سورۃ المجادلہ: آیت 8 - ألم تر إلى الذين نهوا... - اردو

آیت 8 کی تفسیر, سورۃ المجادلہ

أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ نُهُوا۟ عَنِ ٱلنَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا۟ عَنْهُ وَيَتَنَٰجَوْنَ بِٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ وَمَعْصِيَتِ ٱلرَّسُولِ وَإِذَا جَآءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ ٱللَّهُ وَيَقُولُونَ فِىٓ أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا ٱللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ

اردو ترجمہ

کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کر دیا گیا تھا پھر بھی وہ وہی حرکت کیے جاتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا؟ یہ لوگ چھپ چھپ کر آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں کرتے ہیں، اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں اُس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تم پر سلام نہیں کیا ہے اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری اِن باتوں پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا اُن کے لیے جہنم ہی کافی ہے اُسی کا وہ ایندھن بنیں گے بڑا ہی برا انجام ہے اُن کا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara ila allatheena nuhoo AAani alnnajwa thumma yaAAoodoona lima nuhoo AAanhu wayatanajawna bialithmi waalAAudwani wamaAAsiyati alrrasooli waitha jaooka hayyawka bima lam yuhayyika bihi Allahu wayaqooloona fee anfusihim lawla yuAAaththibuna Allahu bima naqoolu hasbuhum jahannamu yaslawnaha fabisa almaseeru

آیت 8 کی تفسیر

الم ترالی .................... المصیر (85 : 8) ” کیا تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کردیا گیا تھا پھر بھی وہ وہی حرکت کیے جاتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا ؟ یہ لوگ چھپ چھپ کر آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں کرتے ہیں ، اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں اس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تم پر سلام نہیں کیا ہے اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری ان باتوں پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا ؟ ان کے لئے جہنم ہی کافی ہے۔ اسی کا وہ ایندھن بنیں گے۔ بڑا ہی برا انجام ہے ان کا۔ “

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں منافقین کے بارے میں حضور ﷺ کا منصوبہ نہایت روادارانہ اور ان کے ساتھ آپ کا رویہ نہایت ہی ہمدردانہ تھا۔ آپ ان کو یہی نصیحت فرماتے ہیں کہ اخلاص کے ساتھ اسلام کو قبول کرلیں۔ اور آپ ان کو بار بار نجویٰ ، سازشوں اور خفیہ تدابیر سے روکتے تھے۔ اور منافقین یہ کام یہودیوں کے ساتھ مل کر کرتے تھے۔ بلکہ یہ تمام کام مشرکین اور منافقین یہودیوں کے اشاروں پر کرتے تھے۔ لیکن حضور ﷺ کے مخلصانہ رویہ کے باوجود انہوں نے اپنی ان سازشوں اور خفیہ تدابیر اور نجویٰ کے کام کو اور تیز کردیا۔ اور اس کے لئے انہوں نے ایسے ذرائع اور تدابیر بھی شروع کردیں کہ حضور ﷺ کے احکام کی نافرمانی کی جائے۔ اور مسلمانوں کے معاملات اور اسلامی نظام میں فساد برپا کرکے خلل ڈالا جائے۔

یہ لوگ اپنے کام میں اس قدر تیز اور جری ہوگئے تھے کہ انہوں نے اسلامی حکومت کے احکامات میں فساد ڈالنے کے ساتھ ساتھ حضور ﷺ کے ساتھ علیک سلیک کے اندر بھی فساد پیدا کردیا تھا۔ اور السلام علیکم کے معنی میں بھی تبدیلی کردی تھی۔

واذا جائ ........................ بہ اللہ (85 : 8) ” اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں اس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تم پر سلام نہیں کیا ہے “۔ یہ منافقین اور یہودی السلام علیکم کی جگہ السام علیکم کہتے تھے۔ یعنی یہ کہ تم پر موت آجائے۔ اسی طرح انہوں نے کچھ دوسرے الفاظ بھی گڑھ لئے تھے جن کا ظاہر تو اچھا تھا مگر باطن میں وہ ان سے غلط مراد لیتے تھے اور پھر وہ کہتے تھے کہ اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اسے ہماری ان باتوں کا علم ہوتا یا ان مجالس کا علم ہوتا جن میں ہم اس کے خلاف تدابیر اور سازشیں کرتے ہیں۔

اس سورت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے نبی ﷺ کو سب کچھ بتا دیا تھا۔ وہ بھی جو یہ اپنے دلوں میں سوچتے تھے اور وہ بھی جو سازشیں وہ اپنی مجلسوں میں کرتے تھے۔ کیونکہ سورت کے آغاز میں بتا دیا گیا کہ جو عورت اپنے خاوند کے بارے میں تکرار کررہی تھی اس کی باتیں اللہ نے سن لیں۔ اور یہ کہ اگر تین آدمی نجویٰ کریں تو چوتھا اللہ ہوتا ہے ، اگر چار کریں تو پانچواں اللہ ہوتا ہے نیز ان کے نفوس میں جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی اللہ کو معلوم ہے۔ اور اس کے بعد ان کی باتوں کی یہ تردید کردی گئی۔

حسبھم .................... المصیر (85 : 8) ” ان کے لئے جہنم ہی کافی ہے۔ اسی کا وہ ایندھن بنیں گے۔ بڑا ہی برا انجام ہے ان کا۔ “

ان کی خفیہ سازشوں کا انکشاف ، ان کے نجویٰ کا انکشاف خصوصاً جبکہ حضور کی جانب سے ممانعت کے باوجود انہوں نے کیا ، پھر وہ جو دلوں میں کہتے تھے کہ اگر یہ سچا نبی ہے تو اسے ہماری یہ کاروائیاں معلوم ہونی چاہئیں ۔ ان باتوں کا انکشاف ، غرض یہ سب انکشافات اس بات کی دلیل ہیں کہ زمین و آسمان کی ہر بات کا اللہ کو علم ہے اور اللہ پر نجویٰ میں موجود ہیں ، وہ خفیہ اجماع کا شاہد ہوتا ہے۔ یہ سب باتیں منافقین کے لئے تو خوفناک تھیں کہ ان کے تمام امور طشت ازبام ہوچکے ہیں جبکہ اہل ایمان کے لئے اطمینان اور بھروسے کا باعث بنیں۔

اب خطاب اہل ایمان کو ہورہا ہے ” اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ، کہ تم منافقین کی طرح نجویٰ نہ کرو ، گناہ کی باتوں میں ، دشمنی کی باتوں میں ، رسول کی نافرمانی میں ، بلکہ جو بات بھی کرو خدا خوفی کے ساتھ کرو ، اس قسم کا نجویٰ دراصل شیطان کے اشارے سے ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ شیطان مومنین کو پریشان کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ اس قسم کا نجویٰ مومنین کے لائق نہیں ہے۔

آیت 8{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نُہُوْا عَنِ النَّجْوٰی ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُہُوْا عَنْہُ } ”کیا تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنہیں منع کیا گیا تھا نجویٰ سے ‘ پھر وہ اعادہ کر رہے ہیں اسی شے کا جس سے انہیں منع کیا گیا تھا“ یہ مدینہ کے منافقین کا ذکر ہے جو یہودیوں کے ساتھ مل کر ہر وقت مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال ُ بننے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔ یہاں الَّذِیْنَ نُہُوْا عَنِ النَّجْوٰیکے الفاظ میں سورة النساء کی آیت 114 کے اس حکم کی طرف اشارہ ہے : { لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰٹھُمْ } کہ ان لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں خیر کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ آیت زیر مطالعہ میں سورة النساء کی آیت کے حوالے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سورة المجادلہ ‘ سورة النساء کے بعد نازل ہوئی۔ { وَیَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ } ”اور وہ سرگوشیاں کرتے ہیں گناہ ‘ زیادتی اور رسول ﷺ کی نافرمانی سے متعلق۔“ قبل ازیں سورة النساء کے مطالعے کے دوران بھی ذکر ہوچکا ہے کہ حضور ﷺ کی ذاتی اطاعت کا حکم منافقین کو بہت برا لگتا تھا۔ اس حوالے سے ان کا موقف یہ تھا کہ ہم اللہ کی اطاعت بھی کرتے ہیں ‘ اللہ کی کتاب کے تمام احکام بھی تسلیم کرنے کو تیار ہیں ‘ لیکن اپنے جیسے ایک انسان کی تمام باتوں کو من وعن تسلیم کرنے کو ہم ضروری نہیں سمجھتے۔ اسی سوچ اور اسی موقف کے تحت وہ لوگ حضور ﷺ کے فیصلوں پر گاہے بگاہے اعتراضات بھی کرتے رہتے تھے۔ ان کے ایسے ہی ایک اعتراض کا ذکر سورة محمد کی آیت 20 میں بھی آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے قتال کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا تو قریش کے ساتھ خواہ مخواہ چھیڑ چھاڑ شروع کر کے حالات کیوں خراب کیے جا رہے ہیں ؟ { وَاِذَا جَآئُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ } ”اور جب وہ آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں تو آپ ﷺ کو اس کلمہ سے دعا دیتے ہیں جس سے اللہ نے آپ ﷺ کو دعا نہیں دی“ ”تَحِیَّۃ“ کے لغوی معنی کسی کو زندگی کی دعا دینے کے ہیں۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ ایک دوسرے سے ملتے وقت ”حَیَّاکَ اللّٰہُ“ کے جملے کا تبادلہ کرتے تھے۔ اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اچھی زندگی دے ‘ یا اللہ تعالیٰ تمہاری زندگی دراز کرے۔ عرفِ عام میں اس دعا کو ”تحیہ“ کہا جاتا تھا۔ اسلام نے دو مسلمانوں کی ملاقات کے موقع کے لیے دعائیہ کلمہ greetings کے طور پر السَّلام علیکم کے الفاظ کا انتخاب کیا ‘ لیکن تحیہ کا لفظ عربوں کے ہاں چونکہ بہت معروف تھا اس لیے ”السَّلام علیکم“ کو بھی اصطلاحاً ”تحیہ“ ہی کہا جانے لگا۔ سورة النساء کی آیت 86 میں یہ لفظ ”السَّلام علیکم“ ہی کے مفہوم میں آیا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں منافقین کی اس شرارت کا ذکر ہے جو وہ اس کلمہ تحیہ کے حوالے سے کرتے تھے۔ جب وہ حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوتے تو السَّلَام علَیکمکہنے کے بجائے ”السّام علیکم“ کہتے۔ ”سام“ کے معنی موت کے ہیں اور اس طرح اپنی طرف سے وہ لوگ حضور ﷺ اور آپ ﷺ کی محفل میں موجود مسلمانوں کے لیے اس دعائیہ کلمہ کو معاذ اللہ ! بددعا میں بدل دیتے تھے۔ { وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ } ”اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا ہمارے اس طرح کہنے پر ؟“ ایسی حرکت کرنے کے بعد وہ سوچتے کہ اگر محمد ﷺ اللہ کے رسول ہوتے تو اللہ ان کی یہ توہین کبھی برداشت نہ کرتا اور اس گستاخی پر وہ فوراً ہماری زبانیں کھینچ لیتا۔ چناچہ ہمارے بار بار ایسا کہنے پر بھی اگر ہمیں کچھ نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔ یہ مرض منافقت کی وہ سٹیج ہے جس کا ذکر سورة الحدید کی آیت 14 میں آچکا ہے۔ اس سٹیج پر منافق شخص کے بچے کھچے ایمان میں شکوک و شبہات کے کانٹے چبھنے لگتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایمان کی تھوڑی بہت پونجی بھی برف کی طرح پگھلنے اور ضائع ہونے لگتی ہے۔ { حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ یَصْلَوْنَہَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔ } ”ان کے لیے تو اب جہنم ہی کافی ہے ‘ یہ اس میں داخل ہوں گے ‘ پس وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔

معاشرتی آداب کا ایک پہلو اور قیامت کا ایک منظر کانا پھوسی سے یہودیوں کو روک دیا گیا تھا اس لئے کہ ان میں اور آنحضرت ﷺ میں جب صلح صفائی تھی تو یہ لوگ یہ حرکت کرنے لگے کہ جہاں کسی مسلمان کو دیکھا اور جہاں کوئی ان کے پاس گیا یہ ادھر ادھر جمع ہو ہو کر چپکے چپکے اشاروں کنایوں میں اس طرح کانا پھوسی کرنے لگتے کہ اکیلا دکیلا مسلمان یہ گمان کرتا کہ شاید یہ لوگ میرے قتل کی سازشیں کر رہے ہیں یا میرے خلاف اور ایمانداروں کے خلاف کچھ مخفی ترکیبیں سوچ رہے ہیں اسے ان کی طرف جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا، جب یہ شکایتیں عام ہوئیں تو حضور ﷺ نے یہودیوں کو اس سفلی حرکت سے روک دیا، لیکن انہوں نے پھر بھی یہی کرنا شروع کیا۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم لوگ باری باری رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رات کو حاضر ہوتے کہ اگر کوئی کام کاج ہو تو کریں، ایک رات کو باری والے آگئے اور کچھ اور لوگ بھی بہ نیت ثواب آگئے چونکہ لوگ زیادہ جمع ہوگئے تو ہم ٹولیاں ٹولیاں بن کر ادھر ادھر بیٹھ گئے اور ہر جماعت آپس میں باتیں کرنے لگی، اتنے میں آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور فرمایا یہ سرگوشیاں کیا ہو رہی ہیں ؟ کیا تمہیں اس سے روکا نہیں گیا ؟ ہم نے کہا حضور ﷺ ہماری توبہ ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے کیونکہ اس سے کھٹکا لگا رہتا ہے، آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اس سے بھی زیادہ خوف کی چیز بتاؤں وہ پوشیدہ شرک ہے اس طرح کہ ایک شخص اٹھ کھڑا ہو اور دوسروں کے دکھانے کیلئے کوئی دینی کام کرے (یعنی ریاکاری) اس کی اسناد غریب ہے اور اس میں بعض راوی ضعیف ہیں۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ ان کی خانگی سرگوشیاں یا تو گناہ کے کاموں پر ہوتی ہیں جس میں ان کا ذاتی نقصان ہے، یا ظلم پر ہوتی ہیں جس میں دوسروں کے نقصان کی ترکیبیں سوچتے ہیں یا پیغمبر ؑ کی مخالفت پر ایک دوسروں کو پختہ کرتے ہیں اور آپ کی نافرمانیوں کے منصوبے گانٹھتے ہیں۔ پھر ان بدکاروں کی ایک بدترین خصلت بیان ہو رہی ہے کہ سلام کے الفاظ کو بھی یہ بدل دیتے ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں ایک مرتبہ یہودی حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا السام علیک یا ابو القاسم حضرت عائشہ سے رہا نہ گیا فرمایا وعلیکم السام۔ سام کے معنی موت کے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے عائشہ اللہ تعالیٰ برے الفاظ اور سخت کلامی کو ناپسند فرماتا ہے۔ میں نے کہا کیا حضور ﷺ نے نہیں سنا۔ انہوں نے آپ کو السلام نہیں کہا بلکہ السام کہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے نہیں سنا ؟ میں نے کہہ دیا وعلیکم۔ اسی کا بیان یہاں ہو رہا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ نے ان کے جواب میں فرمایا تھا علیکم السام والنام واللعنتہ اور آپ نے صدیقہ کو روکتے ہوئے فرمایا کہ ہماری دعا ان کے حق میں مقبول ہے اور ان کا ہمیں کو سنانا مقبول ہے (ابن ابی حاتم وغیرہ) ایک مرتبہ حضور ﷺ اپنے اصحاب کے مجمع میں تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی نے آکر سلام کیا صحابہ نے جواب دیا پھر حضور ﷺ نے صحابہ سے پوچھا معلوم بھی ہے اس نے کیا کہا تھا ؟ انہوں نے کہا حضرت ﷺ سلام کیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اس نے کہا تھا سام علیکم یعنی تمہارا دین مغلوب ہو کر مٹ جائے، پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس یہودی کو بلاؤ جب وہ آگیا تو آپ نے فرمایا سچ سچ بتا کیا تو نے سام علیکم نہیں کہا تھا ؟ اس نے کہا ہاں حضور ﷺ میں نے یہی کہا تھا آپ نے فرمایا سنو جب کبھی کوئی اہل کتاب تم میں سے کسی کو سلام کرے تو تم صرف علیک کہہ دیا کرو یعنی جو تو نے کہا ہو وہ تجھ پر (ابن جریر وغیرہ) پھر یہ لوگ اپنے اس کرتوت پر خوش ہو کر اپنے دل میں کہتے کہ اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہماری اس چالبازی پر ہمیں دنیا میں ضرور عذاب کرتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو ہمارے باطنی حال سے بخوبی واقف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انہیں دار آخرت کا عذاب ہی کافی ہے جہاں یہ جہنم میں جائیں گے اور بری جگہ پہنچیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ اس آیت کا شان نزول یہودیوں کا اس طریقے کا سلام ہے، حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ منافق اسی طرح سلام کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کو ادب سکھاتا ہے کہ تم ان منافقوں اور یہودیوں کے سے کام نہ کرنا تم گناہ کے کاموں اور حد سے گزر جانے اور نبی کے نہ ماننے کے مشورے نہ کرنا بلکہ تمہیں ان کے برخلاف نیکی اور اپنے بچاؤ کے مشورے کرنے چاہئیں۔ تمہیں ہر وقت اس اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے جس کی طرف تمہیں جمع ہونا ہے، جو اس وقت تمہیں ہر نیکی بدی کی جزا سزا دے گا اور تمام اعمال و اقوال سے متنبہ کرے گا گو تم بھول گئے لیکن اس کے پاس سب محفوظ اور موجود ہیں۔ حضرت صفوان فرماتے ہیں میں حضرت عبداللہ بن عمر کا ہاتھ تھامے ہوا تھا کہ ایک شخص آیا اور پوچھا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے مومن کی جو سرگوشی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ہوگی اس کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا رسالت مآب ﷺ سے میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب بلائے گا اور اس قدر قریب کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور لوگوں سے اسے پردے میں کرلے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور پوچھے گا یاد ہے ؟ فلاں گناہ تم نے کیا تھا فلاں کیا تھا فلاں کیا تھا یہ اقرار کرتا جائے گا اور دل دھڑک رہا ہوگا کہ اب ہلاک ہوا، اتنے میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھ دنیا میں بھی میں نے تیری پردہ پوشی کی اور آج بھی میں نے بخشش کی، پھر اسے اس کی نیکیوں کا نامہ اعمال دیا جائے گا لیکن کافر و منافق کے بارے میں تو گواہ پکار کر کہہ دیں گے کہ یہ اللہ پر جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں خبردار ہوجاؤ ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے (بخاری و مسلم)۔ پھر فرمان ہے کہ اس قسم کی سرگوشی جس سے مسلمان کو تکلیف پہنچے اور اسے بدگمانی ہو شیطان کی طرف سے ہے شیطان ان منافقوں سے یہ کام اس لئے کراتا ہے کہ مومنوں کو غم و رنج ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی شیطان یا کوئی اور انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا، جسے کوئی ایسی حرکت معلوم ہو اسے چاہئے کہ اعوذ پڑھے اللہ کی پناہ لے اور اللہ پر بھروسہ رکھے انشاء اللہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ ایسی کانا پھوسی جو کسی مسلمان کو ناگوار گزرے، حدیث میں بھی منع آئی ہے، مسند احمد میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تم تین آدمی ہو تو دو مل کر کان میں منہ ڈال کر باتیں کرنے نہ بیٹھ جاؤ اس سے اس تیسرے کا دل میلا ہوگا (بخاری و مسلم) اور روایت میں ہے کہ ہاں اگر اس کی اجازت ہو تو کوئی حرج نہیں (مسلم)۔

آیت 8 - سورۃ المجادلہ: (ألم تر إلى الذين نهوا عن النجوى ثم يعودون لما نهوا عنه ويتناجون بالإثم والعدوان ومعصيت الرسول وإذا جاءوك حيوك...) - اردو