سورۃ المجادلہ: آیت 11 - يا أيها الذين آمنوا إذا... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورۃ المجادلہ

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا۟ فِى ٱلْمَجَٰلِسِ فَٱفْسَحُوا۟ يَفْسَحِ ٱللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ ٱنشُزُوا۟ فَٱنشُزُوا۟ يَرْفَعِ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنكُمْ وَٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْعِلْمَ دَرَجَٰتٍ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو جگہ کشادہ کر دیا کرو، اللہ تمہیں کشادگی بخشے گا اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo itha qeela lakum tafassahoo fee almajalisi faifsahoo yafsahi Allahu lakum waitha qeela onshuzoo faonshuzoo yarfaAAi Allahu allatheena amanoo minkum waallatheena ootoo alAAilma darajatin waAllahu bima taAAmaloona khabeerun

آیت 11 کی تفسیر

” بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان آیات کے نزول کا بھی منافقین کے ساتھ تعلق ہے۔ ان سے پھر ان آیات اور ماقبل کی آیات کے درمیان ربط واضح ہوجاتا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ آیات مجالس ذکر کے بارے نازل ہوئی ہیں۔ منافقین کا رویہ یہ تھا کہ جب یہ کسی شخص کو مجلس رسول میں آتا دیکھتے تو اپنی جگہ جم کر بیٹھ جاتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ نئے آنے والوں کو مجلس میں جگہ دیا کرو۔

مقاسل ابن حبان نے کہا کہ یہ جمعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس دن حضور ﷺ صفہ میں تھے ، جگہ تنگ تھی۔ حضور ﷺ مہاجرین اور انصار میں سے اہل بدر کا بہت اکرام کرتے تھے۔ اہل بدر میں سے کچھ لوگ آئے اور ان سے پہلے جگہ بھر چکی تھی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے ارد گرد کھڑے ہوگئے اور کہا :

السلام علیکم ایھا النبی ورحمة اللہ وبرکاتہ نبی ﷺ نے سلام کا جواب دیا۔ اس کے بعد انہوں نے وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کیا۔ انہوں نے بھی سلام کا جواب دیا۔ یہ لوگ کھڑے رہے کہ شاید یہ لوگ ان کے لئے مجلس میں وسعت پیدا کریں گے تو حضور ﷺ نے معلوم کرلیا کہ وہ کیوں کھڑے ہیں ؟ یہ بات نبی ﷺ کو بہت ناگوار گزری۔ تو آپ کے ارد گرد مہاجرین وانصار میں سے جو غیر بدری لوگ تھے ، حضور ﷺ نے ان سے فرمایا فلاں تم اٹھ جاؤ، فلاں تم اٹھ جاؤ، یوں ہی حضور ﷺ ان کو اٹھاتے رہے جب تک تمام بدریوں کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوگئی۔ یہ بات ان لوگوں پر بہت ہی گراں گزری جو اٹھائے گئے تھے۔ ان کے چہروں پر حضور ﷺ نے یہ کراہت دیکھ لی۔ اس پر منافقین نے کہا کہ کیا تم کو یہ یقین نہیں ہے کہ تمہارے ” صاحب “ لوگوں کے درمیان انصاف کرتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا ہمیں تو اس طرح کا اٹھانا منصفانہ معلوم نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں نے نبی کا قرب چاہا اور قریب بیٹھ گئے۔ اور آپ ﷺ نے ان کو اٹھا دیا اور پھر دیر تک بیٹھے رہے۔ ہم تک یہ بات پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ نے اس شخص پر رحم کیا جس نے اپنے بھائی کے لئے مجلس میں جگہ بنائی۔ اس کے بعد اگر کوئی آتا تو وہ لوگ جگہ دینے کے لئے جلدی سے اٹھ جاتے۔ اور لوگ ایک دوسرے کے لئے مجالس میں جگہ بناتے اور یہ آیت جمعہ کے دن نازل ہوئی۔

اگر یہ روایت درست ہے تو یہ ان احادیث کے منافی نہیں ہے جن میں یہ آیا ہے کہ مجلس سے کسی شخص کو اٹھا کر دوسرے کو نہ بٹھایا جائے۔ جیسا کہ صحیحین کی روایت میں ہے ” کوئی شخص کسی شخص کو مجلس سے اس لئے نہ اٹھائے کہ اس کی جگہ خود بیٹھ جائے لیکن یہ ہے کہ مجالس کے اندر وسعت اور کشادگی پیدا کرو “ اور اسی طرح دوسری احادیث کے بھی یہ خلاف نہیں ہے جن کا مضمون یہ ہے کہ بعد میں آنے والا وہاں بیٹھ جائے جہاں مجلس ختم ہوتی ہے اور لوگوں کی گردنوں کے اوپر چڑھ کر آگے نہ بڑھے تاکہ وہ ممتاز جگہ بیٹھ جائے۔

آیت کا مضمون یہ ہے کہ پہلے بیٹھے ہوئے لوگ آنے والے کے لئے جگہ بنائیں۔ جس طرح آیت میں یہ بھی ہے کہ اگر منتظمین کسی کو کہیں کہ وہ اپنی نشست چھوڑ دے تو اسے چاہیے کہ وہ چھوڑ دے۔ لیکن یہ حکم منتظم اور قیادت سے صادر ہونا چاہئے ، باہر سے آنے والے کی جانب سے نہیں۔

غرض یہاں یہ ہے کہ انسانی نفوس کے اندر وسعت پیدا کی جائے قبل اس کے کہ مجالس کے اندر وسعت پیدا کی جائے۔ اگر دل کے اندر وسعت پیدا ہوجائے تو پھر وہ برداشت کرے گا اور مجلس میں آنے والے بھائیوں کو نہایت ہی محبت اور نہایت ہی خوش اخلاقی کے ساتھ بٹھائے گا اور ان کا استقبال کرے گا اور نہایت خوشی اور رضامندی سے ان کے لئے جگہ بنائے گا۔

لیکن اگر قیادت یہ سمجھتی ہو کہ کسی خصوصیت یا مخصوص حالات کی وجہ سے جگہ خالی کرنا ضروری ہے تو طیب نفس اور خوشی خوشی سے جگہ خالی کردینا چاہئے۔ لیکن اصول اپنی جگہ وہی رہے گا کہ پیچھے آنے والا پیچھے رہے ، گردونوں پر سوار ہو کر آگے نہ بڑھے۔ یا کسی دوسرے کو اٹھا کر اس کی جگہ خود نہ بیٹھے۔ یہ تو رواداری ہے اور انتظامی حکم ہے جو فیصلہ کن ہے اور اسلام بہرحال بہترین آداب سکھاتا ہے۔

ہر حکم دینے کے بعد اسلامی نظام تربیت کا یہ اصول ہے کہ وہ لوگوں کے شعور کی اصلاح کرتا ہے۔ یہاں بھی کہا جاتا ہے کہ اگر تم مجالس میں اور دلوں میں وسعت پیدا کرو گے تو اللہ تمہارے لئے وسعت پیدا کردے گا۔

فافسحوا ................ لکم (85 : 11) ” تو جگہ کشاد کردیا کرو ، اللہ تمہیں کشادگی بخشے گا “ اور وہ لوگ جو اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں اور رسول اللہ یا قیادت کی اطاعت کرتے ہیں تو اللہ ان کو رفعت مقام عطا کرے گا۔

واذاقیل ........................ درجت (85 : 11) ” اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو۔ تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے ، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا “ یہ ہوگی ان کی تواضع کی جزاء اور تعمیل حکم اور ڈسپلن کا اجر۔

حضور ﷺ کی مجلس میں قریب مقام حاصل کرنا بھی دراصل حصول علم کے لئے ہوا کرتا تھا۔ چناچہ یہ آیت ان کو سکھاتی ہے کہ جو ایمان وسعت قلبی سکھائے ، اطاعت امر سکھائے ، اور وہ علم جو دل کی تہذیب عطا کرے ، اور وہ دل وسیع ہوجائے اور مطیع فرمان ہوجائے تو ایسے علم اور متعلم کے درجات اللہ کے ہاں بلند ہوجاتے ہیں اور یہ جو درجہ عطا ہوا یہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے رسول کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے مجلس میں اپنا درجہ چھوڑ دیا۔ لہٰذا اللہ نے اپنے ہاں درجہ دے دیا۔

واللہ ............ خبیر (85 : 11) ” اور جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ کو اس کی خبر ہے “۔ لہٰذا اللہ علم اور معرفت کی بنا پر ہر کام پر مناسب جزا دے گا اور اللہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ تمہارے کاموں کے پیچھے کیا داعیہ رکھا ہے۔

یوں قرآن کریم انسانی نفوس کی تہذیب اور اخلاقی تربیت کرتا ہے اور انسانوں کو وسعت قلبی ، رواداری ، اطاعت امر سکھاتا ہے۔ اس طرح کہ وہ ناگوار کام کو بھی ذوق وشوق سے کریں۔ دین اسلام محض خشک دفعات پر مشتمل کوئی قانون نہیں ہے۔ یہ تو ایک شعور ، ایک نظریہ ، ایک احساس اور ضمیر کے اندر ایک ملکہ ہے جو عمل پر ابھارتا ہے۔

اب قرآن مجید رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے ایک دوسرا ادب اہل ایمان کو سکھاتا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے تنہائی میں گفتگو کرنے والوں کب بہت کثرت ہوگئی تھی اور ہر فرد اپنے انفرادی معاملات میں حضور اکرم ﷺ سے گفتگو چاہتا تھا۔ اور اس کے ذاتی معاملات میں ہدایات اور مشورے چاہتا تھا۔ اور اس دور میں رسول اللہ ﷺ کی اجتماعی ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں اور آپ کا وقت بہت ہی قیمتی تھا۔ اور آپ کے ساتھ تنہائی میں گفتگو ایک بہت ہی اہم اور سنجیدہ مسئلہ بن گیا تھا۔ یہ تو کسی نہایت ہی اہم مسئلے ہی میں ہو سکتا تھا ، لیکن لوگ تھے کہ اس اعزاز کے لئے ٹوٹ پڑے تھے۔ چناچہ اللہ نے تنہائی میں وقت کا مطالبہ کرنے والوں کو کنٹرول کرنے کے لئے مالی تاوان عائد کردیا۔ اور یہ مالی تاوان جماعت کے اجتماعی کاموں کے لئے تھا۔ یوں حضور اکرم ﷺ اپنے وقت کا ایک حصہ ایسے لوگوں کو دے دیتے کیونکہ آپ کا پورا وقت اجتماعی معاملات کے لئے وقف تھا۔ یہ تاوان یوں ہوتا کہ جو شخص تنہائی میں وقت چاہتا وہ پہلے صدقہ کرے۔

آیت 1 1{ یٰٓـــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِیْلَ لَـکُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰہُ لَـکُمْ } ”اے مسلمانو ! جب تمہیں کہا جائے کہ مجالس میں کھل کر بیٹھو تو کھل جایا کرو ‘ اللہ تمہارے لیے کشادگی پیدا کر دے گا۔“ یہ سمجھانے کا بہت عمدہ انداز ہے۔ یہ نصیحت بھی دراصل منافقین کے ایک مخصوص طرزعمل کی وجہ سے کی جارہی ہے۔ منافقین کا یہ وطیرہ تھا کہ وہ حضور ﷺ کی محفلوں میں ٹولیوں کی صورت میں باہم جڑکر بیٹھتے تھے تاکہ درمیان میں کوئی اور سچا مسلمان نہ بیٹھ سکے۔ ایسے الگ حلقے بنا کر محفل کے دوران وہ حضور ﷺ کے فرمودات پر اپنی مرضی کے تبصرے کرتے اور استہزائیہ فقرے چست کرتے رہتے۔ ان کے اس طرزعمل کی وجہ سے مسلمانوں کو یہ عمومی ہدایت جاری کی گئی کہ محفل میں حلقے بنا کر بیٹھنے کے بجائے کھل کر بیٹھا کرو تاکہ معلوم ہو کہ یہ ایک اجتماع ہے۔ { وَاِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا } ”اور جب کہا جائے کہ اٹھ جائو تو اٹھ جایا کرو“ اس حکم کا باعث بھی منافقین کا طرزعمل ہی تھا۔ ان لوگوں کا معمول تھا کہ وہ مجلس برخاست ہوجانے کے بعد بھی ٹولیوں کی صورت میں اسی جگہ پر بیٹھے محو گفتگو رہتے تھے۔ فرض کریں حضور ﷺ نے مسلمانوں کو کسی ضروری مشورے کے لیے بلایا۔ اس پر سب لوگ حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوئے ‘ ضروری گفتگو ہوئی اور صلاح و مشورے کا مرحلہ طے ہوگیا۔ اس کے بعد حضور ﷺ محفل کو برخاست کرنے کا حکم دے کر وہاں سے تشریف لے گئے اور آپ ﷺ کے حکم پر سب مسلمان بھی چلے گئے ‘ مگر یہ منافقین ہیں کہ ابھی بھی ٹولیوں کی صورت میں اسی جگہ پر بیٹھے سرگوشیوں میں مصروف ہیں۔ ان کی یہ حرکتیں نہ صرف اجتماعیت کے نظم و ضبط کے خلاف تھیں بلکہ ان سے بہت سی غلط فہمیاں بھی جنم لے سکتی تھیں۔ اس لیے یہ حکم دیا گیا کہ جب مجلس برخاست کرنے کا کہہ دیا جائے تو وہاں سے اٹھ جایا کرو۔ { یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ } ”اللہ بلند فرما دے گا ان لوگوں کے درجات جو تم میں سے واقعی ایمان والے ہیں اور جن کو حقیقی علم عطا ہوا ہے۔“ { وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۔ } ”اور تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔“

آداب مجلس باہم معاملات اور علمائے حق و باعمل کی توقیر یہاں ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ مجلسی آداب سکھاتا ہے۔ انہیں حکم دیتا ہے کہ نشست و برخاست میں بھی ایک دوسرے کا خیال ولحاظ رکھو۔ تو فرماتا ہے کہ جب مجلس جمع ہو اور کوئی آئے تو ذرا ادھر ادھر ہٹ ہٹاکر اسے بھی جگہ دو۔ مجلس میں کشادگی کرو۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہیں کشادگی دے گا۔ اس لئے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی جیسا ہوتا ہے، چناچہ ایک حدیث میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کیلئے مسجد بنادے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنا دے گا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو کسی سختی والے پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا، جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہے اللہ تعالیٰ خود اپنے اس بندے کی مدد پر رہتا ہے اور بھی اسی طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں۔ حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں یہ آیت مجلس ذکر کے بارے میں اتری ہے مثلاً وعظ ہو رہا ہے حضور ﷺ کچھ نصیحت کی باتیں بیان فرما رہے ہیں لوگ بیٹھے سن رہے ہیں اب جو دوسرا کوئی آیا تو کوئی اپنی جگہ سے نہیں سرکتا تاکہ اسے بھی جگہ مل جائے۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ ایسا نہ کرو ادھر ادھر کھل جایا کرو تاکہ آنے والے کی جگہ ہوجائے۔ حضرت مقاتل فرماتے ہیں جمعہ کے دن یہ آیت اتری، رسول اللہ ﷺ اس دن صفہ میں تھے یعنی مسجد کے ایک چھپر تلے جگہ تنگ تھی اور آپ کی عادت مبارک تھی کہ جو مہاجر اور انصاری بدر کی لڑائی میں آپ کے ساتھ تھے آپ ان کی بڑی عزت اور تکریم کیا کرتے تھے اس دن اتفاق سے چند بدری صحابہ دیر سے آئے تو آنحضرت ﷺ کے آس پاس کھڑے ہوگئے آپ سے سلام علیک ہوئی آپ نے جواب دیا پھر اور اہل مجلس کو سلام کیا انہوں نے بھی جواب دیا اب یہ اسی امید پر کھڑے رہے کہ مجلس میں ذرا کشادگی دیکھیں تو بیٹھ جائیں لیکن کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا جو ان کیلئے جگہ ہوتی۔ آنحضرت ﷺ نے جب یہ دیکھا تو نہ رہا گیا نام لے لے کر بعض لوگوں کو ان کی جگہ سے کھڑا کیا اور ان بدری صحابیوں کو بیٹھنے کو فرمایا، جو لوگ کھڑے کرائے گئے تھے انہیں ذرا بھاری پڑا ادھر منافقین کے ہاتھ میں ایک مشغلہ لگ گیا، کہنے لگے لیجئے یہ عدل کرنے کے مدعی نبی ہیں کہ جو لوگ شق سے آئے پہلے آئے اپنے نبی کے قریب جگہ لی اطمینان سے اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے انہیں تو ان کی جگہ سے کھڑا کردیا اور دیر سے آنے والوں کو ان کی جگہ دلوا دی کس قدر ناانصافی ہے، ادھر حضور ﷺ نے اس لئے ان کے دل میلے نہ ہوں دعا کی کہ اللہ اس پر رحم کرے جو اپنے مسلمان بھائی کیلئے مجلس میں جگہ کردے۔ اس حدیث کو سنتے ہی صحابہ نے فوراً خود بخود اپنی جگہ سے ہٹنا اور آنے والوں کو جگہ دینا شروع کردیا اور جمعہ ہی کے دن یہ آیت اتری (بن ابی حاتم) بخاری مسلم مسند وغیرہ میں حدیث ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے ہٹاکر وہاں نہ بیٹھے بلکہ تمہیں چاہئے کہ ادھر ادھر سرک کر اس کیلئے جگہ بنادو۔ شافعی میں ہے، تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو جمعہ کے دن اس کی جگہ سے ہرگز نہ اٹھائے بلکہ کہہ دے کہ گنجائش کرو۔ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ کسی آنے والے کیلئے کھڑے ہوجانا جائز ہے یا نہیں ؟ بعض لوگ تو اجازت دیتے ہیں اور یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا اپنے سردار کیلئے کھڑے ہوجاؤ، بعض علماء منع کرتے ہیں اور یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ جو شخص یہ چاہے کہ لوگ اس کیلئے سیدھے کھڑے ہوں وہ جہنم میں اپنی جگہ بنالے، بعض بزرگ تفصیل بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سفر سے اگر کوئی آیا ہو تو حاکم کیلئے عہدہ حکمرانی کے سبب لوگوں کا کھڑے ہوجانا درست ہے کیونکہ حضور ﷺ نے جن کیلئے کھڑا ہونے کو فرمایا تھا یہ حضرت سعد بن معاذ ؓ تھے۔ بنو قریظہ کے آپ حاکم بنائے گئے تھے جب انہیں آتا ہوا دیکھا تو حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ اپنے سردار کیلئے کھڑے ہوجاؤ اور یہ (بطور تعظیم کے نہ تھا بلکہ) صرف اس لئے تھا کہ ان کے احکام کو بخوبی جاری کرائے واللہ اعلم۔ ہاں اسے عادت بنالینا کہ مجلس میں جہاں کوئی بڑا آدمی آیا اور لوگ کھڑے ہوگئے یہ عجمیوں کا طریقہ ہے، سنن کی حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک رسول اللہ ﷺ سے زیادہ محبوب اور باعزت کوئی نہ تھا لیکن تاہم آپ کو دیکھ کر وہ کھڑے نہیں ہوا کرتے تھے، جانتے تھے کہ آپ اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ سنن کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ آتے ہی مجلس کے خاتمہ پر بیٹھ جایا کرتے تھے اور جہاں آپ تشریف فرما ہوجاتے وہی جگہ صدارت کی جگہ ہوجاتی اور صحابہ کرام اپنے اپنے مراتب کے مطابق مجلس میں بیٹھ جاتے۔ حضرت الصدیق ؓ کے آپ دائیں جانب، فاروق ؓ آپ کے بائیں اور عموماً حضرت عثمان و علی ؓ آپ کے سامنے بیٹھتے تھے کیونکہ یہ دونوں بزرگ کاتب وحی تھے آپ ان سے فرماتے اور یہ وحی کو لکھ لیا کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضور ﷺ کا فرمان تھا کہ مجھ سے قریب ہو کر عقل مند، صاحب فراست لوگ بیٹھیں پھر درجہ بدرجہ اور یہ انتظام اس لئے تھا کہ حضور ﷺ کے مبارک ارشادات یہ حضرات سنیں اور بخوبی سمجھیں، یہی وجہ تھی کہ صفہ والی مجلس میں جس کا ذکر ابھی ابھی گزرا ہے آپ نے اور لوگوں کو ان کی جگہ سے ہٹاکر وہ جگہ بدری صحابہ کو دلوائی، گو اس کے ساتھ اور وجوہات بھی تھیں مثلاً ان لوگوں کو خود چاہئے تھا کہ ان بزرگ صحابہ کا خیال کرتے اور لحاظ و مروت برت کر خود ہٹ کر انہیں جگہ دیتے جب انہوں نے از خود ایسا نہیں کیا تو پھر حکماً ان سے ایسا کرایا گیا، اسی طرح پہلے کے لوگ حضور ﷺ کے بہت سے کلمات پوری طرح سن چکے تھے اب یہ حضرات آئے تھے تو آپ نے چاہا کہ یہ بھی بہ آرام بیٹھ کر میری حدیثیں سن لیں اور دینی تعلیم حاصل کرلیں، اسی طرح امت کو اس بات کی تعلیم بھی دینی تھی کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو امام کے پاس بیٹھنے دیں اور انہیں اپنے سے مقدم رکھیں۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کی صفوں کی درستی کے وقت ہمارے مونڈھے خود پکڑ پکڑ کر ٹھیک ٹھاک کرتے اور زبانی بھی فرماتے جاتے سیدھے رہو ٹیڑھے ترچھے نہ کھڑے ہوا کرو، دانائی اور عقلمندی والے مجھ سے بالکل قریب رہیں پھر درجہ بہ درجہ دوسرے لوگ۔ حضرت ابو مسعود ؓ اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے اس حکم کے باوجود افسوس کہ اب تم بڑی ٹیڑھی صفیں کرتے ہو، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ظاہر ہے کہ جب آپ کا یہ حکم نماز کیلئے تھا تو نماز کے سوا کسی اور وقتوں میں تو بطور اولیٰ یہی حکم رہے گا، ابو داؤد شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صفوں کو درست کرو، مونڈھے ملائے رکھو، صفوں کے درمیان خالی جگہ نہ چھوڑو اپنے بھائیوں کے پاس صف میں نرم بن جایا کرو، صف میں شیطان کیلئے سوراخ نہ چھوڑو صف ملانے والے کو اللہ تعالیٰ ملاتا ہے اور صف توڑنے والے کو اللہ تعالیٰ کاٹ دیتا ہے، اسی لئے سید القراء حضرت ابی بن کعب ؓ جب پہنچتے تو صف اول میں سے کسی ضعیف العقل شخص کو پیچھے ہٹا دیتے اور خود پہلی صف میں مل جاتے اور اسی حدیث کو دلیل میں لاتے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے مجھ سے قریب ذی رائے اور اعلیٰ عقل مند کھڑے ہوں پھر درجہ بہ درجہ دوسرے لوگ۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو دیکھ کر اگر کوئی شخص کھڑا ہوجاتا تو آپ اس کی جگہ پر نہ بیٹھتے اور اس حدیث کو پیش کرتے جو اوپر گزری کہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ میں کوئی اور نہ بیٹھے، یہاں بطور نمونے کے یہ چند مسائل اور تھوڑی حدیثیں لکھ کر ہم آغے چلتے ہیں بسط و تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں نہ یہ موقع ہے، ایک صحیح حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ تین شخص آئے ایک تو مجلس کے درمیان جگہ خالی دیکھ کر وہاں آکر بیٹھ گئے دوسرے نے مجلس کے آخڑ میں جگہ بنآلی تیسرے واپس چلے گئے، حضور ﷺ نے فرمایا لوگوں میں تمہیں تین شخصوں کی بابت خبر دوں ایک نے تو اللہ کی طرف جگہ لی اور اللہ تعالیٰ نے اسے جگہ دی، دوسرے نے شرم کی۔ اللہ نے بھی اس سے حیا کی، تیسرے نے منہ پھیرلیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے منہ پھیرلیا۔ مسند احمد میں ہے کہ کسی کو حلال نہیں کہ دو شخصوں کے درمیان تفریق کرے، ہاں ان کی خوشنودی سے ہو تو اور بات ہے (ابوداؤد ترمذی) امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے، حضرت ابن عباس حضرت حسن بصری وغیرہ فرماتے ہیں مجلسوں کی کشادگی کا حکم جہاد کے بارے میں ہے، اسی طرح اٹھ کھڑے ہونے کا حکم بھی جہاد کے بارے میں ہے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی جب تمہیں بھلائی اور کارخیر کی طرف بلایا جائے تو تم فوراً آجاؤ، حضرت مقاتل فرماتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جب تمہیں نماز کیلئے بلایا جائے تو اٹھ کھڑے ہوجایا کرو، حضرت عبدالرحمن بن زید فرماتے ہیں کہ صحابہ جب حضور ﷺ کے ہاں آتے تو جاتے وقت ہر ایک کی چاہت یہ ہوتی کہ سب سے آخر حضور ﷺ سے جدا میں ہوں، بسا اوقات آپ کو کوئی کام کاج ہوتا تو بڑا حرج ہوتا لیکن آپ مروت سے کچھ نہ فرماتے اس پر یہ حکم ہوا کہ جب تم سے کھڑے ہونے کو کہا جائے تو کھڑے ہوجایا کرو، جیسے اور جگہ ہے وان قیل لکم ارجعوا فارجعوا اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ۔ پھر فرماتا ہے کہ مجلسوں میں جگہ دینے کو جب کہا جائے تو جگہ دینے میں اور جب چلے جانے کو کہا جائے تو چلے جانے میں اپنی ہتک نہ سمجھو بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مرتبہ بلند کرنا اور اپنی توقیر کر انآ ہے اسے اللہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس پر دنیا اور آخرت میں نیک بدلہ دے گا، جو شخص احکام الٰہیہ پر تواضع سے گردن جھکا دے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور اس کی شہرت نیکی کے ساتھ کرتا ہے۔ ایمان والوں اور صحیح علم والوں کا یہی کام ہوتا ہے کہ اللہ کے احکام کے سامنے گردن جھکا دیا کریں اور اس سے وہ بلند درجوں کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ بلند مرتبوں کا مستحق کون ہے اور کون نہیں ؟ حضرت نافع بن عبدالحارث سے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق ؓ کی ملاقات عسفان میں ہوئی ہے حضرت عمر نے انہیں مکہ شریف کا عامل بنایا تھا تو ان سے پوچھا کہ تم مکہ شریف میں اپنی جگہ کسے چھوڑ آئے ہو ؟ جواب دیا کہ ابن ابزیٰ کو حضرت عمر فاروق نے فرمایا وہ تو ہمارے مولیٰ ہیں یعنی آزاد کردہ غلام انہیں تم اہل مکہ کا امیر بناکر چلے آئے ہو ؟ کہا ہاں اس لئے کہ وہ اللہ کی کتاب کا ماہر اور فرائض کا جاننے والا اور اچھا وعظ کہنے والا ہے، حضرت عمر نے اس وقت فرمایا سچ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی وجہ سے ایک قوم کو عزت پر پہنچا کر بلند مرتبہ کرے گا اور بعض کو پست و کم مرتبہ بنا دے گا۔ (مسلم) علم اور علماء کی فضیلت، جو اس آیت اور دیگر آیات و احادیث سے ظاہر ہے میں نے ان سب کو بخاری شریف کی کتاب العلم کی شرح میں جمع کردیا ہے والحمدللہ۔

آیت 11 - سورۃ المجادلہ: (يا أيها الذين آمنوا إذا قيل لكم تفسحوا في المجالس فافسحوا يفسح الله لكم ۖ وإذا قيل انشزوا فانشزوا يرفع...) - اردو