سورۃ المائدہ (5): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المائدہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Maaida
سُورَةُ المَائـِدَةِ
صفحہ 107 (آیات 3 سے 5 تک)

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةُ وَٱلدَّمُ وَلَحْمُ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ ٱللَّهِ بِهِۦ وَٱلْمُنْخَنِقَةُ وَٱلْمَوْقُوذَةُ وَٱلْمُتَرَدِّيَةُ وَٱلنَّطِيحَةُ وَمَآ أَكَلَ ٱلسَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى ٱلنُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا۟ بِٱلْأَزْلَٰمِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ ٱلْيَوْمَ يَئِسَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَٱخْشَوْنِ ۚ ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَٰمَ دِينًا ۚ فَمَنِ ٱضْطُرَّ فِى مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ يَسْـَٔلُونَكَ مَاذَآ أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ ٱلْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ ٱللَّهُ ۖ فَكُلُوا۟ مِمَّآ أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَٱذْكُرُوا۟ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ ٱلْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُ ۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَٱلْمُحْصَنَٰتُ مِنَ ٱلْمُؤْمِنَٰتِ وَٱلْمُحْصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِىٓ أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِٱلْإِيمَٰنِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُۥ وَهُوَ فِى ٱلْءَاخِرَةِ مِنَ ٱلْخَٰسِرِينَ
107

سورۃ المائدہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المائدہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گھلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور وہ جو کسی آستا نے پر ذبح کیا گیا ہو نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو یہ سب افعال فسق ہیں آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں اُن کی پابند ی کرو) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hurrimat AAalaykumu almaytatu waalddamu walahmu alkhinzeeri wama ohilla lighayri Allahi bihi waalmunkhaniqatu waalmawqoothatu waalmutaraddiyatu waalnnateehatu wama akala alssabuAAu illa ma thakkaytum wama thubiha AAala alnnusubi waan tastaqsimoo bialazlami thalikum fisqun alyawma yaisa allatheena kafaroo min deenikum fala takhshawhum waikhshawni alyawma akmaltu lakum deenakum waatmamtu AAalaykum niAAmatee waradeetu lakumu alislama deenan famani idturra fee makhmasatin ghayra mutajanifin liithmin fainna Allaha ghafoorun raheemun

آیت 3 حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وہ جانور جو خود اپنی موت مرگیا ہو وہ حرام ہے۔ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ یعنی وہ جانور جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے نامزد ہے ‘ اور غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اس کو ذبح کیا جا رہا ہے۔ وَالْمُنْخَنِقَۃُ ُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَآ اَکَلَ السَّبُعُ یعنی اَلْمَیْتَۃکی یہ پانچ قسمیں ہیں۔ کوئی جانور ان میں سے کسی سبب سے مرگیا ‘ ذبح ہونے کی نوبت نہیں آئی ‘ اس کے جسم سے خون نکلنے کا امکان نہ رہا ‘ بلکہ خون اس کے جسم کے اندر ہی جم گیا اور اس کے گوشت کا حصہ بن گیا تو وہ مردار کے حکم میں ہوگا۔ اِلاَّ مَا ذَکَّیْتُمْ قف۔ یعنی مذکورہ بالا اقسام میں سے جو جانور ابھی مرا نہ ہو اور اسے ذبح کرلیا جائے تو اسے کھایا جاسکتا ہے۔ مثلاً شیر نے ہرن کا شکار کیا ‘ لیکن اس سے پہلے کہ وہ ہرن مرتا شیر نے کسی سبب سے اسے چھوڑ دیا۔ اس حالت میں اگر اسے ذبح کرلیا گیا اور اس میں سے خون بھی نکلا تو وہ حلال جانا جائے گا۔ جہاں جہاں شیر کا منہ لگا ہو وہ حصہ کاٹ کر پھینک دیا جائے تو باقی گوشت کھانا جائز ہے۔ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ یعنی کسی خاص آستانے پر ‘ خواہ وہ کسی ولی اللہ کا مزار ہو یا دیوتا ‘ دیوی کا کوئی استھان ہو ‘ ایسی جگہوں پر جاکر ذبح کیا گیا جانور بھی حرام ہے۔ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بالْاَزْلاَمِ ط اور یہ کہ جوئے کے تیروں کے ذریعے سے تقسیم کرو۔یہ بھی جوئے کی ایک قسم تھی۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ قربانی کے بعد گوشت کے ڈھیر لگا دیتے تھے اور تیروں کے ذریعے گوشت پر جوا کھیلتے تھے۔ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ط اَلْیَوْمَ یَءِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ یعنی یہ لوگ اب یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ اللہ کا دین غالب ہوا چاہتا ہے اور اس کا راستہ روکنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ‘ سورة المائدۃ نزول کے اعتبار سے آخری سورتوں میں سے ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب عرب میں اسلام کے غلبہ کے آثار صاف نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ فَلاَ تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا ط میرے ہاں پسندیدہ اور مقبول دین ہمیشہ ہمیش کے لیے صرف اسلام ہے۔فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ شدید فاقہ کی کیفیت ہو ‘ بھوک سے جان نکل رہی ہو تو ان حرام کردہ چیزوں میں سے جان بچانے کے بقدر کھا سکتا ہے۔غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاِثْمٍ لا نیت میں کوئی فتور نہ ہو ‘ بلکہ حقیقت میں جان پر بنی ہو اور دل میں نافرمانی کا کوئی خیال نہ ہو

اردو ترجمہ

لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو جن کو خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر تم شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھاسکتے ہو، البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو اور اللہ کا قانون توڑنے سے ڈرو، اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yasaloonaka matha ohilla lahum qul ohilla lakumu alttayyibatu wama AAallamtum mina aljawarihi mukallibeena tuAAallimoonahunna mimma AAallamakumu Allahu fakuloo mimma amsakna AAalaykum waothkuroo isma Allahi AAalayhi waittaqoo Allaha inna Allaha sareeAAu alhisabi

اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ اسے حساب لینے میں دیر نہیں لگتی۔

اردو ترجمہ

آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا اُن کے لیے اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، بشر طیکہ تم اُن کے مہر ادا کر کے نکاح میں اُن کے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alyawma ohilla lakumu alttayyibatu wataAAamu allatheena ootoo alkitaba hillun lakum wataAAamukum hillun lahum waalmuhsanatu mina almuminati waalmuhsanatu mina allatheena ootoo alkitaba min qablikum itha ataytumoohunna ojoorahunna muhsineena ghayra musafiheena wala muttakhithee akhdanin waman yakfur bialeemani faqad habita AAamaluhu wahuwa fee alakhirati mina alkhasireena

آیت 5 اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ط یہ وہی اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔ والا انداز ہے۔ یعنی اس سے پہلے اگر مختلف مذاہب کے احکام کی وجہ سے ‘ یہود کی شریعت یا حضرت یعقوب علیہ السلام کی ذاتی پسند و ناپسند کی بنا پر اگر کوئی رکاوٹیں پیدا ہوگئی تھیں یا معاشرے میں رائج مشرکانہ رسومات و اوہام کی وجہ سے تمہارے ذہنوں میں کچھ الجھنیں تھیں تو آج ان سب کو صاف کیا جا رہا ہے اور آج تمہارے لیے تمام صاف ستھری اور پاکیزہ چیزوں کے حلال ہونے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ ۔لیکن یہ صرف اس صورت میں ہے کہ وہ کھانا اصلاً حلال ہو ‘ کیونکہ اگر ایک عیسائیُ سؤر کھا رہا ہوگا تو وہ ہمارے لیے حلال نہیں ہوگا۔ اس کھانے میں ان کا ذبیحہ بھی شامل ہے ‘ دو بنیادی شرائط کے ساتھ : ایک یہ کہ جانور حلال ہو اور دوسرے یہ کہ اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو۔ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ یعنی مسلمان مرد عیسائی یا یہودی عورت سے شادی کرسکتا ہے۔ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ نیت یہ ہو کہ تم نے ان کو اپنے گھر میں بسانا ہے ‘ مستقل طور پر ایک خاندان کی بنیاد رکھنی ‘ ہے۔ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ ط بلکہ معروف طریقے سے علی الاعلان نکاح کر کے تم انہیں اپنے گھروں میں آباد کرو اور ان کے محافظ بنو۔ اس ضمن میں بعض اشکالات کا رفع کرنا ضروری ہے۔ جہاں تک شریعت اسلامی کا حکم ہے تو شریعت رسول اللہ ﷺ پر مکمل ہوچکی ہے ‘ اب اس میں تغیر و تبدل ممکن نہیں۔ اس لحاظ سے یہ قانون اپنی جگہ قائم ہے اور قائم رہے گا۔ یہ تو ہے اس کا جواز ‘ البتہ اگر آج اس کے خلاف کسی کو کوئی مصلحت نظر آتی ہے تو وہ اپنی جگہ درست ہوسکتی ہے ‘ لیکن اس کے باوجود قانون کو بدلا نہیں جاسکتا۔ البتہ اگر ایک خالص اسلامی ریاست ہو تو حالات کی سنگینی کے پیش نظر کچھ عرصے کے لیے کسی ایسی اجازت یا حکم کو موقوف کیا جاسکتا ہے۔ جیسے حضرت عمر رض نے ایک مرتبہ اپنے زمانے میں قحط کے سبب قطع ید ہاتھ کاٹنے کی سزا کو موقوف کردیا تھا۔ اس طرح کسی قانون میں اسلامی حکومت کے کسی عارضی انتظامی حکم Executive Order کے ذریعے سے کوئی عارضی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ مزیدبرآں اس اجازت کے پس منظر میں جو فلسفہ اور حکمت ہے اس کی اصل روح کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ اجازت صرف مسلمان مردوں کو دی گئی ہے کہ وہ عیسائی یا یہودی عورتوں سے شادی کرسکتے ہیں ‘ مسلمان عورت عیسائی یا یہودی مرد سے شادی نہیں کرسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر مرد عورت پر غالب ہوتا ہے ‘ لہٰذا امکان غالب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اسلام کی طرف راغب کرلے گا۔ دوسرے یہ کہ اس زمانے میں یہّ بات مسلمہ تھی کہ اولاد مرد کی ہے ‘ اور مرد کے غالب اور فعالّ ہونے کا مطلب تھا کہ ایسے میاں بیوی کی اولاد عیسائی یا یہودی نہیں بلکہ مسلمان ہوگی۔ اس وقت ویسے بھی مسلمانوں کا غلبہ تھا اور یہودی اور عیسائی ان کے تابع ہوچکے تھے۔ آج کل حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں۔ آج عیسائی اور یہودی غالب ہیں ‘ جبکہ مسلمان انتہائی مغلوب۔ دوسری طرف بین الاقوامی سیاست میں عورتوں کا غلبہ ہے۔ لہٰذا موجودہ حالات میں مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ ایسی شادیاں نہ ہوں ‘ لیکن بہرحال ان کو حرام نہیں کہا جاسکتا ‘ کیونکہ اس کے جواز کا واضح حکم موجود ہے۔ ہاں اگر کوئی اسلامی ریاست کہیں قائم ہوجائے تو وہ عارضی طور پر جب تک حالات میں کوئی تبدیلی نہ آجائے اس اجازت کو منسوخ کرسکتی ہے۔ وَمَنْ یَّکْفُرْ بالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ ز اس میں اشارہ اہل کتاب کی طرف بھی ہوسکتا ہے کہ جب تکٌ محمد رسول اللہ ﷺ تشریف نہیں لائے تھے تب تک وہ اہل ایمان تھے لیکن اب اگر وہ نبی آخر الزماں ﷺ پر ایمان نہیں لا رہے تو گویا وہ کفر کر رہے ہیں۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان کا مدعی ہو کر کافرانہ حرکتیں کرے تو اس کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔

107