آیت 92 وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا ج فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ rّیہ اللہ کا حکم ہے۔ اللہ کا حکم پہنچانا رسول ﷺ کے ذمے تھا ‘ تو رسول ﷺ نے پہنچا کر اپنی ذمہ داری ادا کردی ‘ اب معاملہ اللہ کا اور تمہارا ہوگا۔ اللہ تم سے نمٹ لے گا ‘ تم سے حساب لے لے گا۔اب جو اگلی آیت آرہی ہے یہ بھی قرآن مجید کے فلسفہ اور حکمت کے ضمن میں بہت بنیادی آیت ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب شراب کے بارے میں اتنا سخت انداز آیا کہ شراب اور جوا گندے شیطانی کام ہیں ‘ ان سے باز آتے ہو یا نہیں ؟ تو بہت سے مسلمانوں کو تشویش لاحق ہوگئی کہ ہم جو اتنے عرصے تک شراب پیتے رہے تو یہ گندگی تو ہماری ہڈیوں میں بیٹھ گئی ہوگی۔ آج سائنس کی زبان میں جیسے کوئی شخص کہے کہ میرے جسم کا تو کوئی ایک خلیہ cell بھی ایسا نہیں ہوگا جس میں شراب کے اثرات نہ پہنچے ہوں۔ تو اب ہم کیسے پاک ہوں گے ؟ اب کس طریقے سے یہ گندگی ہمارے جسموں سے دھلے گی ؟ ان کی یہ تشویش بجا تھی۔ جیسے تحویل قبلہ کے وقت تشویش پیدا ہوگئی تھی کہ اگر اصل قبلہ بیت اللہ تھا اور ہم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نمازیں پڑھتے رہے تو وہ نمازیں تو ضائع ہوگئیں ‘ اور نماز ہی تو ایمان ہے۔ تو اس پر مؤمنین کی تسلی کے لیے فرمایا گیا تھا : وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ط اللہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ ایسے ہی یہاں ان کی دل جوئی کے لیے فرمایا :