سورۃ المجادلہ (58): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Mujaadila کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المجادلة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المجادلہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Mujaadila
سُورَةُ المُجَادلَةِ
صفحہ 543 (آیات 7 سے 11 تک)

أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَٰثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَآ أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا۟ ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا۟ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ نُهُوا۟ عَنِ ٱلنَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا۟ عَنْهُ وَيَتَنَٰجَوْنَ بِٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ وَمَعْصِيَتِ ٱلرَّسُولِ وَإِذَا جَآءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ ٱللَّهُ وَيَقُولُونَ فِىٓ أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا ٱللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا تَنَٰجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَٰجَوْا۟ بِٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ وَمَعْصِيَتِ ٱلرَّسُولِ وَتَنَٰجَوْا۟ بِٱلْبِرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ٱلَّذِىٓ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ إِنَّمَا ٱلنَّجْوَىٰ مِنَ ٱلشَّيْطَٰنِ لِيَحْزُنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَلَيْسَ بِضَآرِّهِمْ شَيْـًٔا إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُؤْمِنُونَ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا۟ فِى ٱلْمَجَٰلِسِ فَٱفْسَحُوا۟ يَفْسَحِ ٱللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ ٱنشُزُوا۟ فَٱنشُزُوا۟ يَرْفَعِ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنكُمْ وَٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْعِلْمَ دَرَجَٰتٍ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
543

سورۃ المجادلہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المجادلہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

کیا تم کو خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اللہ کو علم ہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے اندر چھٹا اللہ نہ ہو خفیہ بات کرنے والا خواہ اِس سے کم ہوں یا زیادہ، جہاں کہیں بھی وہ ہوں، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے پھر قیامت کے روز وہ ان کو بتا دے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara anna Allaha yaAAlamu ma fee alssamawati wama fee alardi ma yakoonu min najwa thalathatin illa huwa rabiAAuhum wala khamsatin illa huwa sadisuhum wala adna min thalika wala akthara illa huwa maAAahum ayna ma kanoo thumma yunabbiohum bima AAamiloo yawma alqiyamati inna Allaha bikulli shayin AAaleemun

آیت 7{ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ } ”کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ جانتا ہے اس سب کچھ کے بارے میں جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے ؟“ { مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوٰی ثَلٰـثَۃٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ } ”نہیں ہوتے کبھی بھی تین آدمی سرگوشیاں کرتے ہوئے مگر ان کا چوتھا وہ اللہ ہوتا ہے“ { وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ } ”اور نہیں سرگوشی کر رہے ہوتے کوئی پانچ افراد مگر ان کا چھٹا وہ اللہ ہوتا ہے“ خفیہ انداز میں سرگوشیاں کرنے کو ”نجویٰ“ کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے یہاں پر ضمنی طور پر یہ بھی سمجھ لیں کہ کسی تنظیم یا جماعت کے اندر نجویٰ کا رجحان یا رواج گروہ بندیوں اور فتنوں کا باعث بنتا ہے۔ کسی بھی اجتماعیت کے افراد میں باہم اختلافِ رائے کا پایا جانا تو بالکل ایک فطری تقاضا ہے ‘ جہاں اجتماعیت ہوگی وہاں لوگ ایک دوسرے کی آراء سے اختلاف بھی کریں گے۔ لیکن ایسے اختلافات کا اظہار اجتماعیت کے قواعد و ضوابط کے مطابق متعلقہ فورم پر کیا جانا چاہیے۔ اس کے برعکس عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ تخریبی ذہنیت کے حامل کچھ ارکان اپنے اپنے اختلاف کا اظہار نجویٰ کی صورت میں دوسرے ساتھیوں سے کرنا شروع کردیتے ہیں۔ بات آگے بڑھتی ہے تو چند افراد پر مشتمل ایک مخصوص لابی بن جاتی ہے اور یوں تنظیم یا جماعت کے اندر باقاعدہ گروہ بندی کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ اگر اختلافات کا اظہار مناسب فورم پر ہو تو کھلی اور تعمیری بحث کا نتیجہ ہمیشہ مثبت رہتا ہے۔ اس سے غلط فہمیاں ختم ہوجاتی ہیں ‘ ابہام دور ہوجاتا ہے اور اصل حقیقت واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ بہرحال نجویٰ سرگوشیوں کی حیثیت اجتماعیت کے لیے سم ِقاتل کی سی ہے اور اگر یہ زہر کسی جماعت کی صفوں میں سرایت کر جائے تو اس کا اتحاد پارہ پارہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ { وَلَآ اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا } ”اور نہیں ہوتے وہ اس سے کم یعنی دو افراد سرگوشی میں مصروف اور نہ اس سے زیادہ مگر یہ کہ وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی وہ ہوں۔“ سورة الحدید کی آیت 4 میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان ہوا ہے : { وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْج } ”اور تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔“ { ثُمَّ یُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ } ”پھر وہ ان کو جتلا دے گا قیامت کے دن جو کچھ بھی انہوں نے عمل کیا تھا ‘ یقینا اللہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔“

اردو ترجمہ

کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کر دیا گیا تھا پھر بھی وہ وہی حرکت کیے جاتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا؟ یہ لوگ چھپ چھپ کر آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں کرتے ہیں، اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں اُس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تم پر سلام نہیں کیا ہے اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری اِن باتوں پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا اُن کے لیے جہنم ہی کافی ہے اُسی کا وہ ایندھن بنیں گے بڑا ہی برا انجام ہے اُن کا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara ila allatheena nuhoo AAani alnnajwa thumma yaAAoodoona lima nuhoo AAanhu wayatanajawna bialithmi waalAAudwani wamaAAsiyati alrrasooli waitha jaooka hayyawka bima lam yuhayyika bihi Allahu wayaqooloona fee anfusihim lawla yuAAaththibuna Allahu bima naqoolu hasbuhum jahannamu yaslawnaha fabisa almaseeru

آیت 8{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نُہُوْا عَنِ النَّجْوٰی ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُہُوْا عَنْہُ } ”کیا تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنہیں منع کیا گیا تھا نجویٰ سے ‘ پھر وہ اعادہ کر رہے ہیں اسی شے کا جس سے انہیں منع کیا گیا تھا“ یہ مدینہ کے منافقین کا ذکر ہے جو یہودیوں کے ساتھ مل کر ہر وقت مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال ُ بننے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔ یہاں الَّذِیْنَ نُہُوْا عَنِ النَّجْوٰیکے الفاظ میں سورة النساء کی آیت 114 کے اس حکم کی طرف اشارہ ہے : { لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰٹھُمْ } کہ ان لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں خیر کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ آیت زیر مطالعہ میں سورة النساء کی آیت کے حوالے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سورة المجادلہ ‘ سورة النساء کے بعد نازل ہوئی۔ { وَیَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ } ”اور وہ سرگوشیاں کرتے ہیں گناہ ‘ زیادتی اور رسول ﷺ کی نافرمانی سے متعلق۔“ قبل ازیں سورة النساء کے مطالعے کے دوران بھی ذکر ہوچکا ہے کہ حضور ﷺ کی ذاتی اطاعت کا حکم منافقین کو بہت برا لگتا تھا۔ اس حوالے سے ان کا موقف یہ تھا کہ ہم اللہ کی اطاعت بھی کرتے ہیں ‘ اللہ کی کتاب کے تمام احکام بھی تسلیم کرنے کو تیار ہیں ‘ لیکن اپنے جیسے ایک انسان کی تمام باتوں کو من وعن تسلیم کرنے کو ہم ضروری نہیں سمجھتے۔ اسی سوچ اور اسی موقف کے تحت وہ لوگ حضور ﷺ کے فیصلوں پر گاہے بگاہے اعتراضات بھی کرتے رہتے تھے۔ ان کے ایسے ہی ایک اعتراض کا ذکر سورة محمد کی آیت 20 میں بھی آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے قتال کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا تو قریش کے ساتھ خواہ مخواہ چھیڑ چھاڑ شروع کر کے حالات کیوں خراب کیے جا رہے ہیں ؟ { وَاِذَا جَآئُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ } ”اور جب وہ آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں تو آپ ﷺ کو اس کلمہ سے دعا دیتے ہیں جس سے اللہ نے آپ ﷺ کو دعا نہیں دی“ ”تَحِیَّۃ“ کے لغوی معنی کسی کو زندگی کی دعا دینے کے ہیں۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ ایک دوسرے سے ملتے وقت ”حَیَّاکَ اللّٰہُ“ کے جملے کا تبادلہ کرتے تھے۔ اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اچھی زندگی دے ‘ یا اللہ تعالیٰ تمہاری زندگی دراز کرے۔ عرفِ عام میں اس دعا کو ”تحیہ“ کہا جاتا تھا۔ اسلام نے دو مسلمانوں کی ملاقات کے موقع کے لیے دعائیہ کلمہ greetings کے طور پر السَّلام علیکم کے الفاظ کا انتخاب کیا ‘ لیکن تحیہ کا لفظ عربوں کے ہاں چونکہ بہت معروف تھا اس لیے ”السَّلام علیکم“ کو بھی اصطلاحاً ”تحیہ“ ہی کہا جانے لگا۔ سورة النساء کی آیت 86 میں یہ لفظ ”السَّلام علیکم“ ہی کے مفہوم میں آیا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں منافقین کی اس شرارت کا ذکر ہے جو وہ اس کلمہ تحیہ کے حوالے سے کرتے تھے۔ جب وہ حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوتے تو السَّلَام علَیکمکہنے کے بجائے ”السّام علیکم“ کہتے۔ ”سام“ کے معنی موت کے ہیں اور اس طرح اپنی طرف سے وہ لوگ حضور ﷺ اور آپ ﷺ کی محفل میں موجود مسلمانوں کے لیے اس دعائیہ کلمہ کو معاذ اللہ ! بددعا میں بدل دیتے تھے۔ { وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ } ”اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا ہمارے اس طرح کہنے پر ؟“ ایسی حرکت کرنے کے بعد وہ سوچتے کہ اگر محمد ﷺ اللہ کے رسول ہوتے تو اللہ ان کی یہ توہین کبھی برداشت نہ کرتا اور اس گستاخی پر وہ فوراً ہماری زبانیں کھینچ لیتا۔ چناچہ ہمارے بار بار ایسا کہنے پر بھی اگر ہمیں کچھ نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔ یہ مرض منافقت کی وہ سٹیج ہے جس کا ذکر سورة الحدید کی آیت 14 میں آچکا ہے۔ اس سٹیج پر منافق شخص کے بچے کھچے ایمان میں شکوک و شبہات کے کانٹے چبھنے لگتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایمان کی تھوڑی بہت پونجی بھی برف کی طرح پگھلنے اور ضائع ہونے لگتی ہے۔ { حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ یَصْلَوْنَہَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔ } ”ان کے لیے تو اب جہنم ہی کافی ہے ‘ یہ اس میں داخل ہوں گے ‘ پس وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم آپس میں پوشیدہ بات کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو اور اُس خدا سے ڈرتے رہو جس کے حضور تمہیں حشر میں پیش ہونا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo itha tanajaytum fala tatanajaw bialithmi waalAAudwani wamaAAsiyati alrrasooli watanajaw bialbirri waalttaqwa waittaqoo Allaha allathee ilayhi tuhsharoona

آیت 9{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ } ”اے اہل ایمان ! اگر تمہیں کوئی سرگوشی کرنی ہو“ { فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ } ”تو گناہ ‘ زیادتی اور رسول ﷺ کی نافرمانی کی باتوں سے متعلق ہرگز سرگوشی نہ کرو“ اگر تم میں سے چند لوگوں کا علیحدہ بیٹھ کر کوئی گفتگو یا منصوبہ بندی کرنا ناگزیر ہو تو یاد رکھو ‘ تمہاری اس خفیہ بات چیت یا سرگوشی کا موضوع ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے جس سے گناہ ‘ کسی پر زیادتی یا اللہ کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا کوئی پہلو نکلتاہو۔ { وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوٰی } ”ہاں تم نیکی اور تقویٰ کے بارے میں سرگوشی کرسکتے ہو۔“ کسی کو علیحدگی میں لے جا کر کوئی اچھا مشورہ دینا ہو ‘ نیکی کے کسی کام کا بتانا ہو ‘ یا صدقہ و خیرات کی تلقین کرنی ہو تو ایسی سرگوشیوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ { وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اِلَـیْہِ تُحْشَرُوْنَ۔ } ”اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کی طرف تمہیں جمع کیا جائے گا۔“

اردو ترجمہ

کانا پھوسی تو ایک شیطانی کام ہے، اور وہ اس لیے کی جاتی ہے کہ ایمان لانے والے لوگ اُس سے رنجیدہ ہوں، حالانکہ بے اذن خدا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama alnnajwa mina alshshaytani liyahzuna allatheena amanoo walaysa bidarrihim shayan illa biithni Allahi waAAala Allahi falyatawakkali almuminoona

آیت 10{ اِنَّمَا النَّجْوٰی مِنَ الشَّیْطٰنِ } ”یہ نجویٰ تو شیطان کی طرف سے ہے“ منفی سرگوشیاں کرنا ایک شیطانی عمل ہے۔ جو لوگ اس میں ملوث ہوتے ہیں انہیں اس کی تحریک و ترغیب شیطان ہی کی طرف سے ملتی ہے۔ { لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } ”تاکہ وہ اہل ایمان کو رنجیدہ کرے“ ان لوگوں کی سرگوشیوں اور خفیہ ملاقاتوں کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اہل ایمان کو نقصان پہنچا کر انہیں رنجیدہ ‘ دل گرفتہ اور پریشان کریں۔ آیت کے ان الفاظ سے یہ مفہوم بھی متبادر ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کی محفل سے الگ جا کر کھسر پھسر اور سرگوشیاں اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے اس عمل کو دیکھ کر مسلمان پریشان ہوں کہ یہ لوگ الگ بیٹھ کر ان کے خلاف نہ جانے کیا سازشیں کر رہے ہیں۔ گویا یہ لوگ ایک نفسیاتی حربے کے طور پر بھی نجویٰ کرتے تھے۔ ظاہر ہے جب بھری محفل سے تین چار لوگ الگ جا کر بیٹھ جائیں اور کھسر پھسر کرنا شروع کردیں تو اہل محفل کو فطری طور پر تجسس تو ہوگا کہ ہو نہ ہو یہ لوگ ضرور انہی کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ { وَلَـیْسَ بِضَآرِّہِمْ شَیْئًا اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ } ”حالانکہ یہ شیطان انہیں کچھ بھی ضرر پہنچانے پر قادر نہیں مگر اللہ کے اذن سے۔“ شیطان اپنے ارادے اور اختیار سے اہل ایمان کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا۔ البتہ اگر اللہ کی طرف سے کسی کے لیے کوئی تکلیف یا آزمائش طے ہے تو وہ ضرور آئے گی ‘ اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ { وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ } ”اور اہل ایمان کو صرف اللہ پر توکل ّکرنا چاہیے۔“ اہل ایمان کو بھروسہ رکھنا چاہیے کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور شیطانی حربوں یا دشمنوں کی سازشوں سے ان کا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔ اسی بھروسے کے ساتھ انہیں ہر وقت اپنے فرائض کی بجاآوری کے لیے کمربستہ رہنا چاہیے۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو جگہ کشادہ کر دیا کرو، اللہ تمہیں کشادگی بخشے گا اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo itha qeela lakum tafassahoo fee almajalisi faifsahoo yafsahi Allahu lakum waitha qeela onshuzoo faonshuzoo yarfaAAi Allahu allatheena amanoo minkum waallatheena ootoo alAAilma darajatin waAllahu bima taAAmaloona khabeerun

آیت 1 1{ یٰٓـــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِیْلَ لَـکُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰہُ لَـکُمْ } ”اے مسلمانو ! جب تمہیں کہا جائے کہ مجالس میں کھل کر بیٹھو تو کھل جایا کرو ‘ اللہ تمہارے لیے کشادگی پیدا کر دے گا۔“ یہ سمجھانے کا بہت عمدہ انداز ہے۔ یہ نصیحت بھی دراصل منافقین کے ایک مخصوص طرزعمل کی وجہ سے کی جارہی ہے۔ منافقین کا یہ وطیرہ تھا کہ وہ حضور ﷺ کی محفلوں میں ٹولیوں کی صورت میں باہم جڑکر بیٹھتے تھے تاکہ درمیان میں کوئی اور سچا مسلمان نہ بیٹھ سکے۔ ایسے الگ حلقے بنا کر محفل کے دوران وہ حضور ﷺ کے فرمودات پر اپنی مرضی کے تبصرے کرتے اور استہزائیہ فقرے چست کرتے رہتے۔ ان کے اس طرزعمل کی وجہ سے مسلمانوں کو یہ عمومی ہدایت جاری کی گئی کہ محفل میں حلقے بنا کر بیٹھنے کے بجائے کھل کر بیٹھا کرو تاکہ معلوم ہو کہ یہ ایک اجتماع ہے۔ { وَاِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا } ”اور جب کہا جائے کہ اٹھ جائو تو اٹھ جایا کرو“ اس حکم کا باعث بھی منافقین کا طرزعمل ہی تھا۔ ان لوگوں کا معمول تھا کہ وہ مجلس برخاست ہوجانے کے بعد بھی ٹولیوں کی صورت میں اسی جگہ پر بیٹھے محو گفتگو رہتے تھے۔ فرض کریں حضور ﷺ نے مسلمانوں کو کسی ضروری مشورے کے لیے بلایا۔ اس پر سب لوگ حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوئے ‘ ضروری گفتگو ہوئی اور صلاح و مشورے کا مرحلہ طے ہوگیا۔ اس کے بعد حضور ﷺ محفل کو برخاست کرنے کا حکم دے کر وہاں سے تشریف لے گئے اور آپ ﷺ کے حکم پر سب مسلمان بھی چلے گئے ‘ مگر یہ منافقین ہیں کہ ابھی بھی ٹولیوں کی صورت میں اسی جگہ پر بیٹھے سرگوشیوں میں مصروف ہیں۔ ان کی یہ حرکتیں نہ صرف اجتماعیت کے نظم و ضبط کے خلاف تھیں بلکہ ان سے بہت سی غلط فہمیاں بھی جنم لے سکتی تھیں۔ اس لیے یہ حکم دیا گیا کہ جب مجلس برخاست کرنے کا کہہ دیا جائے تو وہاں سے اٹھ جایا کرو۔ { یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ } ”اللہ بلند فرما دے گا ان لوگوں کے درجات جو تم میں سے واقعی ایمان والے ہیں اور جن کو حقیقی علم عطا ہوا ہے۔“ { وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۔ } ”اور تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔“

543