سورۃ المائدہ: آیت 93 - ليس على الذين آمنوا وعملوا... - اردو

آیت 93 کی تفسیر, سورۃ المائدہ

لَيْسَ عَلَى ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوٓا۟ إِذَا مَا ٱتَّقَوا۟ وَّءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ ثُمَّ ٱتَّقَوا۟ وَّءَامَنُوا۟ ثُمَّ ٱتَّقَوا۟ وَّأَحْسَنُوا۟ ۗ وَٱللَّهُ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ

اردو ترجمہ

جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی بشرطیکہ وہ آئندہ اُن چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اچھے کام کریں، پھر جس جس چیز سے روکا جائے اس سے رکیں اور جو فرمان الٰہی ہو اُسے مانیں، پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویہ رکھیں اللہ نیک کردار لوگوں کو پسند کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laysa AAala allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati junahun feema taAAimoo itha ma ittaqaw waamanoo waAAamiloo alssalihati thumma ittaqaw waamanoo thumma ittaqaw waahsanoo waAllahu yuhibbu almuhsineena

آیت 93 کی تفسیر

آیت 93 لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا کسی شے کی حرمت کے قطعی حکم آنے سے پہلے جو کچھ کھایا پیا گیا ‘ اس کا کوئی گناہ ان پر نہیں رہے گا۔ یہ کوئی ہڈیوں میں بیٹھ جانے والی شے نہیں ہے ‘ یہ تو شرعی اور اخلاقی قانون Moral Law کا معاملہ ہے ‘ طبعی قانون Physical Law کا نہیں ہے۔ طبعی Physical طور پر تو کچھ چیزوں کے اثرات واقعی دائمی ہوجاتے ہیں ‘ لیکن Moral Law کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ گناہ تو احد پہاڑ کے برابر بھی ہوں تو سچی توبہ سے بالکل صاف ہوجاتے ہیں۔ ازروئے حدیث نبوی ﷺ : اَلتَّاءِبُ مِنَ ا لذَّنْبِ کَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَہٗ 1 گناہ سے حقیقی توبہ کرنے والا بالکل ایسے ہے جیسے اس نے کبھی وہ گناہ کیا ہی نہیں تھا۔ صدق دل سے توبہ کی جائے تو نامۂ اعمال بالکل دھل جاتا ہے۔ لہٰذا ایسی کسی تشویش کو بالکل اپنے قریب مت آنے دو۔ اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ یہ دراصل تین درجے ہیں۔ پہلا درجہ ’ اسلام ‘ ہے۔ یعنی اللہ کو مان لیا ‘ رسول ﷺ کو مان لیا اور اس کے احکام پر چل پڑے۔ اس سے اوپر کا درجہ ’ ایمان ‘ ہے ‘ یعنی دل کا کامل یقین ‘ جو ایمان کے دل میں اتر جانے سے حاصل ہوتا ہے۔ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ الحجرات : 7 کے مصداق ایمان قلب میں اتر جائے گا تو اعمال کی کیفیت بدل جائے گی ‘ اعمال میں ایک نئی شان پیدا ہوجائے گی ‘ زندگی کے اندر ایک نیا رنگ آجائے گا جو کہ خالص اللہ کا رنگ ہوگا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : صِبْغَۃَ اللّٰہِج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃًر البقرۃ : 138۔ اور اس سے بھی آگے جب ایمان عین الیقین کا درجہ حاصل کرلے تو یہی درجۂ احسان ہے۔ حدیث نبوی ﷺ میں اس کی کیفیت یہ بیان ہوئی ہے : اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ 2 یہ کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے ‘ اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی تو پھر یہ کیفیت تو پیدا ہونی چاہیے کہ وہ تو تجھے دیکھتا ہے۔ یعنی تم اللہ کی بندگی کرو ‘ اللہ کے لیے جہاد کرو ‘ اس کی راہ میں بھاگ دوڑ کرو ‘ اور اس میں تقویٰ کی کیفیت ایسی ہوجائے کہ جیسے تم اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ احسان کی یہ تعریف حدیث جبرائیل میں موجود ہے۔ اس حدیث کو اُمّ السُّنَّۃ کہا گیا ہے ‘ جیسے سورة الفاتحہ کو اُمّ القرآن کا نام دیا گیا ہے۔ جس طرح سورة الفاتحہ اساس القرآن ہے ‘ اسی طرح حدیث جبرائیل علیہ السلام سنت کی اساس ہے۔ اس حدیث میں ہمیں یہ تفصیل ملتی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں حضور ﷺ کے پاس آئے۔ صحابہ رض کا مجمع تھا ‘ وہاں انہوں نے کچھ سوالات کیے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پہلا سوال اسلام کے بارے میں کیا : یَامُحَمَّدُ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ ! اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ‘ نماز قائم کرو ‘ زکوٰۃ اد اکرو ‘ رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر تمہیں اس کے لیے سفر کی استطاعت ہو۔ یعنی اسلام کے ضمن میں اعمال کا ذکر آگیا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتلایئے ! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر ‘ اس کے فرشتوں پر ‘ اس کی کتابوں پر ‘ اس کے رسولوں پر ‘ یوم آخرت پر اور تقدیر کی اچھائی اور برائی پر۔ اب یہاں یہ نکتہ غور طلب ہے کہ ایمان تو اسلام میں بھی موجود ہے ‘ یعنی زبانی اور قانونی ایمان ‘ لیکن دوسرے درجے میں ایمان کو اسلام سے علیحدہ کیا گیا ہے اور اعمال صالحہ کا تعلق ایمان کے بجائے اسلام سے بتایا گیا ہے۔ اس لیے کہ جب ایمان دل میں اتر کر یقین کی صورت اختیار کر جائے تو پھر اعمال کا ذکر الگ سے کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایمان کے اس مرحلے پر اعمال لازماً درست ہوجائیں گے۔ پھر ایمان جب دل میں مزید گہرا اور پختہ ہوتا ہے تو اعمال بھی مزید درست ہوں گے۔ یوں سمجھئے کہ جتنا جتنا درخت اوپر جا رہا ہے اسی نسبت سے جڑ نیچے گہرائی میں اتر رہی ہے۔ ایمان کی جڑ نے دل کی زمین میں قرار پکڑا تو اسلام سے ایمان بن گیا۔ جب یہ جڑ مزید گہری ہوئی تو تیسری منزل یعنی احسان تک رسائی ہوگئی اور یہاں اعمال میں مزید نکھار پیدا ہوا۔ چناچہ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے احسان کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔۔ آپ ﷺ کا جواب تین روایتوں میں تین مختلف الفاظ میں نقل ہوا ہے : 1 اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ۔۔ 2 اَنْ تَخْشَی اللّٰہَ تَعَالٰی کَاَنَّکَ تَرَاہُ۔۔ 1 3 اَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ کَاَنَّکَ تَرَاہُ 2۔ اگلے الفاظ : فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ تینوں روایتوں میں یکساں ہیں۔ یعنی ایک بندۂ مؤمن اللہ کی بندگی ‘ اللہ کی پرستش ‘ اللہ کے لیے بھاگ دوڑ ‘ اللہ کے لیے عمل ‘ اللہ کے لیے جہاد ایسی کیفیت سے سرشار ہو کر کر رہا ہوگویاوہ اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ تو جب اللہ سامنے ہوگا ‘ تو پھر کیسے کچھ ہمارے جذبات عبدیت ہوں گے ‘ کیسی کیسی ہماری قلبی کیفیات ہوں گی۔ اس دنیا میں بھی یہ کیفیت حاصل ہوسکتی ہے ‘ لیکن یہ کیفیت بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ چناچہ اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو سکے تو احسان کا ایک اس سے نچلا درجہ بھی ہے۔ یعنی کم از کم یہ بات ہر وقت مستحضر رہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ تو یہ ہیں وہ تین درجے جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں مولانا مودودی مرحوم کی ایک قابل قدر کتاب ہے۔ اس میں مولانا نے اسلام ‘ ایمان ‘ احسان اور تقویٰ چار مراتب بیان کیے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک تقویٰ علیحدہ سے کوئی مرتبہ ومقام نہیں ہے۔ تقویٰ وہ روح spirit اور وہ قوت محرکہ driving force ہے جو انسان کو نیکی کی طرف دھکیلتی اور ابھارتی ہے۔ چناچہ آیت زیر نظر میں تقویٰ کی تکرار کا مفہوم یوں ہے کہ تقویٰ نے آپ کو baseline سے اوپر اٹھایا اور اب آپ کے ایمان اور عمل صالح میں اور رنگ پیدا ہوگیا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۔ پھر تقویٰ میں مزید اضافہ ہوا اور تقویٰ نے آپ کو مزید اوپر اٹھایا تو اب وہ یقین والا ایمان پیدا ہوگیا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا۔ اب یہاں عمل صالح کے علیحدہ ذکر کی ضرورت ہی نہیں۔ جب دل میں ایمان اتر گیا تو اعمال خود بخود درست ہوگئے۔ پھر تقویٰ اگر مزید روبہ ترقی ہے ثُمَّ اتَّقَوْا تو اس کے نتیجے میں وَاَحْسَنُوْا کا درجہ آجائے گا ‘ یعنی انسان درجۂ احسان پر فائز ہوجائے گا۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔ آمین ! ایمان اور تقویٰ سے اعمال کی درستی کے ضمن میں نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان پیش نظر رہنا چاہیے : اَلَا وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً ‘ اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُُ کُلُّہٗ ‘ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُکُلُّہٗ ‘ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ 1آگاہ رہو ‘ یقیناً جسم کے اندر ایک گوشت کا لوتھڑا ہے ‘ جب وہ درست ہو تو سارا جسم ‘ درست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ آگاہ رہو کہ وہ دل ہے۔وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اور اللہ ایسے محسن بندوں کو محبوب رکھتا ہے۔اللہ کے جو بندے درجۂ احسان تک پہنچ جاتے ہیں وہ اس کے محبوب بن جاتے ہیں۔اس سورة مبارکہ آیت 71 میں پہلے ایک غلط راستے کی نشاندہی کی گئی تھی : فَعَمُوْا وَصَمُّوْا۔۔ ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا۔۔ یہ گمراہی و ضلالت کے مختلف مراحل کا ذکر ہے کہ وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ‘ اللہ نے پھر ڈھیل دی تو اس پر وہ اور بھی اندھے اور بہرے ہوگئے ‘ اللہ نے مزید ڈھیل دی تو وہ اور زیادہ اندھے اور بہرے ہوگئے۔ اس راستے پر انسان قدم بہ قدم گمراہی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ مگر ایک راستہ یہ ہے ‘ ہدایت کا راستہ ‘ اسلام ‘ ایمان ‘ احسان ‘ اور تقویٰ کا راستہ۔ یہاں انسان کو درجہ بہ درجہ ترقی ملتی چلی جاتی ہے۔

آیت 93 - سورۃ المائدہ: (ليس على الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا إذا ما اتقوا وآمنوا وعملوا الصالحات ثم اتقوا وآمنوا ثم اتقوا...) - اردو