اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 42 سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ للسُّحْتِ ط فَاِنْ جَآءُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ ج آپ ﷺ کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ آپ چاہیں تو ان کا مقدمہ سنیں اور فیصلہ کردیں اور چاہیں تو مقدمہ لینے ہی سے انکار کردیں ‘ کیونکہ ان کی نیت درست نہیں ہوتی اور وہ آپ ﷺ ‘ کا فیصلہ لینے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ لہٰذا ایسے لوگوں پر اپنا وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ اندیشہ بھی تھا کہ وہ پراپیگنڈا کریں گے کہ دیکھو جی ہم تو گئے تھے محمد ﷺ کے پاس مقدمہ لے کر ‘ یہ کیسے نبی ہیں کہ مقدمے کا فیصلہ کرنے کو ہی تیار نہیں ! اس ضمن میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور ﷺ کو اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ اس کی پرواہ نہ کریں۔وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْکَ شَیْءًا ط۔یعنی ان کے مخالفانہ پراپیگنڈے سے قطعاً فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
آیت 43 وَکَیْفَ یُحَکِّمُوْنَکَ وَعِنْدَہُمُ التَّوْرٰٹۃُ فِیْہَا حُکْمُ اللّٰہِ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہود کی بدنیتی کو بالکل بےنقاب کردیا ہے کہ اگر ان کی نیت درست ہو تو تورات سے راہنمائی حاصل کرلیں۔ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ ط وَمَآ اُولٰٓءِکَ بالْمُؤْمِنِیْنَ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان سے تہی دست ہیں ‘ ان کے دل ایمان سے خالی ہیں۔ یہ ہے ان کا اصل ‘ روگ۔
سورة المائدۃ کا یہ ساتواں رکوع حسن اتفاق سے سات ہی آیات پر مشتمل ہے۔ اس میں بہت سخت تہدید ‘ تنبیہہ اور دھمکی ہے ان لوگوں کے لیے جو کسی آسمانی شریعت پر ایمان کے دعوے دار ہوں اور پھر اس کے بجائے کسی اور قانوں کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہوں۔ قرآن حکیم کی طویل سورتوں میں کہیں کہیں تین تین آیتوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ ملتے ہیں جو معانی و مفہوم کے لحاظ سے بہت جامع ہوتے ہیں ‘ جیسا کہ سورة آل عمران کی آیات 102 ‘ 103 اور 104 ہیں۔ ابھی سورة المائدۃ میں بھی تین آیات پر مشتمل نہایت جامع احکامات کا حامل ایک مقام آئے گا۔ اسی طرح کہیں کہیں سات سات آیات کا مجموعہ بھی ملتا ہے۔ جیسے سورة البقرۃ کے پانچویں رکوع کی سات آیات 40 تا 46 بنی اسرائیل سے خطاب کے ضمن میں نہایت جامع ہیں۔ یہ دعوت کے ابتدائی انداز پر مشتمل ہیں اور دعوت کے باب میں بمنزلہ فاتحہ ہیں۔ اسی طرح قانون شریعت کی تنفیذ ‘ اس کی اہمیت اور اس سے پہلو تہی پر وعید کے ضمن میں زیر مطالعہ رکوع کی سات آیات نہایت تاکیدی اور جامع ہیں ‘ بلکہ یہ مقام اس موضوع پر قرآن حکیم کا ذروۂ سنام climax ہے۔آیت 44 اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰٹۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ ج یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا ظاہر ہے کہ تمام انبیا کرام علیہ السلام خود بھی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے۔لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا یعنی انبیا کرام علیہ السلام یہودیوں کے تمام فیصلے تورات شریعت موسوی کے مطابق کرتے تھے ‘ جیسا کہ حدیث میں ہے کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ 1 یعنی بنی اسرائیل کی سیاست اور حکومت کے معاملات ‘ انتظام و انصرام ‘ انبیاء کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ اس لیے وہی ان کے مابین نزاعات کے فیصلے کرتے تھے۔وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ ان کے ہاں اللہ والے صوفیاء اور علماء و فقہاء بھی تورات ہی کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ ُ انہیں ذمہ داری دی گئی تھی کہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کرنی ہے۔وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُہَدَآءَ ج فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط یعنی اللہ کا طے کردہ قانون موجود ہے ‘ اس کے مطابق فیصلے کرو۔ لوگوں کو پسند ہو یا ناپسند ‘ اس سے تمہارا بالکل کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ اب آرہی ہے وہ کانٹے والی بات :وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ ۔ بقول علامہ اقبالؔ ُ بتوں سے تجھ کو امیدیں ‘ خدا سے ناامیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ؟
آیت 45 وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَآ اَنَّ النَّفْسَ بالنَّفْسِض وَالْعَیْنَ بالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بالسِّنِّلا وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ط فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ ط کسی نے ایک شخص کا کان کاٹ دیا ‘ اب وہ جواباً اس کا کان کاٹنے کا حق دار ہے ‘ لیکن اگر وہ قصاص نہیں لیتا اور معاف کردیتا ہے تو اسے اپنے بہت سے گناہوں کا کفارہ بنا لے گا۔ اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجرم کو جب معاف کردیا گیا تو اس کے ذمے سے وہ گناہ دھل گیا۔ّ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ اور ظالم یہاں بمعنی مشرک ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے : اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ لقمان : 13 اب دیکھئے ‘ ایک قانون اللہ کا ہے اور ایک انسانوں کا۔ پھر انسانوں کے بھی مختلف قوانین ہیں ‘ ایک Roman Law ہے ‘ ایک پاکستانی قانون ہے ‘ ایک رواج پر مبنی قانون ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ فیصلہ کس قانون کے مطابق کر رہے ہیں ؟ اللہ کے قانون کے تحت یا کسی اور قانون کے مطابق ؟ اگر آپ نے اللہ کے قانون کے ساتھ ساتھ کسی اور قانون کو بھی مان لیا یا اللہ کے قانون کے مقابلے میں کسی اور قانون کو ترجیح دی تو یہ شرک ہے۔