سورۃ المائدہ (5): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المائدہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Maaida
سُورَةُ المَائـِدَةِ
صفحہ 117 (آیات 51 سے 57 تک)

۞ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ ٱلْيَهُودَ وَٱلنَّصَٰرَىٰٓ أَوْلِيَآءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ فَتَرَى ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَٰرِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰٓ أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَةٌ ۚ فَعَسَى ٱللَّهُ أَن يَأْتِىَ بِٱلْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِۦ فَيُصْبِحُوا۟ عَلَىٰ مَآ أَسَرُّوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ نَٰدِمِينَ وَيَقُولُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَهَٰٓؤُلَآءِ ٱلَّذِينَ أَقْسَمُوا۟ بِٱللَّهِ جَهْدَ أَيْمَٰنِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَٰلُهُمْ فَأَصْبَحُوا۟ خَٰسِرِينَ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِۦ فَسَوْفَ يَأْتِى ٱللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُۥٓ أَذِلَّةٍ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى ٱلْكَٰفِرِينَ يُجَٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ وَٰسِعٌ عَلِيمٌ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُمْ رَٰكِعُونَ وَمَن يَتَوَلَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ فَإِنَّ حِزْبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلْغَٰلِبُونَ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ مِن قَبْلِكُمْ وَٱلْكُفَّارَ أَوْلِيَآءَ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
117

سورۃ المائدہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المائدہ کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la tattakhithoo alyahooda waalnnasara awliyaa baAAduhum awliyao baAAdin waman yatawallahum minkum fainnahu minhum inna Allaha la yahdee alqawma alththalimeena

دشمن اسلام سے دوستی منع ہے دشمنان اسلام یہود و نصاریٰ سے دوستیاں کرنے کی اللہ تبارک و تعالیٰ ممانعت فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ " وہ تمہارے دوست ہرگز نہیں ہوسکتے کیونکہ تمہارے دین سے انہیں بغض و عداوت ہے۔ ہاں اپنے والوں سے ان کی دوستیاں اور محبتیں ہیں۔ میرے نزدیک تو جو بھی ان سے دلی محبت رکھے وہ ان ہی میں سے ہے "۔ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ کو اس بات پر پوری تنبیہہ کی اور یہ آیت پڑھ سنائی۔ حضرت عبداللہ بن عتبہ نے فرمایا لوگو ! تمہیں اس سے بچنا چاہئے کہ تمہیں خود تو معلوم نہ ہو اور تم اللہ کے نزدیک یہود و نصرانی بن جاؤ، ہم سمجھ گئے کہ آپ کی مراد اسی آیت کے مضمون سے ہے۔ ابن عباس سے عرب نصرانیوں کے ذبیحہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے یہی آیت تلاوت کی۔ جس کے دل میں کھوٹ ہے وہ تو لپک لپک کر پوشیدہ طور پر ان سے ساز باز اور محبت و مودت کرتے ہیں اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے اگر مسلمانوں پر یہ لوگ غالب آگئے تو پھر ہماری تباہی کردیں گے، اس لئے ہم ان سے بھی میل ملاپ رکھتے ہیں، ہم کیوں کسی سے بگاڑیں ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ممکن ہے اللہ مسلمانوں کو صاف طور پر غالب کر دے، مکہ بھی ان کے ہاتھوں فتح ہوجائے، فیصلے اور حکم ان ہی کے چلنے لگیں، حکومت ان کے قدموں میں سر ڈال دے۔ یا اللہ تعالیٰ اور کوئی چیز اپنے پاس سے لائے یعنی یہود نصاریٰ کو مغلوب کر کے انہیں ذلیل کر کے ان سے جزیہ لینے کا حکم مسلمانوں کو دے دے پھر تو یہ منافقین جو آج لپک لپک کر ان سے گہری دوستی کرتے پھرتے ہیں، بڑے بھنانے لگیں گے اور اپنی اس چالاکی پر خون کے آنسو بہانے لگیں گے۔ ان کے پردے کھل جائیں گے اور یہ جیسے اندر تھے ویسے ہی باہر سے نظر آئیں گے۔ اس وقت مسلمان ان کی مکاریوں پر تعجب کریں گے اور کہیں گے اے لو یہی وہ لوگ ہیں، جو بڑی بڑی قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلاتے تھے کہ یہ ہمارے ساتھی ہیں۔ انہوں نے جو پایا تھا وہ کھو دیا تھا اور برباد ہوگئے۔ (ویقول) تو جمہور کی قرأت ہے۔ ایک قرأت بغیر واؤ کے بھی ہے اہل مدینہ کی یہی قرأت ہے۔ یقول تو مبتداء اور دوسری قرأت اس کی (یقول) ہے تو یہ (فعسی) پر عطف ہوگا گویا (وان یقول) ہے۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے کہ جنگ احد کے بعد ایک شخص نے کہا کہ میں اس یہودی سے دوستی کرتا ہوں تاکہ موقع پر مجھے نفع پہنچے، دوسرے نے کہا، میں فلاں نصرانی کے پاس جاتا ہوں، اس سے دوستی کر کے اس کی مدد کروں گا۔ اس پر یہ آیتیں اتریں۔ عکرمہ فرماتے ہیں " لبابہ بن عبد المنذر کے بارے میں یہ آیتیں اتریں جبکہ حضور ﷺ نے انہیں بنو قریظہ کی طرف بھیجا تو انہوں نے آپ سے پوچھا کہ حضور ﷺ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ تو آپ نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا یعنی تم سب کو قتل کرا دیں گے "۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ آیتیں عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں اتری ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت نے حضرت ﷺ سے کہا کہ بہت سے یہودیوں سے میری دوستی ہے مگر میں ان سب کی دوستیاں توڑتا ہوں، مجھے اللہ رسول ﷺ کی دوستی کافی ہے۔ اس پر اس منافق نے کہا میں دور اندیش ہوں، دور کی سوچنے کا عادی ہوں، مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا، نہ جانے کس وقت کیا موقعہ پڑجائے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا اے عبداللہ تو عبادہ کے مقابلے میں بہت ہی گھاٹے میں رہا، اس پر یہ آیتیں اتریں۔ ایک روایت میں ہے کہ " جب بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی تو بعض مسلمانوں نے اپنے ملنے والے یہودیوں سے کہا کہ یہی تمہاری حالت ہو، اس سے پہلے ہی تم اس دین برحق کو قبول کرلو انہوں نے جواب دیا کہ چند قریشیوں پر جو لڑائی کے فنون سے بےبہرہ ہیں، فتح مندی حاصل کر کے کہیں تم مغرور نہ ہوجانا، ہم سے اگر پالا پڑا تو ہم تو تمہیں بتادیں گے کہ لڑائی اسے کہتے ہیں۔ اس پر حضرت عبادہ اور عبداللہ بن ابی کا وہ مکالمہ ہوا جو اوپر بیان ہوچکا ہے۔ جب یہودیوں کے اس قبیلہ سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور بفضل رب یہ غالب آگئے تو اب عبداللہ بن ابی آپ سے کہنے لگا، حضور ﷺ میرے دوستوں کے معاملے میں مجھ پر احسان کیجئے، یہ لوگ خزرج کے ساتھی تھے، حضور ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا، اس نے پھر کہا، آپ نے منہ موڑ لیا، یہ آپ کے دامن سے چپک گیا، آپ نے غصہ سے فرمایا کہ چھوڑ دے، اس نے کہا نہیں یا رسول اللہ ﷺ ! میں نہ چھوڑوں گا، یہاں تک کہ آپ ان کے بارے میں احسان کریں، ان کی بڑی پوری جماعت ہے اور آج تک یہ لوگ میرے طرفدار رہے اور ایک ہی دن میں یہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ مجھے تو آنے والی مصیبتوں کا کھٹکا ہے۔ آخر حضور ﷺ نے فرمایا، جا وہ سب تیرے لئے ہیں "۔ ایک روایت میں ہے کہ " جب بنو قینقاع کے یہودیوں نے حضور ﷺ سے جنگ کی اور اللہ نے انہیں نیچا دکھایا تو عبداللہ بن ابی ان کی حمایت حضور ﷺ کے سامنے کرنے لگا اور حضرت عبادہ بن صامت نے باوجودیکہ یہ بھی ان کے حلیف تھے لیکن انہوں نے ان سے صاف برأت ظاہر کی "۔ اس پر یہ آیتیں (ہم الغالبون) تک اتریں۔ مسند احمد میں ہے کہ " اس منافق عبداللہ بن ابی کی عیادت کیلئے حضور ﷺ تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا، میں نے تو تجھے بار ہا ان یہودیوں کی محبت سے روکا تو اس نے کہا سعد بن زرارہ تو ان سے دشمنی رکھتا تھا وہ بھی مرگیا "۔

اردو ترجمہ

تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنہی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں کہتے ہیں "ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں" مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمہیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اِس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fatara allatheena fee quloobihim maradun yusariAAoona feehim yaqooloona nakhsha an tuseebana dairatun faAAasa Allahu an yatiya bialfathi aw amrin min AAindihi fayusbihoo AAala ma asarroo fee anfusihim nadimeena

اردو ترجمہ

اور اُس وقت اہل ایمان کہیں گے "کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں؟" ان کے سب اعمال ضائع ہوگئے اور آخر کار یہ ناکام و نامراد ہو کر رہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayaqoolu allatheena amanoo ahaolai allatheena aqsamoo biAllahi jahda aymanihim innahum lamaAAakum habitat aAAmaluhum faasbahoo khasireena

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo man yartadda minkum AAan deenihi fasawfa yatee Allahu biqawmin yuhibbuhum wayuhibboonahu athillatin AAala almumineena aAAizzatin AAala alkafireena yujahidoona fee sabeeli Allahi wala yakhafoona lawmata laimin thalika fadlu Allahi yuteehi man yashao waAllahu wasiAAun AAaleemun

قوت اسلام اور مرتدین اللہ رب العزت جو قادر و غالب ہے خبر دیتا ہے کہ اگر کوئی اس پاک دین سے مرتد ہوجائے تو وہ اسلام کی قوت گھٹا نہیں دے گا، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بدلے ان لوگوں کو اس سچے دین کی خدمت پر مامور کرے گا، جو ان سے ہر حیثیت میں اچھے ہوں گے۔ جیسے اور آیت میں ہے (وان تتلوا) اور آیت میں ہے (اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ اَيُّھَا النَّاسُ وَيَاْتِ بِاٰخَرِيْنَ) 4۔ النسآء :133) اور جگہ فرمایا (اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ) 35۔ فاطر :16) ، مطلب ان سب آیتوں کا وہی ہے جو بیان ہوا۔ ارتداد کہتے ہیں، حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف پھرجانے کو۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں یہ آیت سرداران قریش کے بارے میں اتری ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں " خلافت صدیق میں جو لوگ اسلام سے پھرگئے تھے، ان کا حکم اس آیت میں ہے۔ جس قوم کو ان کے بدلے لانے کا وعدے دے رہا ہے وہ اہل قادسیہ ہیں یا قوم سبا ہے۔ یا اہل یمن ہیں جو کندہ اور سکون بیلہ کے ہیں "۔ ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ پچھلی بات بیان ہوئی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی طرف اشارہ کر کے فرمایا وہ اس کی قوم ہے۔ اب ان کامل ایمان والوں کی صفت بیان ہو رہی ہے کہ " یہ اپنے دوستوں یعنی مسلمانوں کے سامنے تو بچھ جانے والے، جھک جانے والے ہوتے ہیں اور کفار کے مقابلہ میں تن جانے والے، ان پر بھاری پڑنے والے اور ان پر تیز ہونے والے ہوتے ہیں "۔ جیسے فرمایا آیت (اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ) 48۔ الفتح :29) حضور ﷺ کی صفتوں میں ہے کہ آپ خندہ مزاج بھی تھے اور قتال بھی یعنی دوستوں کے سامنے ہنس مکھ خندہ رو اور دشمنان دین کے مقابلہ میں سخت اور جنگجو، سچے مسلمان راہ حق کے جہاد سے نہ منہ موڑتے ہیں، نہ پیٹھ دکھاتے ہیں، نہ تھکتے ہیں، نہ بزدلی اور آرام طلبی کرتے ہیں، نہ کسی کی مروت میں آتے ہیں، نہ کسی کی ملامت کا خوف کرتے ہیں، وہ برابر اطاعت الٰہی میں اس کے دشمنوں سے جنگ کرنے میں بھلائی کا حکم کرنے میں اور برائیوں سے روکنے میں مشغول رہتے ہیں۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں " مجھے میرے خلیل ﷺ نے سات باتوں کا حکم دیا ہے۔ مسکینوں سے محبت رکھنے، ان کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے اور دنیوی امور میں اپنے سے کم درجے کے لوگوں کو دیکھنے اور اپنے سے بڑھے ہوؤں کو نہ دیکھنے، صلہ رحمی کرتے رہنے، گو دوسرے نہ کرتے ہوں اور کسی سے کچھ بھی نہ مانگنے، حق بات بیان کرنے کا گو وہ سب کو کڑوی لگے اور دین کے معاملات میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے کا اور بہ کثرت لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنے کا، کیونکہ یہ کلمہ عرش کے نیچے کا خزانہ ہے "۔ (مسند احمد) ایک روایت میں ہے " میں نے حضور ﷺ سے پانچ مرتبہ بیعت کی ہے اور سات باتوں کی آپ نے مجھے یاد دہانی کی ہے اور سات مرتبہ اپنے اوپر اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں اللہ کے دین کے بارے میں کسی بدگو کی بدگوئی کی مطلق پرواہ نہیں کرتا۔ مجھے بلا کر حضور ﷺ نے فرمایا کیا مجھ سے جنت کے بدلے میں بیعت کرے گا ؟ میں نے منظور کر کے ہاتھ بڑھایا تو آپ نے شرط کی کہ کسی سے کچھ بھی نہ مانگنا۔ میں نے کہا بہت اچھا، فرمایا اگرچہ کوڑا بھی ہو۔ یعنی اگر وہ گڑ پڑے تو خود سواری سے اتر کرلے لینا " (مسند احمد) حضور ﷺ فرماتے ہیں " لوگوں کی ہیبت میں آکر حق گوئی سے نہ رکنا، یاد رکھو نہ تو کوئی موت کو قریب کرسکتا ہے، نہ رزق کو دور کرسکتا ہے "۔ ملاحظہ ہو امام احمد کی مسند۔ " فرماتے ہیں خلاف شرع امر دیکھ کر، سن کر اپنے تئیں کمزور جان کر، خاموش نہ ہوجانا۔ ورنہ اللہ کے ہاں اس کی باز پرس ہوگی، اس وقت انسان جواب دے گا کہ میں لوگوں کے ڈر سے چپکا ہوگیا تو جناب باری تعالیٰ فرمائے گا، میں اس کا زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے ڈرتا "۔ (مسند احمد) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے قیامت کے دن ایک سوال یہ بھی کرے گا کہ تو نے لوگوں کو خلاف شرع کام کرتے دیکھ کر اس سے روکا کیوں نہیں ؟ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی اسے جواب سمجھائے گا اور یہ کہہ گا پروردگار میں نے تجھ پر بھروسہ کیا اور لوگوں سے ڈرا (ابن ماجہ) ایک اور صحیح حدیث میں ہے " مومن کو نہ چاہئے کہ اپنے تئیں ذلت میں ڈالے صحابہ نے پوچھا، یہ کس طرح ؟ فرمایا ان بلاؤں کو اپنے اوپر لے لے، جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو۔ پھر فرمایا اللہ کا فضل ہے جے چاہے دے۔ یعنی کمال ایمان کی یہ صفتیں خاص اللہ کا عطیہ ہیں، اسی کی طرف سے ان کی توفیق ہوتی ہے، اس کا فضل بہت ہی وسیع ہے اور وہ کامل علم والا ہے، خوب جانتا ہے کہ اس بہت بڑی نعمت کا مستحق کون ہے ؟ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمہارے دوست کفار نہیں بلکہ حقیقتاً تمہیں اللہ سے اس کے رسول ﷺ اور مومنوں سے دوستیاں رکھنی چاہئیں۔ مومن بھی وہ جن میں یہ صفتیں ہوں کہ وہ نماز کے پورے پابند ہوں، جو اسلام کا اعلیٰ اور بہترین رکن ہے اور صرف اللہ کا حق ہے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو اللہ کے ضعیف مسکین بندوں کا حق ہے " اور آخری جملہ جو ہے اس کی نسبت بعض لوگوں کو وہم سا ہوگیا ہے کہ یہ (یؤتون الزکوۃ) سے حال واقع یعنی رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اگر اسے مان لیا جائے تو یہ تو نمایاں طور پر ثابت ہوجائے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینا افضل ہے حالانکہ کوئی عالم اس کا قائل ہی نہیں، ان وہمیوں نے یہاں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب نماز کے رکوع میں تھے جو ایک سائل آگیا تو آپ نے اپنی انگوٹھی اتار کر اسے دے دی، (والذین امنوا) سے مراد بقول عتبہ جملہ مسلمان اور حضرت علی ہیں۔ اس پر یہ آیت اتری ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی انگوٹھی کا قصہ ہے اور بعض دیگر مفسرین نے بھی یہ تفسیر کی ہے لیکن سند ایک کی بھی صحیح نہیں، رجال ایک کے بھی ثقہ اور ثابت نہیں، پس یہ واقعہ بالکل غیر ثابت شدہ ہے اور صحیح نہیں۔ ٹھیک رہی ہے جو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ یہ سب آیتیں حضرت عبادہ بن صامت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جبکہ انہوں نے کھلے لفظوں میں یہود کی دوستی توڑی اور اللہ اور اس کے رسول اور باایمان لوگوں کی دوستی رکھے وہ اللہ کے لشکر میں داخل ہے اور یہی اللہ کا لشکر غالب ہے۔ جیسے فرمان باری ہے آیت (كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ) 58۔ المجادلہ :21) ، یعنی اللہ تعالیٰ یہ دیکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول ﷺ ہی غالب رہیں گے اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو تو اللہ اور رسول ﷺ کے دشمنوں سے دوستی رکھنے والا کبھی پسند نہ آئے گا چاہے وہ باپ بیٹے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگوں میں سے ہی کیوں نہ ہو، یہی ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی روح سے ان کی تائید کی ہے، انہیں اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں لے جائے گا، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، رب ان سے راضی ہے، یہ اللہ سے خوش ہیں، یہی اللہ کے لشکر ہیں اور اللہ ہی کا لشکر فلاح پانے والا ہے۔ پس جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مومنوں کی دوستیوں پر راضی اور رضامند ہوجائے، وہ دنیا میں فاتح ہے اور آخرت میں فلاح پانے والا ہے۔ اسی لئے اس آیت کو بھی اس جملے پر ختم کیا۔

اردو ترجمہ

تمہارے رفیق تو حقیقت میں صرف اللہ اور اللہ کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama waliyyukumu Allahu warasooluhu waallatheena amanoo allatheena yuqeemoona alssalata wayutoona alzzakata wahum rakiAAoona

اردو ترجمہ

اور جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waman yatawalla Allaha warasoolahu waallatheena amanoo fainna hizba Allahi humu alghaliboona

اردو ترجمہ

ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے پیش رو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے، اُنہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la tattakhithoo allatheena ittakhathoo deenakum huzuwan walaAAiban mina allatheena ootoo alkitaba min qablikum waalkuffara awliyaa waittaqoo Allaha in kuntum mumineena

اذان اور دشمنان دین اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی محبت سے نفرت دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ " کیا تم ان سے دوستیاں کرو گے جو تمہارے طاہر و مطہر دین کی ہنسی اڑاتے ہیں اور اسے ایک بازیچہ اطفال بنائے ہوئے ہیں "۔ من بیان جنس کیلئے جیسے (من الاوثان) میں۔ بعض نے (والکفار) پڑھا ہے اور عطف ڈالا ہے اور بعض نے (والکفار) پڑھا ہے اور (لاتتخذوا) کا نیا معمول بنایا ہے تو تقدیر عبارت (والا الکفار اولیاء) ہوگی، کفار سے مراد مشرکین ہیں، ابن مسعود کی قرأت میں (و من الذین اشرکوا) ہے۔ اللہ سے ڈرو اور ان سے دوستیاں نہ کرو اگر تم سچے مومن ہو۔ یہ تو تمہارے دین کے، اللہ کی شریعت کے دشمن ہیں۔ جیسے فرمایا آیت (لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ) 3۔ آل عمران :28) مومن مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستیاں نہ کریں اور جو ایسا کرے وہ اللہ کے ہاں کسی بھلائی میں نہیں ہاں ان سے بچاؤ مقصود ہو تو اور بات ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اسی طرح یہ کفار اہل کتاب اور مشرک اس وقت بھی مذاق اڑاتے ہیں جب تم نمازوں کیلئے لوگوں کو پکارتے ہو حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے پیاری عبادت ہے، لیکن یہ بیوقوف اتنا بھی نہیں جانتے، اس لئے کہ یہ متبع شیطان ہیں، اس کی یہ حالت ہے کہ اذان سنتے ہی بدبو چھوڑ کر دم دبائے بھاگتا ہے اور وہاں جا کر ٹھہرتا ہے، جہاں اذان کی آواز نہ سن پائے۔ اس کے بعد آجاتا ہے پھر تکبیر سن کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی آکر اپنے بہکاوے میں لگ جاتا ہے، انسان کو ادھر ادھر کی بھولی بسری باتیں یاد دلاتا ہے یہاں تک کہ اسے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ نماز کی کتنی رکعت پڑھیں ؟ جب ایسا ہو تو وہ سجدہ سہو کرلے۔ (متفق علیہ) امام زہری فرماتے ہیں " اذان کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے پھر یہی آیت تلاوت کی "۔ ایک نصرانی مدینے میں تھا، اذان میں جب اشہد ان محمد الرسول اللہ سنتا تو کہتا کذاب جل جائے۔ ایک مرتبہ رات کو اس کی خادمہ گھر میں آگ لائی، کوئی پتنگا اڑا جس سے گھر میں آگ لگ گئی، وہ شخص اس کا گھر بار سب جل کر ختم ہوگیا۔ فتح مکہ والے سال حضور ﷺ نے حضرت بلال کو کعبے میں اذان کہنے کا حکم دیا، قریب ہی ابو سفیان بن حرب، عتاب بن اسید، حارث بن ہشام بیٹھے ہوئے تھے، عتاب نے تو اذان سن کر کہا میرے باپ پر تو اللہ کا فضل ہوا کہ وہ اس غصہ دلانے والی آواز کے سننے سے پہلے ہی دنیا سے چل بسا۔ حارث کہنے لگا اگر میں اسے سچا جانتا تو مان ہی نہ لیتا۔ ابو سفیان نے کہا بھئی میں تو کچھ بھی زبان سے نہیں نکالتا، ڈر ہے کہ کہیں یہ کنکریاں اسے خبر نہ کردیں انہوں نے باتیں ختم کی ہی تھیں کہ حضور ﷺ آگئے اور فرمانے لگے اس وقت تم نے یہ یہ باتیں کیں ہیں، یہ سنتے ہی عتاب اور حارث تو بول پڑے کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ﷺ ہیں، یہاں تو کوئی چوتھا تھا ہی نہیں، ورنہ گمان کرسکتے تھے کہ اس نے جا کر آپ سے کہہ دیا ہوگا (سیرۃ محمد بن اسحاق) حضرت عبداللہ بن جبیر جب شام کے سفر کو جانے لگے تو حضرت محذورہ سے جن کی گود میں انہوں نے ایام یتیمی بسر کئے تھے، کہا آپ کی اذان کے بارے میں مجھ سے وہاں کے لوگ ضرور سوال کریں گے تو آپ اپنے واقعات تو مجھے بتا دیجئے۔ فرمایا ہاں سنو جب رسول اللہ ﷺ حنین سے واپس آ رہے تھے، راستے میں ہم لوگ ایک جگہ رکے، تو نماز کے وقت حضور ﷺ کے مؤذن نے اذان کہی، ہم نے اس کا مذاق اڑانا شروع کیا، کہیں آپ کے کان میں بھی آوازیں پڑگئیں۔ سپاہی آیا اور ہمیں آپ کے پاس لے گیا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم سب میں زیادہ اونچی آواز کس کی تھی ؟ سب نے میری طرف اشارہ کیا تو آپ نے اور سب کو چھوڑ دیا اور مجھے روک لیا اور فرمایا " اٹھو اذان کہو " واللہ اس وقت حضور ﷺ کی ذات سے اور آپ کی فرماں برداری سے زیادہ بری چیز میرے نزدیک کوئی نہ تھی لیکن بےبس تھا، کھڑا ہوگیا، اب خود آپ نے مجھے اذان سکھائی اور جو سکھاتے رہے، میں کہتا رہا، پھر اذان پوری بیان کی، جب میں اذان سے فارغ ہوا تو آپ نے مجھے ایک تھیلی دے، جس میں چاندی تھی، پھر اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا اور پیٹھ تک لائے، پھر فرمایا اللہ تجھ میں اور تجھ پر اپنی برکت نازل کرے۔ اب تو اللہ کی قسم میرے دل سے رسول ﷺ کی عداوت بالکل جاتی رہی، ایسی محبت حضور ﷺ کی دل میں پیدا ہوگئی، میں نے آرزو کی کہ مکہ کا مؤذن حضور ﷺ مجھ کو بنادیں۔ آپ نے میری یہ درخواست منظور فرما لی اور میں مکہ میں چلا گیا اور وہاں کے گورنر حضرت عتاب بن اسید سے مل کر اذان پر مامور ہوگیا۔ حضرت ابو مخدورہ کا نام سمرہ بن مغیرہ بن لوذان تھا، حضور ﷺ کے چار مؤذنوں میں سے ایک آپ تھے اور لمبی مدت تک آپ اہل مکہ کے مؤذن رہے۔ ؓ وارضاہ۔

117