سورۃ المائدہ (5): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المائدہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Maaida
سُورَةُ المَائـِدَةِ
صفحہ 123 (آیات 90 سے 95 تک)

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِنَّمَا ٱلْخَمْرُ وَٱلْمَيْسِرُ وَٱلْأَنصَابُ وَٱلْأَزْلَٰمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ ٱلشَّيْطَٰنِ فَٱجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ إِنَّمَا يُرِيدُ ٱلشَّيْطَٰنُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ ٱلْعَدَٰوَةَ وَٱلْبَغْضَآءَ فِى ٱلْخَمْرِ وَٱلْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ ٱللَّهِ وَعَنِ ٱلصَّلَوٰةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ وَأَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَٱحْذَرُوا۟ ۚ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا ٱلْبَلَٰغُ ٱلْمُبِينُ لَيْسَ عَلَى ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوٓا۟ إِذَا مَا ٱتَّقَوا۟ وَّءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ ثُمَّ ٱتَّقَوا۟ وَّءَامَنُوا۟ ثُمَّ ٱتَّقَوا۟ وَّأَحْسَنُوا۟ ۗ وَٱللَّهُ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَيَبْلُوَنَّكُمُ ٱللَّهُ بِشَىْءٍ مِّنَ ٱلصَّيْدِ تَنَالُهُۥٓ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ ٱللَّهُ مَن يَخَافُهُۥ بِٱلْغَيْبِ ۚ فَمَنِ ٱعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُۥ عَذَابٌ أَلِيمٌ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَقْتُلُوا۟ ٱلصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُۥ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ ٱلنَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِۦ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًۢا بَٰلِغَ ٱلْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّٰرَةٌ طَعَامُ مَسَٰكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِۦ ۗ عَفَا ٱللَّهُ عَمَّا سَلَفَ ۚ وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ ٱللَّهُ مِنْهُ ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ ذُو ٱنتِقَامٍ
123

سورۃ المائدہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المائدہ کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo innama alkhamru waalmaysiru waalansabu waalazlamu rijsun min AAamali alshshaytani faijtaniboohu laAAallakum tuflihoona

پانسہ بازی، جوا اور شراب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ بعض چیزوں سے روکتا ہے۔ شراب کی ممانعت فرمائی، پھر جوئے کی روک کی۔ امیر المونین حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے مروی ہے کہ شطرنج بھی جوئے میں داخل ہے (ابن ابی حاتم) عطا مجاہد اور طاؤس سے یا ان میں سے دو سے مروی ہے کہ جوئے کی ہر چیز میسر میں داخل ہے گو بچوں کے کھیل کے طور پر ہو۔ جاہلیت کے زمانے میں جوئے کا بھی عام رواج تھا جسے اسلام نے غارت کیا۔ ان کا ایک جوا یہ بھی تھا کہ گوشت کو بکری کے بدلے بیجتے تھے، پانسے پھینک کر مال یا پھل لینا بھی جوا ہے۔ حضرت قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ جو چیز ذکر اللہ اور نماز سے غافل کر دے وہ جوا ہے، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع غریب حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان پانسوں سے بچو جن سے لوگ کھیلا کرتے تھے، یہ بھی جوا ہے صحیح مسلم شریف میں ہے پانسوں سے کھیلنے والا گویا اپنے ہاتھوں کو سور کے خون اور گوشت میں آلودہ کرنے والا ہے۔ سنن میں ہے کہ وہ اللہ اور رسول کا نافرمان ہے۔ حضرت ابو موسیٰ کا قول بھی اسی طرح مروی ہے۔ واللہ اعلم، مسند میں ہے پانسوں سے کھیل کر نماز پڑھنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قے اور گندگی سے اور سور کے خون سے وضو کر کے نماز ادا کرے۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک شطرنج اس سے بھی بری ہے۔ حضرت علی سے شطرنج کا جوئے میں سے ہونا پہلے بیان ہوچکا ہے۔ امام مالک امام ابوحنیفہ امام احمد تو کھلم کھلا اسے حرام بتاتے ہیں اور امام شافعی بھی اسے مکروہ بتاتے ہیں۔ انصاب ان پتھروں کو کہتے ہیں جن پر مشرکین اپنے جانور چڑھایا کرتے تھے اور انہیں وہیں ذبح کرتے تھے ازلام ان تیروں کو کہتے ہیں جن میں وہ فال لیا کرتے تھے۔ ان سب چیزوں کی نسبت فرمایا کہ یہ اللہ کی ناراضگی کے اور شیطانی کام ہیں۔ یہ گناہ کے اور برائی کے کام ہیں تم ان شیطانی کاموں سے بچو انہیں چھوڑ دو تاکہ تم نجات پاؤ۔ اس فقرے میں مسلمانوں کو ان کاموں سے روکنے کی ترغیب ہے۔ پھر رغبت آمیز دھمکی کے ساتھ مسلمانوں کو ان چیزوں سے روکا گیا ہے۔ حرمت شراب کی مزید وضاحت اب ہم یہاں پر حرمت شراب کی مزید احادیث وارد کرتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں شراب تین مرتبہ حرام ہوئی۔ آنحضرت ﷺ جب مدینے شریف میں آئے تو لوگ جواری شرابی تھے حضور ﷺ سے اس بارے میں سوال ہوا اور آیت (يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۭ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ للنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا) 2۔ البقرۃ :219) نازل ہوئی۔ اس پر لوگوں نے کہا یہ دونوں چیزیں ہم پر حرام نہیں کی گئیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ فوائد بھی ہیں۔ چناچہ شراب پیتے رہے۔ ایک دن ایک صحابی اپنے ساتھیوں کو مغرب کی نماز پڑھانے کیلئے کھرے ہوئے تو قرأت خط ملط ہوگئی اس پر آیت (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا) 4۔ النسآء :43) نازل ہوئی۔ یہ بہ نسبت پہلی آیت کے زیادہ سخت تھی اب لوگوں نے نمازوں کے وقت شراب چھوڑ دی لیکن عادت برابر جاری رہی اس پر اس سے بھی زیادہ سخت اور صریح آیت (يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ) 5۔ المائدہ :90) نازل ہوئی اسے سن کر سارے صحابہ بول اٹھے انتھینا ربنا اے اللہ ہم اب باز رہے، ہم رک گئے، پھر لوگوں نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا جو شراب اور جوئے کی حرمت کے نازل ہونے سے پیشتر اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے تھے اس کے جواب میں اس کے بعد کی آیت (لیس علی الذین) الخ، نازل ہوئی اور آپ نے فرمایا اگر ان کی زندگی میں یہ حکم اترا ہوتا تو وہ بھی تمہاری طرح اسے مان لیتے، مسند احمد میں ہے حضرت عمر بن خطاب ؓ نے تحریم شراب کے نازل ہونے پر فرمایا یا اللہ ہمارے سامنے اور کھول کر بیان فرما پس سورة بقرہ کی آیت (فیھما اثم کبیر) نازل ہوئی۔ حضرت عمر فاروق کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس کی تلاوت کی گئی پھر بھی آپ نے فرمایا اے اللہ تو ہمیں اور واضح لفظوں میں فرما ! پس سورة نساء کی آیت (وانتم سکاری) نازل ہوئی اور مؤذن جب حی علی الصلوۃ کہتا تو ساتھ ہی کہ دیتا کہ نشہ باز ہرگز ہرگز نماز کے قریب بھی نہ آئیں۔ حضرت عمر کو بلوایا گیا اور یہ آیت بھی انہیں سنائی گئی لیکن پھر بھی آپ نے یہی فرمایا کہ اے اللہ اس بارے میں صفائی سے بیان فرما۔ پس سورة مائدہ کی آیت اتری آپ کو بلوایا گیا اور یہ آیت سنائی گئی جب آیت (فھل انتم منتھون) تک سنا تو فرمانے لگے انتھینا انتھینا ہم رک گئے ہم رک گئے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے منبر نبوی پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ شراب کی حرمت جب نازل ہوئی اس وقت شراب پانچ چیزوں کی بنائی جاتی تھی، انگور، شہد، کجھور، گہیوں اور جو۔ ہر وہ چیز جو عقل پر غالب آجائے خمر ہے۔ یعنی شراب کے حکم میں ہے اور حرام ہے صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ شراب کی حرمت کی آیت کے نزول کے موقع پر مدینے شریف میں پانچ قسم کی شرابیں تھیں ان میں انگور کی شراب نہ تھی، ابو داؤد طیالسی میں ہے ابن عمر فرماتے ہیں شراب کے بارے میں تین آیتیں اتریں۔ اول تو آیت (یسلونک عن الخمر) والی آیت اتری تو کہا گیا کہ شراب حرام ہوگئی اس پر بعض صحابہ نے فرمایا رسول اللہ ہمیں اس سے نفع اٹھانے دیجئے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آپ خاموش ہوگئے پھر آیت (وانتم سکاری) والی آیت اتری اور کہا گیا کہ شراب حرام ہوگئی۔ لیکن صحابہ نے فرمایا دیا رسول اللہ ہم بوقت نماز نہ پئیں گے۔ آپ پھر چپ رہے پھر یہ دونوں آیتیں اتری اور خود رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا کہ اب شراب حرام ہوگئی۔ مسلم وغیرہ میں ہے کہ حضور کا ایک دوست تھا قبیلہ ثقیف میں سے یا قبیلہ دوس میں سے۔ فتح مکہ والے دن وہ آپ سے ملا اور ایک مشک شراب کی آپ کو تحفتاً دینے لگا آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کردیا ہے۔ اب اس شخص نے اپنے غلام سے کہا کہ جا اسے بیچ ڈال، آپ نے فرمایا کیا کہا ؟ اس نے جواب دیا کہ بیچنے کو کہہ رہا ہوں آپ نے فرمایا جس اللہ نے اس کا پینا حرام کیا ہے اسی نے اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے۔ اس نے اسی وقت کہا جاؤ اسے لے جاؤ اور بطحا کے میدان میں بہا آؤ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ حضرت تمیم دارمی آنحضرت ﷺ کو تحفہ دینے کیلئے ایک مشک شراب کی لائے، آپ اسے دیکھ کر ہنس دیئے اور فرمایا یہ تو تمہارے جانے کے بعد حرام ہوگئی ہے کہا خیر یا رسول اللہ میں اسے واپس لے جاتا ہوں اور بیچ کر قیمت وصول کرلوں گا، یہ سن کر آپ نے فرمایا یہودیوں پر اللہ کی لنعٹ ہوئی کہ ان پر جب گائے بکری کی چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کیا، اللہ تعالیٰ نے شراب کو اور اس کی قیمت کو حرام کردیا ہے مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے کہ اس میں ہے کہ ہر سال حضرت دارمی ایک مشک ہدیہ کرتے تھے، اس کے آخر میں حضور کا دو مرتبہ یہ فرمانا ہے کہ شراب بھی حرام اور اس کی قیمت بھی حرام، ایک حدیث مسند احمد میں اور ہے اس میں ہے کہ حضرت کیسان ؓ شراب کے تاجر تھے جس سال شراب حرام ہوئی اس سال یہ شام کے ملک سے بہت سی شراب تجارت کیلئے لائے تھے حضور سے ذکر کیا آپ نے فرمایا اب تو حرام ہوگئی پوچھا پھر میں اسے بیچ ڈالوں ؟ آپ نے فرمایا یہ بھی حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے۔ چناچہ حضرت کیسان نے وہ ساری شراب بہا دی، مسند احمد میں ہے حضرت انس ؓ فرماتے ہیں، میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح حضرت ابی بن کعب، حضرت سہل بن بیضاء اور صحابہ کرام کی ایک جماعت کو شراب پلا رہا تھا دور چل رہا تھا سب لذت اندوز ہو رہے تھے قریب تھا کہ نشے کا پارہ بڑھ جائے، اتنے میں کسی صحابی نے آ کر خبر دی کہ کیا تمہیں علم نہیں شراب تو حرام ہوگئی ؟ انہوں نے کہا بس کرو جو باقی بچی ہے اسے لنڈھا دو اللہ کی قسم اس کے بعد ایک قطرہ بھی ان میں سے کسی کے حلق میں نہیں گیا۔ یہ شراب کھجو کی تھی اور عامتاً اسی کی شراب بنا کرتی تھی، یہ روایت بخاری مسلم میں بھی ہے اور روایت میں ہے کہ شراب خوری کی یہ مجلس حضرت ابو طلحہ ؓ کے مکان پر تھی، ناگاہ منادی کی آواز پڑی مجھ سے کہا گیا باہر جاؤ دیکھو کیا منادی ہو رہی ہے ؟ میں نے جا کر سنا منادی ندا دے رہا ہے کہ شراب تم پر حرام کی گئی ہے، میں نے آ کر خبر دی تو حضرت ابو طلحہ نے فرمایا اٹھو جتنی شراب ہے سب بہادو میں نے بہادی اور میں نے دیکھا کہ مدینے کے گلی کوچوں میں شراب بہہ رہی ہے، بعض اصحاب نے کہا ان کا کیا حال ہوگا جن کے پیٹ میں شراب تھی اور وہ قتل کردیئے گئے ؟ اس پر اس کے بعد کی آیت (لیس علی الذین) الخ، نازل ہوئی یعنی ان پر کوئی حرج نہیں، ابن جریر کی روایت میں اس مجلس والوں کے ناموں میں حضرت ابو دجانہ اور حضرت معاذ بن جبل کا نام بھی ہے اور یہ بھی ہے کہ ندا سنتے ہی ہم نے شراب بہا دی، مٹکے اور پیپے توڑ ڈالے۔ کسی نے وضو کرلیا، کسی نے غسل کرلیا اور حضرت ام سلیم کے ہاں سے خوشبو منگوا کر لگائی اور مسجد پہنچے تو دیکھا حضور ﷺ یہ آیت پڑھ رہے تھے، ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور اس سے پہلے جو لوگ فوت ہوگئے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ پس اس کے بعد آیت اتری، کسی نے حضرت قتادہ سے پوچھا کہ آپ نے یہ حدیث خود رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے ؟ فرمایا ہاں ہم جھوٹ نہیں بولتے بلکہ ہم تو جانتے بھی نہیں کہ جھوٹ کسے کہتے ہیں ؟ مسند احمد میں ہے حضور فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے شراب اور پانسے اور بربط کا باجا حرام کردیا ہے، شراب سے بچو غبیرا نام کی شراب عام ہے مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص مجھ سے وہ بات منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے۔ میں نے آپ سے سنا ہے کہ شراب جوا پانسے اور غبیرا سب حرام ہیں اور ہر نشے والی چیز حرام ہے، مسند احمد میں ہے شراب کے بارے میں دس لعنتیں ہیں خود شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے بیچنے والے پر، اس کے خریدنے والے پر اس کے نچوڑنے والے پر، اس کے بنانے والے پر، اس کے اٹھانے والے پر اور اس پر بھی جس کے پاس یہ اٹھا کرلے جایا جائے اور اس کی قیمت کھانے والے پر (ابو داؤد، ابن ماجہ) مسند میں ہے ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ باڑے کی طرف نکلے میں آپ کے ساتھ تھا۔ آپ کے دائیں جانب چل رہا تھا جو حضرت ابوبکر صدیق آئے میں ہٹ گیا اور آپ کے داہنے حضرت صدیق چلنے لگے تھوڑی دیر میں حضرت عمر آگئے میں ہٹ گیا آپ حضور کے بائیں طرف ہوگئے جب آپ باڑے میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پر چند مشکیں شراب کی رکھی ہوئی ہیں آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا چھری لاؤ جب میں لایا تو آپ نے حکم دیا کہ یہ مشکیں کاٹ دی جائیں پھر فرمایا شراب پر، اس کے پینے والے پر، پلانے والے پر، بیچنے والے پر، خریدار پر، اٹھانے والے پر، اٹھوانے والے پر، بنانے والے پر، بنوانے والے پر، قیمت لینے والے پر سب پر لعنت ہے، مسند احمد کی اور روایت میں ہے کہ حضور نے یہ مشکیں کٹوا دیں پھر مجھے اور میرے ساتھیوں کو چھری دے کر فرمایا جاؤ جتنی مشکیں شراب کی جہاں پاؤ سب کاٹ کر بہا دو ، پس ہم گئے اور سارے بازار میں ایک مشک بھی نہ چھوڑی۔ بہقی کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص شراب بیجتے تھے اور بہت خیرات کیا کرتے تھے حضرت ابن عباس سے شراب فروشی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے، اے امت محمد اگر تمہاری کتاب کے بعد کوئی کتاب اترنے والی ہوتی اور اگر تمہارے نبی کے بعد کوئی نبی اور آنے والا ہوتا، جس طرح اگلوں کی رسوائیاں اور ان کی برائیاں تمہاری کتاب میں اتریں تمہاری خرابیاں ان پر نازل ہوتیں لیکن تمہارے افعال کا اظہار قیامت کے دن پر مؤخر رکھا گیا ہے اور یہ بہت بھاری اور بڑا ہے، پھر حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا سنو میں حضور کے ساتھ مسجد میں تھا۔ آپ گوٹھ لگائے ہوئے بیٹھے تھے فرمانے لگے جس کے پاس جتنی شراب ہو وہ ہمارے پاس لائے۔ لوگوں نے لانی شروع کی، جس کے پاس جتنی تھی حاضر کی۔ آپ نے فرمایا جاؤ اسے بقیع کے میدان میں فلاں فلاں جگہ رکھو۔ جب سب جمع ہوجائے مجھے خبر کو، جب جمع ہوگئی اور آپ سے کہا گیا تو آپ اٹھے میں آپ کے داہنے جانب تھا آپ مجھ پر ٹیک لگائے چل رہے تھے حضرت ابوبکر صدیق جب آئے تو آپ نے مجھے ہٹا دیا اپنے بائیں کردیا اور میری جگہ حضرت ابوبکر نے لے لی، پھر حضرت عمر سے ملاقت ہوئی تو آپ نے مجھے اور پیچھے ہٹا دیا اور جناب فاروق کو اپنے بائیں لے لیا اور وہاں پہنچے لوگوں سے فرمایا جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ سب نے کہا ہاں جانتے ہیں یہ شراب ہے، فرمایا سنو اس پر اس کے بنانے والے پر، بنوانے والے پر، پینے والے پر، پلانے والے پر، اٹھانے والے پر، اٹھوانے والے پر، بیچنے والے پر، خریدنے والے پر، قیمت لینے والے پر اللہ کی پھٹکار ہے۔ پھر چھری منگوائی اور فرمایا اسے تیز کرلو پھر اپنے ہاتھ سے مشکیں پھاڑنی اور مٹکے توڑنے شروع کئے لوگوں نے کہا بھی کہ حضور مشکوں اور مٹکو کو رہنے دیجئے اور کام آئیں گی فرمایا ٹھیک ہے لیکن میں تو اب ان سب کو توڑ کر ہی رہوں گا یہ غضب و غضہ اللہ کیلئے ہے کیونکہ ان تمام چیزوں سے رب اراض ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا حضور آپ خود کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم حاضر ہیں فرمایا نہیں میں اپنے ہاتھ سے انہیں نیست و نابود کروں گا۔ بیہقی کی حدیث میں ہے کہ شراب کے بارے میں چار آیتیں اتری ہیں۔ پھر حدیث بیان فرما کر کہا کہ ایک انصاری نے دعوت کی ہم دعوت میں جمع ہوئے خوب شرابیں پیں۔ نشے میں جھومتے ہوئے اپنے نام و نسب پر فخر کرنے لگے، ہم افضل ہیں۔ قریشی نے کہا ہم افضل ہیں۔ ایک انصاری نے اونٹ کے جبڑا لے کر حضرت سعد کو مارا اور ہاتھا پائی ہونے لگی پھر شراب کی حرمت کی آیت اتری۔ یہ شراب پی کر بدمست ہوگئے اور آپس میں لاف زنی ہونے لگی جب نشے اترے تو دیکھتے ہیں اس کی ناک پر زخم ہے اس کے چہرے پر زخم ہے اس کی داڑھی نچی ہوئی ہے اور اسے چوٹ لگی ہوئی ہے، کہنے لگے مجھے فلاں نے مارا میری بےحرمتی فلاں نے کی اگر اس کا دل میری طرف سے صاف ہوتا تو میرے ساتھ یہ حرکت نہ کرتا دلوں میں نفرت اور دشمنی بڑھنے لگی پس یہ آیت اتری۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا جب یہ گندگی ہے تو فلاں فلاں صحابہ تو اسے پیتے ہوئے ہی رحلت کر گئے ہیں ان کا کیا حال ہوگا ؟ ان میں سے بعض احد کے میدان میں شہید ہوئے ہیں اس کے جواب میں اگلی آیت اتری۔ ابن جریر میں ہے حضرت ابو بریدہ کے والد کہتے ہیں کہ ہم چار شخص ریت کے ایک ٹیلے پر بیٹھے شراب پی رہے تھے دور چل رہا تھا جام گردش میں تھا ناگہاں میں کھڑا ہوا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سلام کیا وہیں حرمت شراب کی یہ آیت نازل ہوئی۔ میں پچھلے پیروں اپنی اسی مجلس میں آیا اور اپنے ساتھیوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی، بعض وہ بھی تھے، جن کے منہ سے جام لگا ہوا تھا لیکن واللہ انہوں نے اسی وقت اسے الگ کردیا اور جتنا پیا تھا اسے قے کر کے نکال دیا اور کہنے لگے یا اللہ ہم رک گئے ہم باز آگئے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جنگ احد کی صبح بعض لوگوں نے شرابیں پی تھیں اور میدان میں اسی روز اللہ کی راہ میں شہید کردیئے گئے اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔ بزار میں یہ ذاتی بھی ہے کہ اسی پر بعض یہودیوں نے اعتراض کیا اور جواب میں آیت (لَيْسَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ) 5۔ المائدہ :93) نازل ہوئی، ابو یعلی موصلی میں ہے کہ ایک شخص خیبر سے شراب لا کر مدینے میں فروخت کیا کرتا تھا ایک دن وہ لا رہا تھا ایک صحابی راستے میں ہی اسے مل گئے اور فرمایا شراب تو اب حرام ہوگئی وہ واپس مڑ گیا اور ایک ٹیلے تلے اسے کپڑے سے ڈھانپ کر آگیا اور حضور سے کہنے لگا کیا یہ سچ ہے کہ شراب حرام ہوگئی ؟ آپ نے فرمایا ہاں سچ ہے کہا پھر مجھے اجازت دیجئے کہ جس سے لی ہے اسے واپس کر دوں۔ فرمایا اس کا لوٹانا بھی جائز نہیں، کہا پھر اجازت دیجئے کہ میں اسے ایسے شخص کو تحفہ دوں جو اس کا معاوضہ مجھے دے آپ نے فرمایا یہ بھی ٹیک نہیں کہ حضور اس میں یتیموں کا مال بھی لگا ہوا ہے فرمایا دیکھو جب ہمارے پاس بحرین کا مال آئے گا اس سے ہم تمہارے یتیموں کی مدد کریں گے پھر مدینہ میں منا دی ہوگئی ایک شخص نے کہا حضور شراب کے برتنوں سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دیجئے آپ نے فرمایا جاؤ مشکوں کو کھول ڈالو اور شراب بہا دو اس قدر شراب بہی کہ میدان بھر گئے۔ یہ حدیث غریب ہے، مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول کریم ﷺ سے سوال کیا کہ میرے ہاں جو یتیم بچے پل رہے ہیں ان کے ورثے میں انہیں شراب ملی ہے آپ نے فرمایا جاؤ اس یہا دو عرض کیا اگر اجازت ہو تو اس کا سرکہ بنا لوں فرمایا نہیں۔ یہ حدیث مسلم ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔ ابن ابی حاتم میں صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے فرمایا جیسے یہ آیت قرآن میں ہے تورات میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو نازل فرمایا تاکہ اس کی وجہ سے باطل کو دور کر دے اور اس سے کھیل تماشے باجے گاجے بربط دف طنبورہ راگ راگنیاں فنا کر دے۔ شرابی کیلئے شراب نقصان دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ جو اسے حرمت کے بعد پئے گا اسے میں قیامت کے دن پیاسا رکھوں گا اور حرمت کے بعد جوا سے چھوڑے گا میں اسے جنت کے پاکیزہ چشمے سے پلاؤں گا۔ حدیث شریف میں ہے جس شخص نے نشہ کی وجہ سے ایک وقت کی نماز چھوڑی وہ ایسا ہے جیسے کہ سے روئے زمین کی سلطنت جھن گئی اور جس شخص نے چار بار کی نماز نشے میں چھوڑ دی اللہ تعالیٰ اسے طینتہ الخیال پلائے گا۔ پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے ؟ فرمایا جہنمیوں کا لہو پیپ پسینہ پیشاب وغیرہ (مسند احمد) ابو داؤد میں ہے کہ ہر عقل کو ڈھانپنے والی چیز خمر ہے اور ہر نشہ والی چیز حرام ہے اور جو شخص نشے والی چیز پئے گا اس کی چالیس دن کی نمازیں ناقبول ہیں۔ اگر وہ توبہ کرے گا تو توبہ قبول ہوگی اگر اس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور طینتہ الخیال پلائے گا پوچھا گیا وہ کیا ہے ؟ فرمایا جہنمیوں کا نچوڑ اور ان کی پیپ اور جو شخص اسے کسی بچہ کو پلائے گا جو حلال حرام کی تمیز نہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے بھی جہنمیوں کا پیپ پلائے۔ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے دنیا میں جو شراب پیئے گا اور توبہ نہ کرے گا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ہر نشے والی چیز خمر ہے اور ہر نشے والی چیز حرام ہے اور جس شخص نے شراب کی عادت ڈالی اور بےتوبہ مرگیا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا۔ نسائی وغیرہ میں ہے تین شخصوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر رحمت سے نہ دیکھے گا، ماں باپ کا نافرمان، شراب کی عادت والا اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتلانے والا، مسند احمد میں ہے کہ دے کر احسان جتانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور شرابی جنت میں نہیں جائے گا۔ مسند احمد میں اس کے ساتھ ہی ہے کہ زنا کی اولاد بھی، حضرت عثمان بن عفان ؓ تعلای عنہ فرماتے ہیں شراب سے پرہیز کرو وہ تمام برائیوں کی جر ہے۔ سنو اگلے لوگوں میں ایک ولی اللہ تھا جو بڑا عبادت گزر تھا اور تارک دنیا تھا۔ بستی سے الگ تھلگ ایک عبادت خانے میں شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہا کرتا تھا، ایک بدکار عورت اس کے پیچھے لگ گئی، اس نے اپنی لونڈی کو بھیج کر اسے اپنے ہاں ایک شہادت کے بہانے بلوایا، یہ چلے گئے لونڈی اپنے گھر میں انہیں لے گئی جس دروازے کے اندر یہ پہنچ جاتے پیچھے سے لونڈی اسے بند کرتی جاتی۔ آخری کمرے میں جب گئے تو دیکھا کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت بیٹھی ہے، اس کے پاس ایک بچہ ہے اور ایک جام شراب لبالب بھرا رکھا ہے۔ اس عورت نے اس سے کہا سنئے جناب میں نے آپ کو درحقیقت کسی گواہی کیلئے نہیں بلوایا فی الواقع اس لئے بلوایا ہے کہ یا تو آپ میرے ساتھ بدکاری کریں یا اس بچے کو قتل کردیں یا شراب کو پی لیں درویش نے سوچ کر تینوں کاموں میں ہلکا کام شراب کا پینا جان کر جام کو منہ سے لگا لیا، سارا پی گیا۔ کہنے لگا اور لاؤ اور لاؤ، خوب پیا، جب نشے میں مدہوش ہوگیا تو اس عورت کے ساتھ زنا بھی کر بیٹھا اور اس لڑکے کو بھی قتل کردیا۔ پس اے لوگو ! تم شراب سے بچو سمجھ لو کہ شراب اور ایمان جمع نہیں ہوتے ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے (بیہقی) امام ابوبکر بن ابی الدنیا ؒ نے اپنی کتاب ذم المسکر میں بھی اسے وارد کیا ہے اور اس میں مرفوع ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہے واللہ اعلم، اس کی شاہد بخاری و مسلم کی مرفوع حدیث بھی ہے جس میں ہے کہ زانی زنا کے وقت، چور چوری کے وقت، شرابی شراب خوری کے وقت مومن نہیں رہتا۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب شراب حرام ہوئی تو صحابہ نے سوال کیا کہ اس کی حرمت سے پہلے جو لوگ انتقال کرچکے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ اس پر یہ آیت (لیس علی الذین) الخ، نازل ہوئی یعنی ان پر اس میں کوئی حرج نہیں اور جب بیت المقدس کا قبلہ بدلا اور بیت اللہ شریف قبلہ ہوا اس وقت بھی صحابہ نے پہلے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے انتقال کر جانے والوں کی نسبت دریافت کیا تو آیت (ماکان اللہ لیضیع ایمانکم) الخ، نازل ہوئی یعنی ان کی نمازیں ضائع نہ ہوں گی۔ مسند احمد میں ہے جو شخص شراب پئے چالیس دن تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر رہتی ہے اگر وہ اسی حالت میں مرگیا تو کافر مرے گا ہاں اگر اس نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا اور اگر اس نے پھر بھی شراب پی تو اللہ تعالیٰ دوزخیوں کا فضلہ پلائے گا اور روایت میں ہے کہ جب یہ حکم اترا کہ ایمانداروں پر حرمت سے پہلے پی ہوئی کا کوئی گناہ نہیں تو حضور نے فرمایا مجھ سے کہا گیا ہے کہ تو انہی میں سے ہے۔ مسند احمد میں ہے پانسوں کے کھیل سے بچو یہ عجمیوں کا جوا ہے۔

اردو ترجمہ

شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama yureedu alshshaytanu an yooqiAAa baynakumu alAAadawata waalbaghdaa fee alkhamri waalmaysiri wayasuddakum AAan thikri Allahi waAAani alssalati fahal antum muntahoona

اردو ترجمہ

اللہ اور اُس کے رسول کی بات مانو اور باز آ جاؤ، لیکن اگر تم نے حکم عدولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول پر بس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaateeAAoo Allaha waateeAAoo alrrasoola waihtharoo fain tawallaytum faiAAlamoo annama AAala rasoolina albalaghu almubeenu

اردو ترجمہ

جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی بشرطیکہ وہ آئندہ اُن چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اچھے کام کریں، پھر جس جس چیز سے روکا جائے اس سے رکیں اور جو فرمان الٰہی ہو اُسے مانیں، پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویہ رکھیں اللہ نیک کردار لوگوں کو پسند کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laysa AAala allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati junahun feema taAAimoo itha ma ittaqaw waamanoo waAAamiloo alssalihati thumma ittaqaw waamanoo thumma ittaqaw waahsanoo waAllahu yuhibbu almuhsineena

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ تمہیں اُس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے، پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اُس کے لیے درد ناک سزا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo layabluwannakumu Allahu bishayin mina alssaydi tanaluhu aydeekum warimahukum liyaAAlama Allahu man yakhafuhu bialghaybi famani iAAtada baAAda thalika falahu AAathabun aleemun

احرام میں شکار کے مسائل کی تفصیلات حضرت ابن عباس فرماتے ہیں چھوٹے چھوٹے شکار اور کمزور شکار اور ان کے بچے جنہیں انسان اپنے ہاتھ سے پکڑ لے اور اپنے نیزے کی نوک پر رکھ لے اس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرے گا۔ یعنی انہیں منع فرمایا ہے کہ تم باوجود اس کے بھی ان کا شکار حالت احرام میں نہ کرو خواہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے خواہ آسانی سے شکار ہوسکتا ہو خواہ سختی سے۔ چناچہ عمرہ حدیبیہ کے موقعہ پر یہی ہوا کہ قسم قسم کے شکار اس قدر بکثرت آپڑے کہ صحابہ کے خیموں میں گھسنے لگے ادھر اللہ کی طرف سے ممانعت ہوگئی تاکہ پوری آزمائش ہوجائے ادھر شکار گویا ہنڈیا میں ہے ادھر ممانعت ہے ہتھیار تو کہاں یونہی اگر چاہیں تو ہاتھ سے پکڑ سکتے یہیں اور پوشیدہ طور سے شکار قبضہ میں کرسکتے ہیں۔ یہ صرف اس لئے تھا کہ فرمانبردار اور نافرمان کا امتحان ہوجائے پوشیدگی میں بھی اللہ کا ڈر رکھنے والے غیروں سے ممتاز ہوجائیں، چناچہ فرمان ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے غائبانہ ڈرتے رہتے ہیں ان کے لئے بڑی بھاری مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔ اب جو شخص اس حکم کے آنے کے بعد بھی حالت احرام میں شکار کھیلے گا شریعت کی مخالفت کرے گا، پھر فرمایا ایماندار و حالت احرام میں شکار نہ کھیلو۔ یہ حکم اپنے معنی کی حیثیت سے تو حلال جانوروں اور ان سے جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں کیلئے ہے، لیکن جو خشکی کے حرام جانور ہیں ان کا شکار کھیلنا امام شافعی کے نزدیک تو جائز ہے اور جمہور کے نزدیک حرام ہے، ہاں اس عام حکم سے صرف وہ چیزیں مخصوص ہیں جن کا ذکر بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں وہ حرام میں قتل کردیئے جائیں اور غیر حرم میں بھی، کوا چیل بچھو چوہا اور کانٹے والا کالا کتا اور روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ ان پانچ جانوروں کے قتل میں احرام والے پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ اس روایت کو سن کر حضرت ایوب اپنے استاد حضرت نافع سے پوچھتے ہیں کہ سانپ کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ اس میں شامل ہے یہ بھی قتل کردیا جائے اس میں کسی کو اختلاف نہیں بعض علماء نے جیسے امام احمد امام مالک وغیرہ نے کتے کے حکم پر درندوں کو بھی رکھا ہے جیسے بھیڑیا شیر وغیرہ۔ اس لئے کہ یہ کتے سے بہت زیادہ ضرر والے ہیں۔ حضرت زید بن اسلم اور حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ ہر حملہ کرنے والے درندے کا حکم ہے دیکھئے رسول اللہ ﷺ نے عتبہ بن ابو لہب کے حق میں جب دعا کی تو فرمایا اے اللہ اس پر شام میں اپنا کوئی کتا مقرر کر دے، پاس جب وہ زرقا میں پہنچا وہاں اسے بھیڑئیے نے پھاڑ ڈالا۔ ہاں اگر محرم نے حالت احرام میں کوے کو یا لومڑی وغیرہ کو مار ڈالا تو اسے بدلہ دینا پڑے گا۔ اسی طرح ان پانچوں قسم کے جانوروں کے بچے اور حملہ کرنے والے درندوں کے بچے بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں ہر وہ جانور جو کھایا نہیں جاتا اس کے قتل میں اور اس کے بچوں کے قتل میں محرم پر کوئی حرج نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان کا گوشت کھایا نہیں جاتا۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کالا کتا حملہ کرنے والا اور بھیڑیا تو محرم قتل کرسکتا ہے اس لئے کہ بھیڑیا بھی جنگلی کتا ہے ان کے سوا جس جانور کا شکار کھیلے گا فدیہ دنیا پڑے گا۔ ہاں اگر کوئی شیر وغیرہ جنگی درندہ اس پر حملہ کرے اور یہ اسے مار ڈالے تو اس صورت میں فدیہ نہیں۔ آپ کے شاگرد زفر کہتے ہیں یہ حملہ کرنے کی صورت میں بھی اگر مار ڈالے گا تو فدیہ دینا پڑے گا۔ بعض احادیث میں غریب ابقع کا لفظ آیا ہے یہ وہ کوا ہے جس کے پیٹ اور پیٹھ پر سفیدی ہوتی ہے۔ مطلق سیاہ اور بالکل سفید کوے کو غراب ابقع نہیں کہتے لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کے کوے کا یہی حکم ہے کیونکہ بخاری و مسلم کی حدیث میں مطلق کوے کا ذکر ہے۔ امام ملک فرماتے ہیں کوے کو بھی اس حال میں مار سکتا ہے کہ وہ اس پر حملہ کرے یا اسے ایذاء دے مجاہد وغیرہ کا قول ہے کہ اس حالت میں بھی مار نہ ڈالے بلکہ اسے پتھر وغیرہ پھینک کر ہٹا دے۔ حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے سوال ہوا کہ محرم کس کس جانور کو قتل کر دے ؟ تو آپ نے فرمایا سانپ، بچھو اور چوہا اور کوے کو کنکر مارے اسے مار نہ ڈالے اور کالا کتا اور چیل اور حملہ کرنے والا درندہ۔ (ابو داؤد وغیرہ) پھر فرماتا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر حالت احرام میں شکار کرے اس پر فدیہ ہے۔ حضرت طاؤس کا فرمان ہے کہ خطا سے قتل کرنے والے پر کچھ نہیں۔ لیکن یہ مذہب غریب ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ سے یہی مشتق ہے۔ مجاہد بن جیبر سے مروی ہے کہ مراد وہ شخص ہے جو شکار تو قصداً کرتا ہے لیکن اپنی حالت احرام کی یاد اسے نہیں رہی۔ لیکن جو شخص باوجود احرام کی یاد کے عمداً شکار کرے وہ تو کفارے کی حد سے نکل گیا اس کا احرام باطل ہوگیا۔ یہ قول بھی غریب ہے۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ قصداً شکار کرنے والا اور بھول کر کرنے والا دونوں کفارے میں برابر ہیں امام زہری فرماتے ہیں قرآن سے تو قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ ثابت ہوا اور حدیث نے یہی حکم بھولنے والے کا بھی بیان فرمایا۔ مطلب اس قول کا یہ ہے کہ قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا گنہگار ہونا بھی۔ کیونکہ اس کے بعد آیت (لِّيَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِهٖ) 5۔ المائدہ :95) فرمایا ہے اور آنحضرت ﷺ اور آپ کے اصحاب سے خطا میں بھی یہی حکم ثابت ہے اور اس لئے بھی کہ شکار کو قتل کرنا اس کا تلف کرنا ہے اور ہر تلف کرنے کا بدلہ ضروری ہے خواہ وہ بالقصد ہو یا انجان پنے سے ہو۔ ہاں قصداً کرنے والا گنہگار بھی ہے اور بلا قصد جس سے سرزد ہوجائے وہ قابل ملامت نہیں۔ پھر فرمایا اس کا بدلہ یہ ہے کہ اسی کے مثل چوپایہ جانور راہ للہ قربان کرے۔ ابن مسعود کی قرأت میں فجزاوہ ہے ان دونوں قرأتوں میں مالک شافعی احمد اور جمہور کی دلیل ہے کہ جب شکار چوپالیوں کی مانند ہو تو وہی اس کے بدلے میں دینا ہوگا۔ امام ابوحنیفہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ خواہ شکار کے کسی جانور کی مثل ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں قیمت دینی پڑے گی ہاں اس محرم شکاری کو اختیار ہے کہ خواہ اس قیمت کو صدقہ کر دے خواہ اس سے قربانی کا کوئی جانور خرید لے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ امام صاحب کے اس قول سے صحابہ ؓ کا فیصلہ ہمارے لئے زیادہ قابل عمل ہے انہوں نے شترمرغ کے شکار کے بدلے اونٹ مقرر کیا ہے اور جنگلی گائے کے بدلے پالتو گائے مقرر فرمائی ہے اور ہرن کے بدلے بکری۔ یہ فیصلے ان بزرگ صحابیوں کی سندوں سمیت احکام کی کتابوں میں موجود ہیں جہاں شکار جیسا اور کوئی پالتو چوپایہ نہ ہو اس میں ابن عباس ؓ کا فیصلہ قیمت کا ہے جو مکہ شریف پہنچائی جائے (بیہقی) پھر فرمایا کہ اس کا فیصلہ دو عادل مسلمان کردیں کہ کیا قیمت ہے یا کونسا جانور بدلے میں دیا جائے۔ فقہا نے اس بارے میں اختلاف کیا کہ فیصلہ کرنے والے دو میں ایک خود قاتل ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ تو امام مالک وغیرہ نے تو انکار کیا ہے کیونکہ اسی کا معاملہ ہو اور وہی حکم کرنے والا ہو اور امام شافعی امام احمد وغیرہ نے آیت کے عموم کو سامنے رکھ کر فرمایا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔ پہلے مذہب کی دلیل تو یہ ہے کہ خود حاکم اپنے اوپر اپنا ہی حکم کر کے اسی حکم میں اپنا منصف آپ نہیں بن سکتا۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک اعرابی حضرات ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آیا اور کہا میں نے ایک شکار کو احرام کی حالت میں قتل کردیا ہے اب آپ فرمائیے کہ اس میں مجھ پر بدلہ کیا ہے ؟ آپ نے حضرت ابی بن کعب کی طرف دیکھ کر ان سے دریافت فرمایا کہ آپ فرمائیے کیا حکم ہے ؟ اس پر اعرابی نے کہا سبحان اللہ میں آپ سے دریافت کرنے آیا ہوں آپ خلیفہ رسول ہیں اور آپ کسی سے دریافت فرما رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس میں تیرا کیا بگڑا ؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ دو عادل جو فیصلہ کردیں اس لئے میں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا۔ جب ہم دونوں کسی بات پر اتفاق کرلیں گے تو تجھ سے کہہ دیں گے۔ اس کی سند تو بہت مضبوط ہے لیکن اس میں میمون اور صدیق کے درمیان انقطاع ہے۔ یہاں یہی چاہیے تھا حضرت صدیق ؓ نے جب دیکھا کہ اعرابی جاہل ہے اور جہل کی دوا تعلیم ہے تو آپ نے اسے نرمی اور محبت سے سمجھا دیا اور جبکہ اعتراض کرنے والا خود مدعی علم ہو پھر وہاں یہ صورت نہیں رہتی۔ چناچہ ابن جرید میں ہے حضرت قبیصہ بن جابر کہتے ہیں ہم حج کیلئے چلے ہماری عادت تھی کہ صبح کی نماز پڑھتے ہی ہم سواریوں سے اتر پڑتے اور انہیں چلاتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے پیدل چل پڑتے۔ ایک دن اسی طرح جا رہے تھے کہ ایک ہرن ہماری نگاہ میں پڑا ہم میں سے ایک شخص نے اسے پتھر مارا جو اسے پوری طرح لگا اور وہ مر کر گرگیا وہ شخص اسے مردہ چھوڑ کر اپنی سواری پر سوار ہوگیا۔ ہمیں یہ کام بڑا برا معلوم ہوا اور ہم نے اسے بہت کچھ کہا سنا مکہ شریف پہنچ کر میں اسے حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس لے گیا اس نے سارا واقعہ خود بیان کیا اس وقت جناب فاروق کے پہلو میں ایک صاحب کھڑے تھے جن کا چہرہ چاندی کی طرح جگمگا رہا تھا یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ تھے آپ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر کچھ باتیں کیں پھر میرے ساتھ سے فرمایا کہ تو نے اسے جان بوجھ کر مار ڈالا یا بھول چوک سے اس نے کہا میں نے پتھر اسی پر پھینکا اور قصداً پھینکا لیکن اسے مار ڈالنے کی میری نیت نہ تھی۔ آپ نے فرمایا پھر تو خطا اور عمد کے درمیان درمیان ہے۔ جا تو ایک بکری ذبح کر دے اس کا گوشت صدقہ کر دے اور اس کی کھال اپنے کام میں لا۔ یہ سن کر ہم وہاں سے چلے آئے میں نے اپنے ساتھی سے کہا دیکھ تو نے بڑا قصور کیا ہے اللہ جل شانہ کی نشانیوں کی تجھے عظمت کرنی چاہیے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ خود امیر المؤمنین کو تو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا انہوں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا میرے خیال سے تو اپنی اونٹنی اللہ کے نام سے قربان کر دے شاید اس سے تیرا جرم معاف ہوجائے۔ افسوس کہ اس وقت مجھے یہ آیت یاد ہی نہ رہی کہ حضرت عمر نے تو اس حکم پر عمل کیا ہے کہ دو عادل شخص باہم اتفاق سے جو فیصلہ کریں۔ حضرت عمر کو بھی میرا یہ فتوی دینا معلوم ہوگیا اچانک آپ کوڑا لئے ہوئے آگئے۔ اول تو میرے ساتھی پر کوڑا اٹھا کر فرمایا تو نے ایک تو جرم میں قتل کیا دوسرے حکم کی تعمیل میں بیوقوفی کر رہا ہے۔ اب میری طرف متوجہ ہوئے میں نے کہا امیر المومنین اگر آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی تو میں آپ کو آج کی تکلیف ہرگز معاف نہیں کروں گا۔ آپ نرم پڑگئے اور مجھ سے فرمانے لگے اے قبصیہ میرے خیال سے تو تو جوانی کی عمر والا کشادہ سینے والا اور چلتی زبان والا ہے۔ یاد رکھ نوجوانوں میں اگر نو خصلتیں اچھی ہوں اور ایک بری ہو تو وہ ایک بری خصلت نو بھلی خصلتوں کو مات کردیتی ہے۔ سن جوانی کی لغزشوں سے بچارہ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ؓ نے احرام کی حالت میں ایک ہرن کا شکار کرلیا پھر حضرت عمر کے پاس گئے آپ نے فرمایا جاؤ اپنے دو رشتے داروں کو لے آؤ وہی فیصلہ کریں گے میں جا کر حضرت عبدالرحمن کو اور حضرت سعد کو بلا لایا۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک موٹا تازہ بکرا فدیہ دوں۔ حضرت طارق فرماتے ہیں ایک شخص نے ایک ہرن کو تیر مارا وہ مرگیا حضرت عمر سے اس نے مسئلہ پوچھا تو آپ نے خود اس کو بھی مشورے میں شریک کرلیا دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ گھر کی پالتو بکری راہ للہ قربان کرو اس میں یہ دلیل ہے کہ خود قاتل بھی دو حکم کرنے والوں میں ایک بن سکتا ہے۔ جیسے کہ امام شافعی اور امام احمد کا مذہب ہے۔ پھر آیا ہر معاملہ میں اب بھی موجودہ لوگوں میں سے دو حکم فیصلہ کریں گے یا صحابہ کے فیصلے کافی ہیں ؟ اس میں بھی اختلاف ہے امام مالک اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں ہر فیصلہ اس وقت کے موجود دو عقلمند لوگوں سے کرایا جائے گو اس میں پہلے کا کوئی فیصلہ ہو یا نہ ہو۔ پھر فرماتا ہے یہ فدیئے کی قربانی حرم میں پہنچے یعنی وہیں ذبح ہو اور وہیں اس کا گوشت مسکینوں میں تقسیم ہو اس پر سب کا اتفاق ہے پھر فرمایا کفارہ ہے مسکینوں کا کھانا کھلانا یا اس کے برابر کے روزے، یعنی جب محرم اپنے قتل کئے ہوئے شکار کے مانند کوئی جانور نہ پائے یا خود شکار ایسا ہوا ہی نہیں جس کے مثل کوئی جانور پالتو ہو یہاں پر لفظ او اختیار کے ثابت کرنے کیلئے ہے یعنی بدلے کے جانور میں کھانا کھالانے میں اور روزے رکھنے میں اختیار ہے جیسے کہ امام مالک امام ابوحنیفہ امام ابو یوسف امام محمد بن حسن اور امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول اور امام احمد کا مشہور قول ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ بھی یہی ہیں، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ترتیب وار ہیں، یعنی پہلے تو بدلہ پس مالک ابوحنیفہ ان کے ساتھی، حماد اور ابراہیم کا تو قول ہے کہ خود شکار کی قیمت لگائی جائے گی اور امام شافعی فرماتے ہیں شکار کے برابر کے جانور کی قیمت لگائی جائے گی اگر وہ موجود ہو پھر اس کا اناج خریدا جائے گا اور اس میں سے ایک ایک مد ایک ایک مسکین کو دیا جائے گا مالک اور فقہاء حجاز کا قول بھی یہی ہے، امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں ہر مسکین کو دو مد دیئے جائیں گے مجاہد کا قول یہی ہے، امام احمد فرماتے ہیں گہیو ہوں تو ایک مد اور اس کے سوا کچھ ہو تو دو مد، پس اگر نہ پائے یا اختیار اس آیت سے ثابت ہوجائے تو ہر مسکین کے کھانے کے عوض ایک روزہ رکھ لے، بعض کہتے ہیں جتنا اناج ہو اس کے ہر ایک صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے جیسے کہ اس شخص کے لئے یہ حکم ہے جو خوشبو وغیرہ لگائے، شارع ؑ نے حضرت کعب بن عجرہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک فرق کو چھ شخصوں کے درمیان تقسیم کردیں یا تین دن کے روزے رکھیں، فرق تین صاع کا ہوتا ہے اب کھانا پہنچانے کی جگہ میں بھی اختلاف ہے، امام شافعی کا فرمان ہے کہ اس کی جگہ حرم ہے، عطاء کا قول بھی یہی ہے، مجاہد فرماتے ہیں جہاں شکار کیا ہے وہیں کھلوا دے، یا اس سے بہت زیادہ کی قریب کی جگہ میں، امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں خواہ حرم میں خواہ غیر حرم میں اختیار ہے۔ سلف کی اس آیت کے متعلق اقوال ملاحظہ ہوں، ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب محرم شکار کھیل لے اس پر اس کے بدلے کے چوپائے کا فیصلہ کیا جائے گا اگر نہ ملے تو دیکھا جائے گا کہ وہ کس قیمت کا ہے، پھر اس نقدی کے اناج کا اندازہ کیا جائے گا پھر جتنا اناج ہوگا اسی کے ناپ سے ہر نصف صاع کے بدلے ایک روزہ رکھنا ہوگا پھر جب طعام پایا جائے گا جزا پالی گئی اور روایت میں ہے جب محرم نے ہرن کو مار ڈالا تو اس پر ایک بکری ہے جو مکہ میں ذبح کی جائے گی اگر نہ پائے تو چھ مسکین کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تین روزے ہیں اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے، اگر شتر مرغ یا گور خر وغیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو تین روزے ہیں۔ اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے، اگر شتر مرغ یا گور خرو غیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تیس دن کے روزے، ابن جریر کی اسی روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ طعام ایک ایک مد ہو جو ان کا پیٹ بھر دے، دوسرے بہت سے تابعین نے بھی طعام کی مقدار بتلائی ہے۔ سدی فرماتے ہیں یہ سب چیزیں ترتیب وار ہیں اور بزرگ فرماتے ہیں کہ تینوں باتوں میں اختیار ہے، امام ابن جریر کا مختار قول بھی یہی ہے پھر فرمان ہے کہ یہ کفارہ ہم نے اس لئے واجب کیا ہے کہ وہ اپنے کرتوت کی سزا کو پہنچ جائے، زمانہ جاہلیت میں جو کچھ کسی نے خطا کی ہے وہ اسلام کی اچھائی کی وجہ سے معاف ہے، اب اسلام میں ان احکام کی موجودگی میں بھی پھر سے اگر کوئی شخص یہ گناہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا۔ گو اس میں حد نہیں امام وقت اس پر کوئی سزا نہیں دے سکتا یہ گناہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے ہاں اسے فدیہ ضرور دینا پڑے گا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فدیہ ہی انتقام ہے۔ یہ یاد رہے کہ جب کبھی محرم حالت احرام میں شکار کو مارے گا اس پر بدلہ واجب ہوگا خواہ کئی دفعہ اس سے یہ حرکت ہوجائے اور خواہ عمداً ہو خواہ خطا ہو ایک دفعہ شکار کے بعد اگر دوبارہ شکار کیا تو اسے کہ دیا جائے کہ اللہ تجھ سے بدلہ لے، ابن عباس سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ پہلی دفعہ کے شکار پر فدیہ کا حکم ہوگا دوبارہ کے شکار پر خود اللہ اس سے انتقام لے گا اس پر فیصلہ فدیہ کا نہ ہوگا لیکن امام ابن جریر کا مختار مذہب پہلا قول ہی ہے، امام حسن بصری ؒ فرماتے ہیں ایک شخص نے محرم ہو کر شکار کیا اس پر فدائے کا فیصلہ کیا گیا اس نے پھر شکار کیا تو آسمان سے آگ آگئی اور اسے جلا کر بھسم کردیا یہی معنی ہیں اللہ کے فرمان آیت (فینتقم اللہ منہ) کے۔ اللہ اپنی سلطنت میں غالب ہے اسے کوئی مغلوب نہیں کرسکتا کوئی اسے انتقام سے روک نہیں سکتا اس کا عذاب جس پر آجائے کوئی نہیں جو اسے ٹال دے، مخلوق سب اسی کی پیدا کی ہوئی ہے حکم اس کا سب پر نافذ ہے عزت اور غلبہ اسی کیلئے ہے، وہ اپنے نافرمانوں سے زبر دست انتقام لیتا ہے۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مارو، اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کر گزرے تو جو جانور اس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلہ ایک جانور اُسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے، اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا، یا نہیں تو اِس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا، یااس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے، تاکہ وہ اپنے کیے کا مزہ چکھے پہلے جو ہو چکا اُسے اللہ نے معاف کر دیا، لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la taqtuloo alssayda waantum hurumun waman qatalahu minkum mutaAAammidan fajazaon mithlu ma qatala mina alnnaAAami yahkumu bihi thawa AAadlin minkum hadyan baligha alkaAAbati aw kaffaratun taAAamu masakeena aw AAadlu thalika siyaman liyathooqa wabala amrihi AAafa Allahu AAamma salafa waman AAada fayantaqimu Allahu minhu waAllahu AAazeezun thoo intiqamin
123