و مکان کے طویل فاصلے تھے۔

ولقد حین (آیت نمبر 25 تا 22)

بقوم اعبدو اللہ مالکم من الہ غیرہ (23 : 23) ” اے میری قوم کے لوگوں ، اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی معبود نہیں ہے “۔ یہ وہ کلمہ ہے جو تمام رسولوں کی دعوت ہے ، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ یہ پوری کائنات اس کلمے پر قائم ہے۔ یہ پوری کائنات اس کے لیے شاید بھی

افا تتقون (32 : 32) کیا تم ڈرتے نہیں ہو ۔ یعنی تم اس انکار کے انجام بد نہیں درتے جو تم اس عظیم حقیقت کے حوالے سے کرتے ہو۔ حالانکہ تمام دوسرے حقائق اس حقیقت کا نتیجہ ہیں اور تمہارا انکار اس عظیم حقیقت پر دست درازی ہے اور جو قوم اس حقیقت کا انکار کرے ، وہ لازماً عظیم عذاب کے مستحق بن جاتی ہے۔

لیکن حضرت نوح کے حوالے سے کرتے ہو ۔ حالانکہ تمام دوسرے حقائق اس کا نتیجہ ہیں اور تمہارا نکار اس عظیم حقیقت پر دست درازی ہے اور جو قوم اس حقیقت کا انکار کرے ، وہ لازماً عظیم عذاب کا مستحکم بن جاتی ہے۔

لیکن حضرت نوح کی قوم کے یہ کبراء اور بااثر لوگ اس کلمے کے سچ ہونے میں شک و شبے کا اظہار نہیں کرتے نہ وہ اس کلمے کے بارے میں کسی ثبوت کا مطالبہ کرتے ہیں ، نہ اس پر غور و فکر کرتے ہیں۔ وہ دراصل اپنی شخصیات کی تنگ نظری میں گرفتار ہیں اور اس سے وہ اپنے آپ کو نہیں چھڑا سکتے۔ ان کی سوچ داعی کی شخصیت تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ ان کو یہ توفیق نہیں ہے کہ ذرا اس محدود سوچ سے بلند ہو کر اس عظیم حقیقت پر غور کریں جسے حضرت نوح (علیہ السلام) پیش فرماتے ہیں۔ چناچہ انہوں نے حضرت نوح کی اصولی اور عظیم دعوت کے بارے میں کچھ کی بجائے حضرت نوح کی شخصیت پر اظہار خیال شروع کردیا حالانکہ یہ پوری کائنات حضرت نوح کے نظریہ اور دعوت پر شاید عادل ہے اور دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص کہتا کہا ہے۔ یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ کہتا کون ہے۔

فقال الملئو الذین کفرو من قومہ ھذآ انا بشر مثلکم یرید ان تتفضل علیکم (32 : 24) ” اس قوم کے سرداروں نے ماننے سے انکار کیا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر اس ایک بشر تیم ہی جیسا ، اس کی غرض یہ ہے کہ تم پر تری حاصل کرے “۔ حضرت نوح کی قوم نے ان کے معاملے کو اور اس عظیم دعوت کو نہایت ہی تنگ نظری اور کوتاہ بینی سے دیکھا چناچہ اپنی اس تنگ نظری اور کو تا بینی کی وجہ سے وہ اس قابل ہی نہ تھے کہ اس دعوت کی حقیقت کو سمجھ سکتے یا اس کے نتائج کا ادراک کرسکتے۔ ان کی معتبر اور جھوٹی شخصیات نے اس کی دعوت کی حقیقت اور اس کے جوہر کو ان کی نظروں سے اوجھل رکھا۔ وہ اندھے بنے رہے اور ان کے اور اس دعوت کے درمیاں ان کے اس اندھے پن کی وجہ سے پردے حائل ہوگئے۔ ان کا نقطہ نظر داعی کی شخصیت کے دائرے سے نہ نکل سکا۔ بس وہ یہ سمجھ سکے کہ اگر ہم اس دعوت کو قبول کریں تو نوح جیسا عام شخص ایک عظیم شخص بن جائے گا۔ ظاہر ہے کہ ہامرے ایمان لاتئے ہی وہ ہمارا پیشوا اور بڑا آدمی بن جائے گا۔

ان لوگوں نے اپنی تنگ نظری کی وجہ سے یہ سمجھا کہ حضرت نوح صرف اپنی شخصیت کے لیے کام کررہے ہیں اور انہوں نے اسی لیے نبوت کا دعویٰ بھی کیا ہے لیکن اپنی اس کوتاہ بینی کی وجہ سے وہ صرف حضرت نوح کی فضیلت ہی کا انکار نہیں کردیتے بلکہ دراصل لوگ انسانیت کے ملنے والی ایک عظیم فضیلت کا بھی انکار کردیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو جنس بشر کو یہ عزت اس لیے دی تھی کہ وہ اس نے ایک سوچنے والی مخلوق پیدا کی تھی۔ ان لوگوں کی سوچ یہ تھی کہ اگر اللہ کسی کو نبی بنا کر بھیجتا تو لازماً اس شخص کو ملائکہ میں سے ہونا چاہیے تھا۔ گویا یہ لوگ انسانیت کو اس شرف سے محروم رکھنا چاہتے تھے۔

ولو شاء اللہ لا نزل ملئکۃ (23 : 24) ” اللہ کو اگر رسول بھیجنا ہوتا تو فرشتے بھیجتا “۔ یہ بات وہ اس لیے کہتے ہیں کہ ان کی روح می نووہ قوت نہیں ہے جو انہیں عالم بالا سے مربوط کرے تاکہ وہ اس بات پر یقین کرسکیں کہ انسانوں میں سے مختار لوگ عالم بالا سے فیض حاصل کرسکتے ہیں۔ اپنے دوسرے بھائیوں کو ہدایت دے سکتے ہیں اور انہیں اللہ سے جوڑ سکتے ہیں۔

یہ لوگ اس اہم معاملے کو اب اپنے آبائو اجداد سے مالوف افکار کی روشنی میں سوچتے ہیں۔

ما سمعنا بھذا فی ابآء ن الاولین (23 : 24) ” یہ بات تو کبھی ہم نے اپنے باپ دادا کے وقتوں میں نہیں سنی “۔ جب تقلید انسان کے قلب و نظر کو بھجادیتی ہے جس طرح آگ بجھ جاتی ہے اور جب انسانی سوچ اپنا کام چھوڑ دیتی ہے تو لوگ انسانیت کو درپیش مسائل کے بارے میں سوچنا بند کردیتے ہیں۔ اگر ان کو اپنی جاہلی روایات میں کوئی بات نہ ملے تو وہ اس بات کو ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں۔ بس یہ لوگ پیچھے ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔

ان جامد اور بجھی ہوئی سوسائٹیوں کا طرزعمل یہ ہوتا ہے اور ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ جو بات ایک بار ہوجائے وہ دوبارہ ہوسکتی ہے اور جو بات کبھی وقوع پذیر نہیں ہوئی اس کا وقوع ممکن نہیں ہے۔ یوں ان کی زندگی میں جمود آجاتا ہے۔ زندگی متحرک نہیں رہتی اور لوگ صرف ابن اقدامات کے تنگ دائرے تک محدود ہوجاتے ہیں جو ان کے آباء و اجداد میں کبھی ہوئے تھے۔

اے کاش کہ اس قسم کے لوگ یہ سوچ سکتے کہ وہ جامد اور مقلد ہیں اور وہ الٹے ان لوگوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں جو حریت فکر اور سوچ کی دعوت دیتے ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں کہ وجود کائنات میں پائے جانے والے دلائل ایمان پر غور و فکر کریں۔ لیکن یہ لوگ حریت فکر کی اس دعوت کا جواب نہایت ہی مذاق اور الزام تراشیوں سے دیتے ہیں۔

ان ھو الا رجل جنۃ فتربصو ابہ حتی حین (23 : 25) ” کچھ نہیں بس اس آدمی کو ذرا جنوں لاحق ہوگیا “۔ کچھ مدت دیکھو تو یعنی ذرا انتظار کرلو یہ مر جائے تمہاری جان چھوٹ جائے گی۔ اس سے بھی اور اس کی دعوت سے بھی۔ اور تمہیں اس کی دعوت کا جواب دینے کی بھی ضرورت نہ رہے گی۔

ان لوگوں کا انکار اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ان کے دلوں تک دعوت اسلامی گو پہنچانے کے لیے کوئی راہ نہیں پاتے اور ان کی جانب سے مذاق اور ایذا رسانی سے بھی ان کو کوئی جائے پناہ نہیں مل رہی ہے۔ اب وہ اپنے رب کی طرف ہی متوجہ ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے رب سے اپنی مشکلات پر نصرت کے طلبگار ہیں۔

نوح ؑ اور متکبر وڈیرے نوح ؑ کو اللہ تعالیٰ نے بشیرونذیر بنا کر ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا۔ آپ نے ان میں جاکر پیغام الٰہی پہنچایا کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہاری عبادت کا حقدار کوئی نہیں۔ تم اللہ کے سوا اس کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہوئے اللہ سے ڈرتے نہیں ہو ؟ قوم کے بڑوں نے اور سرداروں نے کہا یہ تو تم جیسا ہی ایک انسان ہے۔ نبوت کا دعویٰ کرکے تم سے بڑا بننا چاہتا ہے سرداری حاصل کرنے کی فکر میں ہے بھلا انسان کی طرف وحی کیسے آتی ؟ اللہ کا ارادہ نبی بھیجنے کا ہوتا تو کسی آسمانی فرشتے کو بھیج دیتا۔ یہ تو ہم نے کیا، ہمارے باپ دادوں نے بھی نہیں سنا کہ انسان اللہ کا رسول بن جائے۔ یہ تو کوئی دیوانہ شخص ہے کہ ایسے دعوے کرتا ہے اور ڈینگیں مارتا ہے۔ اچھا خاموش رہو دیکھ لو ہلاک ہوگا۔

آیت 23 - سورۃ المومنون: (ولقد أرسلنا نوحا إلى قومه فقال يا قوم اعبدوا الله ما لكم من إله غيره ۖ أفلا تتقون...) - اردو