سورۃ المجادلہ: آیت 9 - يا أيها الذين آمنوا إذا... - اردو

آیت 9 کی تفسیر, سورۃ المجادلہ

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا تَنَٰجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَٰجَوْا۟ بِٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ وَمَعْصِيَتِ ٱلرَّسُولِ وَتَنَٰجَوْا۟ بِٱلْبِرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ٱلَّذِىٓ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم آپس میں پوشیدہ بات کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو اور اُس خدا سے ڈرتے رہو جس کے حضور تمہیں حشر میں پیش ہونا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo itha tanajaytum fala tatanajaw bialithmi waalAAudwani wamaAAsiyati alrrasooli watanajaw bialbirri waalttaqwa waittaqoo Allaha allathee ilayhi tuhsharoona

آیت 9 کی تفسیر

یایھا الذین .................... المومنون (01) (85 : 9۔ 01)

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب تم آپس میں پوشیدہ بات کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی باتیں نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس کے حضور تمہیں حشر میں پیش ہونا ہے۔ کانا پھوسی تو ایک شیطانی کام ہے ، اور وہ اس لئے کی جاتی ہے کہ ایمان لانے والے لوگ اس سے رنجیدہ ہوں ، حالانکہ بےاذن خدا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچاسکتی ، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ “

معلوم ہوتا ہے ابتدائی زمانے میں جب کہ لوگوں میں ابھی تک اسلامی جماعت کا صحیح شعور اور احساسات پیدا نہ ہوئے تھے ، بعض مسلمان اجتماعی معاملات میں اپنی قیادت کے ساتھ مشورہ کیے بغیر ہی ، باہم اجتماعی مشورہ شروع کردیتے تھے۔ یہ لوگ ابھی اسلامی تنظیم کی روح سے واقف نہ تھے ، جس کے مطابق سب سے پہلے ہر مشورہ وبصورت تجویز پہلے قیادت کے سامنے آنا چاہئے اور اسلامی قیادت کے علاوہ کوئی نجویٰ نہیں ہونا چاہئے۔ معلوم ہوتا ہے اس دور میں بعض مسلمان اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ، جب ایسے مشورے کرتے تھے تو اس سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی تھیں اور اس سے جماعت مسلمہ کو تکلیف پہنچتی تھی اگر چہ مشورہ کرنے والوں کی ایسی نیت نہ ہوتی تھی۔ لیکن ان لوگوں کی طرف سے محض ایسے مسائل اٹھا دینا ہی جماعت کے لئے ایذا کا باعث بن جاتا اور اس سے اجتماعی پالیسی کی نافرمانی ہوجاتی۔

یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کو لقب ایمان سے پکارا جاتا ہے ، جو ان کی جدید اجتماعیت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

یایھا ................ امنوا (85 : 9) ” اے لوگ ، جو ایمان لائے ہو “ ایسے مشورے نہ کرو جو گناہوں ، اور حدود سے متجاوز ہوں ، اور جن سے رسول اللہ ﷺ کی معصیت لازم آتی ہو۔ اور یہ بھی بیان کردیا جاتا ہے کہ اہل ایمان کن امور پر مشورہ کرسکتے ہیں۔

وتنا ................ والتقوٰی (85 : 9) ” بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتوں پر مشورہ کرو۔ “ نیکی اور تقویٰ کے بارے میں وسائل وتدابیر اختیار کرنے کے لئے بیشک تم مشورے کرو ، البر : یعنی عام بھلائی ، التقوی : بیداری اور اللہ کو حاضروناظر سمجھتے ہوئے ڈرنا۔ اس قسم کا تقویٰ صرف بھلائی ہی سکھاتا ہے۔ پھر صراحت کے ساٹھ ان کو کہا جاتا ہے کہ ، اس اللہ سے ڈرو جس کی طرف تم نے پلٹ کر جانا ہے۔ وہ وہاں تمہارے سب کیے پر تم سے حساب لے گا۔ وہ اس پورے ریکارڈ کو تیار کرنے والا اور اس پر گواہ بھی ہوگا۔ چاہے جس قدر بھی تم چھپاؤ اور خفیہ رکھو۔

امام احمد نے روایت کی ہے بہز اور عفان سے ، ان دونوں نے ھمام سے ، انہوں نے قتادہ سے ، انہوں نے صفوان ابن محرز سے ، یہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ، کہ ا کی شخص نے ان سے پوچھا : ” تم نے نجویٰ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کیا سنا کہ قیامت میں اس کے بارے میں کیا ہوگا ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ سے یہ کہتے سنا کہ : ” اللہ ایک مومن کے قریب ہوگا۔ اس پر اپنے دونوں ہاتھ یوں رکھے گا کہ وہ لوگوں سے چھپ جائے گا۔ اور اس کے گناہوں کا اس سے اقرار لے گا اور کہے گا تمہیں فلاں فلاں گناہ معلوم ہیں۔ یہاں تک کہ جب اس کے پورے گناہ اسے یاد دلادیئے اور اقرار لے لیا ، اور اس شخص نے یہ سوچ لیا کہ اب تو وہ مارا گیا تو اس کے بعد اللہ فرمائے گا اچھا ، دنیا میں تو میں نے ان گناہوں کو چھپا دیا تھا اور آج میں تمہارے لئے ان سب کو معاف کرتا ہوں۔ اس کے بعد اللہ اس کو اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ دے گا۔ رہے کفار اور منافقین تو ان کے علاوہ پیش ہونے والے گواہ کہیں گے ، اے رب یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا ، لعنت ہے ظالموں پر۔ (بخاری)

اس کے بعد مومنین کو نجویٰ ، افواہیں پھیلانے اور خفیہ سازشوں سے منع کیا جاتا ہے۔ جماعت سے الگ خفیہ طور پر کوئی مشورہ نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اہل ایمان اس جماعت کا حصہ ہیں ، ان کی مصلحت اور جماعت کی مصلحت ایک ہے۔ ان کو کسی معاملے میں جماعت سے جدا نہیں ہونا چاہئے۔ اور ان سے کہا جاتا ہے کہ مومنین جب دیکھیں کہ کچھ لوگ الگ کانا پھوسی کررہے ہیں ، اور الگ مشورے ہورہے ہیں تو اس طرح اہل ایمان کو شک ، پریشانی اور حزن وملال ہوگا اور بداعتمادی کی فضا پیدا ہوگی۔ شیطانی کاوش ہی یہ ہے کہ وہ اس قسم کے نجویٰ کرنے والوں کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے تا کہ وہ نجویٰ کرکے جماعت مسلمہ کو پریشان کریں حالانکہ وہ ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

انما ........................ المومنون (85 : 01) ” کانا پھوسی تو ایک شیطانی کام ہے ، اور وہ اس لئے کی جاتی ہے کہ ایمان لانے والے لوگ اس سے رنجیدہ ہوں ، حالانکہ بےاذن خدا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی ، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ “ کوئی مومن اللہ کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتا۔ کیونکہ اللہ کے سوا کسی پر بھروسہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اور نہ کوئی ایسی ہستی ہے۔

احادیث میں آتا ہے کہ ایسے حالات میں کانا پھوسی نہیں کرنا چاہئے جس کی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوں اور مسلمانوں کا باہم اعتماد مجروح ہو اور دلوں کے اندیشے پیدا ہوں۔

اعمق حضرت عبداللہ ابن مسعود حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت کرتے ہیں :” اگر تم سے کوئی دو تیسرے کے سوا الگ ہو کر مشورہ نہ کرے ، کیونکہ اس بات سے وہ دل گیر ہوگا “ یہ اسلامی جماعت کے بہترین آداب ہیں۔ اور اگر ایسے آداب کو ملحظو رکھا جائے تو شکوک و شبہات کی گنجائش ہی نہ رہے گی۔ ہاں اگر راز رکھنے کی مصلحت درپیش ہو ، یا کسی کی پردہ داری مطلوب ہو ، یا کسی مخصوص شخص کے معاملات میں بات ہورہی ہو یا کسی عمومی بحث میں پردہ داری مطلوب ہو تو پھر بند کمرے میں بات کرنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اور ایسی صورت مشروہ جماعت کے قائدین کے درمیان ہوا کرتی ہے۔ لیکن کوئی اکٹھ ایسا نہ ہو کہ جسے جماعت اندر جماعت کہا جاسکے یا جو جماعت کے علم کے بغیر ہو ۔ اس قسم کے نجویٰ سے قرآن اور سنت نے منع کیا ہے اور اس قسم کے نجویٰ سے جماعتوں کے اندر افتراق اور ان کی صفوں میں شکوک پیدا ہوتے ہیں اور یہ وہ بیماری ہے جس کو شیطان بڑے اہتمام سے پھیلاتا ہے تاکہ ایمان والوں کے درمیان عدم اطمینان پھیلا دے۔ اور اللہ نے یہاں فیصلہ کردیا ہے کہ وہ جماعت مسلمہ کو کبھی نقصان نہیں دے سکتا۔ اس لئے کہ مومنین کی جماعت کا نگران ، نگہبان اور چوکیدار اللہ بذات خود ہے اور اللہ ہر نجویٰ میں حاضر وموجود ہوتا ہے۔ اور ایسے مشوروں میں جو سازشیں ہوتی ہیں اللہ ان کو مومنین کے لئے بےضرر بنا دیتا ہے۔

الا باذن اللہ (85 : 01) ” اللہ کے اذن کے سوا “۔ جہاں بھی کوئی حتمی اور جزمی وعدہ اور فیصلہ ہو وہاں اس قسم کی استثنا ہوتی ہے ، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ خود اپنے فیصلوں کا پابند نہیں ہے۔ لہٰذا اللہ جو چاہے کرے ، اگر اللہ چاہے کہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔

وعلی ................ المومنون (85 : 01) ” اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ “ اللہ ہی بچانے والا اور حامی ہے۔ وہی قوی اور عزیز ہے ، وہی علیم وخبیر ہے ، وہی شاہد اور حاضر ہے ، اور اس کائنات میں وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ اور اللہ نے یہ وعدہ کرلیا ہے کہ وہ مومنوں کو بچائے گا تو اس کے بعد مومنوں کے لئے کیا شک رہ جاتا ہے اس لئے وہ بےفکر ہوجاتے ہیں۔

اس کے بعد اہل ایمان کو ایک دوسرا اجتماعی ادب سکھایا جاتا ہے۔

آیت 9{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ } ”اے اہل ایمان ! اگر تمہیں کوئی سرگوشی کرنی ہو“ { فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ } ”تو گناہ ‘ زیادتی اور رسول ﷺ کی نافرمانی کی باتوں سے متعلق ہرگز سرگوشی نہ کرو“ اگر تم میں سے چند لوگوں کا علیحدہ بیٹھ کر کوئی گفتگو یا منصوبہ بندی کرنا ناگزیر ہو تو یاد رکھو ‘ تمہاری اس خفیہ بات چیت یا سرگوشی کا موضوع ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے جس سے گناہ ‘ کسی پر زیادتی یا اللہ کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا کوئی پہلو نکلتاہو۔ { وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوٰی } ”ہاں تم نیکی اور تقویٰ کے بارے میں سرگوشی کرسکتے ہو۔“ کسی کو علیحدگی میں لے جا کر کوئی اچھا مشورہ دینا ہو ‘ نیکی کے کسی کام کا بتانا ہو ‘ یا صدقہ و خیرات کی تلقین کرنی ہو تو ایسی سرگوشیوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ { وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اِلَـیْہِ تُحْشَرُوْنَ۔ } ”اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کی طرف تمہیں جمع کیا جائے گا۔“

آیت 9 - سورۃ المجادلہ: (يا أيها الذين آمنوا إذا تناجيتم فلا تتناجوا بالإثم والعدوان ومعصيت الرسول وتناجوا بالبر والتقوى ۖ واتقوا الله الذي إليه...) - اردو