سورۃ المائدہ (5): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المائدہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Maaida
سُورَةُ المَائـِدَةِ
صفحہ 118 (آیات 58 سے 64 تک)

وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ ٱتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ قُلْ يَٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَٰبِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّآ إِلَّآ أَنْ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَٰسِقُونَ قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِندَ ٱللَّهِ ۚ مَن لَّعَنَهُ ٱللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ ٱلْقِرَدَةَ وَٱلْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ ٱلطَّٰغُوتَ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضَلُّ عَن سَوَآءِ ٱلسَّبِيلِ وَإِذَا جَآءُوكُمْ قَالُوٓا۟ ءَامَنَّا وَقَد دَّخَلُوا۟ بِٱلْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا۟ بِهِۦ ۚ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا۟ يَكْتُمُونَ وَتَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يُسَٰرِعُونَ فِى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ وَأَكْلِهِمُ ٱلسُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ لَوْلَا يَنْهَىٰهُمُ ٱلرَّبَّٰنِيُّونَ وَٱلْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ ٱلْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ ٱلسُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا۟ يَصْنَعُونَ وَقَالَتِ ٱلْيَهُودُ يَدُ ٱللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا۟ بِمَا قَالُوا۟ ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَآءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَٰنًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ ٱلْعَدَٰوَةَ وَٱلْبَغْضَآءَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ ۚ كُلَّمَآ أَوْقَدُوا۟ نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا ٱللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِى ٱلْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلْمُفْسِدِينَ
118

سورۃ المائدہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المائدہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ اس کا مذاق اڑاتے اور اس سے کھیلتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha nadaytum ila alssalati ittakhathooha huzuwan walaAAiban thalika biannahum qawmun la yaAAqiloona

اردو ترجمہ

اِن سے کہو، "اے اہل کتاب! تم جس بات پر ہم سے بگڑے ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم اللہ پر اور دین کی اُس تعلیم پر ایمان لے آئے ہیں جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور ہم سے پہلے بھی نازل ہوئی تھی، اور تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul ya ahla alkitabi hal tanqimoona minna illa an amanna biAllahi wama onzila ilayna wama onzila min qablu waanna aktharakum fasiqoona

(آیت) ” نمبر 59۔

“ اللہ تعالیٰ اپنے سچے کلام میں اس حقیقت کو بار بار دہراتے ہیں اور اہل کتاب اس حقیقت کو پگھلا کر ختم کرنا چاہتے ہیں ‘ اسے دبانا چاہتے ہیں ۔ اس کا انکار کرنا چاہتے ہیں اور اہل کتاب کے علاوہ اکثر نام نہاد مسلمان بھی اس حقیقت کے خلاف ہیں اور وہ مادیت اور الحاد کے عنوان سے اہل اسلام اور اہل کتاب کے درمیان دوستی اور موالات قائم کرنا چاہتے ہیں ‘ جو قرآن کی اس پالیسی کے خلاف ہے ۔

آج بھی اہل کتاب اسی برف کو پگھلانا چاہتے ہیں بلکہ اسے دبا کر اس کے آثار کو مٹانا چاہتے ہیں ۔ اور یہ کام وہ اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اسلامی ممالک کے باشندوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں یا ان باشندوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں جن کے آباؤ اجداد مسلمان تھے ۔ یہ اہل کتاب اس فہم کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو مسلمانوں کے اندر ربانی منہاج تربیت نے پیدا کردیا تھا اور جب تک مسلمانوں کے اندر یہ فہم و شعور زندہ ہے صلیبی استعمار ان کے مقابلے میں جم نہیں سکتا چہ جائیکہ وہ خود عالم اسلام میں کالونیاں بنائے ۔ اہل کتاب کو جب صلیبی جنگ میں شکست فاش ہوئی اور اس کے بعد جب وہ عیسائیت کی تبلیغ میں بھی ناکام رہے ‘ تو ان کے سامنے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار بھی نہ تھا کہ مکروفریب کی راہ اختیار کریں اور ان آبادیوں کے درمیان یہ تصورات پھیلائیں ‘ جو مسلمانوں کی وارث ہیں ‘ کہ اب دین کے نام پر تمام جنگ جو ئیاں ختم ہوچکی ہیں اور یہ تو ایک تاریک دور تھا جس کے اندر تمام اقوام کے اندر مذہبی جنگیں ہوئیں ، اب تو دنیا کو نئی روشنی مل گئی ہے ‘ اب تو ترقی کا دور ہے اور اب تو کسی دینی نظریہ حیات کے مطابل لڑنا نہ جائز ہے ‘ نہ مناسب ‘ اور نہ ہی اس دنیا کے مفاد میں ہے ۔ آج تو مادی دور ہے اور اب جنگ منڈیوں اور خام مال پر ہوگی ۔ لہذا مسلمانوں یا مسلمانوں کے وارثوں کو چاہئے کہ وہ کسی دینی کشمکش یا کسی تحریک احیائے دین کے متعلق نہ سوچیں ۔

اور جب اہل کتاب اس بات سے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ اہل اسلام اب اپنی سرحدوں کے بارے میں بےفکر ہوگئے ہیں اور ان کے فکر و شعور سے یہ ترک موالات محو ہوگئی ہے تو اب وہ اپنا استعماری جال پھیلاتے ہیں ۔ خصوصا پھر وہ بڑی آزادی سے عالم اسلام کے اندر استعماری جال پھیلاتے ہیں ۔ اب وہ عالم اسلام میں مسلمانوں کے غیظ وغضب سے محفوظ ہوگئے ہیں اور جب انہوں نے مسلمانوں کو تھپکی دے کر سلا دیا تو اب ان کو محض نظریاتی فتح ہی حاصل نہ ہوگئی بلکہ اب ان کے لئے عالم اسلام میں ہر قسم کی لوٹ اور مار کے راستے بھی کھل گئے ‘ تب انہوں نے اپنی نو آبادیاں قائم کرلیں ‘ مسلمانوں کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور نظریاتی فتح کے بعد اب وہ مادی دنیا پر بھی قابض ہوگئے اور صورت حال یہ ہوگئی کہ مسلمانوں اور اہل کتاب کے اندر کوئی فرق ہی نہ رہا۔ دونوں قریب قریب ایک جیسے ہوگئے عالم اسلام کے اندر اب اہل کتاب کے ایجنٹ کام کر رہے ہیں جو استعماری طاقتوں نے جگہ جگہ بٹھا رکھے ہیں ۔ بعض اعلانیہ طور پر بٹھا رکھے ہیں اور بعض ان کے خفیہ ایجنٹ ہیں ۔ وہ بھی یہی بات دہراتے ہیں کیونکہ اہل کتاب کے ایجنٹ ہیں اور یہ لوگ اسلامی حدود کے اندر یہ کام کرتے ہیں ۔ یہ ایجنٹ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ صلیبی جنگیں دراصل صلیبی جنگیں ہی نہ تھیں وہ مسلمان جنہوں نے اسلامی جھنڈوں کے نیچے یہ جنگیں لڑیں وہ مسلمان ہی نہ تھے وہ تو قوم پرست تھے ۔ سبحان اللہ ۔

ایک تیسرا فریق جو نہایت کم عقل فریق ہے ‘ اسے مغرب میں صلیبیت کی جانشیں استعماری قوتیں یہ دعوت دیتی ہیں کہ آؤ ہم بھائی بھائی بن جائیں ۔ مذہب کا دفاع کریں اور ملحدین کی تردید کریں ۔ یہ فریب خوردہ ان کی اس دعوت کو قبول کرتے ہیں لیکن یہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ صلیبیوں کی یہ مغربی اولاد جب بھی اسلام اور الحاد کی جنگ ہوتی ہے ‘ یہ ملحدین کے ساتھ صف آراء ہوجاتی ہے ۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں ‘ جب بھی مسلمانوں کا مقابلہ ملحدین کے ساتھ ہو ۔ صدیوں سے ان کا یہ طرز عمل بالکل جاری ہے ۔ آج بھی ان کے لئے مادیت کی جنگ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ وہ زیادہ تراہمیت اس جنگ کو دیتے ہیں جو وہ اسلام کے خلاف برپا کئے ہوئے ہیں اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ مادی اور ملحد دشمن ایک وقتی اور عارضی دشمن ہے اور اسلام ایک مستقل اور ٹھوس نظریہ ہے جو ان کے لئے ایک مستقل دشمن ہے ۔ یہ جنگ انہوں نے اس لئے شروع کر رکھی ہے کہ اسلامی قوتوں کے اند بظاہر جو بیداری پیدا ہو رہی ہے یہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ نیز یہ لوگ الحاد کے خلاف جنگ میں بیوقوف مسلمانوں کو جھونک کر اپنا مفاد محفوظ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ملحدین مغربی اور صلیبی استعمار کے سیاسی مخالف ہیں اور یہ دونوں معرکے گویا اسلام کے خلاف ہوں گے ۔ اور یاد رہے کہ صلیبیوں اور ملحدین دونوں کے خلاف مسلمانوں کے پاس صرف نظریاتی ہتھیار ہے اور وہ فہم و فراست ہے جو ان کے اندر قرآن کریم کی یہ آیات پیدا کرنا چاہتی ہیں ۔

یہ ایک گہرا کھیل ہے اور یہ اہل اسلام کو دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ بظاہر اہل کتاب اور صیلبی دوستی کا اظہار کرتے ہیں اور یہ فریب خوردہ مسلمان ان اہل کتاب کو مخلص سمجھتے ہیں ۔ وہ اہل اسلام کو اتحاد ‘ بھائی چارے اور موالات کی دعوت دیتے ہیں اور مقصد یہ بتاتے ہیں کہ مذہب کا دفاع کرتے ہیں لیکن فریب خوردہ مسلمان چودہ سو سال کی تاریخ کو بھول جاتے ہیں جس میں ان کا رویہ عداوت کا رہا ہے اور اس میں کوئی استثناء بھی نہیں ہے ۔ پھر تاریخ تو بڑی بات ہے اور بہت طویل ہے لیکن یہ لوگ اللہ کی ان واضح تعلیمات کو بھی بھول جاتے ہیں جو انہیں ان کا رب براہ راست دے رہا ہے یہ ایسی تعلیم ہے کہ یہ لاریب ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اس سے کوئی پہلوتہی نہیں ہو سکتی بشرطیکہ اللہ پر اعتماد ہو ‘ اور اس بات کا یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان نہایت ہی سنجیدہ ہے ۔

یہ فریب دینے والے اور فریب خوردہ لوگ اس سلسلے میں اپنی پالیسی کے حق میں قرآن کریم کی وہ آیات پیش کرتے ہیں اور حضور اکرم ﷺ کی وہ احادیث پیش کرتے ہیں جن کے اندر اہل کتاب کے ساتھ حسن معاملہ کرنے پر زور دیا گیا ہے اور یہ کہ معیشت اور طرز عمل میں ان کے ساتھ رواداری کا سلوک کیا جائے ۔ لیکن یہ لوگ قرآن کریم کی ان تنبیہات وتحذیرات اور فیصلہ کن ممانعت کو بھلا دیتے ہیں جو قرآن کریم اہل کتاب کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے خلاف کرتا ہے اور تفصیل کے ساتھ بتاتا ہے کہ اس حکم کے اسباب کیا ہیں اور یہ کہ اس سلسلے میں اسلامی تحریک کا منصوبہ کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے ۔ اسلامی تنظیم کن خطوط پر ہونا چاہئے اور ان کے ساتھ دوستی اور موالات کے تعلقات کو بالکل ختم کرنا چاہئے کیونکہ مسلمانوں کے نزدیک باہم موالات اور باہم دگر نصرت صرف اسلامی نظام کے قیام کے لئے ہوتی ہے اور اسلام کو عملی زندگی میں قائم کرنے لئے ہوتی ہے ۔ تحریک امامت دین کے نصب العین کے بارے میں ہمارے اور اہل کتاب کے درمیان کوئی نکتہ اشتراک سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ اگرچہ مسلمانوں اور اہل کتاب کے دین میں انکی تحریفات سے پہلے کئی نکات مشترک تھے ۔ لیکن اب تو صورت حالات یہ ہے کہ وہ ہمارے دشمن ہی اس لئے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور اقامت دین کے نصب العین کے حامل ہیں اور وہ ہم سے راضی تب ہی ہوسکتے ہیں کہ ہم اس نصب العین کو چھوڑ کر یہودی یا عیسائی بن جائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نص صریح (البقرہ : 12) میں فرمایا ۔

یہ لوگ قرآن مجید کے حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس سے وہ اجزاء لیتے ہیں جو انہیں پسند ہیں اور ان کی دعوت کی تائید کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کو غافل کرتے ہیں ۔ اگرچہ وہ اپنی درست کیوں نہ ہوں اور یہ لوگ ان آیات کو چھوڑ دیتے ہیں جوان کی اس فریب کارانہ پالیسی کے بالکل خلاف ہیں۔

ہم اس کو ترجیح دیتے ہیں کہ ہم اس مسئلے میں اللہ کی بات سنیں ۔ اللہ کا کلام اس سلسلے میں نہایت ہی دوٹوک اور قطعی ہے ۔ رہا ان فریب کاروں کا کلام تو وہ ہم سنیں یا نہ سنیں برابر ہے ۔

ذرا چند منٹ کے لئے ٹھہرئیے ! اور اس موضوع پر غور کیجئے ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی ازلی دشمنی کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایمان باللہ ‘ ایمان بالرسول اور ایمان بالکتب کے جامع عقیدے کی وجہ سے یہ لوگ ان کے دشمن بنے ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ایک اور اہم بات بھی بتاتے ہیں۔

(آیت) ” وان اکثرکم فسقون “۔ (5 : 59) ” اور تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں ۔ “ ان کا یہ فسق وفجور بھی اس عداوت اسلام کے اسباب میں سے ایک سبب ہے اس لئے کہ ایک کج رو شخص کو راست رو شخص بہت ہی برا معلوم ہوتا ہے ۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے اور اس کی تصدیق قرآن کریم کا یہ فقرہ کرتا ہے ۔ یہ ایک گہرا نفسیاتی اشارہ ہے اس لئے کہ جو شخص کسی راہ سے کجروی اختیار کرتا ہے وہ یہ دیکھ ہی نہیں سکتا کہ کچھ اور لوگ اس راہ پر چلیں ۔ اگر وہ ایسے لوگوں کو دیکھے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ فسق وفجور میں مبتلا ہوگیا ہے اور صحیح راہ سے منحرف ہوگیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں کا راہ حق پر قائم رہنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ منحرف ہوگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منحرف شخص جادہ حق پر مستقیم شخص کا دشمن ہوتا ہے اور پھر اس سے محض اس لئے انتقام لیتا ہے کہ وہ سچا ہے یہ انتقامی کاروائی اس لئے ہوتی ہے کہ یہ منحرف شخص اس صالح کو بھی گھیر گھار کر اپنی راہ پر ڈال دے اور اگر وہ بہت ہی سخت ہو اور بات مان کر نہ دیتا ہو تو اسے سے سے ختم کردے ۔

یہ ایک دائمی اصول ہے اور یہ حضور اکرم ﷺ کے دور میں اہل کتاب اور اہل اسلام کے تعلقات کے بارے میں ہی درست نہیں ہے بلکہ یہ مطلق اہل کتاب اور اہل اسلام کی پالیسیوں پر صادق آتا ہے ۔ جو شخص بھی کسی صالح گروہ اور اصول پسند جماعت سے نکلتا ہے اس کی سعی یہی ہوتی ہے کہ وہ تمام لوگوں کو اس جماعت سے منحرف کر دے اور فساق وفجار اور اشرار کے معاشرے میں جنگ ہمیشہ صالح لوگوں کے خلاف ہوتی ہے ۔ تمام فساق صالحین کے خلاف جمع ہوجاتے ہیں اور جو لوگ اصولوں سے منحرف ہوچکے ہوتے ہیں ‘ وہ تمام لوگ ان کے دشمن ہوتے ہیں جو اصولوں پر جمے ہوتے ہیں ۔ یہ جنگ ایک قدرتی جنگ ہوتی ہے اور یہ اسی اصول پر برپا ہوتی ہے جس کی طرف اس قرآنی آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

اللہ کے علم میں یہ بات پہلے سے تھی کہ شر کی طرف سے ہر وقت بھلائی کی دشمنی ہوتی رہے گی اور حق کے مقابلے میں باطل ہمیشہ کھڑا ہوگا اور ثابت قدمی کے مظاہر کو دیکھ کر فساق وفجار جلیں گے اور جو لوگ اصولوں پر جمے ہوئے ہوں گے ان پر ان فساق وفجار اور منحرفین کو بہت ہی غصہ آئے گا ۔

اللہ کو یہ بھی علم تھا کہ بھلائی ‘ سچائی ‘ استقامت اور اصول پرستی کو اپنی مدافعت کرنا ہوگی اور ان کو شر باطل ‘ فسق اور انحراف کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنی ہوگی ۔ یہ ایک ایسا حتمی معرکہ ہوگا کہ جس میں اہل حق کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہ ہوگا کہ بس وہ اس معرکے میں کود جائیں اور باطل کا مقابلہ کریں ۔ اگر وہ یہ معرکہ آرائی نہ کریں گے تو باطل از خود ان پر حملہ آور ہوجائے گا اور سچائی اس سے کسی طرح جان نہ چھڑا سکے گی کیونکہ باطل کا مقصد اسے سرے سے مٹانا ہوتا ہے ۔

یہ ایک نہایت ہی غافلانہ اور احمقانہ سوچ ہوگی کہ کوئی حق پرست ‘ اصلاح پسند ‘ صاحب استقامت اور اصولی شخص یہ سوچے کہ ‘ شر ‘ باطل اور فسق وفجور کے داعی اسے آرام سے چھوڑ دیں گے اور وہ حق و باطل کے اس معرکے سے بچ نکلیں گے یا حق و باطل کے درمیان کوئی مصالحت یامعاہدہ صلح ہو سکتا ہے ۔ اگر نہیں ‘ تو ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ ہر وقت اس اٹل معرکے کے لئے تیار رہیں اور خوب سوچ کر ساتھ اور اچھی تیاری کے ساتھ رہیں اور موہوم امن کے لئے دشمن کی چالوں میں نہ آئیں ورنہ دشمن انہیں کھا کر چاٹ جائے گا۔

اس کے بعد جب ہم مطالعہ جاری رکھتے ہیں تو حضور اکرم ﷺ کو اہل کتاب کے مقابلے کے لئے ہدایات دی جاتی ہیں ۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے یہ بات واضح طور پر بتا دی گئی تھی کہ اہل کتاب کے دل میں اسلامی نظام اور مسلمانوں کے خلاف اس قدر گہری دشمنی کیوں ہے ؟ اب یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ قدیم کے کچھ اوراق الٹے جاتے ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا ؟

اردو ترجمہ

پھر کہو "کیا میں اُن لوگوں کی نشاندہی کروں جن کا انجام خدا کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے؟ وہ جن پر خدا نے لعنت کی، جن پر اُس کا غضب ٹوٹا، جن میں سے بندر اور سور بنائے گئے، جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی ان کا درجہ اور بھی زیادہ برا ہے اور وہ سَوَا٫ السّبیل سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul hal onabbiokum bisharrin min thalika mathoobatan AAinda Allahi man laAAanahu Allahu waghadiba AAalayhi wajaAAala minhumu alqiradata waalkhanazeera waAAabada alttaghooti olaika sharrun makanan waadallu AAan sawai alssabeeli

(آیت) ” نمبر 60۔

یہاں ہمیں اب یہودیون کی تاریخ کا مطالعہ کرایا جاتا ہے ۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہوئی اور ان پر اللہ غضب ہوا اور ان کی شکلیں بگاڑ کر ‘ ان سے بندر اور خنزیر بنائے گئے اور پھر بھی ان لوگوں نے طاغوت ہی کی بندگی اختیار کی ۔

ان کے ملعون ہونے اور ان پر اللہ کا غضب آنے کے قصے ‘ قرآن کریم میں بار بار ذکر ہوئے ہیں ۔ نیز قرآن کریم میں ان کے وہ واقعات بھی مذکور ہیں کہ ان میں سے کچھ لوگوں کو بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ کیا گیا ۔ لیکن یہاں ان پر بندگی طاغوت کی جو فرد جرم عائد کی گئی ہے ‘ اس سورة کے مضامین کے زاویے سے اس کی بڑی اہمیت ہے ۔ اس کی ہم قدرے تفصیلات دیں گے کیونکہ یہ لفظ نہایت اہم اور خاص معنی کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

طاغوت کا لفظ ہر اس اقتدار کے لئے استعمال ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے ماخوذ نہ ہو ‘ ہر حکم ‘ حکم طاغوت ہے اور ہر وہ کام طاغوت ہے جو شریعت اسلامی سے ماخوذ نہ ہو ۔ ہر وہ ظلم طاغوت ہے جو برحق نہ ہو ‘ نیز اللہ کی حاکمیت ‘ اللہ کی الوہیت اور اس کے قانون سازی پر دست درازی کرنا طاغوت کی سب سے بڑی قسم ہے اور جو لفظ اور معنا طاغوت پر صادق آتی ہے ۔

کی عبادت کرتے تھے ‘ بات نہ تھی کہ وہ ان کی عبادت کرتے تھے ۔ حقیقت یہ تھی انہوں نے ارباب اور رہبان کی بنائی ہوئی شریعت کو اپنا لیا تھا اور اللہ کی بھیجی ہوئی شریعت کو چھوڑ دیا تھا۔ اس لئے اللہ نے یہ کہا کہ انہوں نے ارباب و رہبان کی بندگی شروع کردی ہے اور یہ لوگ مشرک ہوگئے ہیں ۔ لفظ طاغوت میں یہ گہرا مفہوم شامل ہیں ہے ۔ یعنی وہ اس حکومت کے مطیع تھے جو شریعت پر مبنی نہ تھی اور سرکش تھی ۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ اس حکومت یا ارباب و رہبان کے سامنے سجدے نہ بجا لاتے تھے بلکہ وہ عبادت اس طرح کرتے تھے کہ وہ ان کی اطاعت کرتے تھے ۔ طاغوت کی جب کوئی اطاعت کرتا ہے تو وہ اللہ کے دین اور اللہ کی اطاعت کے دائرے سے خارج ہوجاتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں رسول اللہ ﷺ کو اس طرف متوجہ فرمایا ہے کہ آپ اہل کتاب کا مقابلہ ان کی اس تاریخ کو پیش نظر رکھ کر کریں اور یہ کہ وہ اسی جزا کے مستحق ہیں جو انہیں ان کی تاریخ میں ملی ۔ گویا یہ یہودی نسلا بعدنسل وہی قوم ہیں اس لئے کہ ان کی جبلت ایک ہے اور ان کا یہی انجام ہونا چاہتے تھا ۔

(آیت) ” قل ھل انبئکم بشر من ذلک مثوبۃ عند اللہ “۔ (5 : 60) ” پھر کہو کیا میں ان لوگوں کی نشاندہی کروں جو انجام کار خدا کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے ۔ “

یعنی اہل کتاب کی جانب سے اہل اسلام کی دشمنی سے بھی زیادہ خطرناک ‘ وہ اسلام کے خلاف جو سازشیں کرتے ہیں اور اہل ایمان کو محض ایمان کی وجہ سے سزا اور اذیت دیتے ہیں “ اس سے بھی زیادہ بری بات ہے اور وہ ہے خدا کی دشمنی اور خدا کا عذاب ۔ بندے کی دشمنی سے خدا کی دشمنی اور عذاب بہت ہی خطرناک ہے ۔ اور اس کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ شرپسند ہیں ‘ گمراہ ہیں اور صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔

(آیت) ” اولئک شرمکانا واضل عن سوآء السبیل “۔ (5 : 60) ” ان کا درجہ اور بھی زیادہ برا ہے اور وہ سواء السبیل سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ “

یہاں قرآن کریم ان کی نشانیوں کی صفات کا ذکر کرکے ان کے ساتھ دوستی کرنے اور تعلق موالات قائم کرنے سے مسلمانوں کو متنفر فرماتے ہیں ۔ جبکہ اس سے قبل ان کے تاریخی کردار اور انکے برے انجام کا ذکر ہوا ۔ اب مسلمانوں کو ‘ ان کے بعض راز افشاء کر کے ‘ ان سے ڈرایا جاتا ہے اور اس تصویر کشی میں یہودیوں کو زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے اس لئے کہ بات اس وقت کے حالات کے بارے میں چل رہی تھی اور اس وقت سب سے بڑا فتنہ یہودی فتنہ ہی تھا ۔

اردو ترجمہ

جب یہ تم لوگوں کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، حالانکہ کفر لیے ہوئے آئے تھے اور کفر ہی لیے ہوئے واپس گئے اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha jaookum qaloo amanna waqad dakhaloo bialkufri wahum qad kharajoo bihi waAllahu aAAlamu bima kanoo yaktumoona

(آیت) ” نمبر 61 تا 64۔

یہ ایسی عبادتیں ہیں جن کے اندر کچھ چلتی پھرتی تصاویر نظر آتی ہیں اور یہ قرآن مجید کا منفرد اسلوب ہے ۔ صدیاں گزر گئیں لیکن ان لوگوں کی تصاویر آج بھی ان عبارات میں واضح ہیں ‘ جن کے بارے میں قرآن کریم ان آیات میں بحث کرتا ہے ۔ یہاں جو نقشہ کھنیچا گیا ہے وہ یہودیوں کا ہے ‘ اس سے کہ آگے پیچھے بات انہی کی ہو رہی ہے ۔ اگرچہ اس میں بعض وہ لوگ بھی نظر آتے جو مدینہ کے منافقین ہیں ۔ نظر آتا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ گفتگو شروع کرتے ہیں ‘ ” بھائی ہم بھی تو ایمان لا چکے ہیں “ لیکن اپنی بغل میں کفر چھپائے ہوئجے ہیں جب آئے تو یہ کفر ان کے ساتھ تھا۔ لیکن ان کے منہ میں رام رام ہے اور بغل میں کفر کی چھری ہے ۔

یہ گروہ غالباگروہ تھا یہود تھا جو راتوں کو اسلام کے خلاف سازشیں تیار کرتے تھے ‘ اور ان میں سے بعض دوسروں سے یہ کہتے تھے کہ صبح اس قرآن پر اپنے ایمان کا اعلان کرو اور شام کو پھر کفر کا اعلان کر دو ‘ اور اس طرح اسلامی صفوں میں بےچینی پیدا کرو۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ مسلمان بھی قرآن کو ترک کردیں اور اپنے دین کو چھوڑ دیں یہ اس افراتفری اور شک وشبہ کی فضا کی وجہ سے ہے ۔

(آیت) ” واللہ اعلم بما کانوا یکتمون “۔ (5 : 61) ” اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ چھپاتے ہیں “۔ یہ اللہ کا کہنا ہے اور اللہ حقائق کے جاننے والے ہیں ۔ اور اس اعلان سے اہل ایمان کو اطمینان نصیب ہوتا ہے کہ ان کا رب ان کا محافظ اور نگہبان ہے ۔ وہی انہیں یہودیوں کی سازشوں سے بچا سکتا ہے کیونکہ اللہ کا علم ان کی خفیہ سازشوں پر محیط ہے اور یہ اللہ کی جانب سے ان کو ایک دھمکی ہے کہ اگر وہ باز نہ آئے تو۔۔۔۔

سیاق کلام کو لے کر ذرا آگے بڑھئے ۔ اس منظر میں ان کی کچھ اور تصاویر آتی ہیں ۔

(آیت) ” وتری کثیرا منھم یسارعون فی الاثم والعدوان واکلھم السحت ، لبئس ما کانوا یعملون (62)

” تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں بہت ہی بری حرکات ہیں جو یہ کر رہے ہیں “۔

مسارعہ باب مفاعلہ ہے بہت سے لوگ ہیں جو باہم مقابلہ کررہے ہیں ‘ گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر حرام مال کھاتے ہیں ۔ یہ تصویر نہایت ہی مکروہ اور بدنما ہے ۔ لیکن جب کسی قوم کی اخلاقی حالت بگڑ جائے اور اس میں فساد سرایت کرجائے تو اس میں ایسی ہی صورت حالات پیدا ہوجایا کرتی ہے ۔ زندگی کی اعلی اقدار ختم ہوتی ہیں ‘ معاشرے پر شر غالب ہوجاتی ہوجاتا ہے اور جب بھی انسان کو ایسے معاشروں کو دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے تو یہ پایا جاتا ہے کہ ان میں لوگ شر ‘ گناہ اور ظلم کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس معاشرے کے کے طاقتور لوگ اپنے دائرے میں اور زبردست لوگ اپنے دائرے میں ظالم ہوتے ہیں ۔ گناہ میں آلودگی اور ظلم ایسے گرے ہوئے فاسد معاشروں میں صرف طاقتور لوگوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ضعفاء بھی ان جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں یہاں تک سب لوگ اثم وعدوان کے سیلاب میں بہتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ ضعفاء بیشک زبردستوں پر ظلم کرنے پر قادر نہیں ہوتے لیکن یہ ضعفاء پھر آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں اور اگر ایک دوسرے پر ظلم نہ بھی نہ کرسکیں تو یہ لوگ پھر اللہ کی حرمتوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس لئے کہ فاسد معاشروں کے اندر پھر اللہ کے حدود ہی رہ جاتے ہیں جن کو توڑنے کے لئے ان کے سامنے میدان کھلا ہوتا ہے ۔ ایسے میں نہ طاقتور حکام اور نہ ضعفاء محکوم حدود اللہ کی حفاظت کرتے ہیں ۔ غرض جو معاشرے بھی اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوجائے اس میں گناہ کی زندگی اور ظلم کی حرکات کا دور دورہ ہوتا ہے بلکہ گناہ اور ظلم کی طرف دوڑنے کے مقابلے (مسارعت) ہوتے ہیں ۔ (آیت) ” لبئس ما کانوا یعملون “۔ (5 : 92) ” بہت بری حرکات ہیں جو یہ کر رہے ہیں ۔ “

یہاں سیاق کلام فاسد معاشروں کی ایک دوسری خصوصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کے علماء اور مشائخ گنگ ہیں ‘ بولتے ہی نہیں ۔ علماء جو شریعت اور قانون کے نگران اور نگہبان ہیں ‘ ان کے سامنے قانون توڑے جاتے ہیں ۔ مشائخ جو علم دین کے استاد ہیں ان کے سامنے غلط افکار پھیل رہے ہیں اور وہ منع نہیں کرتے اور ان کے سامنے لوگ گناہ اور ظلم کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

اردو ترجمہ

تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں بہت بری حرکات ہیں جو یہ کر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Watara katheeran minhum yusariAAoona fee alithmi waalAAudwani waaklihimu alssuhta labisa ma kanoo yaAAmaloona

اردو ترجمہ

کیوں اِن کے عُلما٫ اور مشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے؟ یقیناً بہت ہی برا کارنامہ زندگی ہے جو وہ تیار کر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lawla yanhahumu alrrabbaniyyoona waalahbaru AAan qawlihimu alithma waaklihimu alssuhta labisa ma kanoo yasnaAAoona

(آیت) ” (62) لولا ینھھم الربنیون والاحبار عن قولھم الاثم واکلھم السحت ، لبئس ما کانوا یصنعون (63)

” ان کے علماء ومشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے منع نہیں کرتے ۔ یقینا بہت ہی برا کارنامہ زندگی ہے جو یہ تیار کر رہے ہیں۔ “ جب کوئی معاشرہ اخلاقی اعتبار سے ٹوٹ پھوٹ اور فساد کا شکار ہوتا ہے تو اس کی ایک بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس میں قانون کے نگران قانون شکنی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ (علمائ) اخلاقی رہبر (مشائخ) بداخلاقیوں اور ظلم پر سکوت کرتے ہیں اور بنی اسرائیل کی کیا خصوصیات تھیں ؟ (آیت) ” کانوا لا یتناھون عن منکرفعلوہ) ” وہ اس برائی سے ایک دوسرے کو منع نہ کرتے تھے جو وہ کرتے تھے ۔ “ یہ قرآن ہی نے دوسری جگہ ان کے بارے میں کہا ہے ۔

ایک صحت مند ‘ زندہ ‘ قوی اور فاضلانہ معاشرے کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں ہر طرف امر بالعروف اور نہی عن المنکر کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ اور اس میں ہر وقت ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کا مشن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ اور اس میں ہر وقت ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کا مشن امر بالعروف اور نہی عن المنکر ہوتا ہے اور اس کے عوام کے اندر بھی ایسے عناصر غالب ہوتے ہیں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف کان دھرتے ہیں ۔ اور معاشرے کے اوپر اس قسم کے روایات کی گرفت ہو کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ختم نہ کیا جاسکتا ہو اور نہ ایسے لوگوں کا بال بیکا کیا جاسکتا ہو جو یہ کام کرتے ہیں ۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی شکل میں برپا ہونے والے ایک صحت مند معاشرے کے بارے میں فرمائی ہے ۔

(آیت) ” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ ‘۔ (3 : 11) ” تم خیر امت ہو ‘ حکم دیتے ہو نیکی کا اور منع کرتے ہو منکر سے اور اللہ پر ایمان لانے والے ہو “۔ اور بنی اسرائیل جو ایک فاسد معاشرے کے خوگر تھے ان کے بارے میں ہے (کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ) ” وہ اس برائی سے ایک دوسرے کو منع نہ کرتے تھے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے ۔ “ یہ بات گویا دو قسم کے معاشروں کا مابہ الامتیاز ہے ۔

یہاں یہودیوں کے علماء اور مشائخ کو ملامت کی جاتی ہے کہ وہ کیوں گنگ ہوگئے ہیں اور وہ ان لوگوں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے جو گناہ کی زندگی ‘ باہم ظلم کی روش اور حرام خوری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں اور کتاب اللہ کی حفاظت کا جو فریضہ ان پر عائد کیا گیا تھا اسے وہ پورا نہیں کرتے ۔

یہ ان تمام لوگوں کے لئے ڈرانے والے کی پکار ہے جو اہل دیں اور علماء کہلاتے ہیں ۔ معاشرے کی اصلاح یافساد ان لوگوں پر موقوف ہے جو اس معاشرے ‘ دین اور قانون کے نمائندے ہوتے ہیں یعنی علماء ومشائخ ۔ اگر وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض ادا کرتے ہیں تو اصلاح ہوگی اور اگر وہ خاموش رہتے ہیں تو بگاڑ ہوگا اور جس طرح ہم نے اس سے قبل ظلال القرآن میں کہا ہے کہ اس کام کے لئے ایک حکومت درکار ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرے اور یہ نظام دعوت وتبلیغ سے علیحدہ ہو اس لئے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے اقتدار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایسا اقتدار جس کے ذریعہ امر بالمعروف اور عن المنکر ایک بامعنی چیز ہو ۔ محض زبانی جمع خرچ نہ ہو ۔

اب ان لوگوں کی فکری کجی اور اخلاقی بےراہ روی کی ایک مثال دی جاتی ہے ۔ قرآن کریم ان گمراہ اور ذلیل یہودیوں کی کج فکری اور بد روی کی ایک نہایت ہی گھاؤنی مثال دیتا ہے ۔

(آیت) ” غلت ایدیھم ولعنوا بما قالوا ، بل یدہ مبسوطتن ینفق کیف یشآء “ (5 : 63) ” یہودی کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ باندھے گئے ان کے ہاتھ ‘ اور لعنت پڑی ان پر اس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ ۔ اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں ‘ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ “

یہ یہودیوں کا اللہ کا بارے میں نہایت ہی برا تصور تھا ۔ ان کی بہت ہی بدظنیاں قرآن نے جگہ جگہ نقل کی ہیں ۔ ایک جگہ انہوں نے کہا ” اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں ۔ “ اور یہ انہوں نے اس وقت کیا کہ جب ان سے اسلامی مقاصد کے لئے چندہ مانگا گیا ۔ اللہ کے ہاتھ بندھے ہونے سے عربی محاورے کے مطابق مراد یہ تھی کہ اللہ بخیل ہے ۔ ان کے خیال کے مطابق اللہ لوگوں کو بہت کم ضروریات دیتا ہے ۔ انہیں بھی کم دیا جاتا ہے اس لئے وہ کس طرح خرچ کریں ‘؟ ان کا شعور اس قدر بگڑ گیا تھا اور ان کے دل اس قدر سخت ہوگئے تھے کہ انہوں نے اللہ جل شانہ کے لئے لفظ بخیل بھی استعمال نہ کیا ‘ بلکہ اس سے بھی برا لفظ استعمال کیا جو زیادہ توہین آمیز ہے ۔ یعنی اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔

اللہ یہی جواب ان کو ان کے الفاظ میں دیتے ہیں ۔ ان پر لعنت بھیجی جاتی ہے۔ اور ان کو راندہ درگاہ قرار دیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” غلت ایدیھم ولعنوا بماقالوا “۔ (5 : 64) ان کے ہاتھ باندھ دئیے گئے اور اس لئے باندھ دیئے گئے کہ انہوں نے یہ بکواس کی اور ان پر لعنت کردی گئی اور ایسا ہی ہوا کہ تاریخ میں بنی اسرائیل سے زیادہ کوئی بخیل اور زرپرست قوم نہیں ہے ۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کی گری ہوئی سوچ درست فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی ذات کبریا کے بارے میں وضاحت فرماتے ہیں کہ وہ بڑا کریم ہے ۔ اس کے ہاتھ کھلے ہیں اور وہ اپنے بندوں پر بلاحساب فیضان رحمت کرتا ہے ۔

(بل یدہ مبسوطتن ، ینفق کیف یشآء “۔ (5 : 64) ” اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے “۔ اللہ کے عطیے تو جاری ہیں اور تمام مخلوقات پر ان کی بارش ہو رہی ہے دیکھنے والوں کے لئے بالکل واضح ہیں ۔ دیکھو اللہ کے ہاتھ کھلے ہیں ‘ اس کا فضل وکرم بھرپورے ہے ‘ اس کے عیطے عظیم ہیں ‘ اپنی زبان سے خود بولتے ہیں ‘ ہاں یہودیوں کو وہ نظر نہیں آتے ‘ اس لئے کہ وہ رات دن دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ رات دن انکار ونافرمانی میں غرق ہیں اور رات دن اللہ کی ذات کے بارے میں ان کا رویہ توہین آمیز ہے۔

اللہ تعالیٰ حضرت نبی کریم ﷺ کے سامنے ان کے مستقبل کے بارے میں ایک منظر پیش فرماتے ہیں کہ ان کا حشر کیا ہونے والا ہے اور یہ حشر ان کا اس لئے ہونے والا ہے کہ یہ لوگ محمد ﷺ کے نام پروانہ رسالت آنے پر جل بھن گئے ‘ خصوصا اس وجہ سے کہ اس رسالت کے ذریعے ان کے خلاف قدیم وجدید فرد جرم عائد کردی گئی ۔

(آیت) ” ولیزیدن کثیرا منھم ما انزل الیک من ربک طغیانا وکفرا “۔ ” حقیقت یہ ہے کہ جو کلام تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی و باطل پرستی میں الٹا اضافہ کو موجب بن گیا ہے “ ۔

اس کینہ اور حسد کی وجہ سے رسالت حضور ﷺ کو کیوں مل گئی اور پھر مزید اس وجہ سے کہ اس رسالت نے ان کی تمام گندی کو بےکم وکاست ریکارڈ کردیا یہ لوگ سرکشی اور کفر و انکار کی راہ پر مزید آگے ہی بڑھیں گے ۔ اس لئے کہ انہوں نے ایمان لانے سے انکار کردیا ۔ لہذا ایمان کے برعکس راہ کفر ہی پر یہ لوگ آگے بڑھتے چلے جائیں گے ۔ اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور مزید کفر کرنے کی وجہ سے اور اپنی فطری سرکشی اور طغیان کی وجہ سے یہ لوگ اس راہ میں مزید آگے بڑھیں گے اور حضور اکرم ﷺ ان کے لئے روزوبال وجان بنتے چلے جائیں گے ۔

مستقبل کے لئے ان کی ایک دوسری خصوصیت یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے بھی دشمن ہوں گے ۔ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ سخت بعض ہوگا اور جب بھی وہ اسلام کے خلاف کوئی زبردست سازش تیار کریں گے اور جنگ کی آگ بھڑکائیں گے اور تحریک اسلامی کے خلاف کوئی جنگی اسکیم تیار کریں گے اللہ تعالیٰ اس کو ختم کر دے گا اور جماعت مسلمہ کو بچا لے گا ۔

(آیت) ” والقینا بینھم العداوۃ والبغضاء الی یوم القیمۃ کلما اوقدوا نارا للحرب اطفاھا اللہ (5 : 64) ” ہم نے انکے درمیان قیامت کے لئے عدوات اور دشمنی ڈال دی ہے جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکا تے ہیں اللہ اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے ۔ “ آج تک یہودی فرقے ایک دوسرے کے دشمن ہیں ۔ “ اگرچہ آج کے دور میں بظاہریہ نظر آتا ہے کہ عالمی یہودیت متحد ہوگئی ہے ۔ اور اسلامی ممالک میں وہ جابجا جنگ کے شعلے بھڑکا رہی ہے اور کامیاب ہے ۔ لیکن بات یہ نہیں ہے کہ ہم تاریخ کے ایک مختصر عرصے کو سامنے رکھ کر بات کریں یا کسی ایک مظہر کو اور کسی صورت حال کے ایک پہلو ہی کو دیکھ کر فیصلہ کردیں ۔ گزشتہ چودہ سو سال کے اندر بلکہ اسلام سے پہلے کے ادوار میں بھی ‘ یہودی ذلیل اور باہم دست و گریبان رہے ہیں اور اس کی وجہ سے ہمیشہ جلاوطن اور دوبدر پھرتے رہے ہیں ۔ ان کا آخری انجام بھی وہی ہوگا جس پر وہ پہلے تھے چاہے ان کے اردگرد جس قدر سہارے ہوں ۔ لیکن اصل کنجی تو یہ ہے کہ آیا دنیا میں کوئی اسلامی رجمنٹ بھی ہے یا نہیں ؟ یہ اسلامی رجمنٹ ہی ہے جس کے ہاتھوں ان کی ذلت لکھی ہوئی ہے ۔ چونکہ اس وقت ایمان میں پختہ کار لوگوں کی رجمنٹ مفقود ہے ‘ جو اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرتی ہے اور جو دست قدرت کا آلہ اور ذریعہ بنتی ہے اور اس رجمنٹ کے ذریعے اللہ وہ کچھ کرتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں ۔

ہاں جب یہ امت اسلامی نظریہ حیات پر جمع ہوگی ‘ ایمان کی حقیقت اپنے اندر پیدا کرلے گی ‘ اپنی پوری زندگی کو اسلامی نظام حیات کے مطابق بنائے گی اور اسلامی شریعت کو نافذ کرے گی ‘ اس دن پھر اللہ کا وعدہ اس کی مخلوقات میں سے ان شریر ترین لوگوں پر صادق ہوگا اور یہودیوں کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ترکش میں شرارت اور سازش کے جو تیر بھی ہیں وہ اسلامی صفوں کے خلاف چلاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں جس قدر گرفت ہے وہ اسے ان اسلامی دستوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں جو احیائے علوم کی تحریک کے ہر اول دستے بن رہے ہیں یہ یہودی تمام دنیا میں چھان بین کر رہے ہیں اور اپنے گماشتوں کے ذریعے یہ جگہ جگہ ان اسلامی رجمنٹوں کا سر کچل رہے ہیں ۔ نہایت ہی وحشیانہ جرائم اور نہایت ہی ناپسندیدہ کاروائیاں وہ اسلامی لیڈر شپ کے خلاف کر رہے ہیں ۔ وہ اس اسلامی رجمنٹ کے خلاف کسی بھی عہد موالات اور کسی بھی ذمے اور کسی بھی قومی اور بین الاقوامی چارٹر کا کوئی خیال نہیں کرتے لیکن اللہ نے اپنے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے ہیں اس کا وعدہ سچا ہے کہ حزب اللہ ہی غالب ہوگی ۔

(آیت) ” والقینا بینھم العداوۃ والبغضاء الی یوم القیمۃ کلما اوقدوا نارا للحرب اطفاھا اللہ (5 : 64) ” ہم نے انکے درمیان قیامت کے لئے عدوات اور دشمنی ڈال دی ہے جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکا تے ہیں اللہ اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے ۔ “

یہ شروفساد جس کے نمائندے اور جس کے ماڈل یہود ہیں ‘ دائمی امر نہیں ہے ۔ ایک دن آئے گا کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسا دستہ اٹھائے گا جو اسے پاش پاش کر دے گا ۔ اللہ تعالیٰ فساد فی الارض کو پسند نہیں کرتا اور جس چیز کو اللہ پسند نہیں کرتا تو ضروری ہے کہ ایک ایسی قوت اٹھائے جو اسے پاش پاش کر دے ۔

(آیت) ” ویسعون فی الارض فسادا ۔ واللہ لا یحب المفسدین (5 : 63) ” یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہر گز پسند نہیں کرتا۔ “

اس سبق کے آخر میں عظیم ایمانی اصول کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ وہ یہ کہ خطہ ارض پر دین کے قیام اور اسلامی نظام کے قیام کے معنی یہ ہیں کہ اس میں اصلاحی کام ہوں گے ‘ لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے ‘ ان کی دنیاوی فلاح و بہبود کے کام زوروں پر ہوں گے اور فلاح دنیا کے ساتھ ساتھ انہیں فلاح آخرت بھی نصیب ہوگی ۔ اس خطہ ارض پر پھر دنیا اور آخرت میں فرق نہ ہوگا اور نہ وہاں دین دنیا میں تضاد ہوگا یہ نظام بیک وقت دنیا اور آخرت کا ضامن ہوگا اور اس میں دین اور دنیا علیحدہ نہ ہوں گے ۔ اس عظیم تبدیلی کا ذکر اس بات کے بعد کیا جاتا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کے دین سے انحراف کرلیا ہے ۔ وہ حرام خور ہوگئے ہیں اور انہوں نے احکام شریعت کے مفہوم کو بدل دیا ہے ۔ یہ کام انہوں نے محض دنیاوی مفادات کے حصول کے لئے کیا ہے حالانکہ اگر وہ اپنے اصل دین کا اتباع کرتے تو یہ ان کے لئے دنیا وآخرت اور آسمان و زمین دونوں میں ان کے لئے اچھا ہوتا بشرطیکہ وہ صحیح راہ اختیار کرتے ۔

اردو ترجمہ

یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں باندھے گئے ان کے ہاتھ، اور لعنت پڑی اِن پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ جو کلام تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی و باطل پرستی میں الٹے اضافہ کا موجب بن گیا ہے، اور (اس کی پاداش میں) ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اُس کو ٹھنڈا کر دیتا ہے یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqalati alyahoodu yadu Allahi maghloolatun ghullat aydeehim waluAAinoo bima qaloo bal yadahu mabsootatani yunfiqu kayfa yashao walayazeedanna katheeran minhum ma onzila ilayka min rabbika tughyanan wakufran waalqayna baynahumu alAAadawata waalbaghdaa ila yawmi alqiyamati kullama awqadoo naran lilharbi atfaaha Allahu wayasAAawna fee alardi fasadan waAllahu la yuhibbu almufsideena
118