سورۃ الملک: آیت 15 - هو الذي جعل لكم الأرض... - اردو

آیت 15 کی تفسیر, سورۃ الملک

هُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ ذَلُولًا فَٱمْشُوا۟ فِى مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا۟ مِن رِّزْقِهِۦ ۖ وَإِلَيْهِ ٱلنُّشُورُ

اردو ترجمہ

وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے، چلو اُس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق، اُسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee jaAAala lakumu alarda thaloolan faimshoo fee manakibiha wakuloo min rizqihi wailayhi alnnushooru

آیت 15 کی تفسیر

ھوالذی .................... النشور

” لوگوں کی حالت یہ ہے کہ اس زمین پر رہتے رہتے اور اس زمین پر ان کو ہر قسم کی رہائشی سہولتیں ہونے کی وجہ سے ، اس میں چلنے پھرنے کی قدرت اور اس کی مٹی ، پانی ، ہوا اور دوسرے خزانوں پر دسترس کی وجہ سے اور اس کی تمام پیداوار استعمال کرنے کی وجہ سے ، لوگ یہاں کی زندگی کے عادی ہوگئے ہیں اور یہ بات تک بھول گئے ہیں کہ اللہ نے اس کو ان کے لئے مسخر کردیا ہے اور ان کی دسترس میں دے دیا ہے۔ قرآن کریم بار بار ان کو یہ سبق یاد دلاتا ہے کہ ذرا اس پر غور کرو اور دیکھو۔ چناچہ ہر دور میں لوگوں نے اپنے اپنے علم کے مطابق تسخیر کائنات کے مفہوم کو سمجھا۔

ایک مسخر زمین ، ابتدائی دور کے سننے والوں کے ذہن میں صرف یہ مفہوم رکھتی تھی کہ اس زمین کے اوپر ہم چل سکتے ہیں۔ پیدل یا گھوڑوں پر سوار ہوکر ، یا کشتی پر سوار ہوکر جو سمندر کے سینے کو چیرتی چلی جاتی ہے۔ اور اس میں زراعت کرسکتے ہیں اور اس کے اندر جو کچھ زندہ و مردہ مخلوقات ہے ، اسے استعمال کرسکتے ہیں۔ پانی ، ہوا اور زمین اور ہر قسم کے نباتات وغیرہ۔

یہی مجمل مفہومات تھے جن کو اب سائنس نے ذرا مزید مفصل بنادیا ہے ، جہاں تک آج ہمارا علم آگے بڑھا ہے اور ہمارے اس علم کی وجہ سے اس نص قرآنی کا مفہوم بھی مزید وسیع ہوگیا ہے آئندہ نسلیں اس سے زیادہ سمجھیں گی۔

اب جدید علوم کے مطابق اس کا مفہوم کس قدر وسیع ہے۔ یہ لفص ذلول بالعموم ایک جانور کے لئے استعمال ہوتا ہے جو سدھایا ہوا ہو۔ یعنی جو سواری کے لئے اچھا ہو ، مطیع ہو ، زمین پر اس لفظ کا اطلاق اب ہم اچھی طرح سمجھے ہیں کہ یہ زمین بھی درصال ایک سواری ہے ، اگر یہ ٹھہری ہوگی ، پر سکون اور جمی ہوئی ہے ، لیکن دراصل یہ متحرک سواری ہے بلکہ نہایت ہی تیز رفتار سواری ہے۔ اللہ نے اسے ایسا تابع جانور بنایا ہے کہ سوار کو اٹھا کر پھینک نہیں دیتی اور نہ اسے ہوا میں اڑا دیتی ہے۔ نہ اس کے اوپر انسان کے قدم ڈگمگاتے ہیں اور نہ یہ انسان کو گھڑے یا اونٹ پر سوار ہونے والے کی طرح ہلاتی ہے ، جھٹکے دیتی ہے ، اچھالتی ہے ، جس طرح ایک غیر ” ذلول “ جانور ایسا کرتا ہے۔ پھر یہ ایک ایسا جانور ہے کہ تابع جانور کی طرح دودھ دینے والی بھی ہے۔

یہ جانور یا یہ گولا جس کے اوپر ہم سوار ہیں ، یہ اپنے ارد گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ کے حساب سے چکر لگارہی ہے اور اس محوری رفتار کے ساتھ ساتھ یہ سورج کے گرد 56 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی دوڑ رہی ہے۔ پھر یہ زمین یہ سورج اور سورج کی پوری کہکشاں 02 ہزار میل فی گھنٹہ کے حساب سے آسمان کے برج جبار (VAST ORBTTA) کی سمت چلتے ہیں جس کا ایک چکر 62 کروڑ سال میں پورا ہوتا ہے۔ ان تمام رفتاروں کے باوجود ، ان تمام دوڑوں کے باوجود ہم بڑے آرام سے اس گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے ہوتے ہیں اور یہ گھوڑا بہت بڑا ” ذلول “ ہے۔ اس قدر سکون سے جارہا ہے کہ رفتار کا احساس بھی ہیں ہورہا ہے۔ بڑے سکون سے بیٹھا ہے۔ اس کے اعصاب پر کوئی دباﺅ نہیں ہے اور یہ نہیں ہورہا کہ اس سے گر کر اس کی بوٹی بوٹی اس کائنات میں بکھر جائے۔ اور اس گھوڑے کے اوپر سے انسان کبھی بھی نہیں گرتا۔

پھر یہ تین مختلف الاطراف حرکتوں میں یہ گھوڑا جتا ہوا ہے۔ ان میں دو حرکتوں ، یعنی حرکت محوری اور حرکت شمسی کے اثرات کو تو ہم جانتے ہیں۔ انسانوں پر بھی ان کا اثر ہے ، زمین پر بھی ان کا اثر ہے اور اس زمین پر پائی جانے والی زندگی پر بھی ان کا اثر ہوتا ہے۔ زمین کی گردش کی محوری کی وجہ سے لیل ونہار پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ہمیشہ رات ہوتی تو سردی کی وجہ سے تمام چیزیں جم جاتیں ، اور سورج کے گرد اس کا جو دورہ ہے اس سے موسم اور مختلف فصلوں کے اوقات کا تعین ہوتا ہے۔ اور اگر ایک ہی موسم رہتا تو زمین کی موجودہ شکل نہ ہوتی۔ رہی تیسری حرکت تو ابھی ہمیں اس کی حکمت کا علم نہیں ہوسکا اور یہ ضروری ہے کہ اس عظیم کائنات کے کسی عظیم تر نظام سے اس کا کوئی تعلق ہو۔ واللہ اعلم !

یہ گھوڑاجو بیک وقت ان مختلف اطراف میں یہ حرکات کررہا ہے اپنی اس حرکت کے دوران اپنی جگہ جما ہوا ہے یا جما ہو نظر آتا ہے۔ اور یہ اپنے محور پر 5 ئ 23 درجہ جھکا ہوا ہے۔ اور اس جھکاﺅ کے نتیجے ہی میں چار مختلف موسم پیدا ہوتے ہیں۔ یہ موسم زمین کی گردش شمسی کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اس حرکت میں ذرا بھی خلل آجائے تو ہمارا تمام موسمی نظام ، بارشوں کا نظام اور فصلیں اگنے کا نظام اور ماہ وسال کا نظام ختم ہوجائے ، بلکہ ممکن ہے کہ زمین پر سے زندگی ہی ناپید ہوجائے۔

اللہ نے زمین کو اس رطح انسان کے لئے سدھایا ہوا ہے کہ اس کے اندر جاذبیت کی ایسی مقداررکھی ہے کہ زمین انسان کو اپنے اوپر چپکائے رکھتی ہے اور تمام حرکات کے دوران انسان اس کے اوپر ادھر ادھر نہیں لڑھکتے۔ اسی طرح اس کے اوپر فضا کے دباﺅ کا نظام قائم کیا گیا ہے جس کی وجہ سے انسان بسبولت اس کے اوپر چل سکتا ہے۔ اگرچہ موجودہ فضائی دباﺅ ذرا بھی زیادہ ہوتا تو انسان کے لئے زمین کے اوپر چلنا ممکن ہی نہ رہتا یا چلنا ممکن بہت ہی مشکل ہوتا۔ زیادہ دباﺅ کی وجہ سے انسان چپک جاتا یا چلنے کے قابل نہ ہوتا۔ اور اگر موجود دباﺅ سے بھی اسے قدرے کم کردیا جاتا تو انسان فضا میں چھلانگیں لگاتا پھرتا اور اس کے قدم مضطرب ہوجاتے۔ یا اس کا پیٹ اندرونی دباﺅ سے پھٹ جاتا۔ کانوں کے پردے پھٹ جاتے۔ جس طرح ان لوگوں کو پیش آتا ہے جو بالائی فضا میں چلے جاتے ہیں اور ان کو موجودہ فضائی دباﺅ مصنوعی طور پر فراہم نہیں کیا جاتا۔

پھر اللہ نے موجودہ زمین کو مسخر کردیا۔ اس نے زمین کی سطح کو ہموار کردیا ہے اور اوپر سے اس پر نرم مٹی فراہم کردی ہے۔ اگر یہ زمین ایک مضبوط صحرا کی طرح ہوتی جس طرح سائنس دانوں نے یہ مقروضہ کیا ہے کہ یہ ٹھنڈی ہوکر ایک چٹان بن گئی تھی۔ تو اس پر چلنا بھی مشکل ہوتا اور اس کے اندر کوئی روئیدگی بھی نہ ہوتی ، لیکن فضائی عوامل ، ہوا ، گرمی ، سردی اور سارشوں نے ان سخت پتھروں کو توڑاپھوڑا اور اس طرح زمین پر یہ مٹی پیدا ہوئی ، جس کے اندر ہر قسم کی پیداوار ممکن ہوتی ہے ( اور اسی سے انسان بھی بنایا گیا) یوں اس سوار یکے سوار اس کا دودھ بھی پیتے ہیں۔

اور اللہ نے زمین کو اس طرح مسخر بنایا کہ اس کے اوپر جو ہوا جمع کی اس کے اندر انسان اور دوسری زندگی کی تمام ضروریات جمع کردیں۔ اور یہ ضروریات اس طرح باریک بینی کے ساتھ اس ہوا کے اندر رکھ دیں کہ اگر ان عناصر میں سے کوئی چیز ذرا بھی کم وبیش کردی جائے تو کرہ ارض کے اوپر سے تمام زندگی ختم ہوجائے۔ ہوا میں آکسیجن کی نسبت 12 ہے اور نائٹروجن 87 % ہے اور باقی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے اور دوسری گیسیں ہیں۔ اور یہ نسبت زمین پر زندگی کے قیام کے لئے لازمی ہے۔

پھر اللہ نے زمین کو انسانی زندگی کی ہزارہا ضروریات کے لئے موزوں قرار دیا۔ ان میں زمین کا موجودہ حجم ، سورج کا موجودہ حجم اور چاند کا موجودہ حجم سب کے سب سازگار ہیں۔ پھر شمس وقمر سے زمین کی موجودہ دوری ، سورج کا درجہ حرارت ، اور زمین کے چھلکے کا موجودہ موٹاپا اور زمین کی موجودہ رفتار ، زمین کا اپنے محور پر ایک طرف جھکا ہوا ہونا اور پھر خشکی اور تری کی موجودہ نسبت اور ہوا کی موجودہ کثافت اور یہ اس قسم کی دوسری چیزیں سب مل کر زمین کو انسان کے لئے مسخر کرتی ہے اور ذلول بناتی ہیں اور انہی چیزوں کی وجہ سے انسانوں کا رزق فراہم ہوا ہے اور ان سے مختلف حیوانات اور پھر انسان کو زندگی ملی ہے۔

یہ قرآنی آیت ان امور کی طرف اشارہ کررہی ہے تاکہ اسے ہر دور کا آدمی اپنی علمی استطاعت کے مطابق سمجھ سکے۔ جس قدر انسانی مشاہدہ آگے بڑھے گا۔ آیت کا مفہوم وسیع ہوتا جائے گا اور انسان یہ شعور تازہ کرتا رہے گا کہ سب بادشاہی اللہ کے ہاتھ ہی میں ہے۔ وہ ہر چیز کا نگہبان ہے۔ انسان کے پورے ماحول میں ہر چیز کا بھی نگہبان ہے۔ یہ زمین انسان کے لئے مسخرکردی گئی ہے۔ انسان کی حفاظت بھی اللہ کررہا ہے اور اگر کسی وقت اس کی نگہبانی اٹھ جائے تو یہ پورے کا پورا نظام یکلخت بگڑ جائے۔

جب انسانی ضمیر میں یہ بات بیٹھ گئی ، تو اللہ رحمن اور رحیم نے حکم دیا کہ اس زمین کی چھاتی پر گھومو پھرو اور اس کے اندر جو ارزاق رکھے ہوئے ہیں ان کو استعمال کرو۔

فامشوا .................... من رزقہ (76 : 51) ” چلو اس کی چھاتی پر اور کھاﺅ خدا کا رزق “۔ مناکب کے معنی ہیں اس کی بلندیاں یا اس کی پہلو۔ جب اللہ نے زمین کی بلندیوں اور پہلوﺅں کی اجازت دے دی تو اس کے میدان اور اس کی وادیوں میں پھرنے کی اجازت بھی اس میں آگئی اور اس کے اندر جو بھی رزق ہے وہ اللہ کا پیدا کردہ ہے۔ وہ کسی کا مال نہیں ہے ، جو کسی کے ہاتھ میں ہو ، یہ سب اس کی ملکیت میں ہے۔ اور اس کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے ، اس سے جو بالعموم لوگوں کے ذہن میں آتا ہے ، لفظ رزق سے۔ اس سے صرف وہ مال مراد نہیں ہے و کسی کے قبضے میں ہوتا کہ وہ اس سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ اس رزق سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جو انسان کے لئے رزق کے اسباب ہیں اور جو اس زمین کے اندر ودیعت کی ہوئی ہیں۔ وہ تمام عناصر جن سے یہ زمین بنائی گئی ہے اور وہ تمام عناصر جن کے استعمال کے لئے اللہ نے نباتات ، حیوانات اور انسانوں کو اہل بنایا۔ اس رزق کی تشریح جدید علوم ناے خوب کردی ہے مختصراً اس کی نوعیت یوں ہے :

” ہر پودے کی زندگی ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کے چھوٹے ذرات مالیکیولزئزوزرات پر موقوف ہے جو ہوا میں ہوتے ہیں۔ جن کو یہ پودا سانس لے کر کذب کرتا ہے۔ یہ ایک کیمیاوی عمل ہے جو سورج کی روشنی میں مکمل ہوتا ہے ، یوں سمجھنا چاہئے کہ درختوں کے پتے دراصل درختوں کے پھیپھڑے ہیں۔ سورج کی روشنی میں پودے اس قابل ہوتے ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کریں اور کاربن کو آکسیجن سے علیحدہ کردیں اور آکسیجن کو واپس کردیں اور کاربن کو ہائیڈروجن کے ساتھ ملا کر ، جسے جڑوں کے ذریعہ پودا پانی کی شکل میں اخذ کرتا ہے ، (جہاں پانی کی آکسیجن اور ہائیڈرون کی علیحدگی ہوجاتی ہے) اور پھر نہایت ہی حیران کن انداز سے قدرت ان عناصر سے شکر اور نامیاتی ریشے اور متعدد دوسرے کیمیاوی مواد تیار کرتی ہے ، جس سے پھل اور پھول تیار ہوتے ہیں اور جس مواد سے پودا اپنی غذا بھی لیتا ہے اور روئے زمین کے تمام دوسرے حیوانات کے لئے غذا تیار بھی کرتا ہے ، اور اس دوران یہ پودا جو آکسیجن سانس کے ذریعہ کھینچتا ہے اسے نکال دیتا ہے ، جس کے بغیر پانچ سیکنڈ کے اندر اندر زندگی ختم ہوجاتی ہے “۔

” اسی طرح معلوم ہوتا ہے تمام نباتات ، تمام جنگلات ، تمام جھاڑیاں پانی پر پائی جانے والی کائی ، تمام فصلیں دراصل کاربن اور پانی سے تشکیل پاتی ہیں۔ حیوانات اور انسان کاربن ڈائی آکسائیڈ سے نکالتے ہیں اور نباتات آکسیجن نکالتے ہیں۔ اگر یہ تبادلہ نہ ہوتا تو انسان زندگی اور حیوانی زندگی سب آکسیجن اور سب کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آخر کار ختم کردیتے اور جب یہ توازن ختم ہوجاتا تو پودے جھلس جاتے اور انسان مرجاتے۔ حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ایک قلیل مقدار حیوانات کی زندگی کے لئے ضروری ہے جبکہ نباتات کو بھی آکسیجن کی قلیل مقدار کی ضرورت ہوتی ہے “۔

” اگرچہ ہم ہائیڈروجن کو سانس کے ذریعے نہیں جذب کرتے۔ لیکن اس کا وجود بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر پانی موجود نہیں ہوتا اور پانی انسانی اور حیوانی زندگی کے لئے نباتات کے لئے اس قدر ضروری ہے کہ اس کے بغیر انسانوں اور حیوانوں کی زندگی ممکن ہی نہیں “۔ (” سائنس ایمان کی دعوت دیتی ہے “ ترجمہ محمود صالح فلکی ص 02 ، 12) ۔

اسی طرح نائٹروجن کا بھی زمین کے رزق کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔

” نائٹروجن کے بغیر کوئی غذائی پودا نشوونما نہیں پاسکتا۔ اسے کسی نہ کسی طرح نائٹروجن ملنا چاہئے۔ زرعی زمین میں نائٹروجن کے داخل ہونے کے دو طریقے ہیں۔ یہ کہ ایک خاص قسم کا بیکٹریا یعنی (جراثیم) سبزی نما نباتات کی جڑوں میں رہتے ہیں۔ شفتل ، چنا ، لوبیا وغیرہ کی جڑوں میں۔ یہ جراثیم خالص نائٹروجن حاصل کرتے ہیں مثلاً ہوا اسے اور ان کو مرکب شکل میں زمین میں چھوڑتے ہیں اور پھر پودا اس کو اپنے اندر جذب کرسکتا ہے۔ جب یہ پودا مرجاتا ہے تو یہ مرکب نائٹروجن زمین کے اندر ہی رہ جاتا ہے “۔

” ایک طریقہ دوسرا بھی ہے ، جس کے ذریعہ نائٹروجن زمین میں داخل ہوجاتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب ایسی ہوائیں چلتی ہیں جن میں بجلی چمکتی ہے۔ ہواﺅں کے اندر جب بھی چمکتی ہے تو کسی آکسیجن اور نائٹروجن کو متحد کردیتی ہے۔ اور بارش اسے زمین پر ایک مرکب نائٹروجن کے طور پر پھینک دیتی ہے۔ اس صورت میں کہ پودے ان کو جذب کرسکیں “۔

کیونکہ پودے خالص نائٹروجن کو اپنے اندر جذب نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ ہوا میں اس کی نسبت 87 % ہوتی ہے “۔ (” سائنس ایمان کی دعوت دیتی ہے “ ترجمہ محمود صالح فلکی ص 02 ، 12) ۔

اور زمین کے اندر جو جامد اور سیال رزق موجود ہے یہ سب زمین اس کے حالات رزق کے ساتم متعلق ہے۔

یہاں اندر کے ارزاق کی تشریحات کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ الفظ رزق کا مفہوم یہاں بہت ہی وسیع ہے اور بہت ہی گہرا ہے۔ اور جب اللہ ہمیں اجازت دیتا ہے کہ تم زمین میں پھرو اور رزق تلاش کرو کہ تمہارے لئے زمین کو مسخر کیا گیا ہے تو یہ سب اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں اور ہمیں اجازت ہے۔ جس قدر انسان اس سے استعفادہ کرسکے۔

فامشوا ............................ من رزقہ (76 : 51) ” چلو اس کی چھاتی پر اور کھاﺅ خدا کا رزق “۔

لیکن یہ اجازت ایک متعین وقت تک کے لئے ہے اور وقت کا تعین کردیا گیا ہے جو اللہ کے علم میں ہے۔ اللہ کی تدبیر کائنات کے مطابق ہے۔ زندگی اور موت کے عرصہ ابتلا تک کھاﺅ لیکن اس کے بعد۔

والیہ النشور (76 : 51) ” اسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے “۔ اسی کی طرف جانا اور اگر تم نہیں مانتے تو بتاﺅ کس کی طرف جانا ہے ؟ اس کے سوا جائے پناہ تو کہیں بھی نہیں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

ابھی انسان اس زمین کی پشت پر اور اس کے اندر اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہی ہورہا تھا اور اللہ کے حکم سے زمین پر چل کر نعمتیں سمیٹ رہا تھا کہ اچانک اس سدھائی ہوئی تابعداد زمین کے اندر ایک جنبش پیدا ہوتی ہے اور اس کا یہ توازن اور رفتار یکدم ختم ہوجاتی ہے۔ اب یہی پر سکون زمین ان پر بمباری کررہی ہے اور پہاڑ گرارہی ہے۔ ان کے احساس اور تصورات میں ایک زلزلہ برپا کردیا جاتا ہے تاکہ یہ لوگ زمین کے قرار و سکون اور نعمتوں سے لطف اندوز ہونے میں ہی مگن نہ ہوجائیں اور ذرا اس بادشاہ کی طف بھی دیکھیں جس نے اس نظام کو قائم کررکھا ہے ، اپنے دلوں اور سوچوں کو اللہ کے ساتھ مربوط رکھیں۔

آیت 15{ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَـکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا } ”وہی ہے جس نے تمہارے لیے بنا دیا ہے زمین کو پست“ اس نے زمین کو تمہارے ماتحت اور تابع حکم کر رکھا ہے۔ { فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا } ”تو تم چلو پھرو اس کے کندھوں کے مابین“ زمین کے کندھوں سے مراد اس کے وہ میدان ہیں جو انسان کو بہت وسیع اور کشادہ نظر آتے ہیں۔ جیسے ایک چیونٹی اگر ہاتھی کے کندھوں کے درمیان چل پھر رہی ہوگی تو ظاہر ہے اس جگہ کو وہ بہت وسیع میدان سمجھے گی۔ { وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖط وَاِلَـیْہِ النُّشُوْرُ۔ } ”اور اس کے دیے ہوئے رزق سے کھائو پیو ‘ اور یاد رکھو کہ تم نے اسی کی طرف زندہ ہو کر جانا ہے۔“

آیت 15 - سورۃ الملک: (هو الذي جعل لكم الأرض ذلولا فامشوا في مناكبها وكلوا من رزقه ۖ وإليه النشور...) - اردو