سورۃ المائدہ: آیت 94 - يا أيها الذين آمنوا ليبلونكم... - اردو

آیت 94 کی تفسیر, سورۃ المائدہ

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَيَبْلُوَنَّكُمُ ٱللَّهُ بِشَىْءٍ مِّنَ ٱلصَّيْدِ تَنَالُهُۥٓ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ ٱللَّهُ مَن يَخَافُهُۥ بِٱلْغَيْبِ ۚ فَمَنِ ٱعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُۥ عَذَابٌ أَلِيمٌ

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ تمہیں اُس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے، پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اُس کے لیے درد ناک سزا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo layabluwannakumu Allahu bishayin mina alssaydi tanaluhu aydeekum warimahukum liyaAAlama Allahu man yakhafuhu bialghaybi famani iAAtada baAAda thalika falahu AAathabun aleemun

آیت 94 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 94 تا 100۔

ذرا پیچھے دیکھ کر اس سورة کی ابتدائی آیات کو ایک بار پھر پڑھئے ۔

(آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَکُم بَہِیْمَۃُ الأَنْعَامِ إِلاَّ مَا یُتْلَی عَلَیْْکُمْ غَیْْرَ مُحِلِّیْ الصَّیْْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللّہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ (1) یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّہِ وَلاَ الشَّہْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الْہَدْیَ وَلاَ الْقَلآئِدَ وَلا آمِّیْنَ الْبَیْْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّن رَّبِّہِمْ وَرِضْوَاناً وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُواْ (2) (5 : 1۔ 2)

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ بندشوں کی پوری پابندی کرو۔ تمہارے لئے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کئے گئے سوائے ان کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لئے حلال نہ کرلو ‘ بیشک اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے ۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ خدا پرستی کی نشانیوں کو بےحرمت نہ کرو ، ۔۔۔۔۔ حرام مہینوں میں کسی کو حلال نہ کرلو ‘ قربانی کے جانوروں پر دست درازی نہ کرو ‘ ان جانوروں پر ہاتھ نہ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں اور نہ انکو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جارہے ہوں ۔ ہاں جب احرام کی حالت ختم ہوجائے تو شکار تم کرسکتے ہو۔

یہ ممانعت اس شکار کے بارے میں تھی جب شکاری حالت احرام میں ہو ‘ اور یہ ممانعت خدا پرستی کی نشانیوں (شعائر) کی بےحرمتی کے بارے میں تھی ‘ قربانی کے جانوروں ‘ پٹے ڈالے ہوئے نذر کے جانوروں ‘ حاجیوں کے ساتھ چھیڑ کی ممانعت کی گئی تھی ‘ لیکن ان مموعات پر دنیا میں کوئی سزا نہ سنائی گئی تھی ۔ صرف یہ کہا گیا تھا کہ یہ کام گناہ گاری کے کام ہیں ۔ اب دنیا میں بطور سزا کفارے کا بیان کیا جاتا ہے تاکہ خلاف ورزی کرنے والا اپنے کئے کا مزہ چکھے ۔ البتہ سابقہ غلطیوں کی معافی کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ اگر کسی نے پہلے ان ممنوعات کا ارتکاب کیا ہو تو وہ معاف ہیں لیکن آئندہ اس ہدایت کے اعلان ویبان کے بعد جو دوبارہ اس کا ارتکاب کرے گا اسے سخت سزاد دی جائے گی اور وہ انتقام الہی سے بچ نہ سکے گا ۔ آیات کے اس مجموعے کا آغاز بھی اسی شناسا آواز کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔

(آیت) ” (یایھا الذین امنوا) اس خطاب کے بعد ان کو کہا جاتا ہے کہ اب تمہاری آزمائیش ہونے والی ہے ۔ یعنی اس شکار کے بارے میں جس سے تم کو حالت احرام میں منع کیا گیا ہے ۔

(آیت) ” یایھا الذین امنوا لیبلونکم اللہ بشیء من الصید تنالہ ایدیکم ورماحکم لیعلم اللہ من یخافہ بالغیب فمن اعتدی بعد ذلک فلہ عذاب الیم “۔ (94)

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ تمہیں اس شکار کے ذریعے سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا ۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے ‘ پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اس کے لئے درد ناک سزا ہے ۔

یہ بہت ہی آسان شکار ہوتا ہے اللہ اسے خود انکی طرف چلاتا ہے ‘ ایسا شکار ہوتا ہے کہ وہ اسے ہاتھوں کے ساتھ بھی پکڑ سکتے ہیں ‘ ان کے نیزے اور تیر بھی اسے بسہولت مار سکتے ہیں ۔ ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ حرم میں شکار خود خیموں کے اندر آجاتا ہے ‘ ان کے گھروں کے اندر آجاتا ہے اور یہ اللہ کی جانب سے آزمائش ہوتی ہے اور یہ وہی آزمائش ہے جس میں بنی اسرائیل فیل ہوئے اور پھر وہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہ رہ سکے ۔ انہوں نے پہلے اپنے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے باصرار یہ مطالبہ کیا کہ ان کے لئے ایک ایسا دن مقرر کریں جس میں ان کے لئے معاشی سرگرمیوں میں مشغول ہونا ممنوع ہو ۔ اس دن وہ مکمل آرام کریں ‘ نماز پڑھیں اور کسی دنیاوی اور معاشی کام میں مشغول نہ ہوں ۔ اللہ نے ہفتے کا دن مقرر کردیا لیکن اللہ نے شکار ان کی آزمائش کے لئے وافر مقدار میں ساحلوں تک چلایا ۔ یہ شکار ان کی نظروں کے سامنے پھرتا اور جب ہفتہ نہ ہوتا تو شکار نظر ہی نہ آتا ۔ جس طرح مچھلی بالمعموم پانی میں چھپی ہوئی ہوتی ہے اب یہ دیکھ دیکھ کر بچارے اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو نہ نبھا سکے ۔ یہودیوں کی معروف رگ پھڑکی ‘ ان کی اصل فطرت جاگی ۔ انہوں نے اللہ کے ساتھ حیلے بہانے کرنے شروع کردیئے ۔ چناچہ انہوں نے ہفتے کے دن شکار کو گھیرنا شروع کردیا جسے وہ بعد کے دنوں میں شکار کرتے ۔ ان کی یہی حرکت تھی جس پر اللہ نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ وہ ان کے سامنے رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ حضور ﷺ کو خطاب کرکے فرماتے ہیں ۔

(آیت) ” وسئلھم عن القریتہ التی کانت حاضرۃ البحر اذ یعدون فی السبت اذ تاتیھم حیتانھم یوم سبتھم شرعا ویوم لا یسبتون لا تاتیھم کذلک نبلوھم بما کانوا یفسقون “۔ (7 : 163)

” اور ذرا ان سے اس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقعہ تھی انہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں لوگ سبت کے دن احکام الہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دونوں میں نہیں آتی تھیں ۔ یہ اس لئے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے۔ “

امت اسلامیہ بھی ایسے ہی ابتلاء میں مبتلا کی گئی تھی اور یہ کامیاب رہی جبکہ یہودی ناکام ونامراد رہے ۔ اور قرآن کریم کی اس آیت کا یہی مفہوم ہے :

(آیت) ” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ ‘ ولو امن اھل الکتب لکان خیرا لھم منھم المومنون واکثرھم الفسقون ۔ (3 : 11) ” اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو ‘ جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو ‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘ اگر یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا ‘ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایماندار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیشتر افراد نافرمان ہیں۔ “

بیشمار مراحل ایسے آئے جن میں امت اسلامیہ آزمائشوں میں کامیاب رہی اور بنی اسرائیل ناکام رہے اور یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر سے خلافت کا مقام بنی اسرائیل سے سلب کرلیا اور امت مسلمہ کو اس مقام پر فائز کردیا۔ اور امت مسلمہ کو زمین پر وہ عروج عطا کیا جو اس سے قبل کسی کو بھی نہ دیا تھا ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام زندگی کسی سابقہ امت کے دور میں اس طرح متمکن نہ ہوا تھا ‘ جس طرح امت مسلمہ کے دور میں پوری طرح ظاہر ہوا ۔ لیکن یہ اس دور میں ہوا جس میں امت مسلمہ فی الواقع امت مسلمہ تھی اور جس دور میں وہ یہ سمجھتی تھی کہ اسلام وہ ہے جو لوگوں کی عملی زندگی کے اندر نمودار ہو اور لوگوں کی زندگی اسلامی شریعت کے مطابق بسر ہو رہی ہو ۔ اس دور میں امت مسلمہ کو یہ احساس تھا کہ اسے یہ عظیم امانت سپرد کی گئی ہے اور اسے اس کا امین قرار دیا گیا ہے ۔ یہ کہ امت مسلمہ کو پوری انسانیت کا نگہبان مقرر کیا گیا ہے اور اس کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کو اسلام نظام حیات کے مطابق استوار کرے اور ان پر اللہ کی اس امانت کو قائم کرے ۔

یہ آزمائش کہ حالت احرام میں لوگ بسہولت شکار کرسکتے تھے لیکن بطور آزمائش انہیں شکار سے روک دیا گیا ان آزمائشوں میں سے ایک ہے جن میں یہ امت کامیاب رہی ۔ ایسی آزمائشوں کے ذریعے اس امت کو آزمانا اور آزما کر تربیت دینا یہ اللہ تعالیٰ کی بہت ہی بڑی اور کھلی مہربانی تھی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو منتخب کرلیا ہے ۔

اس امتحان کی حکمت کی تصریح بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دی ہے ۔ (آیت) ” لیعلم اللہ من یخافہ بالغیب “ ” تاکہ وہ دیکھے کہ تم میں سے کون ہے جو اس سے غائبانہ ڈرتا ہے “۔ ایک مسلمان کے ضمیر کے اندر جو اصول رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ سے غائبانہ کون ڈرتا ہے ۔ یہ ایک نہایت ہی مضبوط قاعدہ ہے جس کے اوپر اسلامی نظریہ حیات کی عمارت کھڑی ہے ۔ اسی قاعدے کے مطابق ایک مسلمان کا طرز عمل طے پاتا ہے اور یہ طرز عمل نظریہ خلافت فی الارض اور اسلامی نظام زندگی کے مطابق ہوتا ہے ۔

لوگ اللہ کو نہیں دیکھتے ‘ لیکن جب وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں تو اللہ انکے نفس کے اندر موجود ہوتا ہے ۔ ایک انسان کے تصور اور فہم میں اللہ غیب ہوتا ہے لیکن دل مومن اس پر غائبانہ ایمان لا کر ‘ اللہ سے ڈرتا ہے ۔ جب کسی کے دل و دماغ کے اندر یہ عظیم حقیقت ‘ حقیقت ایمان بالغیب بیٹھ جاتی ہے اور انسان اللہ سے ڈرنے لگتا ہے اور حسی رویت اور حسی مشاہدے سے مستغنی ہوجاتا ہے اور یہ مومن لا الہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہے ‘ جبکہ اس نے اللہ کو بچشم سر دیکھا نہیں ہوتا ۔ وجود انسانی کے اندر اس عظیم حقیقت کا بیٹھ جانا ‘ اس کے اندر ایک عظیم انقلابی تبدیلی پیدا کردیتا ہے ۔ اس کی فطری قوتیں آزاد ہوجاتی ہیں اور اس کی فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو مشنری سپرٹ ودیعت کی ہے وہ بدرجہ اکمل کام کرتی ہے اور وہ جس قدر بھی عالم غیب کے قریب پہنچتا ہے (جو انسان کے لئے تیار کیا گیا ہے) اسی قدر وہ عالم حیوانات سے دور ہوتا جاتا ہے ۔ اور اس سطح تک بلند ہوجاتا ہے جو انسان کے لئے محسوسات کے اندر سکیڑ لیتا ہے تو وہ اپنے آپ کو مادی دنیا کے اندر محدود کرکے محض حیوانی دائرے کے اندر چلا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں تصریح فرماتے ہیں کہ اس ابتلاء میں حکمت کیا ہے تاکہ اہل ایمان کے نفوس اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اللہ کو علم لدنی کے ذریعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے غائبانہ طور پر کون ڈرتا ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق دنیا میں لوگوں کو نہیں پکڑتا ۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور گرفت صرف ان باتوں پر ہوتی ہے جو واقع ہوجائیں ۔

(آیت) ” فمن اعتدی بعد ذلک فلہ عذاب الیم “۔ پھر اس تنبیہ کے بعد بھی جس نے حدود سے تجاوز کیا تو اس کے لئے دردناک سزا ہے “۔ اللہ تعالیٰ نے امتحان کی اطلاع دے دی اس کی حکمت سے بھی آگاہ کردیا اور اس بات سے متنبہ کردیا کہ وہ اس آزمائش میں نہ پڑیں اس لئے کہ کامیابی کے تمام اسباب بھی اس کے لئے فراہم کردیئے گئے ۔ اب بھی اگر کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اس کے لئے درد ناک سزا کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ۔ اس کے سوا وہ اور کس انجام کا مستحق ہے اس لئے کہ وہ خود اپنے لئے یہ سزا اختیار کرتا ہے ۔ اس کے بعد اگر کوئی پھر خلاف ورزی کرتا ہے تو اس پر عائد شدہ کفارے کی تفصیلات دے دی جاتی ہے ۔ دوبارہ بطور تاکید ممانعت بھی کردی جاتی ہے ۔

اس سورة مبارکہ کے شروع میں حالت احرام میں شکار کرنے کی ممانعت آچکی ہے۔ اب اللہ کی اس سنت کا ذکر ہے کہ اللہ اپنے ماننے والوں کو آزماتا ہے ‘ سخت ترین امتحان لیتا ہے۔ فرض کیجیے کہ حاجیوں کا ایک قافلہ جا رہا ہے ‘ سب نے احرام باندھا ہوا ہے ‘ اتفاق سے ان کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں۔ اب ایک ہرن اٹھکیلیاں کرتے ہوئے قریب آ رہا ہے ‘ بھوک بھی ستا رہی ہے ‘ ضرورت بھی ہے ‘ چاہیں تو ذرا سا نیزہ ماریں اور شکار کرلیں یا ویسے ہی بھاگ کر پکڑ لیں ‘ لیکن پکڑ نہیں سکتے ‘ شکار نہیں کرسکتے ‘ کیونکہ احرام میں ہیں اور اس حالت میں اجازت نہیں ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس طرح آزماتا ہے۔آیت 94 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُہٗٓ اَیْدِیْکُمْ وَرِمَاحُکُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّخَافُہٗ بالْغَیْب ِج شکار پہنچ میں بھی ہے ‘ ان کے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہے ‘ ضرورت بھی ہے ‘ چاہیں تو شکار کرلیں ‘ لیکن مجبور ہیں ‘ کیونکہ احرام باندھا ہوا ہے۔ تو جس کے دل میں ایمان ہوگا وہ اپنی بھوک کو برداشت کرے گا ‘ اللہ کے حکم کو نہیں توڑے گا۔

احرام میں شکار کے مسائل کی تفصیلات حضرت ابن عباس فرماتے ہیں چھوٹے چھوٹے شکار اور کمزور شکار اور ان کے بچے جنہیں انسان اپنے ہاتھ سے پکڑ لے اور اپنے نیزے کی نوک پر رکھ لے اس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرے گا۔ یعنی انہیں منع فرمایا ہے کہ تم باوجود اس کے بھی ان کا شکار حالت احرام میں نہ کرو خواہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے خواہ آسانی سے شکار ہوسکتا ہو خواہ سختی سے۔ چناچہ عمرہ حدیبیہ کے موقعہ پر یہی ہوا کہ قسم قسم کے شکار اس قدر بکثرت آپڑے کہ صحابہ کے خیموں میں گھسنے لگے ادھر اللہ کی طرف سے ممانعت ہوگئی تاکہ پوری آزمائش ہوجائے ادھر شکار گویا ہنڈیا میں ہے ادھر ممانعت ہے ہتھیار تو کہاں یونہی اگر چاہیں تو ہاتھ سے پکڑ سکتے یہیں اور پوشیدہ طور سے شکار قبضہ میں کرسکتے ہیں۔ یہ صرف اس لئے تھا کہ فرمانبردار اور نافرمان کا امتحان ہوجائے پوشیدگی میں بھی اللہ کا ڈر رکھنے والے غیروں سے ممتاز ہوجائیں، چناچہ فرمان ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے غائبانہ ڈرتے رہتے ہیں ان کے لئے بڑی بھاری مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔ اب جو شخص اس حکم کے آنے کے بعد بھی حالت احرام میں شکار کھیلے گا شریعت کی مخالفت کرے گا، پھر فرمایا ایماندار و حالت احرام میں شکار نہ کھیلو۔ یہ حکم اپنے معنی کی حیثیت سے تو حلال جانوروں اور ان سے جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں کیلئے ہے، لیکن جو خشکی کے حرام جانور ہیں ان کا شکار کھیلنا امام شافعی کے نزدیک تو جائز ہے اور جمہور کے نزدیک حرام ہے، ہاں اس عام حکم سے صرف وہ چیزیں مخصوص ہیں جن کا ذکر بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں وہ حرام میں قتل کردیئے جائیں اور غیر حرم میں بھی، کوا چیل بچھو چوہا اور کانٹے والا کالا کتا اور روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ ان پانچ جانوروں کے قتل میں احرام والے پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ اس روایت کو سن کر حضرت ایوب اپنے استاد حضرت نافع سے پوچھتے ہیں کہ سانپ کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ اس میں شامل ہے یہ بھی قتل کردیا جائے اس میں کسی کو اختلاف نہیں بعض علماء نے جیسے امام احمد امام مالک وغیرہ نے کتے کے حکم پر درندوں کو بھی رکھا ہے جیسے بھیڑیا شیر وغیرہ۔ اس لئے کہ یہ کتے سے بہت زیادہ ضرر والے ہیں۔ حضرت زید بن اسلم اور حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ ہر حملہ کرنے والے درندے کا حکم ہے دیکھئے رسول اللہ ﷺ نے عتبہ بن ابو لہب کے حق میں جب دعا کی تو فرمایا اے اللہ اس پر شام میں اپنا کوئی کتا مقرر کر دے، پاس جب وہ زرقا میں پہنچا وہاں اسے بھیڑئیے نے پھاڑ ڈالا۔ ہاں اگر محرم نے حالت احرام میں کوے کو یا لومڑی وغیرہ کو مار ڈالا تو اسے بدلہ دینا پڑے گا۔ اسی طرح ان پانچوں قسم کے جانوروں کے بچے اور حملہ کرنے والے درندوں کے بچے بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں ہر وہ جانور جو کھایا نہیں جاتا اس کے قتل میں اور اس کے بچوں کے قتل میں محرم پر کوئی حرج نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان کا گوشت کھایا نہیں جاتا۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کالا کتا حملہ کرنے والا اور بھیڑیا تو محرم قتل کرسکتا ہے اس لئے کہ بھیڑیا بھی جنگلی کتا ہے ان کے سوا جس جانور کا شکار کھیلے گا فدیہ دنیا پڑے گا۔ ہاں اگر کوئی شیر وغیرہ جنگی درندہ اس پر حملہ کرے اور یہ اسے مار ڈالے تو اس صورت میں فدیہ نہیں۔ آپ کے شاگرد زفر کہتے ہیں یہ حملہ کرنے کی صورت میں بھی اگر مار ڈالے گا تو فدیہ دینا پڑے گا۔ بعض احادیث میں غریب ابقع کا لفظ آیا ہے یہ وہ کوا ہے جس کے پیٹ اور پیٹھ پر سفیدی ہوتی ہے۔ مطلق سیاہ اور بالکل سفید کوے کو غراب ابقع نہیں کہتے لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کے کوے کا یہی حکم ہے کیونکہ بخاری و مسلم کی حدیث میں مطلق کوے کا ذکر ہے۔ امام ملک فرماتے ہیں کوے کو بھی اس حال میں مار سکتا ہے کہ وہ اس پر حملہ کرے یا اسے ایذاء دے مجاہد وغیرہ کا قول ہے کہ اس حالت میں بھی مار نہ ڈالے بلکہ اسے پتھر وغیرہ پھینک کر ہٹا دے۔ حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے سوال ہوا کہ محرم کس کس جانور کو قتل کر دے ؟ تو آپ نے فرمایا سانپ، بچھو اور چوہا اور کوے کو کنکر مارے اسے مار نہ ڈالے اور کالا کتا اور چیل اور حملہ کرنے والا درندہ۔ (ابو داؤد وغیرہ) پھر فرماتا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر حالت احرام میں شکار کرے اس پر فدیہ ہے۔ حضرت طاؤس کا فرمان ہے کہ خطا سے قتل کرنے والے پر کچھ نہیں۔ لیکن یہ مذہب غریب ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ سے یہی مشتق ہے۔ مجاہد بن جیبر سے مروی ہے کہ مراد وہ شخص ہے جو شکار تو قصداً کرتا ہے لیکن اپنی حالت احرام کی یاد اسے نہیں رہی۔ لیکن جو شخص باوجود احرام کی یاد کے عمداً شکار کرے وہ تو کفارے کی حد سے نکل گیا اس کا احرام باطل ہوگیا۔ یہ قول بھی غریب ہے۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ قصداً شکار کرنے والا اور بھول کر کرنے والا دونوں کفارے میں برابر ہیں امام زہری فرماتے ہیں قرآن سے تو قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ ثابت ہوا اور حدیث نے یہی حکم بھولنے والے کا بھی بیان فرمایا۔ مطلب اس قول کا یہ ہے کہ قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا گنہگار ہونا بھی۔ کیونکہ اس کے بعد آیت (لِّيَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِهٖ) 5۔ المائدہ :95) فرمایا ہے اور آنحضرت ﷺ اور آپ کے اصحاب سے خطا میں بھی یہی حکم ثابت ہے اور اس لئے بھی کہ شکار کو قتل کرنا اس کا تلف کرنا ہے اور ہر تلف کرنے کا بدلہ ضروری ہے خواہ وہ بالقصد ہو یا انجان پنے سے ہو۔ ہاں قصداً کرنے والا گنہگار بھی ہے اور بلا قصد جس سے سرزد ہوجائے وہ قابل ملامت نہیں۔ پھر فرمایا اس کا بدلہ یہ ہے کہ اسی کے مثل چوپایہ جانور راہ للہ قربان کرے۔ ابن مسعود کی قرأت میں فجزاوہ ہے ان دونوں قرأتوں میں مالک شافعی احمد اور جمہور کی دلیل ہے کہ جب شکار چوپالیوں کی مانند ہو تو وہی اس کے بدلے میں دینا ہوگا۔ امام ابوحنیفہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ خواہ شکار کے کسی جانور کی مثل ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں قیمت دینی پڑے گی ہاں اس محرم شکاری کو اختیار ہے کہ خواہ اس قیمت کو صدقہ کر دے خواہ اس سے قربانی کا کوئی جانور خرید لے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ امام صاحب کے اس قول سے صحابہ ؓ کا فیصلہ ہمارے لئے زیادہ قابل عمل ہے انہوں نے شترمرغ کے شکار کے بدلے اونٹ مقرر کیا ہے اور جنگلی گائے کے بدلے پالتو گائے مقرر فرمائی ہے اور ہرن کے بدلے بکری۔ یہ فیصلے ان بزرگ صحابیوں کی سندوں سمیت احکام کی کتابوں میں موجود ہیں جہاں شکار جیسا اور کوئی پالتو چوپایہ نہ ہو اس میں ابن عباس ؓ کا فیصلہ قیمت کا ہے جو مکہ شریف پہنچائی جائے (بیہقی) پھر فرمایا کہ اس کا فیصلہ دو عادل مسلمان کردیں کہ کیا قیمت ہے یا کونسا جانور بدلے میں دیا جائے۔ فقہا نے اس بارے میں اختلاف کیا کہ فیصلہ کرنے والے دو میں ایک خود قاتل ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ تو امام مالک وغیرہ نے تو انکار کیا ہے کیونکہ اسی کا معاملہ ہو اور وہی حکم کرنے والا ہو اور امام شافعی امام احمد وغیرہ نے آیت کے عموم کو سامنے رکھ کر فرمایا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔ پہلے مذہب کی دلیل تو یہ ہے کہ خود حاکم اپنے اوپر اپنا ہی حکم کر کے اسی حکم میں اپنا منصف آپ نہیں بن سکتا۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک اعرابی حضرات ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آیا اور کہا میں نے ایک شکار کو احرام کی حالت میں قتل کردیا ہے اب آپ فرمائیے کہ اس میں مجھ پر بدلہ کیا ہے ؟ آپ نے حضرت ابی بن کعب کی طرف دیکھ کر ان سے دریافت فرمایا کہ آپ فرمائیے کیا حکم ہے ؟ اس پر اعرابی نے کہا سبحان اللہ میں آپ سے دریافت کرنے آیا ہوں آپ خلیفہ رسول ہیں اور آپ کسی سے دریافت فرما رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس میں تیرا کیا بگڑا ؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ دو عادل جو فیصلہ کردیں اس لئے میں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا۔ جب ہم دونوں کسی بات پر اتفاق کرلیں گے تو تجھ سے کہہ دیں گے۔ اس کی سند تو بہت مضبوط ہے لیکن اس میں میمون اور صدیق کے درمیان انقطاع ہے۔ یہاں یہی چاہیے تھا حضرت صدیق ؓ نے جب دیکھا کہ اعرابی جاہل ہے اور جہل کی دوا تعلیم ہے تو آپ نے اسے نرمی اور محبت سے سمجھا دیا اور جبکہ اعتراض کرنے والا خود مدعی علم ہو پھر وہاں یہ صورت نہیں رہتی۔ چناچہ ابن جرید میں ہے حضرت قبیصہ بن جابر کہتے ہیں ہم حج کیلئے چلے ہماری عادت تھی کہ صبح کی نماز پڑھتے ہی ہم سواریوں سے اتر پڑتے اور انہیں چلاتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے پیدل چل پڑتے۔ ایک دن اسی طرح جا رہے تھے کہ ایک ہرن ہماری نگاہ میں پڑا ہم میں سے ایک شخص نے اسے پتھر مارا جو اسے پوری طرح لگا اور وہ مر کر گرگیا وہ شخص اسے مردہ چھوڑ کر اپنی سواری پر سوار ہوگیا۔ ہمیں یہ کام بڑا برا معلوم ہوا اور ہم نے اسے بہت کچھ کہا سنا مکہ شریف پہنچ کر میں اسے حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس لے گیا اس نے سارا واقعہ خود بیان کیا اس وقت جناب فاروق کے پہلو میں ایک صاحب کھڑے تھے جن کا چہرہ چاندی کی طرح جگمگا رہا تھا یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ تھے آپ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر کچھ باتیں کیں پھر میرے ساتھ سے فرمایا کہ تو نے اسے جان بوجھ کر مار ڈالا یا بھول چوک سے اس نے کہا میں نے پتھر اسی پر پھینکا اور قصداً پھینکا لیکن اسے مار ڈالنے کی میری نیت نہ تھی۔ آپ نے فرمایا پھر تو خطا اور عمد کے درمیان درمیان ہے۔ جا تو ایک بکری ذبح کر دے اس کا گوشت صدقہ کر دے اور اس کی کھال اپنے کام میں لا۔ یہ سن کر ہم وہاں سے چلے آئے میں نے اپنے ساتھی سے کہا دیکھ تو نے بڑا قصور کیا ہے اللہ جل شانہ کی نشانیوں کی تجھے عظمت کرنی چاہیے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ خود امیر المؤمنین کو تو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا انہوں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا میرے خیال سے تو اپنی اونٹنی اللہ کے نام سے قربان کر دے شاید اس سے تیرا جرم معاف ہوجائے۔ افسوس کہ اس وقت مجھے یہ آیت یاد ہی نہ رہی کہ حضرت عمر نے تو اس حکم پر عمل کیا ہے کہ دو عادل شخص باہم اتفاق سے جو فیصلہ کریں۔ حضرت عمر کو بھی میرا یہ فتوی دینا معلوم ہوگیا اچانک آپ کوڑا لئے ہوئے آگئے۔ اول تو میرے ساتھی پر کوڑا اٹھا کر فرمایا تو نے ایک تو جرم میں قتل کیا دوسرے حکم کی تعمیل میں بیوقوفی کر رہا ہے۔ اب میری طرف متوجہ ہوئے میں نے کہا امیر المومنین اگر آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی تو میں آپ کو آج کی تکلیف ہرگز معاف نہیں کروں گا۔ آپ نرم پڑگئے اور مجھ سے فرمانے لگے اے قبصیہ میرے خیال سے تو تو جوانی کی عمر والا کشادہ سینے والا اور چلتی زبان والا ہے۔ یاد رکھ نوجوانوں میں اگر نو خصلتیں اچھی ہوں اور ایک بری ہو تو وہ ایک بری خصلت نو بھلی خصلتوں کو مات کردیتی ہے۔ سن جوانی کی لغزشوں سے بچارہ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ؓ نے احرام کی حالت میں ایک ہرن کا شکار کرلیا پھر حضرت عمر کے پاس گئے آپ نے فرمایا جاؤ اپنے دو رشتے داروں کو لے آؤ وہی فیصلہ کریں گے میں جا کر حضرت عبدالرحمن کو اور حضرت سعد کو بلا لایا۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک موٹا تازہ بکرا فدیہ دوں۔ حضرت طارق فرماتے ہیں ایک شخص نے ایک ہرن کو تیر مارا وہ مرگیا حضرت عمر سے اس نے مسئلہ پوچھا تو آپ نے خود اس کو بھی مشورے میں شریک کرلیا دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ گھر کی پالتو بکری راہ للہ قربان کرو اس میں یہ دلیل ہے کہ خود قاتل بھی دو حکم کرنے والوں میں ایک بن سکتا ہے۔ جیسے کہ امام شافعی اور امام احمد کا مذہب ہے۔ پھر آیا ہر معاملہ میں اب بھی موجودہ لوگوں میں سے دو حکم فیصلہ کریں گے یا صحابہ کے فیصلے کافی ہیں ؟ اس میں بھی اختلاف ہے امام مالک اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں ہر فیصلہ اس وقت کے موجود دو عقلمند لوگوں سے کرایا جائے گو اس میں پہلے کا کوئی فیصلہ ہو یا نہ ہو۔ پھر فرماتا ہے یہ فدیئے کی قربانی حرم میں پہنچے یعنی وہیں ذبح ہو اور وہیں اس کا گوشت مسکینوں میں تقسیم ہو اس پر سب کا اتفاق ہے پھر فرمایا کفارہ ہے مسکینوں کا کھانا کھلانا یا اس کے برابر کے روزے، یعنی جب محرم اپنے قتل کئے ہوئے شکار کے مانند کوئی جانور نہ پائے یا خود شکار ایسا ہوا ہی نہیں جس کے مثل کوئی جانور پالتو ہو یہاں پر لفظ او اختیار کے ثابت کرنے کیلئے ہے یعنی بدلے کے جانور میں کھانا کھالانے میں اور روزے رکھنے میں اختیار ہے جیسے کہ امام مالک امام ابوحنیفہ امام ابو یوسف امام محمد بن حسن اور امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول اور امام احمد کا مشہور قول ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ بھی یہی ہیں، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ترتیب وار ہیں، یعنی پہلے تو بدلہ پس مالک ابوحنیفہ ان کے ساتھی، حماد اور ابراہیم کا تو قول ہے کہ خود شکار کی قیمت لگائی جائے گی اور امام شافعی فرماتے ہیں شکار کے برابر کے جانور کی قیمت لگائی جائے گی اگر وہ موجود ہو پھر اس کا اناج خریدا جائے گا اور اس میں سے ایک ایک مد ایک ایک مسکین کو دیا جائے گا مالک اور فقہاء حجاز کا قول بھی یہی ہے، امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں ہر مسکین کو دو مد دیئے جائیں گے مجاہد کا قول یہی ہے، امام احمد فرماتے ہیں گہیو ہوں تو ایک مد اور اس کے سوا کچھ ہو تو دو مد، پس اگر نہ پائے یا اختیار اس آیت سے ثابت ہوجائے تو ہر مسکین کے کھانے کے عوض ایک روزہ رکھ لے، بعض کہتے ہیں جتنا اناج ہو اس کے ہر ایک صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے جیسے کہ اس شخص کے لئے یہ حکم ہے جو خوشبو وغیرہ لگائے، شارع ؑ نے حضرت کعب بن عجرہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک فرق کو چھ شخصوں کے درمیان تقسیم کردیں یا تین دن کے روزے رکھیں، فرق تین صاع کا ہوتا ہے اب کھانا پہنچانے کی جگہ میں بھی اختلاف ہے، امام شافعی کا فرمان ہے کہ اس کی جگہ حرم ہے، عطاء کا قول بھی یہی ہے، مجاہد فرماتے ہیں جہاں شکار کیا ہے وہیں کھلوا دے، یا اس سے بہت زیادہ کی قریب کی جگہ میں، امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں خواہ حرم میں خواہ غیر حرم میں اختیار ہے۔ سلف کی اس آیت کے متعلق اقوال ملاحظہ ہوں، ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب محرم شکار کھیل لے اس پر اس کے بدلے کے چوپائے کا فیصلہ کیا جائے گا اگر نہ ملے تو دیکھا جائے گا کہ وہ کس قیمت کا ہے، پھر اس نقدی کے اناج کا اندازہ کیا جائے گا پھر جتنا اناج ہوگا اسی کے ناپ سے ہر نصف صاع کے بدلے ایک روزہ رکھنا ہوگا پھر جب طعام پایا جائے گا جزا پالی گئی اور روایت میں ہے جب محرم نے ہرن کو مار ڈالا تو اس پر ایک بکری ہے جو مکہ میں ذبح کی جائے گی اگر نہ پائے تو چھ مسکین کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تین روزے ہیں اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے، اگر شتر مرغ یا گور خر وغیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو تین روزے ہیں۔ اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے، اگر شتر مرغ یا گور خرو غیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تیس دن کے روزے، ابن جریر کی اسی روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ طعام ایک ایک مد ہو جو ان کا پیٹ بھر دے، دوسرے بہت سے تابعین نے بھی طعام کی مقدار بتلائی ہے۔ سدی فرماتے ہیں یہ سب چیزیں ترتیب وار ہیں اور بزرگ فرماتے ہیں کہ تینوں باتوں میں اختیار ہے، امام ابن جریر کا مختار قول بھی یہی ہے پھر فرمان ہے کہ یہ کفارہ ہم نے اس لئے واجب کیا ہے کہ وہ اپنے کرتوت کی سزا کو پہنچ جائے، زمانہ جاہلیت میں جو کچھ کسی نے خطا کی ہے وہ اسلام کی اچھائی کی وجہ سے معاف ہے، اب اسلام میں ان احکام کی موجودگی میں بھی پھر سے اگر کوئی شخص یہ گناہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا۔ گو اس میں حد نہیں امام وقت اس پر کوئی سزا نہیں دے سکتا یہ گناہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے ہاں اسے فدیہ ضرور دینا پڑے گا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فدیہ ہی انتقام ہے۔ یہ یاد رہے کہ جب کبھی محرم حالت احرام میں شکار کو مارے گا اس پر بدلہ واجب ہوگا خواہ کئی دفعہ اس سے یہ حرکت ہوجائے اور خواہ عمداً ہو خواہ خطا ہو ایک دفعہ شکار کے بعد اگر دوبارہ شکار کیا تو اسے کہ دیا جائے کہ اللہ تجھ سے بدلہ لے، ابن عباس سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ پہلی دفعہ کے شکار پر فدیہ کا حکم ہوگا دوبارہ کے شکار پر خود اللہ اس سے انتقام لے گا اس پر فیصلہ فدیہ کا نہ ہوگا لیکن امام ابن جریر کا مختار مذہب پہلا قول ہی ہے، امام حسن بصری ؒ فرماتے ہیں ایک شخص نے محرم ہو کر شکار کیا اس پر فدائے کا فیصلہ کیا گیا اس نے پھر شکار کیا تو آسمان سے آگ آگئی اور اسے جلا کر بھسم کردیا یہی معنی ہیں اللہ کے فرمان آیت (فینتقم اللہ منہ) کے۔ اللہ اپنی سلطنت میں غالب ہے اسے کوئی مغلوب نہیں کرسکتا کوئی اسے انتقام سے روک نہیں سکتا اس کا عذاب جس پر آجائے کوئی نہیں جو اسے ٹال دے، مخلوق سب اسی کی پیدا کی ہوئی ہے حکم اس کا سب پر نافذ ہے عزت اور غلبہ اسی کیلئے ہے، وہ اپنے نافرمانوں سے زبر دست انتقام لیتا ہے۔

آیت 94 - سورۃ المائدہ: (يا أيها الذين آمنوا ليبلونكم الله بشيء من الصيد تناله أيديكم ورماحكم ليعلم الله من يخافه بالغيب ۚ فمن اعتدى...) - اردو