آیت 26 قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ج ‘۔یہ ہماری طرف سے ان کی بزدلی کی سزا ہے۔ اگر یہ بزدلی نہ دکھاتے تو ارض فلسطین ابھی ان کو عطا کردی جاتی ‘ مگر اب یہ چالیس سال تک ان پر حرام رہے گی۔یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط ۔ اس صحرائے سینا میں یہ چالیس سال تک مارے مارے پھرتے رہیں گے۔ فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۔ ۔اب آپ ان نافرمانوں کا غم نہ کھایئے۔ اب جو کچھ ان پر بیتے گی اس پر آپ علیہ السلام کو ترس نہیں کھانا چاہیے۔ آپ بہرحال ان کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ‘ جب تک زندگی ہے آپ کو ان کے ساتھ رہنا ہے۔اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق بنی اسرائیل چالیس برس تک صحرائے سینا میں بھٹکتے پھرے۔ اس دوران میں وہ سب لوگ مر کھپ گئے جو جوانی کی عمر میں مصر سے نکلے تھے اور صحرا میں ایک نئی نسل پروان چڑھی جو خوئے غلامی سے مبراّ تھی۔ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہ السلام دونوں کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد حضرت یوشع بن نون کے عہد خلافت میں بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین فتح کرسکیں۔اب ذرا اس پس منظر میں سورة النساء میں نازل ہونے والے حکم کو بھی یاد کریں۔ یہاں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول نقل ہوا ہے : لَآ اَمْلِکُ الاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ لیکن وہاں حضور ﷺ سے فرمایا گیا تھا : فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِج لاَ تُکَلَّفُ الاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُوْمِنِیْنَ النساء : 84۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اللہ کی راہ میں قتال کیجیے ‘ آپ ﷺ اپنے سوا کسی کے ذمہ دار نہیں ہیں ‘ البتہ اہل ایمان کو بھی ترغیب دیں۔ آپ ﷺ پر کسی اور کی ذمہ داری نہیں ہے سوائے اپنی جان کے ‘ البتہ آپ ﷺ اہل ایمان کو جس قدر ترغیب و تشویق دلا سکتے ہیں دلائیں ‘ ان ‘ کے جذبات ایمانی کو جس جس انداز سے اپیل کرنا ممکن ہے کریں ‘ اور بس اس سے زیادہ آپ ﷺ پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ اب پانچویں رکوع میں قتل ناحق ‘ ملک میں فساد پھیلانے اور چوری ڈاکے جیسے جرائم کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر اور پھر ان کی سزاؤں کا ذکر ہوگا۔