سورۃ المائدہ: آیت 59 - قل يا أهل الكتاب هل... - اردو

آیت 59 کی تفسیر, سورۃ المائدہ

قُلْ يَٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَٰبِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّآ إِلَّآ أَنْ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَٰسِقُونَ

اردو ترجمہ

اِن سے کہو، "اے اہل کتاب! تم جس بات پر ہم سے بگڑے ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم اللہ پر اور دین کی اُس تعلیم پر ایمان لے آئے ہیں جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور ہم سے پہلے بھی نازل ہوئی تھی، اور تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul ya ahla alkitabi hal tanqimoona minna illa an amanna biAllahi wama onzila ilayna wama onzila min qablu waanna aktharakum fasiqoona

آیت 59 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 59۔

“ اللہ تعالیٰ اپنے سچے کلام میں اس حقیقت کو بار بار دہراتے ہیں اور اہل کتاب اس حقیقت کو پگھلا کر ختم کرنا چاہتے ہیں ‘ اسے دبانا چاہتے ہیں ۔ اس کا انکار کرنا چاہتے ہیں اور اہل کتاب کے علاوہ اکثر نام نہاد مسلمان بھی اس حقیقت کے خلاف ہیں اور وہ مادیت اور الحاد کے عنوان سے اہل اسلام اور اہل کتاب کے درمیان دوستی اور موالات قائم کرنا چاہتے ہیں ‘ جو قرآن کی اس پالیسی کے خلاف ہے ۔

آج بھی اہل کتاب اسی برف کو پگھلانا چاہتے ہیں بلکہ اسے دبا کر اس کے آثار کو مٹانا چاہتے ہیں ۔ اور یہ کام وہ اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اسلامی ممالک کے باشندوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں یا ان باشندوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں جن کے آباؤ اجداد مسلمان تھے ۔ یہ اہل کتاب اس فہم کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو مسلمانوں کے اندر ربانی منہاج تربیت نے پیدا کردیا تھا اور جب تک مسلمانوں کے اندر یہ فہم و شعور زندہ ہے صلیبی استعمار ان کے مقابلے میں جم نہیں سکتا چہ جائیکہ وہ خود عالم اسلام میں کالونیاں بنائے ۔ اہل کتاب کو جب صلیبی جنگ میں شکست فاش ہوئی اور اس کے بعد جب وہ عیسائیت کی تبلیغ میں بھی ناکام رہے ‘ تو ان کے سامنے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار بھی نہ تھا کہ مکروفریب کی راہ اختیار کریں اور ان آبادیوں کے درمیان یہ تصورات پھیلائیں ‘ جو مسلمانوں کی وارث ہیں ‘ کہ اب دین کے نام پر تمام جنگ جو ئیاں ختم ہوچکی ہیں اور یہ تو ایک تاریک دور تھا جس کے اندر تمام اقوام کے اندر مذہبی جنگیں ہوئیں ، اب تو دنیا کو نئی روشنی مل گئی ہے ‘ اب تو ترقی کا دور ہے اور اب تو کسی دینی نظریہ حیات کے مطابل لڑنا نہ جائز ہے ‘ نہ مناسب ‘ اور نہ ہی اس دنیا کے مفاد میں ہے ۔ آج تو مادی دور ہے اور اب جنگ منڈیوں اور خام مال پر ہوگی ۔ لہذا مسلمانوں یا مسلمانوں کے وارثوں کو چاہئے کہ وہ کسی دینی کشمکش یا کسی تحریک احیائے دین کے متعلق نہ سوچیں ۔

اور جب اہل کتاب اس بات سے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ اہل اسلام اب اپنی سرحدوں کے بارے میں بےفکر ہوگئے ہیں اور ان کے فکر و شعور سے یہ ترک موالات محو ہوگئی ہے تو اب وہ اپنا استعماری جال پھیلاتے ہیں ۔ خصوصا پھر وہ بڑی آزادی سے عالم اسلام کے اندر استعماری جال پھیلاتے ہیں ۔ اب وہ عالم اسلام میں مسلمانوں کے غیظ وغضب سے محفوظ ہوگئے ہیں اور جب انہوں نے مسلمانوں کو تھپکی دے کر سلا دیا تو اب ان کو محض نظریاتی فتح ہی حاصل نہ ہوگئی بلکہ اب ان کے لئے عالم اسلام میں ہر قسم کی لوٹ اور مار کے راستے بھی کھل گئے ‘ تب انہوں نے اپنی نو آبادیاں قائم کرلیں ‘ مسلمانوں کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور نظریاتی فتح کے بعد اب وہ مادی دنیا پر بھی قابض ہوگئے اور صورت حال یہ ہوگئی کہ مسلمانوں اور اہل کتاب کے اندر کوئی فرق ہی نہ رہا۔ دونوں قریب قریب ایک جیسے ہوگئے عالم اسلام کے اندر اب اہل کتاب کے ایجنٹ کام کر رہے ہیں جو استعماری طاقتوں نے جگہ جگہ بٹھا رکھے ہیں ۔ بعض اعلانیہ طور پر بٹھا رکھے ہیں اور بعض ان کے خفیہ ایجنٹ ہیں ۔ وہ بھی یہی بات دہراتے ہیں کیونکہ اہل کتاب کے ایجنٹ ہیں اور یہ لوگ اسلامی حدود کے اندر یہ کام کرتے ہیں ۔ یہ ایجنٹ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ صلیبی جنگیں دراصل صلیبی جنگیں ہی نہ تھیں وہ مسلمان جنہوں نے اسلامی جھنڈوں کے نیچے یہ جنگیں لڑیں وہ مسلمان ہی نہ تھے وہ تو قوم پرست تھے ۔ سبحان اللہ ۔

ایک تیسرا فریق جو نہایت کم عقل فریق ہے ‘ اسے مغرب میں صلیبیت کی جانشیں استعماری قوتیں یہ دعوت دیتی ہیں کہ آؤ ہم بھائی بھائی بن جائیں ۔ مذہب کا دفاع کریں اور ملحدین کی تردید کریں ۔ یہ فریب خوردہ ان کی اس دعوت کو قبول کرتے ہیں لیکن یہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ صلیبیوں کی یہ مغربی اولاد جب بھی اسلام اور الحاد کی جنگ ہوتی ہے ‘ یہ ملحدین کے ساتھ صف آراء ہوجاتی ہے ۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں ‘ جب بھی مسلمانوں کا مقابلہ ملحدین کے ساتھ ہو ۔ صدیوں سے ان کا یہ طرز عمل بالکل جاری ہے ۔ آج بھی ان کے لئے مادیت کی جنگ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ وہ زیادہ تراہمیت اس جنگ کو دیتے ہیں جو وہ اسلام کے خلاف برپا کئے ہوئے ہیں اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ مادی اور ملحد دشمن ایک وقتی اور عارضی دشمن ہے اور اسلام ایک مستقل اور ٹھوس نظریہ ہے جو ان کے لئے ایک مستقل دشمن ہے ۔ یہ جنگ انہوں نے اس لئے شروع کر رکھی ہے کہ اسلامی قوتوں کے اند بظاہر جو بیداری پیدا ہو رہی ہے یہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ نیز یہ لوگ الحاد کے خلاف جنگ میں بیوقوف مسلمانوں کو جھونک کر اپنا مفاد محفوظ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ملحدین مغربی اور صلیبی استعمار کے سیاسی مخالف ہیں اور یہ دونوں معرکے گویا اسلام کے خلاف ہوں گے ۔ اور یاد رہے کہ صلیبیوں اور ملحدین دونوں کے خلاف مسلمانوں کے پاس صرف نظریاتی ہتھیار ہے اور وہ فہم و فراست ہے جو ان کے اندر قرآن کریم کی یہ آیات پیدا کرنا چاہتی ہیں ۔

یہ ایک گہرا کھیل ہے اور یہ اہل اسلام کو دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ بظاہر اہل کتاب اور صیلبی دوستی کا اظہار کرتے ہیں اور یہ فریب خوردہ مسلمان ان اہل کتاب کو مخلص سمجھتے ہیں ۔ وہ اہل اسلام کو اتحاد ‘ بھائی چارے اور موالات کی دعوت دیتے ہیں اور مقصد یہ بتاتے ہیں کہ مذہب کا دفاع کرتے ہیں لیکن فریب خوردہ مسلمان چودہ سو سال کی تاریخ کو بھول جاتے ہیں جس میں ان کا رویہ عداوت کا رہا ہے اور اس میں کوئی استثناء بھی نہیں ہے ۔ پھر تاریخ تو بڑی بات ہے اور بہت طویل ہے لیکن یہ لوگ اللہ کی ان واضح تعلیمات کو بھی بھول جاتے ہیں جو انہیں ان کا رب براہ راست دے رہا ہے یہ ایسی تعلیم ہے کہ یہ لاریب ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اس سے کوئی پہلوتہی نہیں ہو سکتی بشرطیکہ اللہ پر اعتماد ہو ‘ اور اس بات کا یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان نہایت ہی سنجیدہ ہے ۔

یہ فریب دینے والے اور فریب خوردہ لوگ اس سلسلے میں اپنی پالیسی کے حق میں قرآن کریم کی وہ آیات پیش کرتے ہیں اور حضور اکرم ﷺ کی وہ احادیث پیش کرتے ہیں جن کے اندر اہل کتاب کے ساتھ حسن معاملہ کرنے پر زور دیا گیا ہے اور یہ کہ معیشت اور طرز عمل میں ان کے ساتھ رواداری کا سلوک کیا جائے ۔ لیکن یہ لوگ قرآن کریم کی ان تنبیہات وتحذیرات اور فیصلہ کن ممانعت کو بھلا دیتے ہیں جو قرآن کریم اہل کتاب کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے خلاف کرتا ہے اور تفصیل کے ساتھ بتاتا ہے کہ اس حکم کے اسباب کیا ہیں اور یہ کہ اس سلسلے میں اسلامی تحریک کا منصوبہ کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے ۔ اسلامی تنظیم کن خطوط پر ہونا چاہئے اور ان کے ساتھ دوستی اور موالات کے تعلقات کو بالکل ختم کرنا چاہئے کیونکہ مسلمانوں کے نزدیک باہم موالات اور باہم دگر نصرت صرف اسلامی نظام کے قیام کے لئے ہوتی ہے اور اسلام کو عملی زندگی میں قائم کرنے لئے ہوتی ہے ۔ تحریک امامت دین کے نصب العین کے بارے میں ہمارے اور اہل کتاب کے درمیان کوئی نکتہ اشتراک سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ اگرچہ مسلمانوں اور اہل کتاب کے دین میں انکی تحریفات سے پہلے کئی نکات مشترک تھے ۔ لیکن اب تو صورت حالات یہ ہے کہ وہ ہمارے دشمن ہی اس لئے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور اقامت دین کے نصب العین کے حامل ہیں اور وہ ہم سے راضی تب ہی ہوسکتے ہیں کہ ہم اس نصب العین کو چھوڑ کر یہودی یا عیسائی بن جائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نص صریح (البقرہ : 12) میں فرمایا ۔

یہ لوگ قرآن مجید کے حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس سے وہ اجزاء لیتے ہیں جو انہیں پسند ہیں اور ان کی دعوت کی تائید کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کو غافل کرتے ہیں ۔ اگرچہ وہ اپنی درست کیوں نہ ہوں اور یہ لوگ ان آیات کو چھوڑ دیتے ہیں جوان کی اس فریب کارانہ پالیسی کے بالکل خلاف ہیں۔

ہم اس کو ترجیح دیتے ہیں کہ ہم اس مسئلے میں اللہ کی بات سنیں ۔ اللہ کا کلام اس سلسلے میں نہایت ہی دوٹوک اور قطعی ہے ۔ رہا ان فریب کاروں کا کلام تو وہ ہم سنیں یا نہ سنیں برابر ہے ۔

ذرا چند منٹ کے لئے ٹھہرئیے ! اور اس موضوع پر غور کیجئے ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی ازلی دشمنی کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایمان باللہ ‘ ایمان بالرسول اور ایمان بالکتب کے جامع عقیدے کی وجہ سے یہ لوگ ان کے دشمن بنے ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ایک اور اہم بات بھی بتاتے ہیں۔

(آیت) ” وان اکثرکم فسقون “۔ (5 : 59) ” اور تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں ۔ “ ان کا یہ فسق وفجور بھی اس عداوت اسلام کے اسباب میں سے ایک سبب ہے اس لئے کہ ایک کج رو شخص کو راست رو شخص بہت ہی برا معلوم ہوتا ہے ۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے اور اس کی تصدیق قرآن کریم کا یہ فقرہ کرتا ہے ۔ یہ ایک گہرا نفسیاتی اشارہ ہے اس لئے کہ جو شخص کسی راہ سے کجروی اختیار کرتا ہے وہ یہ دیکھ ہی نہیں سکتا کہ کچھ اور لوگ اس راہ پر چلیں ۔ اگر وہ ایسے لوگوں کو دیکھے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ فسق وفجور میں مبتلا ہوگیا ہے اور صحیح راہ سے منحرف ہوگیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں کا راہ حق پر قائم رہنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ منحرف ہوگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منحرف شخص جادہ حق پر مستقیم شخص کا دشمن ہوتا ہے اور پھر اس سے محض اس لئے انتقام لیتا ہے کہ وہ سچا ہے یہ انتقامی کاروائی اس لئے ہوتی ہے کہ یہ منحرف شخص اس صالح کو بھی گھیر گھار کر اپنی راہ پر ڈال دے اور اگر وہ بہت ہی سخت ہو اور بات مان کر نہ دیتا ہو تو اسے سے سے ختم کردے ۔

یہ ایک دائمی اصول ہے اور یہ حضور اکرم ﷺ کے دور میں اہل کتاب اور اہل اسلام کے تعلقات کے بارے میں ہی درست نہیں ہے بلکہ یہ مطلق اہل کتاب اور اہل اسلام کی پالیسیوں پر صادق آتا ہے ۔ جو شخص بھی کسی صالح گروہ اور اصول پسند جماعت سے نکلتا ہے اس کی سعی یہی ہوتی ہے کہ وہ تمام لوگوں کو اس جماعت سے منحرف کر دے اور فساق وفجار اور اشرار کے معاشرے میں جنگ ہمیشہ صالح لوگوں کے خلاف ہوتی ہے ۔ تمام فساق صالحین کے خلاف جمع ہوجاتے ہیں اور جو لوگ اصولوں سے منحرف ہوچکے ہوتے ہیں ‘ وہ تمام لوگ ان کے دشمن ہوتے ہیں جو اصولوں پر جمے ہوتے ہیں ۔ یہ جنگ ایک قدرتی جنگ ہوتی ہے اور یہ اسی اصول پر برپا ہوتی ہے جس کی طرف اس قرآنی آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

اللہ کے علم میں یہ بات پہلے سے تھی کہ شر کی طرف سے ہر وقت بھلائی کی دشمنی ہوتی رہے گی اور حق کے مقابلے میں باطل ہمیشہ کھڑا ہوگا اور ثابت قدمی کے مظاہر کو دیکھ کر فساق وفجار جلیں گے اور جو لوگ اصولوں پر جمے ہوئے ہوں گے ان پر ان فساق وفجار اور منحرفین کو بہت ہی غصہ آئے گا ۔

اللہ کو یہ بھی علم تھا کہ بھلائی ‘ سچائی ‘ استقامت اور اصول پرستی کو اپنی مدافعت کرنا ہوگی اور ان کو شر باطل ‘ فسق اور انحراف کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنی ہوگی ۔ یہ ایک ایسا حتمی معرکہ ہوگا کہ جس میں اہل حق کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہ ہوگا کہ بس وہ اس معرکے میں کود جائیں اور باطل کا مقابلہ کریں ۔ اگر وہ یہ معرکہ آرائی نہ کریں گے تو باطل از خود ان پر حملہ آور ہوجائے گا اور سچائی اس سے کسی طرح جان نہ چھڑا سکے گی کیونکہ باطل کا مقصد اسے سرے سے مٹانا ہوتا ہے ۔

یہ ایک نہایت ہی غافلانہ اور احمقانہ سوچ ہوگی کہ کوئی حق پرست ‘ اصلاح پسند ‘ صاحب استقامت اور اصولی شخص یہ سوچے کہ ‘ شر ‘ باطل اور فسق وفجور کے داعی اسے آرام سے چھوڑ دیں گے اور وہ حق و باطل کے اس معرکے سے بچ نکلیں گے یا حق و باطل کے درمیان کوئی مصالحت یامعاہدہ صلح ہو سکتا ہے ۔ اگر نہیں ‘ تو ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ ہر وقت اس اٹل معرکے کے لئے تیار رہیں اور خوب سوچ کر ساتھ اور اچھی تیاری کے ساتھ رہیں اور موہوم امن کے لئے دشمن کی چالوں میں نہ آئیں ورنہ دشمن انہیں کھا کر چاٹ جائے گا۔

اس کے بعد جب ہم مطالعہ جاری رکھتے ہیں تو حضور اکرم ﷺ کو اہل کتاب کے مقابلے کے لئے ہدایات دی جاتی ہیں ۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے یہ بات واضح طور پر بتا دی گئی تھی کہ اہل کتاب کے دل میں اسلامی نظام اور مسلمانوں کے خلاف اس قدر گہری دشمنی کیوں ہے ؟ اب یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ قدیم کے کچھ اوراق الٹے جاتے ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا ؟

بدترین گروہ اور اس کا انجام حکم ہوتا ہے کہ جو اہل کتاب تمہارے دین پر مذاق اڑاتے ہیں، ان سے کہو کہ تم نے جو دشمنی ہم سے کر رکھی ہے، اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں کہ ہم اللہ پر اور اس کی تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس دراصل نہ تو یہ کوئی وجہ بغض ہے، نہ سبب مذمت بہ استثناء منقطع ہے۔ اور آیت میں ہے (وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا باللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ) 85۔ البروج :8) یعنی فقط اس وجہ سے انہوں نے ان سے دشمنی کی تھی کہ وہ اللہ عزیز وحمید کو مانتے تھے۔ اور جیسے اور آیت میں وما نقموا الا ان اغناھم اللہ و رسولہ من فضلہ۔ یعنی انہوں نے صرف اس کا انتقام لیا ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور رسول ﷺ نے مال دے کر غنی کردیا ہے۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے " ابن جمیل اسی کا بدلہ لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا تو اللہ نے اسے غنی کردیا اور یہ کہ تم میں سے اکثر صراط مستقیم سے الگ اور خارج ہوچکے ہیں۔ تم جو ہماری نسبت گمان رکھتے ہو آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ کے ہاں سے بدلہ پانے میں کون بدتر ہے ؟ اور وہ تم ہو کہ کیونکہ یہ خصلتیں تم میں ہی پائی جاتی ہیں۔ یعنی جسے اللہ نے لعنت کی ہو، اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہو، اس پر غصبناک ہوا ہو، ایسا جس کے بعد رضامند نہیں ہوگا اور جن میں سے بعض کی صورتیں بگاڑ دی ہوں، بندر اور سور بنا دیئے ہوں "۔ اس کا پورا بیان سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ حضور ﷺ سے سوال ہوا کہ یہ بندر و سور وہی ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا، جس قوم پر اللہ کا ایسا عذاب نازل ہوتا ہے، ان کی نسل ہی نہیں ہوتی، ان سے پہلے بھی سور اور بندر تھے۔ روایت مختلف الفاظ میں صحیح مسلم اور نسائی میں بھی ہے۔ مسند میں ہے کہ " جنوں کی ایک قوم سانپ بنادی گئی تھی۔ جیسے کہ بندر اور سور بنا دیئے گئے "۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے۔ انہی میں سے بعض کو غیر اللہ کے پرستار بنا دیئے۔ ایک قرأت میں اضافت کے ساتھ طاغوت کی زیر سے بھی ہے۔ یعنی انہیں بتوں کا غلام بنادیا۔ حضرت برید اسلمی اسے (عابد الطاغوت) پڑھتے تھے۔ حضرت ابو جعفر قاری سے (وعبد الطاغوت) بھی منقول ہے جو بعید از معنی ہوجاتا ہے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہوتا مطلب یہ ہے کہ تم ہی وہ ہو، جنہوں نے طاغوت کی عبادت کی۔ الغرض اہل کتاب کو الزام دیا جاتا ہے کہ ہم پر تو عیب گیری کرتے ہو، حالانکہ ہم موحد ہیں، صرف ایک اللہ برحق کے ماننے والے ہیں اور تم تو وہ ہو کہ مذکورہ سب برائیاں تم میں پائی گئیں۔ اسی لئے خاتم پر فرمایا کہ یہی لوگ باعتبار قدر و منزلت کے بہت برے ہیں اور باعتبار گمراہی کے انتہائی غلط راہ پر پڑے ہوئے ہیں۔ اس افعل التفصیل میں دوسری جانب کچھ مشارکت نہیں اور یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں۔ جیسے اس آیت میں (اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا) 25۔ الفرقان :24) پھر منافقوں کی ایک اور بدخصلت بیان کی جا رہی ہے کہ " ظاہر میں تو وہ مومنوں کے سامنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے باطن کفر سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ تیرے کفر کی حالت میں پاس آتے ہیں اور اسی حالت میں تیرے پاس سے جاتے ہیں تو تیری باتیں، تیری نصیحتیں ان پر کچھ اثر نہیں کرتیں۔ بھلا یہ پردہ داری انہیں کیا کام آئے گی، جس سے ان کا معاملہ ہے، وہ تو عالم الغیب ہے، دلوں کے بھید اس پر روشن ہیں۔ وہاں جا کر پورا پورا بدلہ بھگتنا پڑے گا۔ تو دیکھ رہا ہے کہ یہ لوگ گناہوں پر، حرام پر اور باطل کے ساتھ لوگوں کے مال پر کس طرح چڑھ دوڑتے ہیں ؟ ان کے اعمال نہایت ہی خراب ہوچکے ہیں۔ ان کے اولیاء اللہ یعنی عابد و عالم اور ان کے علماء انہیں ان باتوں سے کیوں نہیں روکتے ؟ دراصل ان کے علماء اور پیروں کے اعمال بدترین ہوگئے ہیں "۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ " علماء اور فقراء کی ڈانٹ کیلئے اس سے زیادہ سخت آیت کوئی نہیں "۔ حضرت ضحاک سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ حضرت علی نے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا " لوگو تم سے اگلے لوگ اسی بناء پر ہلاک کردیئے گئے کہ وہ برائیاں کرتے تھے تو ان کے عالم اور اللہ والے خاموش رہتے تھے، جب یہ عادت ان میں پختہ ہوگئی تو اللہ نے انہیں قسم قسم کی سزائیں دیں۔ پس تمہیں چاہئے کہ بھلائی کا حکم کرو، برائی سے روکو، اس سے پہلے کہ تم پر بھی وہی عذاب آجائیں جو تم سے پہلے والوں پر آئے، یقین رکھو کہ اچھائی کا حکم برائی سے ممانعت نہ تو تمہارے روزی گھٹائے گا، نہ تمہارے موت قریب کر دے گا "۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ " جس قوم میں کوئی اللہ کی نافرمانی کرے اور وہ لوگ باوجود روکنے کی قدرت اور غلبے کے اسے نہ مٹائیں تو اللہ تعالیٰ سب پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا " (مسند احمد) ابو داؤد میں ہے کہ " یہ عذاب ان کی موت سے پہلے ہی آئے گا "۔ ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے۔

آیت 59 - سورۃ المائدہ: (قل يا أهل الكتاب هل تنقمون منا إلا أن آمنا بالله وما أنزل إلينا وما أنزل من قبل وأن أكثركم...) - اردو