سورۃ المائدہ: آیت 44 - إنا أنزلنا التوراة فيها هدى... - اردو

آیت 44 کی تفسیر, سورۃ المائدہ

إِنَّآ أَنزَلْنَا ٱلتَّوْرَىٰةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا ٱلنَّبِيُّونَ ٱلَّذِينَ أَسْلَمُوا۟ لِلَّذِينَ هَادُوا۟ وَٱلرَّبَّٰنِيُّونَ وَٱلْأَحْبَارُ بِمَا ٱسْتُحْفِظُوا۟ مِن كِتَٰبِ ٱللَّهِ وَكَانُوا۟ عَلَيْهِ شُهَدَآءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا۟ ٱلنَّاسَ وَٱخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا۟ بِـَٔايَٰتِى ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَٰفِرُونَ

اردو ترجمہ

ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی سارے نبی، جو مسلم تھے، اُسی کے مطابق اِن یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور اِسی طرح ربانی اور احبار بھی (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے پس (اے گروہ یہود!) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna anzalna alttawrata feeha hudan wanoorun yahkumu biha alnnabiyyoona allatheena aslamoo lillatheena hadoo waalrrabbaniyyoona waalahbaru bima istuhfithoo min kitabi Allahi wakanoo AAalayhi shuhadaa fala takhshawoo alnnasa waikhshawni wala tashtaroo biayatee thamanan qaleelan waman lam yahkum bima anzala Allahu faolaika humu alkafiroona

آیت 44 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 44 تا 45۔

اللہ کی جانب سے جو دین بھی آیا ہے وہ اس لئے آیا ہے تاکہ وہ نظام زندگی بنے اور لوگوں کی عملی زندگی کا وہ نظام ہو ۔ ہر دین میں اس لئے آیا ہے کہ وہ انسانیت کی قیادت کرے ۔ انسان کو منظم کرے ‘ اسے صحیح راستہ دکھائے اور اسے غلطیوں اور سیاہ کاریوں سے بچائے ، دین محض اس لئے نہیں آتا کہ وہ انسانی شعور میں ایک عقیدہ اور نظریہ ہو ‘ یا وہ محض اس لئے بھی نہیں آتا کہ کلیسا اور مساجد میں چند مراسم عبودیت کے طور پر جاری رہے ۔ یہ دونوں باتیں اگرچہ انسانی کے عقیدہ وعمل کے لئے ضروری ہیں لیکن صرف عقیدہ اور مراسم عبودیت سے انسانی زندگی کی تنظیم ‘ توجہیہ اور سیاہ کاریوں سے بچاؤ ممکن نہیں ہے جب تک دین کی اساس پر پورا نظام زندگی ‘ نظام قانون اور نظام معاشرت نافذ نہ ہو ‘ جب تک ان چیزوں کو عملا نافذ نہ کیا جائے ‘ جب تک مسند اقدار پر ایسے لوگ نہ پائے جائیں جو اس حاکمیت اور قانون کے مطابق حکمرانی کریں اور جب تک ایسی حکومت نہ ہو جو اسلامی قوانین اور ہدایت کی خلاف ورزی پر گرفت کرنے والی ہو اور اسلامی سزائیں نافذ کرنے والی ہو ۔ اس وقت تک قانون اسلام کا نفاذ ممکن نہیں ہے ۔

انسانی زندگی اس وقت تک استوار نہیں ہو سکتی جب تک نظریہ حیات ‘ مراسم عبودیت اور قانون ایک ہی منبع سے اخذ نہ کئے جائیں ۔ اس منبع کی حکمرانی دلوں پر بھی ہو ‘ ذات الصدور پر بھی ہو اور انسانی کی عملی حرکات و سکنات پر بھی ہو ۔ وہ اس دنیا میں بھی لوگوں کو اجر دیتاہو اور آخرت میں بھی وہ لوگوں کو اجر دیتا ہو اور حساب و کتاب لیتا ہو۔

جب انسانی زندگی پر حکمرانی مختلف ہوجائے اور رشد وہدایت کے منابع مختلف ہوجائیں مثلا ضمیر اور ایمان پر حکمرانی ایک الہ کی ہو اور ظاہری نظم ونسق اور قانون پر حکمرانی دوسرے حاکم کی ہو اور آخرت کی جزاء کا مالک اور ہو اور دنیا میں سزا دینے والی طاقت کوئی اور ہو تو ایسے حالات میں انسانی کی ذات دو مختلف حکمرانوں کے درمیان ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہے اس کی شخصیت کے اندر دو مختلف رجحانات ہوتے اور اس کی زندگی دو طرح کے متضاد طرز ہائے عمل میں بٹ جاتی ایسے حالات میں زندگی کے اندر وہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس کی طرف قرآن کریم نے مختلف طریقوں سے اشارہ کیا ہے ۔

(آیت) ” لو کان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا “۔ (اگر زمین و آسمان میں زیادہ الہ ہوتے تو ان میں فساد برپا ہوجاتا)

(آیت) ” لواتبع الحق اھوائھم لفسدت والارض ومن فیھن “ (اگر حق ان کی خواہشات کے تابع ہوجائے تو زمین ‘ آسمانوں اور ان کے اندر جو کچھ ہے وہ فساد کا شکار ہوجائے)

(آیت) ” ثم جعلنک علی شریعۃ من الامر ولا تتبع اھواء الذین لا یعلمون “۔ (پھر ہم نے آپ کو شریعت پر قائم کیا ہے پس آپ اس کی اطاعت کریں اور ان لوگوں کی خواہشات کی اطاعت نہ کریں جو نہیں جانتے)

یہی وجہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو دین بھی آیا ہے وہ اس لئے آیا ہے کہ وہ زندگی کا نظام بنے ۔ یہ دین کسی گاؤں کے لئے ہو ‘ کسی قوم کے لئے ہو یا پوری کی پوری انسانیت کے لئے ہو ‘ بشرطیکہ وہ دین حق میں اور اس کے ساتھ شریعت ہو ۔ ہر دین میں ایک طرف تو ایک نظریہ حیات ہوتا ہے اور دوسری جانب اس میں زندگی کی تفصیلی ہدایات کے لئے ایک شریعت ہوتی ہے ۔ اس میں اللہ کی بندگی کے لئے کچھ مراسم عبودیت ہوتے ہیں۔ یہ تین پہلو ہر دین کے بنیادی عناصر ترکیبی ہوتے ہیں جہاں بھی کوئی دین اللہ کی طرف سے آیا ہے ‘ اس میں یہ تین پہلو ضرور ہوتے ہیں ۔ انسانی زندگی تب ہی استوار اور درست ہوسکتی ہے جب دین کو زندگی کا نظام بنا دیا جائے ۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے میری کتابیں الاسلام ومشکلات الحضارہ اور المستقبل لہذا الدین اور خصائص التصور الاسلامی ومقوماۃ)

قرآن کریم میں ایسے شواہد موجود ہیں کہ سابقہ ادیان میں سے بعض ایک محدود علاقے کے لئے تھے مثلا ایک گاؤں کے لئے یا ایک شہر کے لئے یا کسی ایک قبیلے کے لئے لیکن یہ ادیان بھی مکمل نظام زندگی پر مشتمل تھے اور وہ اس گاؤں اور قریہ کے اس وقت کے حالات کے لئے ایک پورا نظام حیات تھے ۔ یہاں قرآن کریم بڑے ادیان یہودیت ‘ نصرانیت اور اسلام کے بارے میں کہتا ہے ۔

(آیت) ” انا انزلنا التورۃ فیھا ھدی ونور (5 : 44) (ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی ۔

تورات جس شکل میں اسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا تھا ‘ ایک کتاب تھی ‘ جسے بنی اسرائیل کی راہنمائی کے لئے بھیجا گیا تھا ۔ یہ جادہ حق پر انکے لئے روشنی کامینار تھی اور ان کے لئے زندگی گزارنے کا ایک ماڈل تھی ۔ اس میں نظریہ حیات ‘ مراسم عبودیت اور ملک کے لئے سول لا تینوں شعبے تھے ۔

(آیت) ” یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّونَ الَّذِیْنَ أَسْلَمُواْ لِلَّذِیْنَ ہَادُواْ وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُواْ مِن کِتَابِ اللّہِ وَکَانُواْ عَلَیْْہِ شُہَدَاء

” سارے نبی ‘ جو مسلم تھے اسی کے مطابق ان یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے اور اسی طرح ربانی اور احبار بھی (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے)

اللہ تعالیٰ نے تورات کو صرف اس لئے نہیں نازل کیا تھا کہ اس میں صرف نظریہ حیات اور عقائد کے بارے میں راہنمائی ہو۔ اس کے اندر عقائد اور مراسم عبودیت کی تفصیل بھی تھی ‘ بلکہ وہ نور وہدایت تھی اس معنی میں کہ اس کے اندر ایک قانونی نظام کی تفصیلات تھیں اور ایک مکمل نظام تھا کیونکہ انسان کی پوری زندگی کو اس نظام کے حدود کے اندر رکھنا ضروری تھا ۔ تورات کے مطابق وہ تمام نبی فیصلے کرتے رہے جو اپنے آپ کو مسلم سمجھتے تھے اور انہوں نے سرتسلیم خم کرلیا تھا ۔ انہوں نے اپنی زندگی کا کوئی حصہ اپنے لئے محفوظ نہ کر رکھا تھا بلکہ پوری زندگی اللہ کے حوالے کردی تھی ۔ وہ کسی معاملے میں اپنی مرضی نہ کرتے تھے ‘ نہ اپنی حکمرانی کرتے تھے ‘ وہ اللہ کے حق حاکمیت میں اپنے آپ کو شریک کرتے تھے ۔ یہ ہے اسلام اپنے حقیقی مفہوم میں ۔ یہ پیغمبر یہودیوں اور اس تورات کے ذریعہ حکومت کرتے تھے اور تورات اس سلسلے میں ان کا دستور اور قانون شریعت تھی ۔ نبیوں کے علاوہ ربانی اور احبار بھی اسی کے مطابق فیصلے کرتے رہے ۔ یہ لوگ ان کے علماء اور قاضی تھے اور ان کا یہ فریضہ تھا کہ وہ تورات کی حکمرانی کو قائم رکھیں ۔ وہ اس بات کے گواہ رہیں کہ انہوں نے یہ حق ادا کردیا تھا ۔ یہ شہادت وہ اس طرح دیں کہ ان کی اپنی زندگی تورات کے نظام کے مطابق گزرے اور وہ یہ شہادت بھی دیں کہ ان کی قوم نے تورات کو قائم کیا تھا ۔ انہوں نے اس کے مطابق فیصلے کئے تھے ۔

تورات کے بارے میں بات ختم ہونے سے پہلے ہی روئے سخن جماعت مسلمہ کی طرف پھرجاتا ہے تاکہ انہیں اس بات کی طرف متوجہ کیا جاسکے کہ آیا وہ بھی اپنی کتاب کے مطابق فیصلے کرتے ہیں یا نہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بعض اوقات لوگوں کی ذاتی خواہشات ‘ ان کا عناد اور ان کی جدوجہد اس راہ میں رکاوٹ بنتی ہو ۔ ایسے مشکل حالات میں پھر کتاب اللہ کے محافظین کے فرائض کیا ہوتے ہیں اور لوگوں کی مخالفت اور کتاب اللہ سے روگردانی کی سزا کیا ہے ۔

(آیت) ” فَلاَ تَخْشَوُاْ النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآیَاتِیْ ثَمَناً قَلِیْلاً وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ (44)

” پس (اے گروہ یہود) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں)

اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات بہرحال تھی کہ اللہ کے احکام کے مطابق فیصلے کئے جانے کی راہ میں بہرحال ہر دور میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی اور بعض لوگ اس کی مخالفت کریں گے ۔ بعض انسان ایسے بھی ہوں گے جو خوشی اور تسلیم ورضا کے ساتھ اسے قبول نہ کریں گے نیز بعض بااثر اور بڑے لوگ اور بعض نافرمان اور موروثی طور پر حکومتوں پر قابض ہوجانے والے لوگ اس کی مخالفت کریں گے ۔ یہ مخالفت وہ اس لئے کریں گے کہ انہوں نے اللہ کے حق حاکمیت کی چادر خود اپنے اوپر اوڑھ رکھی ہوتی ہے ۔ اب اسلامی نظام میں انہیں یہ چادر اترتی نظر آتی ہے اور حاکمیت کا حق صرف اللہ کے لئے مخصوص ہوجاتا ہے یہ لوگوں کے لئے جو قوانین بناتے ہیں اور جن کا اذن اللہ نے نہیں دیا ہوتا اب وہ ایسا نہیں کرسکتے ۔ اسی طرح مفاد پرست اور مادہ پرست عناصر کے مفادات بھی اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں جو لوگوں کا استحصال کرتے ہیں اور عوام پر مظالم ڈھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا عادلانہ نظام ایسے مظالم کو جاری رکھنے کی کبھی اجازت نہ دے گا ۔ اسی طرح اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ میں وہ لوگ بھی آڑے آتے ہیں جو عیاش اور نفس پرست اور لذت کام و ہن کے دلدادہ ہوتے ہیں ‘ جو دنیا کے سازو سامان پر فخر کرتے ہیں اور ذاتی مفادات کے بندے ہوتے ہیں ۔ ان کو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت انہیں پاکیزہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کرے گی اور اگر وہ پاکیزہ زندگی بسر نہ کریں گی تو انہیں سزا کا سامنا کرنا ہوگا ۔ ان اطراف وجہات کے علاوہ اور بھی کئی قسم کے موانع اور رکاوٹیں سامنے آیا کرتی ہیں علی الخصوص ایسے لوگوں کی طرف سے جو از روئے فطرت بھلائی نہیں چاہتے اور نیکی اور انصاف کا دور دورہ دیکھ نہیں سکتے ۔

یہ بات اللہ کے علم میں تھی کہ اسلامی شریعت کے نفاذ کی راہ میں مختلف اطراف سے یہ رکاوٹیں سامنے آئیں گی ۔ اللہ کو یہ بھی معلوم تھا کہ اسلام کے محافظین اور مجاہدین وشہداء کو ان رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہوگا اور انکو ان کے بالمقابل بڑی مضبوطی سے کھڑا ہونا ہوگا اور جانی ومالی نقصانات انہیں برداشت کرنے ہوں گے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں پکارتے ہیں۔

(آیت) ” فلا تخشوا الناس واخشون “۔ (5 : 44) (تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو) اس طرح جب وہ اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں گے تو وہ کسی کے ڈر کی وجہ سے شریعت کے نفاذ میں سستی نہ کریں گے ۔ یہ ڈر کئی جہات سے ہو سکتا ہے ‘ ایک تو ان لوگوں کے کی طرف سے جو سرے سے اسلامی نظام قانون کے آگے جھکتے ہی نہیں اور وہ اسلامی شریعت کو تسلیم ہی نہیں کرتے ‘ وہ اللہ کو قانون ساز تسلیم ہی نہیں کرتے یا وہ لوگ شریعت کا نفاذ اس لئے نہیں چاہتے کہ اس کی وجہ سے ان کے استحصالی نظام پر زد پڑتی ہے جس کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں ‘ اور جس کے وہ عادی ہوچکے ہیں ۔ یا یہ لوگ عام گمراہ اور منحرف طبقات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کے اوپر شریعت کے احکام بہت ہی بھاری ہوتے ہیں اور وہ اس سے پریشان ہوتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ ان تمام طبقات سے نہ ڈرتے ہوئے یا دوسرے لوگوں سے ڈرتے ہوئے وہ اللہ کے احکام کے نفاذ سے نہیں رکتے اس لئے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ ہم اس سے ڈریں اور ڈرنا بھی اسی سے چاہئے ۔

اللہ تعالیٰ کو اس بات کا بھی علم تھا کہ کتاب کی حفاظت کرنے والے اور اسلام کی راہ میں شہادت دینے والے ایسے بھی ہوسکتے ہیں کہ دنیا کی اس مختصر زندگی کی خواہشات انہیں ورغلا دیں ‘ یہ محافظین اسلام دیکھتے ہیں کہ اہالیان حکومت ‘ مالدار طبقات اور شہوت پرست اور عیاش لوگ اسلام کے نفاذ کی راہ میں حائل ہیں۔ اس بات کا امکان تھا کہ اہل دین ان طبقات کے ساتھ ریاکاری کرتے ہوئے دنیا کے مفادات کی غرض سے ان کے الہ کار بن جائیں ‘ جیسا کہ ہر دور میں ہر دین کے علمائے سوء ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں اور خصوصا علمائے بنی اسرائیل یہ بری حرکت ہمیشہ کرتے آئے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو پکارا ۔

(آیت) ” ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا “۔ (5 : 44) (اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے پر بیچنا چھوڑ دو )

اس کی متعدد صورتیں ہوتی ہیں مثلا سچائی کے مقام پر خاموش ہوجانا ‘ یا احکام میں تحریف کرنا یا ایسے فتوے جاری کرنا جس میں حق باطل دونوں ملے جلے ہوں ۔

رہی یہ بات کہ ثمن قلیل سے مراد کیا ہے ؟ تو ہر قیمت ‘ قیمت قلیلہ ہے اگرچہ دین میں تحریف کرکے پوری دنیا کسی کی ملکیت میں آجائے ۔ لیکن ان علمائے سوء کی حاصل کردہ قیمت صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ کچھ مفادات ‘ کچھ وظائف ‘ کچھ القاب اور دوسرے چھوٹے چھوٹے مفادات حاصل کرتے ہیں اور ان کے عوض دین بیچتے ہیں ‘ لیکن اس فعل پر انہیں یقینا جہنم رسید ہونا ہوگا ۔

اگر باڑ فصل کو کھانے لگے اور اگر چوکیدار ہی ڈاکو بن جائے اور اگر گواہ جھوٹ بکنے لگے تو اس سے برا اور کیا ہوگا ۔ جن لوگوں کے لئے ” دینداروں “ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ‘ جن لوگوں کو علماء کہا جاتا ہے ‘ اگر وہ خیانت کرنے لگیں ‘ اگر وہ زیادتی کرنے لگیں ‘ دین کے احکام چھپائیں ‘ اللہ کی شریعت کے نفاذ کے بارے میں سکوت اختیار کرلیں ‘ آیات کا مفہوم بدل دیں اور بااثر لوگوں کے لئے احکام شریعت میں تبدیلی کردیں تو پھر ایسے لوگوں کے لئے اللہ کا نہایت ہی موزوں فیصلہ ہے ۔

(آیت) ” ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون “۔ (5 : 44) (اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے تو وہی لوگ کافر ہیں) دو ٹوک بات ہے لفظ من استعمال کرکے اس کے مفہوم کے اندر عمومیت (GenerAlizAtion) پیدا کردی گئی ہے ۔ من موصولہ اور شرطیہ ہے اور آگے فا کے بعد جملہ جواب شرط ہے یوں یہ حکم مخصوص حالات اور زمان ومکان کی قید سے نکل آتا ہے اور ایک عام حکم بن جاتا ہے ‘ جو بھی اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے ‘ خواہ وہ کسی نسل اور قبیلے سے ہو ‘ کافر سمجھا جائے گا ۔

اس حکم کی علت وہی ہے جو ہم نے بیان کردیں ہے کہ جو شخص اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ اللہ کے حق حاکمیت کا انکار کرتا ہے ۔ حاکمیت اللہ کی خصوصیات میں سے اہم خصوصیت ہے اور حاکمیت کا براہ راست تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی شریعت ماخذ قانون ہو۔ اور جو اس کے مطابق فیصلے نہ کرے اور اللہ کے حق حاکمیت کا انکار کرے اور اللہ کی اس خصوصیت کا حق اپنے لئے حاصل کرے تو پھر وہ کافر ہوجائے گا ۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسلام اور ایمان کے معنی کیا رہ جاتے ہیں زبان سے تو ایمان واسلام کا دعوی ہو اور عمل جو اظہار مافی الضمیر کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے ‘ اس سے انسان کفر کا اظہار کرے تو زبانی اظہار اسلام یقینا بےمعنی ہوجاتا ہے ۔

اس دو ٹوک ‘ قطعی اور عام حکم کے بارے میں لیت ولعل سے کام لینا محض حقیقت کا سامنا کرنے سے فرار ہے ۔ اس قسم کے قطعی اور دو ٹوک حکم میں تاویلات کرنے کا مقصد صرف یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے واضح احکام کا مفہوم بدل کر رکھ دیاجائے ۔ لہذا کوئی شخص جس پر یہ قطعی حکم منطبق ہوتا ہے وہ اس صریح اور موکد حکم کے نتائج سے کسی طرح بھی فرار اختیار نہیں کرسکتا ۔

دین اسلام کے اس اصولی اور اساسی قاعدے کے بیان کے بعد اب روئے سخن تورات کی طرف پھرجاتا ہے ۔ تورات میں بھی اللہ تعالیٰ نے احکام شریعت نافذ کئے تھے اور نبیوں ‘ اہل دین اور علماء کو یہ حکم تھا کہ قانون تورات کے مطابق فیصلے کریں اس لئے کہ ان کو شریعت تورات پر محافظ بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ بھی تھے ۔

(آیت) ” وَکَتَبْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ (5 : 45)

” تورات میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان ‘ آنکھ کے بدلے آنکھ ‘ ناک کے بدلے ناک ‘ کان کے بدلے کان ‘ دانت کے بدلے دانت ‘ اور تمام زخموں کیلئے برابر کا بدلہ ‘ ۔ “

یہ احکام جو تورات میں نازل ہوئے تھے ‘ اسلامی شریعت میں بحال رکھے تھے اور اسلامی شریعت کا جزء بن گئے تھے یوں وہ قیامت تک شرعی احکام قرار پائے کیونکہ مسلمانوں کی شریعت قیامت تک کے لئے ہے ۔ اگرچہ ان احکام کا نفاذ صرف دارالاسلام میں ہو سکے گا ۔ اس لئے کہ عملا صرف ایسا ہی ممکن ہے اور جو حکومت ان احکام کو نافذ کرتی ہے ‘ اسکا اقتدار دارالاسلام کے حدود کے اندر ہوتا ہے ۔ لیکن مسلمانوں کی استطاعت میں جب بھی یہ بات آئے تو ان پر فرض ہے کہ وہ اسلامی شریعت کو دارالاسلام سے باہر بھی نافذ کریں اس لئے اسلامی شریعت تمام انسانوں کے لئے ہے اور وہ حدود وقیود کی پابند نہیں ہے کیونکہ اللہ کا ارادہ یہی ہے ۔

مذکورہ بالا احکام تورات کو اسلامی شریعت کا جزء بناتے وقت ان احکام کے ساتھ ‘ ایک قانونی دفعہ کا اضافہ کردیا گیا ۔ (آیت) ” فمن تصدق بہ فھو کفارۃ لہ “۔ (5 : 45) (پس جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے)

تورات میں یہ دفعہ نہ تھی ۔ احکام تورات کے مطابق یہ جرائم قابل راضی نامہ (CompoundAblc) نہ تھے ان میں مستغیث نہ معافی دے سکتا تھا اور نہ صلح ممکن تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کفارہ نہ تھا ۔

یہاں مناسب ہے کہ فی ظلال القرآن کی مناسبت سے جرائم قصاص کے بارے میں ایک مختصر بات کردی جائے ۔

اسلامی شریعت قصاص کے بارے میں پہلا اصول مساوات کا متعین کرتی ہے ۔ خون سب کا یکساں ہوتا ہے اور سزا بھی سب کے لئے یکساں ہے ۔ اسلام کے بغیر کسی دوسری شریعت میں جان کے بدلے جان کی مساوات نہیں ہے ۔ چناچہ اسلام میں جان کے بدلے جان اور عضو کے بدلے وہی عضو ہے ۔ اس بارے میں علاقے ‘ طبقے ‘ نسب ‘ خون اور قوم کا کوئی امتیاز یا لحاظ نہیں ہے ۔

جان کے بدلے جان ‘ آنکھ کے بدلے آنکھ ‘ ناک کے بدلے ناک ‘ کان کے بدلے کان ‘ دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں پورا پورا بدلہ ہے ۔ اس بارے میں کوئی امتیاز کوئی نسلی ‘ طبقاتی اور قومی فرق نہیں ہے ۔ حاکم و محکوم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ سب کے سب اسلامی شریعت کی نظر میں برابر ہیں ۔ اور یہ اس لئے کہ سب کے سب ایک جوڑے آدم وحوا سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ابو کم آدم والام حواء ۔

اسلامی شریعت نے اس دنیا کو جس زریں اصول سے متعارف کرایا وہ اصول مساوات ہے اور مساوات دے کر اسلام نے انسان کو گویا ایک نیا جنم دیا ۔ اس سے پہلے انسان کو حقیقی مساوات نصیب نہ ہوئی تھی ۔ اس مساوات کا پہلا اصول یہ تھا کہ تمام لوگ قانون کی نظروں میں برابر ہوں گے ۔ وہ ایک ہی پلیٹ فارم سے انصاف حاصل کریں گے ۔

دوسرے یہ کہ سب سے ایک ہی پیمانے کے مطابق قصاص لیا جائے گا ۔ اور سب کی ایک ہی ہوگی ۔

انسان کے بنائے ہوئے نظام اور قونین کو اس درجہ مساوات تک پہنچنے کے لئے صدیاں سفر کرنا پڑا اور اسلامی شریعت ہی سے متاثر ہو کر دنیا کے قانونی نظاموں نے صرف بعض پہلوؤں کے اعتبار سے اسلامی مساوات کو حاصل کیا۔ اگرچہ عملا وہ ایسی مساوات قائم نہیں کرسکے جو اسلام نے قائم کی ۔

یہود جن پر نازل شدہ تورات میں انسانی مساوات کے زریں اصول درج تھے انہوں نے ان قوانین سے رو گردانی کی ۔ اور یہ روگردانی انہوں نے اپنے اور دوسرے لوگوں ہی کے درمیان نہ کی جس طرح قرآن ان کا یہ قول نقل کرتا ہے ۔

(آیت) ” لیس علینا فی الامیین سبیل “۔ (ہم پر امی لوگوں کے بارے میں کوئی مواخذہ نہ ہوگا) بلکہ وہ خود اپنے اندر بھی مساوات قائم نہ کرسکے ۔ خصوصا وہ قانونی مساوات پر عمل پیرا نہ تھے جیسا کہ وہ بنو نضیر کو برتر اور بنی قریظہ کو ذلیل قبیلہ سمجھتے تھے اور دونوں کے لئے سزائیں علیحدہ علیحدہ تھیں اور جب حضور اکرم ﷺ مبعوث ہوئے تو آپ نے ان کے درمیان قانونی مساوات قائم فرمائی ۔ آپ نے ان میں سے ذلیل لوگوں کی جان کو معزز لوگوں کی جان کے برابر قرار دیا ۔

اس عظیم اصول پر قانون قصاص نافذ کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ سخت غیرت آموز سزا ہے اور اس کے ہوتے ہوئے ہر شخص اقدام قتل ‘ اقدام ضرر شدید اور اعضاء کے توڑنے کے بارے میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے بار بار سوچتا ہے کہ وہ یہ اقدام کرے یا نہ کرے ۔ اس لئے کہ اسے علم ہوتا ہے کہ اگر اس نے قتل کیا تو اسے سولی پر چڑھنا ہوگا ‘ اور اس کا نسب ‘ اس کی سماجی حیثیت اور اس کا رنگ ونسل اسے کوئی فائدہ نہ دے سکے گا ۔ اسے ویسی ہی سزا ملے گی جیسا وہ جرم کرے گا ۔ اگر وہ کسی کا ہاتھ ‘ پاؤں یا دوسرے اعضاء ضائع کرے گا تو اس کے بھی وہی اعضا ضائع ہوں گے ۔ اگر وہ آنکھ ‘ کان اور ناک ضائع کرے گا تو اس کے یہی اعضاء ضائع ہوں گے ۔ اور اگر کوئی یہ سمجھے کہ اسے صرف قید ہونا ہے تو وہ کبھی بھی ایسے جرائم سے باز نہ آئے گا چاہے سزائے قید لمبی ہو۔ اس لئے کہ جسمانی سزا ‘ جسمانی نقص اور شکل کا بگڑنا بمقابلہ مصائب سزائے قید زیادہ اذیت ناک ہے جیسا کہ ہم حد سرقہ کے بیان میں قطع ید کے ضمن میں تفصیلات بیان کر آئے ہیں۔

پھر مزید یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ سزائے قصاص ایک ایسی سزا ہے کہ انسان کی فطرت اس کے اجراء کے بعد مطمئن ہوجاتی ہے اور نفس انسانی سے بغض اور کینہ دور ہوجاتا ہے ۔ دل کے زخم مندمل ہوجاتے ہیں اور انتقام کی آگ بجھ جاتی ہے ‘ جسے عرصہ اور جاہلی انتقام بھڑکاتا رہتا ہے ۔ اس لئے کہ اگرچہ بعض لوگ قتل میں دیت اور زخموں کا تاوان وصول کرلیتے ہیں لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اجرائے سزائے قصاص پر اصرار کرتے ہیں ۔

اسلام نے قانون سازی کرتے وقت فطرت انسانی کے جذبات کو ملحوظ رکھا ہے جیسا کہ تورات کی شریعت نے اس کی سختی سے پابندی کی اور مکمل قصاص کے نفاذ سے فطرت انسانی کو مطمئن کیا ۔ لیکن اسلامی شریعت میں قصاص لینے والے کے لئے یہ اصول بھی رکھا کہ وہ معاف کرسکے بشرطیکہ قصاص لینے پر اسے اختیار ہوجائے ۔ (آیت) ” فمن تصدق بہ فھو کفارۃ لہ (5 : 45) (اور جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے)

یعنی جو خوش دلی کے ساتھ قصاص معاف کر دے تو اس کے عوض اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے کے گناہ معاف کر دے گا ۔ بعض اوقات لوگ عفو و درگزر کی طرف مائل ہو سکتے ہیں ‘ انہیں انہیں کی جانب سے عفو و درگزر کی امید ہو سکتی ہے ۔ خصوصا ان لوگوں کی طرف سے جن لوگوں کو مالی معاوضے کی ضرورت نہیں ہوتی ‘ اور قصاص کے نفاذ سے بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی کیونکہ ان کا جو عزیز ان سے جدا ہوگیا یا انہیں ذاتی طور پر جو نقصان ہوا اور ناقابل تلافی تھا اس لئے کہ مقتول کے وارث کو کیا ملے گا اگر قاتل کو قتل بھی کردیا جائے ۔ یا اگر اس کا بھائی وغیرہ جدا ہوگیا تو مالی مفادات سے اسے کیا حاصل ہوگا ؟ اس سے تو صرف اس دنیا میں انصاف اور امن وامان حاصل ہو سکتے ہیں لیکن ورثاء یا مجرم کے دل میں احساس ہمیشہ کے لئے زندہ رہتا ہے اگر لوگوں کو اللہ کی جانب سے مغفرت کی امید ہو تو ان کے دل صاف ہو سکتے ہیں اور دلوں سے کینہ کی میل دور ہو سکتی ہے ۔

امام احمد نے وکیع ‘ یونس ‘ ابو السفر کے واسطے سے روایت کی ہے ۔ ابو السفر کہتے ہیں کہ ایک قریشی نے ایک انصاری کا دانت توڑ دیا ۔۔۔ اس نے حضرت معاویہ ؓ سے تعاون چاہا ۔ معاویہ نے کہا ہم اسے راضی کردیں گے ‘ لیکن انصاری نے اصرار کیا کہ قانون قصاص نافذ کیا جائے ‘ تو امیر معاویہ ؓ نے کہا کہ تم جانو اور یہ انصاری جانیں ‘ اس مجلس میں ابو الدرداء بیٹھے ہوئے تھے ۔ انہوں نے فرمایا میں نے حضور ﷺ سے سنا کوئی مسلمان اگر دوسرے مسلمان کے ہاتھوں کوئی زخم اٹھائے اور پھر اسے معاف کردے تو اللہ تعالیٰ اس کا مرتبہ بلند کردیں گے یا اس کی کوتاہیوں میں سے کوئی کوتاہی معاف کردیں گے ۔ اس پر انصاری نے کہا میں معاف کرتا ہوں “۔

یوں اس شخص کا دل راضی ہوگیا اور مطمئن ہوگیا حالانکہ وہ حضرت معاویہ ؓ کی جانب سے کسی بھی مالی تاوان پر راضی نہ ہوا تھا جس کی طرف حضرت معاویہ ؓ نے اشارہ فرمایا تھا ۔

یہ تو ہے علیم و خیبر کی شریعت جو اس نے اپنی مخلوق کے لئے وضع فرمائی ہے جس میں لوگوں کے میلانات اور احساسات کا لحاظ رکھا گیا ہے ‘ جس میں لوگوں کی دلی رضا مندی کا بہت بڑا دخل ہے اور جس کی وجہ سے لوگوں کے اندر اطمینان ‘ سلامتی اور دلی رضا پیدا ہوتی ہے ۔

یہ بتانے کے بعد کہ یہ تورات کی شریعت تھی اور اب یہ اسلامی شریعت کا جزء ہے ایک عام حکم دے دیا جاتا ہے ۔

(آیت) ” ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون “۔ (5 : 45) (جن لوگوں نے اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کیا وہ لوگ ظالم ہیں) یہ ایک عام تعبیر ہے ۔ یہاں کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم اسے مخصوص کہہ سکیں لیکن ایسے لوگوں کی جدید صفت الظالمون لائی گئی ہے ۔

الظالمون سے تعبیر کرنے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ شاید اس تعبیر اور پہلی تعبیر الکافرون کے درمیان کوئی فرق ہے ۔ بلکہ جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہونے کے ساتھ ظالم بھی ہیں ۔ وہ کافر اس لئے ہیں کہ وہ اللہ کی حاکمیت کے منکر ہیں ‘ اس لئے کہ حاکمیت خاصہ خدا ہے اور قانون سازی صرف اللہ کرسکتا ہے اور اگر کوئی خود اپنا قانون بناتا ہے تو وہ خود حاکمیت کا مدعی ہے اور اپنے لئے حق قانون سازی حاصل کرتا ہے ۔ وہ ظالم اس لئے ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی شریعت کے بجائے اپنی شریعت پر چلاتا ہے ۔ حالانکہ اللہ کی شریعت ان کے لئے مناسب ہے اور ان کے حالات کی اصلاح اس سے ہوسکتی ہے ۔ اور ظلم وہ اس لئے بھی کر رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے اور اپنے آپ کو کفر کی سزا کا مستحق بناتا ہے اور اپنی ذات اور تمام لوگوں کی زندگیوں کو فساد میں مبتلا کرتا ہے ۔

یہ مفہوم عربیت کے قواعد کا تقاضا ہے کیونکہ عربیت کی رو سے مسند الیہ اور فعل شرط ایک ہے یعنی (آیت) ” ومن لم یحکم بما انزل اللہ “۔ (45) اب اس شرط کا ایک پہلا جواب ہے اور ایک دوسرا جواب ہے ۔ یہاں دوسرا جواب شرط پہلے جواب شرط پر مستزاد ہوگا اور دونوں کا مسند الیہ شرط میں ” من “ ہوگا جو مطلق ہے اور عام ہے ۔

اب یہ بتایا جاتا ہے کہ تورات کے بعد بھی یہ حکم جاری ہی رہا ۔

سورة المائدۃ کا یہ ساتواں رکوع حسن اتفاق سے سات ہی آیات پر مشتمل ہے۔ اس میں بہت سخت تہدید ‘ تنبیہہ اور دھمکی ہے ان لوگوں کے لیے جو کسی آسمانی شریعت پر ایمان کے دعوے دار ہوں اور پھر اس کے بجائے کسی اور قانوں کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہوں۔ قرآن حکیم کی طویل سورتوں میں کہیں کہیں تین تین آیتوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ ملتے ہیں جو معانی و مفہوم کے لحاظ سے بہت جامع ہوتے ہیں ‘ جیسا کہ سورة آل عمران کی آیات 102 ‘ 103 اور 104 ہیں۔ ابھی سورة المائدۃ میں بھی تین آیات پر مشتمل نہایت جامع احکامات کا حامل ایک مقام آئے گا۔ اسی طرح کہیں کہیں سات سات آیات کا مجموعہ بھی ملتا ہے۔ جیسے سورة البقرۃ کے پانچویں رکوع کی سات آیات 40 تا 46 بنی اسرائیل سے خطاب کے ضمن میں نہایت جامع ہیں۔ یہ دعوت کے ابتدائی انداز پر مشتمل ہیں اور دعوت کے باب میں بمنزلہ فاتحہ ہیں۔ اسی طرح قانون شریعت کی تنفیذ ‘ اس کی اہمیت اور اس سے پہلو تہی پر وعید کے ضمن میں زیر مطالعہ رکوع کی سات آیات نہایت تاکیدی اور جامع ہیں ‘ بلکہ یہ مقام اس موضوع پر قرآن حکیم کا ذروۂ سنام climax ہے۔آیت 44 اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰٹۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ ج یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا ظاہر ہے کہ تمام انبیا کرام علیہ السلام خود بھی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے۔لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا یعنی انبیا کرام علیہ السلام یہودیوں کے تمام فیصلے تورات شریعت موسوی کے مطابق کرتے تھے ‘ جیسا کہ حدیث میں ہے کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ 1 یعنی بنی اسرائیل کی سیاست اور حکومت کے معاملات ‘ انتظام و انصرام ‘ انبیاء کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ اس لیے وہی ان کے مابین نزاعات کے فیصلے کرتے تھے۔وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ ان کے ہاں اللہ والے صوفیاء اور علماء و فقہاء بھی تورات ہی کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ ُ انہیں ذمہ داری دی گئی تھی کہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کرنی ہے۔وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُہَدَآءَ ج فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط یعنی اللہ کا طے کردہ قانون موجود ہے ‘ اس کے مطابق فیصلے کرو۔ لوگوں کو پسند ہو یا ناپسند ‘ اس سے تمہارا بالکل کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ اب آرہی ہے وہ کانٹے والی بات :وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ ۔ بقول علامہ اقبالؔ ؂ ُ بتوں سے تجھ کو امیدیں ‘ خدا سے ناامیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ؟

آیت 44 - سورۃ المائدہ: (إنا أنزلنا التوراة فيها هدى ونور ۚ يحكم بها النبيون الذين أسلموا للذين هادوا والربانيون والأحبار بما استحفظوا من كتاب...) - اردو