سورۃ المائدہ: آیت 54 - يا أيها الذين آمنوا من... - اردو

آیت 54 کی تفسیر, سورۃ المائدہ

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِۦ فَسَوْفَ يَأْتِى ٱللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُۥٓ أَذِلَّةٍ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى ٱلْكَٰفِرِينَ يُجَٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ وَٰسِعٌ عَلِيمٌ

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo man yartadda minkum AAan deenihi fasawfa yatee Allahu biqawmin yuhibbuhum wayuhibboonahu athillatin AAala almumineena aAAizzatin AAala alkafireena yujahidoona fee sabeeli Allahi wala yakhafoona lawmata laimin thalika fadlu Allahi yuteehi man yashao waAllahu wasiAAun AAaleemun

آیت 54 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 54 تا 56۔

اس صورت میں اور اس مقام پر مسلمانوں کو یہ تنبیہ کرنا کہ وہ مرتد نہ ہوجائیں ‘ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ارتداد اور یہود ونصاری کے ساتھ دوستی اور تعلق موالات کے درمیان گہرا ربط ہے۔ خصوصا اس ریمارک کے بعد کہ جو شخص ان کے ساتھ محبت وموالات کا تعلق قائم کرے گا وہ انہیں میں شمار ہوگا ۔ وہ جماعت مسلمہ سے خارج تصور ہوگا اور ان کافر اور آدمی ہوگا ۔ (آیت) ’ ومن یتولھم منکم فانہ منھم) (تم میں سے جو ان کے ساتھ موالات کرے گا وہ ان میں سے ہوگا) اس مفہوم کی رو سے یہ دوسری پکار پہلی ہی تاکید وتائید ہوگی اور اس پکار کے بعد جو تیسری پکار آرہی ہے وہ بھی اس مفہوم پر دلالت کرتی ہے کیونکہ وہاں اہل کتاب اور کفار دونوں کے ساتھ تعلق موالات کی ممانعت کا ذکر ہے اور ان کو ایک صف میں کھڑا کردیا گیا ہے کہ اہل کتاب اور کفار کے ساتھ موالات کا درجہ ایک ہی ہے اور یہ کہ اسلام میں اہل کتاب اور دوسرے کفار کے ساتھ بعض تعلقات میں جو فرق کیا گیا ہے وہ ہدایات تعلق موالات پر لاگو نہیں ہیں ان میں موالات شامل نہیں ہے ۔

(آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ مَن یَرْتَدَّ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَسَوْفَ یَأْتِیْ اللّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَلاَ یَخَافُونَ لَوْمَۃَ لآئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللّہِ یُؤْتِیْہِ مَن یَشَاء ُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(54)

” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ‘ اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے ۔ (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے ‘ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ‘ جسے چاہے عطا کرتا ہے ۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے ۔

کسی ایک گروہ اور جماعت کو اللہ کے کام پر لگانا اللہ کی منشا کو پورا کرنا ہے ۔ اگر ایسا گروہ اس کرہ ارض پر اللہ کے دین کی اقامت کے لئے دست قدرت کا آلہ کار ہو ‘ اور اور اس کے ذریعے دنیا میں عوام الناس پر اللہ کی حکومت قائم ہو ‘ ان کی زندگی میں اللہ کے احکام وہدایت نافذ ہوں ‘ انہی کے مطابق ان کی انتظامیہ ہو ‘ ان کی عدالتوں میں اسلامی شریعت نافذ ہو اور بھلائی ‘ خیر ‘ پاکیزگی اور ترقی کا دور دورہ ہو اور یہ اسلامی نظام کی وجہ سے دنیا کو حاصل ہو تو اس گروہ کا اس کام کے منتخب ہونا اور کیا جانا ہی اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل وکرم ہے ۔ اب اگر کوئی اپنے آپ کو اللہ کے اس فضل وکرم سے محروم کرتا ہے تو یہ اس کی اپنی بدبختی ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ غنی بادشاہ ہے اور ان محروم ہونے والوں کے علاوہ بھی اللہ کے علم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس فضل وکرم کے مستحق ہیں ۔

یہاں اللہ تعالیٰ ان مختاران الہی کی جو تصویر کشی فرماتے ہیں اس کے خدوخال نہایت ہی واضح ہیں اور ان کی صفات کا ذکر بھی نہایت ہی واضح طور پر کردیا گیا ہے ۔ یہ تصویر نہایت ہی روشن اور پرکشش ہے ۔

(آیت) ” فسوف یاتی اللہ بقوم یحبونہ “۔ (5 : 54) ” اللہ بہت سے لوگ پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا “۔ یعنی ان کے اور ان کے رب کے درمیان رابطہ اور تعلق محبت کے متبادل تحفے ہوں گے ۔ محبت کیا ہے ؟ ایک روح ہے جو نہایت ہی لطیف ‘ روشن ‘ پر رونق اور نہایت ہی ہشاش وبشاش روح ہے ۔ جو اس قوم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان رابطے کا کام دیتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ محبت کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسا امر ہے جس کی قدروقیمت کا ادراک صرف اس شخص کو ہو سکتا ہے جس کو معرفت ربانی حاصل ہو اور انہیں صفات سے متصف ہو جو اللہ نے خود بیان کی ہیں ۔ نیز صرف وہی شخص اس کا تصور کرسکتا ہے جس کے حس ‘ شعور اور نفس وشخصیت پر ان صفات کا پر تو پڑا ہو۔ یہ فضل وکرم اسی شخص کے ادراک میں آسکتا ہے جو اس داتا کی حقیقت سے واقف ہو ‘ جو جانتا ہو کہ اللہ کون ہے ؟ اس عظیم کائنات کا مالک اور صانع کون ہے ؟ اور اس کائنات میں اس چھوٹے سے کیڑے انسان کا بھی وہ خالق ہے جو نہایت اونچی عظمتوں والے کے اقتدار میں ہے اور وہ اس کی خدمت میں ہے جو خالص اسی کا ہے اور اس کی بادشادہی میں ہے ۔ اور وہ ذات کون ہے اور یہ انسان کیا ہے جس پر ذات فضل وکرم کر رہی ہے ۔ اس کے ساتھ محبت کر رہی ہے حالانکہ انسان خود اس کا بنایا ہوا ہے ۔ وہ پاک ہے ‘ جلیل القدر ‘ عظیم المرتبہ ‘ الحی ‘ الدائم ‘ الارفیع ‘ الابدی ‘ الاول ‘ الاخر اور الظاہر والباطن ہے ۔

کسی بندے کا اپنے اللہ کے ساتھ محبت کرنا اس بندے کے لئے ایک نعمت ہے اور اس کی صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس کو اس کا ذوق ہو اور اللہ کی جانب سے کسی بند کے ساتھ محبت کرنا تو ایک عظیم بات ہے اور یقینا عظیم اور بھرپور اور فضل جزیل ہے ۔ اسی طرح اللہ کا اپنے بندوں کو ہدایت دینا ‘ ان کی تعریف کرنا بھی ایک بہت بڑا اعزاز ہے ۔ ان کے اندر اس ذوق جمیل کا پیدا ہونا اور ایک ایسا ذوق محبت پیدا ہونا جس کی دنیا کی محبتوں میں کوئی نظیر نہ ہو ‘ تو یہ بھی ایک عظیم وانعام واکرام ہے اور ایک عظیم فضل وکرم ہے ۔

جس طرح اللہ کی جانب سے بندے کے ساتھ محبت ناقابل بیان ہے اسی طرح بندے کی جانب سے اللہ کے ساتھ محبت بھی ناقابل بیان ہے ۔ دنیا کے محبت کرنے والوں کے کلام میں اور عبادات میں اس کا اظہار ممکن نہیں ہے ۔ اور یہ وہ شعبہ ہے جس میں صوفیا میں سے واصل باللہ لوگ ہی برتری کے حامل ہیں ۔ لیکن صوفیوں کے لباس میں ‘ نام نہاد صوفیوں کی جو فوجیں پھرتی نظر آتی ہیں اور عوام کے درمیان معروف ہیں ان میں ایسے واصل باللہ بہت ہی کم نظر آئیں گے ۔ اس سلسلے میں رابعہ عدویہ کے کچھ اشعار میرے ذہن کی اسکرین پر آتے ہیں ۔ وہ کہتی ہیں :

فلیتک تحلوا والحیاۃ مریرۃ

ولیتک ترضی والانام غضاب

(اے کاش کہ آپ میٹھے ہوں اور زندگی کڑوی ہو اور اے کاش کہ آپ راضی ہوں اور تمام لوگ مجھ پر غضبناک ہوں)

ولیست الذی بینی وبینک عامر

وبینی وبین العلمین خراب :

(اے کاش کہ میرے اور آپ کے درمیان ہے وہ بستا رہے اور میرے اور لوگوں کے درمیان جو ہے وہ خراب ہو) یعنی تعلق ورابطہ ۔

اذا صح منک الحب فالکل ھین

وکل الذی فوق التراب تراب :

(اگر آپ کی جانب سے محبت درست ہوجائے تو پھر سب کچھ آسان اور حقیقت یہ ہے کہ اس مٹی کے اوپر جو مخلوق بھی چلتی پھرتی ہے وہ مٹی ہی ہے)

اللہ جل شانہ کی طرف سے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے ساتھ یوں اظہار محبت اور ایک عاجز بندے کی طرف سے اللہ کے ساتھ اظہار محبت جو منعم حقیقی ہے اور جو حقیقی فضل کرنے والا ہے ایک انعام ہے ۔ یہ محبت اس پوری کائنات میں پھیل جاتی ہے اور یہ محبت بھی ہر زندہ چیز کا مزاج بن جاتی ہے ہے پھر ایک فضا ہوتی ہے اور ایک سایہ ہوتا ہے جو اس پورے وجود کائنات پر چھا جاتا ہے اور انسان جو محبت بھی ہے اور محبوب بھی ‘ اس کی زندگی کا پیمانہ تو اس محبت سے پوری طرح بھر جاتا ہے ۔

اسلامی تصور حیات ایک مومن اور اس کے رب کے درمیان اس طرح کا محبوب رابطہ قائم کرتا ہے جو نہایت ہی عجیب اور نہایت ہی پیارا ہوتا ہے ۔ یہ دائمی محبت کا رابطہ ایسا نہیں ہوتا کہ اچانک قائم ہوجائے یا ایک چمک پیدا ہو اور چلی جائے ۔ یہ اسلامی تصور حیات میں ایک بنیادی اور حقیقی عنصر ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

(آیت) ” ان الذین وعملوا الصلحت سیجعل لھم الرحمن ودا) ” وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لئے رحمن محبت کرنے والا ہے) اور دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” ان ربی رحیم ودود “۔ ” بیشک میرا رب رحم کرنے والا اور محبت کرنے والا ہے ) اور دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” واذا سئلک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان) ” اور جب تم سے میرے بندے ‘ میرے بارے میں پوچھیں و بیشک میں قریب ہوں میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں ‘ جب وہ پکارتا ہے ۔ “ (آیت) ” والذین امنوا اشد حب اللہ) ” اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کے ساتھ شدید محبت رکھتے ہیں ۔ “

اور دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ‘ ” کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو ‘ تم سے اللہ محبت کرے گا) وغیرہ وغیرہ بیشمار ایسی آیات ہیں جو اس مضمون کا ظاہر کرتی ہیں۔

ان لوگوں پر تعجب ہے کہ وہ اس مضمون کی آیا پڑھتے ہیں اور پھر بھی کہتے ہیں کہ اسلامی تصور حیات ایک خشک سخت اور کرخت تصور ہے اور اس میں خدا بندے کے درمیان تعلق قہر وغضب سزا گوشمالی اور سختی اور دوری کا تعلق ہے ۔ اس میں کوئی ایسا تصور نہیں جس طرح مسیحی تصور میں مسیح کو اقانیم الوہیت میں سے ایک اقنوم تصور کیا جاتا ہے ۔ اور لوگوں میں اور اللہ میں ایک گہرا ربط بلکہ من تو شدم تو من شدی کا تصور پیدا ہوتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تصور حیات کی صفائی اور اس میں حقیقت الوہیت اور مقام بندگی کے اندر مکمل فرق و امتیاز کرنے کی وجہ سے ‘ الفت و محبت کی پرنم فضا میں کوئی کمی نہیں آتی ۔ اللہ اور بندے کے درمیان اس تصور میں نہایت ہی گہرا ربط موجود ہے لیکن یہ ربط وتعلق رحمت اور عدل کا تعلق ہے ۔ اس تعلق کا ایک رخ باہم محبت ہے تو دوسرا رخ مکمل پاکیزگی کا ہے ۔ ایک طرف محبت ہے اور دوسری جانب اللہ کی ذات کے لئے پاکیزگی ہے یہ نہایت ہی جامع اور مانع تصور ہے ۔ اور اس سے وہ تمام بشری تقاضے پورے ہوتے ہیں جو اپنے رب کے حوالے سے انسان کو درکار ہیں۔

چناچہ اس ” مومن رجمنٹ “ کی صفت سے متعلق ‘ جسے اس دین کے لئے اٹھایا گیا ہے اس آیت میں یہ الفاظ آتے ہیں اور بار بار ذہن میں پھرتے ہیں۔ (آیت) ” یحبھم ویحبونہ “۔ (وہ اللہ سے محبت کرتا اور اللہ اس سے محبت کرتے ہیں)

اس فضائے محبت میں جب یہ رجمنٹ اپنے عظیم فرائض کی ادائیگی کے لئے نکلتی ہے اور یہ بوجھ اٹھاتی ہے تو اس کے دل میں یہ شعور ہوتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اس خصوصی خدمت کے لئے بھرتی کیا ہے اور وہ اللہ جل شانہ کی خصوصی رجمنٹ ہے ۔

اس کے بعد اس رجمنٹ کی باقی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں ۔ (آیت) ” اذلۃ علی المومنین “۔ (5 : 54) (مومنوں پر نرم ہوں گے) یہ ایک ایسی صفت ہے جو اطاعت ‘ نرمی اور یسر سے لی گئی ہے اور لفظ یہ استعمال کیا ہے کہ وہ مومنین کے مقابلے میں اپنے آپ کو ذلیل کر کے رکھیں گے ۔ لیکن اگر کوئی مومنین کے مقابلے میں اپنے نفس کو ذلیل کرتا ہے تو وہ ذلت نہیں ہے اور نہ اس میں توہین کا پہلو ہے اس لئے کہ ایک مومن دوسرے مومن کے مقابلے میں اپنے نفس کو ذلیل کرتا ہے تو وہ ذلت نہیں ہے اور نہ اس میں توہین کا پہلو ہے اس لئے ایک مومن دوسرے مومن کے مقابلے میں نہایت ہی نرم ہوتا ہے ‘ سخت اور نافرمان نہیں ہوتا ۔ آسان اور نرم ‘ جلدی لبیک کہنے والا ‘ روادار ‘ محبت کرنے والا ہوتا ہے ۔ اس لئے اس کے لئے اس لفظ کے استعمال میں ذلت بمعنی حقارت کا مفہوم نہیں ہے بلکہ اس سے اخوت ‘ محبت ‘ عدم تکلف ‘ نفسیاتی اتحاد اور نظریاتی لگاؤ کے معانی کا اظہار ہوتا ہے ۔ ایک مومن اور دوسرے مومن کے درمیان کوئی پردہ اور راز نہیں رہتا۔

جب انسان بعض چیزیں اپنی ذات کے لئے اٹھا رکھتا ہے تو یہ جذبہ اسے اپنے دوسرے بھائی کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ‘ بخیل اور کنجوس بنا دیتا ہے ۔ لیکن جب ایک شخص اپنے آپ کو ایک کمپنی یا رجمنٹ کا فرد بنا لیتا ہے تو وہ اپنا سب کچھ اس کے لئے قربان کردیتا ہے اور اس کی انفرادیت کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے ۔ پھر اس کمپنی کے علاوہ وہ اپنے لئے کچھ اٹھا نہیں رکھتا جبکہ ان کی کمپنی اخوت اسلامی کی کمپنی ہوتی ہے اور وہ اللہ کے نام اور نظام پر جمع ہوئے ہیں۔ اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ محبت الہی ہی ان میں مشترک ہے اور یہ اسے باہم تقسیم کرتے ہیں ۔

(آیت) ” اعزۃ علی الکفرین “۔ (5 : 54) (جو کفار پر سخت ہوں گے) یعنی کافروں کے مقابلے میں ان کے اندر برتری ‘ ناپسندیدگی اور برتری کے جذبات پائے جاتے ہیں اور چونکہ مقابلہ کفار کے ساتھ ہے اس لئے ان کے مقابلے میں ان جذبات کا ہونا مناسب ہے ۔ ان جذبات کا اظہار ان کے مقابلے میں محض ذاتی عزت کے اظہار کے لئے نہیں ہے اور نہ صرف اپنی خودی بلند کرنا مطلوب ہوتا ہے بلکہ ان کی جانب سے عزت کا اظہار اسلامی نظریہ حیات کی طرف سے عزت کا اظہار ہوگا اس جھنڈے کی برتری ہوگی جس کے نیچے اہل ایمان کھڑے ہوں گے اور اہل کفار کے مقابلے میں ہوں گے ۔ اس سے اس بات کا اظہار ہوگا کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ خیر ہے اور ان کا مقام یہ ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے ساتھ لے کر اس بھلائی کے تابع کردیں ، یہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ مل کر اس چیز کے تابع ہوجائیں جس کے وہ دوسرے حامل ہیں اور وہ خیر نہیں ہے ۔ اس اظہار برتری اور سختی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے اندر دین کے بارے میں خود اعتمادی ہے اور وہ ہوا وہوس کے دین پر قابو پا چکے ہیں ۔ انکے ہاں اللہ کی قوت تمام دوسری قوتوں پر غالب ہے اور اللہ کی جماعت تمام احزاب پر غالب ہے ۔ اگر وہ بعض معرکوں میں شکست بھی کھا جائیں تو پھر بھی وہ بلند عزم لئے ہوئے ہیں کیونکہ اسلامی جدوجہد کی طویل راہ میں بھی کبھی لغزش بھی تو ہو سکتی ہے ۔

(آیت) ” یجاھدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومۃ لائم “۔ (5 : 54) ” وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔ “ یہ جہاد فی سبیل اللہ ہوگا ‘ یہ اس لئے ہوگا کہ زمین پر اسلامی نظام قائم کیا جائے ‘ یہ اس لئے ہوگا کہ لوگوں پر اللہ کی بادشاہت کا اعلان کیا جائے ‘ یہ اس لئے ہوگا کہ ملک کے اندر اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے ہوں اور ملک کے اندر بھلائی ترقی اور اصلاح بین الناس کا دور دورہ ہو ۔ یہ ہے ایک دوسری صفت اسلامی رجمنٹ کی ۔ اور اسے اللہ تعالیٰ نے محض اس لئے قائم کیا ہے کہ وہ اس کی زمین پر وہ فریضہ سرانجام دے جو اللہ کو مطلوب ہے۔

یہ رجمنٹ فی سبیل اللہ جہاد کرے گی ‘ اپنے ذاتی مقصد کے لئے نہ کرے گی ۔ نہ اپنی قوم کے کسی مقصد کے لئے لڑے گی ‘ نہ اپنے وطنی مقاصد میں سے کسی مقصد کے لئے لڑے گی ‘ نہ اپنے وطنی مقاصد میں سے کسی مقصد کے لئے لڑے گی ‘ نہ وہ کسی نسل کے لئے کام کرے گی ۔ اس رجمنٹ کے ارکان صرف اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور یہ جہاد اسلامی نظام حیات کے قیام کے لئے ہے ‘ اللہ کی حکومت کے قیام کے لئے ہے ‘ اور اللہ کی شریعت کے نفاذ کے لیے ہے اور اس راہ میں تمام لوگوں کی بھلائی ہے ۔ اس میں ان کی ذاتی کوئی غرض نہیں ہے ‘ نہ ان کا اپنا کوئی حصہ ہے ۔ یہ گروہ صرف اللہ کے لئے ہے اور اس میں کوئی اور شریک نہیں ہے ۔

یہ رجمنٹ اللہ کے راستے میں لڑنے مرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی لحاظ نہ رکھے گی ۔ اس کو لوگوں کا کیا خوف ہوگا اور وہ کیا پرواہ کرے گی وہ تو اللہ کی محبت میں سرشار ہوگی اور یہی محبت اس کے لئے امام ضامن ہے ۔ لوگوں کے ہاں رائج مقامات قیام پر وہ سٹاپ نہ کرے گی ۔ سوسائٹی کی اقدار اس کی نظروں میں ہیچ ہوں گی اور جاہلیت کے ہاں معروف اس کے لئے معروف نہ ہوگا ۔ وہ تو سنت الہی کی رجمنٹ ہوگی اور وہ اسلامی نظام حیات پیش کرنے والی ہوگی ۔ لوگوں کی ملامت سے تو وہ لوگ ڈرتے ہیں جو اپنی اقدار اور ہدایات لوگوں کی خواہشات کے مطابق کرنے والی ہوں گی ۔ لوگوں کی ملامت سے تو وہ لوگ ڈرتے ہیں جو اقدار اور ہدایات لوگوں کی خواہشات کے مطابق تشکیل دیتے ہیں اور جن کی قوت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں لیکن جس جماعت کا رخ اللہ کی اقدار اور پیمانوں کی طرف ہوگا وہ تو کلمہ حق کو عوام کی اقدار اور پیمانوں پر غالب کرنے کی سعی کرے گی اور لوگوں کی خواہشات کے برعکس کام کرے گی تو وہ لوگوں سے کیا ڈرے گی ۔ جس شخص کی قوت اور اقدار کا سرچشمہ ذات باری ہو ‘ تو کیا پرواہ ہو سکتی ہے کہ لوگ کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں ۔ وہ تو یہ سمجھے گا کہ گویا لوگ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں ۔ ان لوگوں کی صورت حالات جو ہو سو ہو ‘ ان لوگوں کی تہذیب و تمدن جو ہو سو ہو ‘ وہ اپنی راہ پر رواں دواں رہے گا ۔

ہم لوگ تو دیکھتے ہیں کہ لوگ کیا کہتے ہیں ‘ لوگ کرتے ہیں ‘ لوگوں کے پاس کیا فکر وعمل ہے ‘ لوگ کن اصطلاحات میں بات کرتے ہیں ‘ لوگوں کی عملی زندگی کیا ہے اور ان میں کیا اقدار اور پیمانے ملحوظ ہیں ۔ ہمارا یہ رویہ اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اصل اصول کو بھلا دیا ہے جس کے مطابق ہم نے ان اعتبارات کے مقابلے میں ایک پیمانہ بنانا ہے ‘ جس کے مطابق ہم نے اپنے حساب کو درست کرنا ہے اور جس کے مطابق ہم نے آپ کو تولنا ہے ۔ اور وہ اصول ہے اسلامی نظام حیات اسلامی شریعت اور اللہ کے احکام اصل بات یہ ہے کہ یہی ہے اصول حق اور اس کے ماسوا سب باطل ہے ۔ اگرچہ یہ لاکھوں کروڑوں کے لئے معروف ومتداول ہو۔ اگرچہ کئی نسلیں اسے صدیوں تک مانتی چلی آئی ہوں ۔

کسی صورت حال ‘ کسی رواج ‘ کسی عادت یا کسی قدر کی یہ کوئی قیمت (VAlue) نہیں ہے کہ وہ موجود ہے یا وہ امر واقعہ ہے یا لاکھوں لوگ اس کے ماننے والے والے ہیں یا لاکھوں لوگ اس طرح زندگی بسر کرتے ہیں یا تمام لوگ اسے اصول حیات تسلیم کرتے ہیں ۔ اس قسم کے پیمانے کو اسلامی تصور حیات سلیم نہیں کرتے بلکہ کسی صورت حال ‘ کسی رواج ‘ کسی عادت ‘ کسی قدر کی قیمت یہ ہوگی کہ اسلامی تصور حیات میں اس کی کوئی قیمت ہے یا نہیں ہے اس لئے کہ تمام اقدار اور پیمانوں کا معیار اسلامی نظام ہے ۔

یہ وجہ ہے کہ یہ اسلامی رجمنٹ اللہ کی راہ میں جہاد کرے گی اور وہ کسی امامت کرنے والے کی ملامت سے خوف نہ کھائے گی ، یہ ہے نشانی ان مومنین کی جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس رجمنٹ میں بھرتی کیا ہوگا ۔ اور یہ بھرتی بھی اللہ کرے گا اور پھر اس رجمنٹ کے سپاہیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو بہت گہرا پیار ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ اپنے ان بہادروں کی نشانیاں بتا رہا ہے ۔ ان کے پتے بتا رہا ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ان بہادروں کے دلوں میں جو اطمینان ہوگا اور جس ثابت قدمی کے ساتھ راہ جہاد پر وہ رواں دواں ہوں گے یہ بھی اللہ کا فضل وکرم ہوگا ۔

(آیت) ” ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشآء واللہ واسع علیم “۔ (5 : 54) ” وہ جسے چاہتا ہے ذرائع دے دیتا ہے اور علم کے مطابق دیتا ہے ۔ اور اللہ کا دین بہت ہی وسیع ہے اور اس کے لئے جسے چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے “۔ اب اللہ تعالیٰ دھمکی کے بعد ‘ اس بات کا تعین فرماتے ہیں کہ اہل ایمان کی دوستی اور موالات کس کے ساتھ ہوگی اس کی تصریح کی جاتی ہے ۔

آیت 54 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ یہاں پر جو لفظ یَرْتَدَّ آیا ہے اس کے مفہوم میں ایک تو قانونی اور ظاہری ارتداد ہے۔ جیسے ایک شخص اسلام کو چھوڑ کر کافر ہوجائے ‘ یہودی یا نصرانی ہوجائے۔ یہ تو بہت واضح قانونی ارتداد ہے ‘ لیکن ایک باطنی ارتداد بھی ہے ‘ یعنی الٹے پاؤں پھرنے لگنا ‘ پسپائی اختیار کرلینا۔ اوپر اسلام کا لبادہ تو جوں کا توں ہے ‘ لیکن فرق یہ واقع ہوگیا ہے کہ پہلے غلبۂ دین کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے ‘ محنتیں کر رہے تھے ‘ وقت لگا رہے تھے ‘ ایثار کر رہے تھے ‘ انفاق کر رہے تھے ‘ بھاگ دوڑ کر رہے تھے ‘ اور اب کوئی آزمائش آئی ہے تو ٹھٹک کر کھڑے رہ گئے ہیں۔ جیسے سورة البقرۃ آیت 20 میں ارشاد ہے : کُلَّمَا اَضَآءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِ وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا ط جب ذرا روشنی ہوتی ہے ان پر تو اس میں کچھ چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اب کیفیت یہ ہے کہ نہ صرف کھڑے رہ گئے ہیں بلکہ کچھ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ایسی کیفیت کے بارے میں فرمایا گیا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ تمہارا محتاج ہے ‘ بلکہ تم اللہ کے محتاج ہو۔ تمہیں اپنی نجات کے لیے اپنے اس فرض کو ادا کرنا ہے۔ اگر تم نے پسپائی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ تمہیں ہٹائے گا اور کسی دوسری قوم کو لے آئے گا ‘ کسی اور کے ہاتھ میں اپنے دین کا جھنڈا تھما دے گا۔یہاں پر مؤمنین صادقین کے اوصاف کے ضمن میں جو تین جوڑے آئے ہیں ان پر ذرا دوبارہ غور کریں :1 یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ اللہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُم ! 2 اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَز وہ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم ہوں گے ‘ کافروں پر بہت سخت ہوں گے۔ یہی مضمون سورة الفتح آیت 29 میں دوسرے انداز سے آیا ہے : اَشِدِّاءُ عَلَی الکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ آپس میں بہت رحیم و شفیق ‘ کفار پر بہت سخت۔ بقول اقبالؔ : ؂ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن !3 یُجَاھِدُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآ ءِمٍ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہیں کریں گے۔ ان کے رشتہ دار ان کو سمجھائیں گے ‘ دوست احباب نصیحتیں کریں گے کہ کیا ہوگیا ہے تمہیں ؟ دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا ؟ تم fanatic ہوگئے ہو ؟ تمہیں اولاد کا خیال نہیں ‘ اپنے مستقبل کی فکر نہیں ! مگر یہ لوگ کسی کی کوئی پروا نہیں کریں گے ‘ بس اپنی ہی دھن میں مگن ہوں گے۔ اور ان کی کیفیت یہ ہوگی : ؂واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی خیریت جاں ‘ راحتِ تن ‘ صحت داماں سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری تنہا پس زنداں ‘ کبھی رسوا سر بازار کڑکے ہیں بہت شیخ سر گوشۂ منبر گرجے ہیں بہت اہل حکم بر سر دربار چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرز ملامت اِس عشق ‘ نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت !یہ ایک کردار ہے جس کو واضح کرنے کے لیے دو دو اوصاف کے یہ تین جوڑے آئے ہیں۔ ان کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ ہمیں اس کردار کو عملاً اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ اللہ کے خزانوں میں کمی نہیں ہے۔ اگر تم اپنے بھائیوں ‘ عزیزوں ‘ دوستوں ‘ ساتھیوں اور رفیقوں کو دیکھتے ہو کہ ان پر اللہ کا بڑا فضل ہوا ہے ‘ انہوں نے کیسے کیسے مرحلے َ سر کرلیے ہیں ‘ کیسی کیسی بازیاں جیت لیں ہیں ‘ تو تم بھی اللہ سے اس کا فضل طلب کرو۔ اللہ تمہیں بھیّ ہمت دے گا۔ اس لیے کہ اس دین کے کام میں اس قسم کا رشک بہت پسندیدہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رض کو ‘ رشک آیاحضرت ابوبکر صدیق رض پر۔ جب غزوۂ تبوک کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا حکم دیا تو آپ رض نے سوچا کہ آج تو میں ابوبکر رض سے بازی لے جاؤں گا ‘ کیونکہ اتفاق سے اس وقت میرے پاس خاصا مال ہے۔ چناچہ انہوں رض نے اپنے پورے مال کے دو برابر حصے کیے ‘ اور پورا ایک حصہ یعنی آدھا مال لا کر حضور ﷺ کے قدموں میں ڈال دیا۔ لیکن حضرت ابوبکرصدیق رض کے گھر میں جو کچھ تھا وہ سب لے آئے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر رض نے کہا میں نے جان لیا کہ ابوبکر رض سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔ تو دین کے معاملے میں اللہ کا حکم ہے : فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ المائدۃ : 48 یعنی نیکیوں میں ‘ خیر میں ‘ بھلائی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہو !اب پھر اہل ایمان کو دوستانہ تعلقات کے معیار کے بارے میں خبردار کیا جا رہا ہے۔ اہل ایمان کی دلی دوستی کفار سے ‘ یہود ہنود اور نصاریٰ سے ممکن ہی نہیں ‘ اس لیے کہ یہ ایمان کے منافی ہے۔ اگر دین کی غیرت و حمیت ہوگی ‘ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت دل میں ہوگی تو ان کے دشمنوں سے دلی دوستی ہو ہی نہیں سکتی۔

قوت اسلام اور مرتدین اللہ رب العزت جو قادر و غالب ہے خبر دیتا ہے کہ اگر کوئی اس پاک دین سے مرتد ہوجائے تو وہ اسلام کی قوت گھٹا نہیں دے گا، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بدلے ان لوگوں کو اس سچے دین کی خدمت پر مامور کرے گا، جو ان سے ہر حیثیت میں اچھے ہوں گے۔ جیسے اور آیت میں ہے (وان تتلوا) اور آیت میں ہے (اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ اَيُّھَا النَّاسُ وَيَاْتِ بِاٰخَرِيْنَ) 4۔ النسآء :133) اور جگہ فرمایا (اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ) 35۔ فاطر :16) ، مطلب ان سب آیتوں کا وہی ہے جو بیان ہوا۔ ارتداد کہتے ہیں، حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف پھرجانے کو۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں یہ آیت سرداران قریش کے بارے میں اتری ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں " خلافت صدیق میں جو لوگ اسلام سے پھرگئے تھے، ان کا حکم اس آیت میں ہے۔ جس قوم کو ان کے بدلے لانے کا وعدے دے رہا ہے وہ اہل قادسیہ ہیں یا قوم سبا ہے۔ یا اہل یمن ہیں جو کندہ اور سکون بیلہ کے ہیں "۔ ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ پچھلی بات بیان ہوئی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی طرف اشارہ کر کے فرمایا وہ اس کی قوم ہے۔ اب ان کامل ایمان والوں کی صفت بیان ہو رہی ہے کہ " یہ اپنے دوستوں یعنی مسلمانوں کے سامنے تو بچھ جانے والے، جھک جانے والے ہوتے ہیں اور کفار کے مقابلہ میں تن جانے والے، ان پر بھاری پڑنے والے اور ان پر تیز ہونے والے ہوتے ہیں "۔ جیسے فرمایا آیت (اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ) 48۔ الفتح :29) حضور ﷺ کی صفتوں میں ہے کہ آپ خندہ مزاج بھی تھے اور قتال بھی یعنی دوستوں کے سامنے ہنس مکھ خندہ رو اور دشمنان دین کے مقابلہ میں سخت اور جنگجو، سچے مسلمان راہ حق کے جہاد سے نہ منہ موڑتے ہیں، نہ پیٹھ دکھاتے ہیں، نہ تھکتے ہیں، نہ بزدلی اور آرام طلبی کرتے ہیں، نہ کسی کی مروت میں آتے ہیں، نہ کسی کی ملامت کا خوف کرتے ہیں، وہ برابر اطاعت الٰہی میں اس کے دشمنوں سے جنگ کرنے میں بھلائی کا حکم کرنے میں اور برائیوں سے روکنے میں مشغول رہتے ہیں۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں " مجھے میرے خلیل ﷺ نے سات باتوں کا حکم دیا ہے۔ مسکینوں سے محبت رکھنے، ان کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے اور دنیوی امور میں اپنے سے کم درجے کے لوگوں کو دیکھنے اور اپنے سے بڑھے ہوؤں کو نہ دیکھنے، صلہ رحمی کرتے رہنے، گو دوسرے نہ کرتے ہوں اور کسی سے کچھ بھی نہ مانگنے، حق بات بیان کرنے کا گو وہ سب کو کڑوی لگے اور دین کے معاملات میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے کا اور بہ کثرت لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنے کا، کیونکہ یہ کلمہ عرش کے نیچے کا خزانہ ہے "۔ (مسند احمد) ایک روایت میں ہے " میں نے حضور ﷺ سے پانچ مرتبہ بیعت کی ہے اور سات باتوں کی آپ نے مجھے یاد دہانی کی ہے اور سات مرتبہ اپنے اوپر اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں اللہ کے دین کے بارے میں کسی بدگو کی بدگوئی کی مطلق پرواہ نہیں کرتا۔ مجھے بلا کر حضور ﷺ نے فرمایا کیا مجھ سے جنت کے بدلے میں بیعت کرے گا ؟ میں نے منظور کر کے ہاتھ بڑھایا تو آپ نے شرط کی کہ کسی سے کچھ بھی نہ مانگنا۔ میں نے کہا بہت اچھا، فرمایا اگرچہ کوڑا بھی ہو۔ یعنی اگر وہ گڑ پڑے تو خود سواری سے اتر کرلے لینا " (مسند احمد) حضور ﷺ فرماتے ہیں " لوگوں کی ہیبت میں آکر حق گوئی سے نہ رکنا، یاد رکھو نہ تو کوئی موت کو قریب کرسکتا ہے، نہ رزق کو دور کرسکتا ہے "۔ ملاحظہ ہو امام احمد کی مسند۔ " فرماتے ہیں خلاف شرع امر دیکھ کر، سن کر اپنے تئیں کمزور جان کر، خاموش نہ ہوجانا۔ ورنہ اللہ کے ہاں اس کی باز پرس ہوگی، اس وقت انسان جواب دے گا کہ میں لوگوں کے ڈر سے چپکا ہوگیا تو جناب باری تعالیٰ فرمائے گا، میں اس کا زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے ڈرتا "۔ (مسند احمد) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے قیامت کے دن ایک سوال یہ بھی کرے گا کہ تو نے لوگوں کو خلاف شرع کام کرتے دیکھ کر اس سے روکا کیوں نہیں ؟ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی اسے جواب سمجھائے گا اور یہ کہہ گا پروردگار میں نے تجھ پر بھروسہ کیا اور لوگوں سے ڈرا (ابن ماجہ) ایک اور صحیح حدیث میں ہے " مومن کو نہ چاہئے کہ اپنے تئیں ذلت میں ڈالے صحابہ نے پوچھا، یہ کس طرح ؟ فرمایا ان بلاؤں کو اپنے اوپر لے لے، جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو۔ پھر فرمایا اللہ کا فضل ہے جے چاہے دے۔ یعنی کمال ایمان کی یہ صفتیں خاص اللہ کا عطیہ ہیں، اسی کی طرف سے ان کی توفیق ہوتی ہے، اس کا فضل بہت ہی وسیع ہے اور وہ کامل علم والا ہے، خوب جانتا ہے کہ اس بہت بڑی نعمت کا مستحق کون ہے ؟ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمہارے دوست کفار نہیں بلکہ حقیقتاً تمہیں اللہ سے اس کے رسول ﷺ اور مومنوں سے دوستیاں رکھنی چاہئیں۔ مومن بھی وہ جن میں یہ صفتیں ہوں کہ وہ نماز کے پورے پابند ہوں، جو اسلام کا اعلیٰ اور بہترین رکن ہے اور صرف اللہ کا حق ہے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو اللہ کے ضعیف مسکین بندوں کا حق ہے " اور آخری جملہ جو ہے اس کی نسبت بعض لوگوں کو وہم سا ہوگیا ہے کہ یہ (یؤتون الزکوۃ) سے حال واقع یعنی رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اگر اسے مان لیا جائے تو یہ تو نمایاں طور پر ثابت ہوجائے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینا افضل ہے حالانکہ کوئی عالم اس کا قائل ہی نہیں، ان وہمیوں نے یہاں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب نماز کے رکوع میں تھے جو ایک سائل آگیا تو آپ نے اپنی انگوٹھی اتار کر اسے دے دی، (والذین امنوا) سے مراد بقول عتبہ جملہ مسلمان اور حضرت علی ہیں۔ اس پر یہ آیت اتری ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی انگوٹھی کا قصہ ہے اور بعض دیگر مفسرین نے بھی یہ تفسیر کی ہے لیکن سند ایک کی بھی صحیح نہیں، رجال ایک کے بھی ثقہ اور ثابت نہیں، پس یہ واقعہ بالکل غیر ثابت شدہ ہے اور صحیح نہیں۔ ٹھیک رہی ہے جو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ یہ سب آیتیں حضرت عبادہ بن صامت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جبکہ انہوں نے کھلے لفظوں میں یہود کی دوستی توڑی اور اللہ اور اس کے رسول اور باایمان لوگوں کی دوستی رکھے وہ اللہ کے لشکر میں داخل ہے اور یہی اللہ کا لشکر غالب ہے۔ جیسے فرمان باری ہے آیت (كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ) 58۔ المجادلہ :21) ، یعنی اللہ تعالیٰ یہ دیکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول ﷺ ہی غالب رہیں گے اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو تو اللہ اور رسول ﷺ کے دشمنوں سے دوستی رکھنے والا کبھی پسند نہ آئے گا چاہے وہ باپ بیٹے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگوں میں سے ہی کیوں نہ ہو، یہی ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی روح سے ان کی تائید کی ہے، انہیں اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں لے جائے گا، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، رب ان سے راضی ہے، یہ اللہ سے خوش ہیں، یہی اللہ کے لشکر ہیں اور اللہ ہی کا لشکر فلاح پانے والا ہے۔ پس جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مومنوں کی دوستیوں پر راضی اور رضامند ہوجائے، وہ دنیا میں فاتح ہے اور آخرت میں فلاح پانے والا ہے۔ اسی لئے اس آیت کو بھی اس جملے پر ختم کیا۔

آیت 54 - سورۃ المائدہ: (يا أيها الذين آمنوا من يرتد منكم عن دينه فسوف يأتي الله بقوم يحبهم ويحبونه أذلة على المؤمنين أعزة على...) - اردو