سورۃ الملک: آیت 23 - قل هو الذي أنشأكم وجعل... - اردو

آیت 23 کی تفسیر, سورۃ الملک

قُلْ هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَٱلْأَفْـِٔدَةَ ۖ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ

اردو ترجمہ

اِن سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے سمجھنے والے دل دیے، مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul huwa allathee anshaakum wajaAAala lakumu alssamAAa waalabsara waalafidata qaleelan ma tashkuroona

آیت 23 کی تفسیر

قل ھوا .................... تشکرون

” یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ ہی نے انسان کو پیدا کیا ، اور اسے دیکھنے سننے اور سوچنے کی قوتیں بھی اللہ ہی نے دیں اور یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اللہ کی مخلوقات میں سے انسان اعلیٰ ارفع مخلوق ہے۔ اور وہ اس جہاں میں موجود ہے۔ اس نے خود اپنے آپ کو نہیں پیدا کیا ، لہٰذا اس سے اعلیٰ وارفع اور زیادہ علم والا موجود ہوگا۔ اور وہی خالق ہے ، کوئی شخص خالق کے اعتراف سے نہیں بھاگ سکتا ، کیونکہ خود انسان کا محض وجود ہی تقاضا کرتا ہے کہ کوئی ارفع قوت موجود ہے اور اس میں بحث وجدال کرنا اور شک کرنا محض ہٹ دھرمی ہے۔ قرآن کریم اس حقیقت کو یہاں اس لئے لاتا ہے کہ وہ بتائے کہ اللہ نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی قوتیں دی ہیں۔

وجعل .................... والا فئدة (76 : 32) ” تم کو سننے ، دیکھنے اور سوچنے کی طاقتیں دیں “۔ اور انسان نے اللہ کے یہ انعامات پاکر کیا کیا ؟ یہ سمع ، یہ بصارت اور یہ عقل کی قوت ؟ اور انسان کا طرز عمل دیکھئے !

قلیلاً ما تشکرون (76 : 32) ” مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو “۔

سننے کی قوت اور دیکھنے کی قوت انسان کے نفس کے اندر دو عجیب معجزے ہیں۔ انسان نے ان کے بعض پہلو معلوم کر لئے ہیں۔ اور والافئدة سے قرآن سوچنے کی قوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ تو اعجب العجائب ہے۔ انسان کی عقلی قوت کے بارے میں ابھی تک انسان پوری معلومات نہیں حاصل کرسکا۔ عقل انسان کے اندر اللہ کا ایک منفرد معجزہ ہے۔

جدید علوم نے سننے کی قوت کے بارے میں بعض حیران کن باتوں کو دریافت کرلیا ہے ، مناسب ہے ان میں سے بعض چیزوں کا یہاں ذکر کردیا جائے۔

” ہمارے سننے کی حس بیرونی کان سے کام شروع کرتی ہے اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ اس کی انتہا کہاں ہوتی ہے ؟ سائنس دان کہتے ہیں کہ کہ آواز ہوا کے اندر جو لہریں پیدا کرتی ہے یہ لہریں کان تک جاتی ہیں۔ یہ کان ان کے اندر داخل کرنے کے لئے منظم کرتا ہے ، تاکہ یہ کان کے پردے کے اوپر پڑیں اور یوں یہ آواز کام کے پردے کی دوسری طرف گہرائی تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ گہرائی ایسی ہے کہ اس میں اسپرنگ کی طرح گول نالیاں ہیں اور یہ نصف دائرے کی شکل میں ہیں۔ اس گول نالیوں کے حصے میں چار ہزار قوس ہیں ، جو سر کے آلہ سماعت کے ساتھ پیوست ہیں “۔

” سوال یہ ہے کہ ہر ایک قوس کا طول کیا ہے اور اس کا حجم کیا ہے اور یو قوس کس طرح بنائے گئے ہیں ، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اور یہ کس قدر چھوٹی جگہ میں رکھ دیئے گئے ہیں جبکہ ان کے علاوہ اور کئی ہڈیاں ہیں جو موجوں کی طرح متحرک ہوتی ہیں۔ اور یہ تمام سامان کان کے پردے کے پیچھے ایک چھوٹی سی کھلی جگہ میں ہے ! کان میں ایک سو ہزار (ایک لاکھ) سماعتی خلیات ہیں ! اور سماعت کے اعصاب کے آخر میں باریک ترین ریشے ہیں ، جن کی باریکی ہی محیرالعقول ہے اور اس کے تصور ہی سے سر چکرانے لگتا ہے “۔ (اللہ اور جدید علوم ، عبدالرزاق نوفل ، ص 75)

” انسانی حاسہ بصارت کو ذرا دیکھئے ، اس کے مرکز میں روشنی کا استقبال کرنے والوں کی 031 ملین (31 لاکھ) سیل ہیں۔ یہ استقبال کرنے والی آنکھیں اعصاب کے سرے ہیں اور آنکھ کے اہم حصے صلبہ قرنیہ (Cornea) جھلی (Plancenta) جالی (Ratina) یہ اہم اعضا ، ہزارہا اعصاب اور مراکز کے علاوہ ہیں۔ (حوالہ بالا ص 85) ۔

اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کرکے یہ خصوصیات اسے عبث نہیں دیں۔ اور نہ بغیر کسی ارادے منصوبے کے یونہی اتفاقاً یہ کام ہوگیا ہے۔ بلکہ یہ اس لئے دی گئی ہیں کہ انسان اس زمین پر زندگی بسر کرسکے۔ اور یوم الجزاء میں پھر اس سے زندگی کا حساب لے کر اسے جزاء وسزا دی جائے۔

آیت 23{ قُلْ ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ وَجَعَلَ لَـکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ } ”کہہ دیجیے کہ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لیے کان ‘ آنکھیں اور دل بنائے۔“ لغوی اعتبار سے لفظ ’ اَنْشَاَ ‘ اٹھانے اور پرورش کرنے کا مفہوم بھی دیتا ہے۔ لفظ ”فواد“ کے مفہوم کی وضاحت سورة بنی اسرائیل کی آیت 36 کے تحت گزر چکی ہے۔ عام طور پر اس لفظ کا ترجمہ ”دل“ کیا جاتا ہے لیکن اصل میں اس سے مراد انسان کی وہ صلاحیت ہے جس کی مدد سے وہ دستیاب معلومات کا تجزیہ کر کے نتائج اخذ کرتا ہے۔ چناچہ اس لفظ میں عقل یا سمجھ بوجھ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید میں جب انسان کی طبعی صلاحیتوں یا حواس کا تذکرہ ہوتا ہے تو السَّمْع سماعت کا ذکر پہلے آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی علم کے ذرائع میں پہلا اور بنیادی ذریعہ اس کی سماعت ہے۔ پچھلی نسلوں کے علمی آثار اور تجرباتی علم سے استفادہ کرنا ہر دور کے انسان کی ضرورت رہی ہے۔ اس علم کو بھی نسل در نسل منتقل کرنے کا بنیادی ذریعہ انسان کی سماعت ہی ہے۔ دوسرے حواس یا ذرائع اس میں اپنا اپنا حصہ بعد کے مراحل میں شامل کرتے ہیں۔ { قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ۔ } ”بہت ہی کم شکر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔“

آیت 23 - سورۃ الملک: (قل هو الذي أنشأكم وجعل لكم السمع والأبصار والأفئدة ۖ قليلا ما تشكرون...) - اردو