اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اس بڑے معاملے میں تم شک میں پڑے ہو ؟ اور سوالات کرتے ہو ؟
ویقولون .................... صدقین
” یہ ایک خلجان آلود سوال ہے اور اس کے اندر ہٹ دھرمی اور تکبر کی بو بھی۔
اس وعدے اور قیام قیامت کے وقت کا علم ہمیں اس قدر ہے کہ وہ اپنے وقت سے مقدم وموخر نہیں ہوسکتا۔ اس کا وقت ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ یہ یوم الجزاء ہے۔ ہمارے لئے اس میں کیا فرق ہے کہ وہ کل آجائے یا کئی ملین سال بعد آجائے ، ہماری زندگی تو مختصر زندگی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ آنے والی ہے اور اس کے لئے تیاری کرنا ضروری ہے۔ تمہیں اس میں بہرحال اٹھایا جائے گا اور جزاء وسزا ہوگی۔
اس لئے اللہ نے اس کے وقت کی اطلاع کسی کو نہیں دی ۔ کیونکہ قیامت کا وقت کسی کو معلوم ہوجانے میں کوئی فائدہ ہی کیا ہے۔ انسان کی عملی زندگی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ان احکامات کے ساتھ اس کا تعلق ہے ، جو انسان کو دیئے گئے ہیں۔ بلکہ مصلحت تو اس میں ہے کہ عام لوگوں کو اس کے وقوع کے وقت کا پتہ نہ ہو ، صرف اللہ کو پتہ ہو۔