سورۃ المائدہ: آیت 5 - اليوم أحل لكم الطيبات ۖ... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورۃ المائدہ

ٱلْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُ ۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَٱلْمُحْصَنَٰتُ مِنَ ٱلْمُؤْمِنَٰتِ وَٱلْمُحْصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِىٓ أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِٱلْإِيمَٰنِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُۥ وَهُوَ فِى ٱلْءَاخِرَةِ مِنَ ٱلْخَٰسِرِينَ

اردو ترجمہ

آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا اُن کے لیے اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، بشر طیکہ تم اُن کے مہر ادا کر کے نکاح میں اُن کے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alyawma ohilla lakumu alttayyibatu wataAAamu allatheena ootoo alkitaba hillun lakum wataAAamukum hillun lahum waalmuhsanatu mina almuminati waalmuhsanatu mina allatheena ootoo alkitaba min qablikum itha ataytumoohunna ojoorahunna muhsineena ghayra musafiheena wala muttakhithee akhdanin waman yakfur bialeemani faqad habita AAamaluhu wahuwa fee alakhirati mina alkhasireena

آیت 5 کی تفسیر

(آیت) ” الْیَوْمَ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ إِذَا آتَیْْتُمُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْ أَخْدَانٍ ۔

” آج تمہارے لئے ساری پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں ، اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے ۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ‘ بشرطیکہ تم انکے مہر ادا کر کے نکاح میں ان کے محافظ بنو ‘ نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو)

اب پھر وہ چیزیں گنوائی جاتی ہیں جو حلال ہیں ۔۔۔۔ (آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں) اس سے اس مفہوم کی طرف تاکیدی اشارہ ملتا ہے جس کی طرف ہم نے قارئین کو اوپر متوجہ کیا تھا ۔ اب طیبات کی فہرست میں کچھ مزید چیزوں کو شامل کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بھی طیب ہیں ۔

یہاں اسلام کی رواداری کا ایک نمونہ سامنے آتا ہے ۔ اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کے ساتھ برتاؤ کی ایک خصوصی صورت بتائی جاتی ہے ۔ ایسے لوگ جو دارالاسلام میں رہتے ہیں اور اہل الذمہ ہیں اور مملکت اسلامیہ کے شہری ہیں اور ہیں اہل کتاب میں سے ۔

اسلام اہل کتاب غیر مسلموں کو صرف مذہبی آزادی دے کر معاشرے کے اندر الگ تھلک نہیں کردیتا نہ انہیں اسلامی معاشرے میں قابل نفرت حد تک دور پھینک دیتا ہے ۔ وہ انہیں اجتماعی شرکت اور محبت کا احساس بھی دیتا ہے اور انہیں اسلامی معاشرے میں ضم ہونے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے ۔ اسلام ان کا کھانا اہل اسلام کے لئے حلال قرار دیتا ہے ۔ اہل اسلام کے لئے یہ بھی جائز قرار دیتا ہے کہ وہ اپنا کھانا بھی اہل کتاب کو پیش کرسکتے ہیں تاکہ وہ ایک دوسرے سے ملاقات کرسکیں ‘ ایک دوسرے کے مہمان بن سکیں اور باہم مل کر کھا پی سکیں اور معاشرے کے اندر محبت اور رواداری کی فضا وجود میں آئے ۔ اسی طرح اسلام اہل کتاب میں سے پاک دامن عورتوں کے ساتھ اہل اسلام کو نکاح کی بھی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ وہ محصنات ہوں یعنی پاکدامن ہوں ۔ یہ مسلمانوں کے لئے جائز ہیں ، یہاں مسلمان پاک دامن عورتوں کے ساتھ اہل کتاب پاکدامن عورتوں کا ذکر یکجا کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک ایسی رواداری ہے جو اسلام کے سوا کسی اور مذہب کے ہاں شاذو نادر ہی ملتی ہوگی ۔ اس لئے کہ عیسائیوں میں سے بھی کیتھولک فرقہ آرتھوڈکس کے ساتھ نکاح کرنا مناسب نہیں سمجھتا ۔ اسی طرح پروٹسٹنٹ اور مارونیہ کے ساتھ بھی وہ نکاح جائز نہیں سمجھتے اور اگر عیسائی معاشرے میں کوئی ایسے نکاح کرتا ہے تو عیسائی آرتھوڈکس اسے صحیح نہیں بلکہ بدعمل سمجھتے ہیں ۔

معلوم ہوا کہ یہ صرف اسلام ہی ہے جو ایک عالمی معاشرہ قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ اسلام نے اہل اسلام اور اہل کتاب کے درمیان مکمل علیحدگی قائم نہیں کی نہ مختلف عاقد رکھنے والوں کے درمیاں مستقل پردے ڈالے ۔ وہ اہل عقائد جو اسلامی مملکت کے شہری ہوتے ہیں حسن معاشرت کے نقطہ نظر سے وہ مسلمانوں کے ساتھ اور مسلمان ان کے ساتھ رابطہ رکھ سکتے ہیں ۔ (رہی یہ بات کہ ان لوگوں کے ساتھ خفیہ دوستیاں قائم کرنا جائز ہیں یہ نہیں تو اس کا حکم آگے آرہا ہے) رہی یہ شرط کہ کتابیات محصنہ ہوں تو یہ شرط مومنات کے لئے بھی ہیں کہ ہو محصنہ ہوں۔

(آیت) ” اذا اتیتموھن اجورھن محصنین غیر مسفحین ولا متخذی اخدان “ (5 : 5)

” بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کر کے نکاح میں ان کے محافظ نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنایاں کرو)

وہ اس طرح کہ انہیں مہر ادا کرو ‘ ان کے ساتھ شرعی نکاح کرو ‘ جس میں مرد عورت کو حصار نکاح میں لاتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے ۔ یہ نہ ہو کہ اجر دے کہ تم ان کے ساتھ شہوت رانی کرو یا چھوری چھپے دوستیاں کرو ۔ السفاح کا مفہوم یہ ہے کہ عورت کسی بھی مرد کے ساتھ معاہدہ کرے اور المخادنہ کا مفہوم یہ ہے کہ عورت بغیر شرعی نکاح کے کسی ایک شخص کو دوست بنا لے ۔ یہ دونوں صورتیں عرب میں دور جاہلیت میں مشہور اور متعارف تھیں اور جاہلی معاشرہ ان دونوں قسم کے تعلقات کو تسلیم کرتا تھا ۔ اسلام آیا اور اس نے معاشرے کو ان گندگیوں سے پاک وصاف کردیا اور اسے ان گراٹوں سے اٹھا کر سربلند کردیا ۔

(آیت) ” ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ وھو فی الاخرۃ من الخسرین “ (5 : 5) (اور اگر کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہوجائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا 9

یہ تمام قانون سازی ایمان کے ساتھ منسلک ہے ۔ اس کا نافذ کرنا اسی طرح اہم ہے جس طرح ایمان لانا اہم ہے یہ دلیل ایمان ہے ‘ اس لئے یہ جو شخص ان احکام کے نفاذ سے روگردانی کرتا ہے وہ گویا ایمان کا انکار کرتا ہے ایمان کو چھپاتا ہے ایمان پر پردہ ڈالتا ہے ۔ اس طرح جو شخص ایمان کا انکار کرے اس کا عمل باطل ہوجاتا ہے اور وہ مسترد کردیا جاتا ہے ورنہ وہ شخص اس عمل پر ہمیشہ کے لئے عمل پیرا ہوتا ہے ۔ الحبوط عرب میں کسی مویشی کے پھول جانے کو کہتے ہیں ‘ جب وہ کوئی زہریلی گھاس چر لیتا ہے اور اس سے مر جاتا ہے یہ عمل باطل کی اچھی تصویر کشی ہے کہ بظاہر وہ پھول جاتا ہے لیکن درحقیقت اس کا جسم زہر آلود ہوگیا ہوتا ہے اور وہ مرجاتا ہے ۔ اسی طرح عمل باطل بھی زیادہ نظر آتا ہے لیکن اس کا اثر نہیں ہوتا اور دنیا میں بے اور بےکار ہونے کے بعد آخرت میں غیر نافع اور سخت خسارے کا سودا ہوگا ۔

یہ سخت ‘ شدید اور خوفناک اختتامی ڈراوا ایک شرعی حکم کے بعد آتا ہے ۔ یہ شرعی حکم طعام ونکاح کے حوالے سے حلال و حرام کی بابت وارد ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام حیات کے ہر جزو پر عمل کرنا ضروری ہے اور یہ کہ اسلامی نظام کا ہر جزئیہ بھی دین ہی ہے اور اسی لئے اس کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں ہے شریعت کی مخالفت میں اگر کوئی تھوڑا ہو یا زیادہ اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔

پاکیزہ کھانوں اور پاکیزہ بیویوں کے بیان کے ضمن میں نماز کا حکم آجاتا ہے اور نماز کے لئے تیاری اور پاکی کے احکام بتائے جا رہے ہیں :

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ جب تم نماز کے لئے اٹھو تو چاہئے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھولو سروں پر ہاتھ پھیر لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو۔ اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہوجاؤ ۔ اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو ‘ اور پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو ‘ بس اس پر ہاتھ مار کر اپنے منہ اور ہاتھوں پر پھیرلیا کرو ، اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے ‘ شاید کہ تم شکر گزار بنو)

رزق حلال اور پاکیزہ عورتوں کے احکام کے متصلا بعد نماز اور نماز کے لئے طہارت کا بیان آتا ہے ۔ مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکنے والوں کے ساتھ معاملہ کرنے ‘ شکار کرنے احکام کے ساتھ نماز کے لئے طہارت کے احکام کا ذکر محض اتفاقا نہیں کیا گیا ہے کہ ایک بیان ختم ہوا تو دوسرا شروع کردیا گیا اور نہ یہ سیاق کلام اور مقاصد کلام کے ساتھ غیر مناسب ہے بلکہ یہ ذکر بھی اپنے صحیح مقام پر ہے اور قرآن کریم کی حکمت بیان کے عین مطابق ہے ۔

سب سے پہلے تو یہ پاکیزہ چیزوں میں سے ایک نئے رنگ کی پاکیزگی ہے ‘ روحانی پاکیزگی یعنی پاکیزہ طعام و شراب اور پاکیزہ عورتوں کے ساتھ ایک پاکیزہ چیز ‘ روح کی پاکیزگی کے سامان اور انتظام کا بھی یہاں ذکر کردیا گیا ۔ یہ وہ رنگ ہے جس میں قلب مومن وہ کچھ پاتا ہے جو کسی دوسرے سازو سامان میں نہیں پاتا ، یہ وہ سازوسامان ہے جو ذریعہ ملاقات محبوب ہے ، پاکیزگی ‘ طہارت اور عاجزی کی فضا میں جب دنیا کے سامان طعام و شراب کا بیان ختم ہوا اور پاکیزہ ازواج کا ذکر بھی ہوگیا تو پھر روحانی پاکیزگی اور طہارت کا ذکر ہوا جو وضو اور نماز کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔ انسان کی زندگی میں پاکیزگی کے تمام رنگ جمع ہوگئے جن کے ساتھ انسان کی تصویر مکمل ہوتی ہے ۔

اس سے یہ بتلانا بھی پیش نظر ہے کہ طہارت اور نماز کے احکام بھی اسی طرح دین کا حصہ ہیں جس طرح کھانے کے احکام اور نکاح کے احکام ‘ شکار کے احکام اور حرام اور حلال کے احکام اور جس طرح امن اور جنگ میں لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے احکام ہیں یا جس طرح اس پوری سورة میں مذکور دوسرے احکام ہیں ۔ یہ سب احکام اللہ کی عبادت اطاعت اور بندگی ہیں ۔ یہ سب دین کا حصہ ہیں ۔ اسلام میں ان احکام کے اندر کوئی ایسا فرق نہیں ہے جو فقہاء نے بعد کے ادوار میں اپنی اصطلاحات کے اندر قائم کردیا ہو ۔ یعنی یہ ہیں احکام عبادات اور یہ ہیں احکام معاملات ۔

یہ اصطلاحات جو فقہاء نے محض تصنیفی تقاضوں کے تحت قائم کئے تھے اور کتابوں کے ابواب وفصول کے تعین کے لئے کئے تھے ‘ ان کا اصل نظام زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اور نہ اصل شریعت کے اندر اس تفریق کے لئے کوئی جواز ہے ۔ اسلامی نظام میں عبادات اور معاملات دونوں موجود ہیں اور ان دونوں کا حکم بھی ایک ہے۔ یعنی یہ دونوں امور اسلامی نظام حیات ‘ شریعت اور دین کا حصہ ہیں ۔ اطاعت اور اتباع میں دونوں کے درمیان شریعت نے کوئی فرق و امتیاز نہیں کیا ہے ۔ بلکہ شریعت کا قیام ہی اس وقت تک ممکن نہیں ‘ جب تک ان دونوں حصوں میں پر عمل درآمد نہ کیا جائے اور دین اسلام اس وقت تک درست طور پر قائم نہیں ہوسکتا جب تک جماعت مسلمہ کی زندگی میں یہ دونوں پہلو برابر کے طور پر نافذ نہ ہوجائیں ۔

یہ سب معاہدے ہیں جنکے بارے میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ انہیں پورا کیا جائے ۔ یہ تمام عبادات ہیں جن پر ایک مسلمان رضائے الہی کے لئے عمل کرے گا ، یہ تمام امور اسلام کا حصہ ہیں اور ہر ایک پر مسلمان عمل پیرا ہوگا تاکہ وہ اپنی بندگی کا اقرار کرے ۔

اسلام میں عبادات اور معاملات کوئی الگ الگ حیثیت نہیں رکھتے ۔ ان کا بیان صرف فقہی تصنیفات میں الگ الگ کیا گیا ہے ۔ معاملات اور عبادات دونوں ہی درحقیقت عبادات ہیں ۔ یہ سب اللہ کی جانب سے فرائض ہیں اور ہم نے اللہ کے ساتھ یہ عہد (عقود) کیا ہے کہ ہم ان پر عمل کریں گے ، ان میں سے کسی ایک کی خلاف ورزی کا مفہوم یہ ہوگا کہ ہم نے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے ایمان کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے ۔

یہ ہے وہ اہم نقطہ نظر جس کے طرف قرآن یہاں اشارہ کر رہا ہے ۔ وہ پے درپے مختلف قسم کے احکام کو اس سورة میں بیان کر رہا ہے جو سب کے سب دین کا حصہ ہیں ۔

آیت 5 اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ط یہ وہی اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔ والا انداز ہے۔ یعنی اس سے پہلے اگر مختلف مذاہب کے احکام کی وجہ سے ‘ یہود کی شریعت یا حضرت یعقوب علیہ السلام کی ذاتی پسند و ناپسند کی بنا پر اگر کوئی رکاوٹیں پیدا ہوگئی تھیں یا معاشرے میں رائج مشرکانہ رسومات و اوہام کی وجہ سے تمہارے ذہنوں میں کچھ الجھنیں تھیں تو آج ان سب کو صاف کیا جا رہا ہے اور آج تمہارے لیے تمام صاف ستھری اور پاکیزہ چیزوں کے حلال ہونے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ ۔لیکن یہ صرف اس صورت میں ہے کہ وہ کھانا اصلاً حلال ہو ‘ کیونکہ اگر ایک عیسائیُ سؤر کھا رہا ہوگا تو وہ ہمارے لیے حلال نہیں ہوگا۔ اس کھانے میں ان کا ذبیحہ بھی شامل ہے ‘ دو بنیادی شرائط کے ساتھ : ایک یہ کہ جانور حلال ہو اور دوسرے یہ کہ اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو۔ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ یعنی مسلمان مرد عیسائی یا یہودی عورت سے شادی کرسکتا ہے۔ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ نیت یہ ہو کہ تم نے ان کو اپنے گھر میں بسانا ہے ‘ مستقل طور پر ایک خاندان کی بنیاد رکھنی ‘ ہے۔ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ ط بلکہ معروف طریقے سے علی الاعلان نکاح کر کے تم انہیں اپنے گھروں میں آباد کرو اور ان کے محافظ بنو۔ اس ضمن میں بعض اشکالات کا رفع کرنا ضروری ہے۔ جہاں تک شریعت اسلامی کا حکم ہے تو شریعت رسول اللہ ﷺ پر مکمل ہوچکی ہے ‘ اب اس میں تغیر و تبدل ممکن نہیں۔ اس لحاظ سے یہ قانون اپنی جگہ قائم ہے اور قائم رہے گا۔ یہ تو ہے اس کا جواز ‘ البتہ اگر آج اس کے خلاف کسی کو کوئی مصلحت نظر آتی ہے تو وہ اپنی جگہ درست ہوسکتی ہے ‘ لیکن اس کے باوجود قانون کو بدلا نہیں جاسکتا۔ البتہ اگر ایک خالص اسلامی ریاست ہو تو حالات کی سنگینی کے پیش نظر کچھ عرصے کے لیے کسی ایسی اجازت یا حکم کو موقوف کیا جاسکتا ہے۔ جیسے حضرت عمر رض نے ایک مرتبہ اپنے زمانے میں قحط کے سبب قطع ید ہاتھ کاٹنے کی سزا کو موقوف کردیا تھا۔ اس طرح کسی قانون میں اسلامی حکومت کے کسی عارضی انتظامی حکم Executive Order کے ذریعے سے کوئی عارضی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ مزیدبرآں اس اجازت کے پس منظر میں جو فلسفہ اور حکمت ہے اس کی اصل روح کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ اجازت صرف مسلمان مردوں کو دی گئی ہے کہ وہ عیسائی یا یہودی عورتوں سے شادی کرسکتے ہیں ‘ مسلمان عورت عیسائی یا یہودی مرد سے شادی نہیں کرسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر مرد عورت پر غالب ہوتا ہے ‘ لہٰذا امکان غالب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اسلام کی طرف راغب کرلے گا۔ دوسرے یہ کہ اس زمانے میں یہّ بات مسلمہ تھی کہ اولاد مرد کی ہے ‘ اور مرد کے غالب اور فعالّ ہونے کا مطلب تھا کہ ایسے میاں بیوی کی اولاد عیسائی یا یہودی نہیں بلکہ مسلمان ہوگی۔ اس وقت ویسے بھی مسلمانوں کا غلبہ تھا اور یہودی اور عیسائی ان کے تابع ہوچکے تھے۔ آج کل حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں۔ آج عیسائی اور یہودی غالب ہیں ‘ جبکہ مسلمان انتہائی مغلوب۔ دوسری طرف بین الاقوامی سیاست میں عورتوں کا غلبہ ہے۔ لہٰذا موجودہ حالات میں مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ ایسی شادیاں نہ ہوں ‘ لیکن بہرحال ان کو حرام نہیں کہا جاسکتا ‘ کیونکہ اس کے جواز کا واضح حکم موجود ہے۔ ہاں اگر کوئی اسلامی ریاست کہیں قائم ہوجائے تو وہ عارضی طور پر جب تک حالات میں کوئی تبدیلی نہ آجائے اس اجازت کو منسوخ کرسکتی ہے۔ وَمَنْ یَّکْفُرْ بالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ ز اس میں اشارہ اہل کتاب کی طرف بھی ہوسکتا ہے کہ جب تکٌ محمد رسول اللہ ﷺ تشریف نہیں لائے تھے تب تک وہ اہل ایمان تھے لیکن اب اگر وہ نبی آخر الزماں ﷺ پر ایمان نہیں لا رہے تو گویا وہ کفر کر رہے ہیں۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان کا مدعی ہو کر کافرانہ حرکتیں کرے تو اس کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔

ذبیحہ کس نام اور کن ہاتھوں کا حلال ہے ؟ حلال و حرام کے بیان کے بعد بطور خلاصہ فرمایا کہ کل ستھری چیزیں حلال ہیں، پھر یہود و نصاریٰ کے ذبح کئے ہوئے جانوروں کی حلت بیان فرمائی۔ حضرت ابن عباس، ابو امامہ، مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ، عطاء، حسن، مکحول، ابراہیم، نخعی، سدی، مقاتل بن حیان یہ سب یہی کہتے ہیں کہ طعام سے مراد ان کا اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ہوا جانور ہے، جس کا کھانا مسلمانوں کو حلال ہے، علماء اسلام کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ ان کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال ہے، کیونکہ وہ بھی غیر اللہ کیلئے ذبح کرنا ناجائز جانتے ہیں اور ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا دوسرے کا نام نہیں لیتے گو ان کے عقیدے ذات باری کی نسبت یکسر اور سراسر باطل ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ بلند وبالا اور پاک و منزہ ہے۔ صحیح حدیث میں حضرت عبداللہ بن مغفل کا بیان ہے کہ جنگ خیبر میں مجھے چربی کی بھری ہوئی ایک مشک مل گئی، میں نے اسے قبضہ میں کیا اور کہا اس میں سے تو آج میں کسی کو بھی حصہ نہ دونگا، اب جو ادھر ادھر نگاہ پھرائی تو دیکھتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ میرے پاس ہی کھڑے ہوئے تبسم فرما رہے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ مال غنیمت میں سے کھانے پینے کی ضروری چیزیں تقسیم سے پہلے بھی لے لینی جائز ہیں اور یہ استدلال اس حدیث سے صاف ظاہر ہے، تینوں مذہب کے فقہاء نے مالکیوں پر اپنی سند پیش کی ہے اور کہا ہے کہ تم جو کہتے ہو کہ اہل کتاب کا وہی کھانا ہم پر حلال ہے جو خود ان کے ہاں بھی حلال ہو یہ غلط ہے کیونکہ چربی کو یہودی حرام جانتے ہیں لیکن مسلمان کیلئے حلال ہے لیکن یہ ایک شخص کا انفرادی واقعہ ہے۔ البتہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ وہ چربی ہو جسے خود یہودی بھی حلال جانتے تھے یعنی پشت کی چربی انتڑیوں سے لگی ہوئی چربی اور ہڈی سے ملی ہوئی چربی، اس سے بھی زیادہ دلالت والی تو وہ روایت ہے جس میں ہے کہ خیبر والوں نے سالم بھنی ہوئی ایک بکری حضور ﷺ کو تحفہ میں دی جس کے شانے کے گوشت کو انہوں نے زہر آلود کر رکھا تھا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ حضور ﷺ کو شانے کا گوشت پسند ہے، چناچہ آپ نے اس کا یہی گوشت لے کر منہ میں رکھ کر دانتوں سے توڑا تو فرمان باری سے اس شانے نے کہا، مجھ میں زہر ملا ہوا ہے، آپ نے اسی وقت اسے تھوک دیا اور اس کا اثر آپ کے سامنے کے دانتوں وغیرہ میں رہ گیا، آپ کے ساتھ حضرت بشر بن براء بن معرور بھی تھے، جو اسی کے اثر سے راہی بقاء ہوئے، جن کے قصاص میں زہر ملانے والی عورت کو بھی قتل کیا گیا، جس کا نام زینب تھا، وجہ دلالت یہ ہے کہ خود حضور ﷺ نے مع اپنے ساتھیوں کے اس گوشت کے کھانے کا پختہ ارادہ کرلیا اور یہ نہ پوچھا کہ اس کی جس چربی کو تم حلال جانتے ہو اسے نکال بھی ڈالا ہے یا نہیں ؟ اور حدیث میں ہے کہ ایک یہودی نے آپ کی دعوت میں جو کی روٹی اور پرانی سوکھی چربی پیش کی تھی، حضرت مکحول فرماتے ہیں جس چیز پر نام رب نہ لیا جائے اس کا کھانا حرام کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رحم فرما کر منسوخ کر کے اہل کتاب کے ذبح کئے جانور حلال کر دئے یہ یاد رہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس جانور پر بھی نام الٰہی نہ لیا جائے وہ حلال ہو ؟ اس لئے کہ وہ اپنے ذبیحوں پر اللہ کا نام لیتے تھے بلکہ جس گوشت کو کھاتے تھے اسے ذبیحہ پر موقوف نہ رکھتے تھے بلکہ مردہ جانور بھی کھالیتے تھے لیکن سامرہ اور صائبہ اور ابراہیم وشیث وغیرہ پیغمبروں کے دین کے مدعی اس سے مستثنیٰ تھے، جیسے کہ علماء کے دو اقوال میں سے ایک قول ہے اور عرب کے نصرانی جیسے بنو تغلب، تنوخ بہرا، جذام لحم، عاملہ کے ایسے اور بھی ہیں کہ جمہور کے نزدیک ان کے ہاتھ کا کیا ہوا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا۔ حضرت علی فرماتے ہیں قبیلہ بنو تغلب کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور نہ کھاؤ، اس لئے کہ انہوں نے تو نصرانیت سے سوائے شراب نوشی کے اور کوئی چیز نہیں لی، ہاں سعید بن مسیب اور حسن بنو تغلب کے نصاریٰ کے ہاتھوں ذبح کئے ہوئے جانور کے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں جانتے تھے، باقی رہے مجوسی ان سے گو جزیہ لیا گیا ہے کیونکہ انہیں اس مسئلہ میں یہود و نصاریٰ میں ملا دیا گیا ہے اور ان کا ہی تابع کردیا گیا ہے، لیکن ان کی عورتوں سے نکاح کرنا اور ان کے ذبح کئے ہوئے جانور کا کھانا ممنوع ہے۔ ہاں ابو ثور ابراہیم بن خالد کلبی جو شافعی اور احمد کے ساتھیوں میں سے تھے، اس کے خلاف ہیں، جب انہوں نے اسے جائز کہا اور لوگوں میں اس کی شہرت ہوئی تو فقہاء نے اس قول کی زبردست تردید کی ہے۔ یہاں تک کہ حضرت امام احمد بن حنبل نے تو فرمایا کہ ابو ثور اس مسئلہ میں اپنے نام کی طرح ہی ہے یعنی بیل کا باپ، ممکن ہے ابو ثور نے ایک حدیث کے عموم کو سامنے رکھ کر یہ فتویٰ دیا ہو جس میں حکم ہے کہ مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب کا سا طریقہ برتو لیکن اولاً تو یہ روایت ان الفاظ سے ثابت ہی نہیں دوسرے یہ روایت مرسل ہے، ہاں البتہ صحیح بخاری شریف میں صرف اتنا تو ہے کہ ہجر کے مجوسیوں سے رسول اللہ ﷺ نے جزیہ لیا۔ علاوہ ان سب کے ہم کہتے ہیں کہ ابو ثور کی پیش کردہ حدیث کو اگر ہم صحیح مان لیں، تو بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے عموم سے بھی اس آیت میں حکم امتناعی کو دلیل بنا کر اہل کتاب کے سوا اور دین والوں کا ذبیحہ بھی ہمارے لئے حرام ثابت ہوتا ہے، پھر فرماتا ہے کہ تمہارا ذبیحہ بھی ہمارے لئے حرام ثابت ہوسکتا ہے، پھر فرماتا ہے کہ تمہارا ذبیحہ ان کیلئے حلال ہے یعنی تم انہیں اپنا ذبیحہ کھلا سکتے ہو۔ یہ اس امر کی خبر نہیں کہ ان کے دین میں ان کیلئے تمہارا ذبیحہ حلال ہے ہاں زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس بات کی خبر ہو کہ انہیں بھی ان کی کتاب میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جس جانور کا ذبیحہ اللہ کے نام پر ہوا ہو اسے وہ کھا سکتا ہے بلحاظ اس سے کہ ذبح کرنے والا انہیں میں سے ہو یا ان کے سوا کوئی اور ہو، لیکن زیادہ باوزن بات پہلی ہی ہے۔ یعنی یہ کہ تمہیں اجازت ہے کہ انہیں اپنا ذبیحہ کھلاؤ جیسے کہ ان کے ذبح کئے ہوئے جانور تم کھالیتے ہو۔ یہ گویا اول بدل کے طور پر ہے، جس طرح حضور ﷺ نے عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کو اپنے خاص کرتے ہیں کفن دیا جس کی وجہ سے بعض حضرات نے یہ بیان کیا ہے کہ اس نے آپ کے چچا حضرت عباس کو اپنا کرتا دیا تھا جب وہ مدینے میں آئے تھے تو آپ نے اس کا بدلہ چکا دیا۔ ہاں ایک حدیث میں ہے کہ مومن کے سوا کسی اور کی ہم نشینی نہ کر اور اپنا کھانا بجز پرہیزگاروں کے اور کسی کو نہ کھلا اسے اس بدلے کے خلاف نہ سمجھنا چاہئے، ہوسکتا ہے کہ حدیث کا یہ حکم بطور پسندیدگی اور افضلیت کے ہو، واللہ اعلم۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ پاک دامن مومن عورتوں سے نکاح کرنا تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے یہ بطور تمہید کے ہے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم سے پہلے جنہیں کتاب دی گئی ہے ان کی عفیفہ عورتوں سے بھی نکاح تمہیں حلال ہے۔ یہ قول بھی ہے کہ مراد محصنات سے آزاد عورتیں ہیں یعنی لونڈیاں نہ ہوں۔ یہ قول حضرت مجاہد کی طرف منسوب ہے اور حضرت مجاہد کے الفاظ یہ ہیں کہ محصنات سے آزاد مراد ہیں اور جب یہ ہے تو جہاں اس قول کا وہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ لونڈیاں اس سے خارج ہیں وہاں یہ معنی بھی لئے جاسکتے ہیں کہ پاک دامن عفت شعار، جیسے کہ انہی سے دوسری روایت ان ہی لفظوں میں موجود ہے، جمہور بھی کہتے ہیں اور یہ زیادہ ٹھیک بھی ہے۔ تاکہ ذمیہ ہونے کے ساتھ ہی غیر عفیفہ ہونا شامل ہو کر بالکل ہی باعث فساد نہ بن جائے اور اس کا خاوند صرف فضول بھرتی کے طور پر بری رائے پر نہ چل پڑے پس بظاہر یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ محصنات سے مراد عفت مآب اور بدکاری سے بچاؤ والیاں ہی لی جائیں، جیسے دوسری آیت میں محصنات کے ساتھ ہی آیت (غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ) 5۔ المائدہ :5) آیا ہے۔ علماء اور مفسرین کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کیا آیت ہر کتابیہ عفیفہ عورت پر مشتمل ہے ؟ خواہ وہ آزاد ہو خواہ لونڈی ہو ؟ ابن جریر میں سلف کی ایک جماعت سے اسے نقل کیا ہے جو کہتے ہیں کہ محصنات سے مراد پاک دامن ہے، ایک قول یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں مراد اہل کتاب سے اسرائیلی عورتیں ہیں، امام شافعی کا یہی مذہب ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ذمیہ عورتیں ہیں سوائے آزاد عورتوں کے اور دلیل یہ آیت ہے (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ) 9۔ التوبہ :29) یعنی ان سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے، چناچہ حضرت عبداللہ بن عمر نصرانیہ عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں جانتے تھے اور فرماتے تھے اس سے بڑا شرک کیا ہوگا ؟ کہ وہ کہتی ہو کہ اس کا رب عیسیٰ ہے اور جب یہ مشرک ٹھہریں تو نص قرآنی موجود ہے کہ آیت (وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ ۭوَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا) 2۔ البقرۃ :221) یعنی مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں، ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرنے کا حکم نازل ہوا تو صحابہ ان سے رک گئے یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اہل کتاب کی پاکدامن عورتوں سے نکاح کرنے کی رخصت نازل ہوئی تو صحابہ نے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کئے اور صحابہ کی ایک جماعت سے ایسے نکاح اسی آیت کو دلیل بنا کر کرنے ثابت ہیں تو گویا پہلے سورة بقرہ کی آیت کی ممانعت میں یہ داخل تھیں لیکن دوسری آیت نے انہیں مخصوص کردیا۔ یہ اس وقت جب یہ مان لیا جائے کہ ممانعت والی آیت کے حکم میں یہ بھی داخل تھیں ورنہ ان دونوں آیتوں میں کوئی معارض نہیں، اس لئے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں عام مشرکین سے انہیں الگ بیان کیا گیا ہے جیسے آیت لم یکن الذین کفروا۔ (وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ) 3۔ آل عمران :20) پھر فرماتا ہے جب تم انہیں ان کے مقررہ مہر دے دو وہ اپنے نفس کو بچانے والیاں ہوں اور تم ان کے مہر ادا کرنے والے ہو، حضرت جابر بن عبداللہ عامر شعبی ابراہیم نخعی حسن بصری کا فتویٰ ہے کہ جب کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور دخول سے پہلے اس نے بدکاری کی تو میاں بیوی میں تفریق کرا دی جائے گی اور جو مہر خاوند نے عورت کو دیا ہے اسے واپس دلوایا جائے گا (ابن جریر) پھر فرماتا ہے تم بھی پاک دامن عفت مآب ہو اور علانیہ یا پوشیدہ بدکار نہ ہوؤ۔ پس عورتوں میں جس طرح پاک دامن اور عفیفہ ہونے کی شرط لگائی تھی مردوں میں بھی یہی شرط لگائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ وہ کھلے بدکار نہ ہوں کہ ادھر ادھر منہ مارتے پھرتے ہوں اور نہ ایسے ہوں کہ خاص تعلق سے حرام کاری کرتے ہوں۔ سورة نساء میں بھی اسی کے تماثل حکم گزر چکا ہے۔ حضرت امام احمد اسی طرف گئے ہیں کہ زانیہ عورتوں سے توبہ سے پہلے ہرگز کسی بھلے آدمی کو نکاح کرنا جائز نہیں، اور یہی حکم ان کے نزدیک مردوں کا بھی ہے کہ بدکار مردوں کا نکاح نیک کار عفت شعار عورتوں سے بھی ناجائز ہے جب تک وہ سچی توبہ نہ کریں اور اس رذیل فعل سے باز نہ آجائیں۔ ان کی دلیل ایک حدیث بھی ہے جس میں ہے کوڑے لگایا ہوا زانی اپنے جیسی سے ہی نکاح کرسکتا ہے۔ خلیفتہ المومنین حضرت عمر فاروق نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں ارادہ کر رہا ہوں کہ جو مسلمان کوئی بدکاری کرے میں اسے ہرگز کسی مسلمان پاک دامن عورت سے نکاح نہ کرنے دوں۔ اس پر حضرت ابی بن کعب نے عرض کی کہ اے امیر المومنین شرک اس سے بہت بڑا ہے اس کے باوجود بھی اس کی توبہ قبول ہے۔ اس مسئلے کو ہم آیت (اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً ۡ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ) 24۔ النور :3) کی تفسیر میں پوری طرح بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ آیت کے خاتمہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ کفار کے اعمال اکارت ہیں اور وہ آخرت میں نقصان یافتہ ہیں۔

آیت 5 - سورۃ المائدہ: (اليوم أحل لكم الطيبات ۖ وطعام الذين أوتوا الكتاب حل لكم وطعامكم حل لهم ۖ والمحصنات من المؤمنات والمحصنات من...) - اردو