سورۃ المائدہ: آیت 17 - لقد كفر الذين قالوا إن... - اردو

آیت 17 کی تفسیر, سورۃ المائدہ

لَّقَدْ كَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ ٱللَّهِ شَيْـًٔا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ ٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُۥ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ

اردو ترجمہ

یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا مسیح ابن مریم ہی خدا ہے اے محمدؐ! ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اُس کو اِس ارادے سے باز رکھ سکے؟ اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور اُن سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمانوں کے درمیان پائی جاتی ہیں، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad kafara allatheena qaloo inna Allaha huwa almaseehu ibnu maryama qul faman yamliku mina Allahi shayan in arada an yuhlika almaseeha ibna maryama waommahu waman fee alardi jameeAAan walillahi mulku alssamawati waalardi wama baynahuma yakhluqu ma yashao waAllahu AAala kulli shayin qadeerun

آیت 17 کی تفسیر

(آیت) ” لقد کفرا لذین قالوا ان اللہ ھو المسیح ابن مریم ، (قل فمن یملک من اللہ شیئا ان اراد ان یھلک المسیح ابن مریم وامہ ومن فی الارض جمیعا وللہ ملک السموت والارض وما بینھما یخلق ما یشآء واللہ علی کل شیء قدیر (17)

” یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم خدا ہے ۔ اے نبی ! ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کردینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اس کو اس ارادے سے باز رکھ سکے ؟ اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور ان سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان پائی جاتی ہے ۔ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے ۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی طرف سے جو عقیدہ لے کر آئے تھے وہ وہی عقیدہ توحید تھا جسے ہر رسول لے کر آیا ۔ صرف اللہ وحدہ کی بندگی کرنا وہ اقرار ہے جو ہر رسول نے کیا ہے لیکن اس صاف اور ممتاز عقیدے کے اندر تحریفات کرلی گئیں ۔ یہ تحرفات اس وقت ہوئیں جب عیسائیت کے اندر بت پرستی داخل ہوئی اور عیسائیوں نے بت پرستی کے غلط مواد کو لا کر عقیدہ توحید کا جزء بنا دیا اور اس کو اس کے اندر اس قدر گڈ مڈ کردیا کہ عیسائیوں کے عقیدہ توحید کا اصلی جوہر نکالنا ممکن ہی نہ رہا ۔

عیسائیت کے اندر یہ انحرافات اچانک ایک ہی دفعہ نہیں آگئے ۔ یہ شرکیہ عقائد آہستہ آہستہ عیسائیت کے اندر داخل ہوتے رہے ۔ ایک ایک کرکے عیسائیوں کی مذہبی مجالس نے انکو دین میں داخل کیا جو یکے بعد دیگرے منعقد ہوتی رہیں ۔ عیسائیوں کے عقائد عجیب و غریب شکل اختیار کر گئے جن میں دیو مالائی کہانیاں داخل ہوگئیں ‘ جن کو سن کر انسان حیرت زدہ ہوجاتا ہے ۔ یہاں تک کہ خود عیسائیوں میں سے اہل ایمان لوگوں کے لئے اس عقیدے کی تشریح مشکل ہوگئی ۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اٹھالئے جانے کے بعد کچھ عرصے تک آپ کے شاگردوں اور متبعین کے اندر عقیدہ توحید رائم رہا ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حالات کے بارے میں جو اناجیل لکھی گئیں ان میں سے ایک اہم انجیل ‘ انجیل برناباس ہے ۔ یہ انجیل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں یہ کہتی ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے رسول تھے ۔ اس کے بعد ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ۔ بعض نے یہ کہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تمام رسولوں کی طرح ایک رسول تھے ، بعض نے کہا کہ ٹھیک ہے وہ رسول ہیں لیکن ان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے ۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بیٹھے ہیں اس لئے کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں ۔ لیکن اس قول کے مطابق وہ اللہ کی مخلوق ہیں ۔ بعض کا قول یہ تھا کہ وہ اللہ کے بیٹے تھے مگر مخلوق نہ تھے ‘ بلکہ وہ باپ کی طرح قدیم تھے ۔

ان اختلافات کو ختم کرنے کے لئے 325 ء میں بمقام نیقیا ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 48 ہزار مذہبی لیڈر اور علماء شامل ہوئے ۔ انکے بارے میں ایک مذہبی لیڈر جو تاریخ عیسائیت کے مشہور ماہر ہیں ، کہتے ہیں :

یہ لوگ آراء و مذاہب میں مختلف تھے بعض یہ کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انکی ماں اللہ کے علاوہ دو خدا ہیں۔ ان کو بربری کہا جاتا تھا اور عام طور پر ریمنین کے نام سے مشہور تھے ۔ بعض یہ کہتے تھے کہ مسیح باپ سے اس طرح پیدا ہوئے جس طرح آگ کے ایک شعلے سے دوسرا شعلہ پیدا ہوتا ہے ۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اصل شعلہ دوسرے جدا ہونے والے شعلے کی وجہ سے کم ہوگیا ہے ۔ یہ قول سابلیوس اور اس کے متبعین نے اختیار کیا ہے ۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ مریم حاملہ نہیں ہوئی یعنی دس ماہ تک ۔ حضرت عیسیٰ آپ کے پیٹ سے اس طرح ہوکر نکل آئے جس طرح پانی پرنالے سے نکل آتا ہے ۔ اس لئے کہ کلمہ آپ کے کان میں داخل ہوا اور وہاں سے نکلا جہا سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور یہ عمل فورا ہوا ۔ یہ قول الیان اور اس کے ساتھیوں کا ہے ۔ ان میں سے بعض کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ انسان تھے اور وہ انسانی جوہری سے پیدا ہوئے تھے ۔ ان کے ساتھ اللہ کی رحمت شامل ہوگئی اور اپنی مرضی سے اس میں حلول کرگئی اور اسی وجہ سے ابن اللہ کا لقب انہیں نے پایا ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ جوہر قدیم ہے اور ایک ہے ۔ وہ ایک اقنوم ہے جس کے تین نام ہیں ۔ یہ لوگ کلمہ ‘ روح القدس پر ایمان نہیں لاتے ۔ یہ پولس شمشاطی کا قول ہے ۔ یہ الطاکیہ کا پیٹر تھا ۔ اور ان لوگوں کو بولیقانیوں کہا جاتا ہے ۔ ان میں سے بعض یہ کہتے تھے کہ یہ تین خدا تھے اور اب بھی ہیں ۔ ایک صالح ‘ ایک طالح اور ایک عادل ۔ یہ قول لعین مرقیون اور اس کے ساتھیوں کا ہے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ مرقیون حواریوں کا صدر تھا ۔ یہ لوگ پطرس کو نہیں مانتے ۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو حضرت مسیح کو خدا سمجھتے تھے اور یہ پطرس کا عقیدہ تھا جسے پیغام بر کہا جاتا ہے ۔ یہی عقیدہ تین سوا سی اسقفوں نے اختیار کیا تھا “۔ (محاضرات فی النصرانیہ شیخ ابو زہرہ)

شہنشاہ قسطنطین نے یہ آخری عقیدہ اپنا لیا جو حال ہی میں عیسائی بنا تھا اور عیسائیت کے بارے میں زیادہ علم نہ رکھتا تھا ۔ اس نے اپنی فوجوں کو مخالفین کے خلاف چھوڑ دیا ، یہ لوگ جلاوطن کردیئے گئے ، خصوصا ان لوگوں پر بےپناہ مظالم ڈھائے گئے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت کے قائل نہ تھے ، وہ صرف باپ کو الہ سمجھتے تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مخلوق اور ناسوتی سمجھتے تھے ۔

تاریخ اقوام قبط کے مصنف اس فیصلے کے متن کے بارے میں لکھتے ہیں :

” یہ مقدس مجلس اور رسول کا کنیسہ ہر اس عقیدے کو حرام قرار دیتا جس میں یہ تسلیم کیا گیا ہو کہ کہ ایک ایسا زمانہ تھا جس میں ابن اللہ موجود نہ تھا ۔ اور یہ کہ ولادت سے پہلے وہ موجود نہ تھا ۔ یہ کہ وہ عدم سے وجود میں آیا ۔ یا یہ بیٹا ایسے مادے اور جوہر سے پیدا کیا گیا جو باپ سے الگ تھا۔ پھر یہ عقیدہ کہ اسے پیدا کیا گیا یا یہ کہ وہ تغیر پذیر ہے اور اس پر سایہ گردس طاری ہوتا ہے ۔ “

لیکن یہ مجلس عیسائیوں میں اہل توحید کو ختم نہ کرسکی اور ان میں سے آریوس کی شاخ قائم رہی ۔ یہ شاخ قسطنطینہ افطاکیہ ‘ بابل اور اسکندریہ اور پورے مصر پر قابض ہوگئی ۔

اس کے بعد روح القدس کے بارے میں اختلافات شروع ہوگئے ۔ بعض نے کہا کہ وہ بھی الہ ہے ۔ بعض نے کہا کہ وہ الہ نہیں ہے ۔ اس پر قسطنطنیہ کی پہلی مجلس 381 میں منعقد ہوئی تاکہ ان اختلافات کو ختم کرے ۔

اس مجلس میں اسکندریہ کے اسقف نے مقالہ پڑھا اور اس کے مطابق یہ فیصلہ دؤیموثاوس بطریق اسکندریہ کہتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک روح القدس اللہ کی روح کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اور اللہ کی روح ‘ اس کی زندگی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اگر ہم کہیں کہ روح القدس مخلوق ہے تو ہمارا قول یہ ہوگا کہ اللہ کی روح مخلوق ہے اور جب ہم اس کے قائل ہوگئے کہ اللہ کی روح مخلوق ہے تو ہم اس کے قائل ہوجائیں گے کہ اللہ کی زندگی مخلوق ہے اور جب ہم نے کہا کہ اللہ کی زندگی مخلوق ہے تو سارا عقیدہ یہ ہوجائے گا کہ اللہ زندہ نہیں ہے ۔ جب ہم نے یہ عقیدہ اختیار کرلیا کہ اللہ زندہ نہیں ہے تو ہم نے کفر اختیار کرلیا۔ اور جو کافر ہوجائے اس پر لعنت واجب ہے ۔ “

یوں اس مجلس میں حضرت مسیح کی الوہیت کے بارے میں قطعی فیصلہ کردیا گیا ‘ جس طرح نیقیا کی مجلس میں اس بارے میں فیصلہ ہوا تھا ۔ اس طرح باپ ‘ بیٹے اور روح القدس پر مشتمل تثلیث ثابت ہوگئے ، اس کے بعد ایک اور اختلاف شروع ہوا ۔ یہ اختلاف یہ تھا کہ طیبعت الہیہ اور طبیعت انسانی کے درمیان امتزاج کیسے ہوگیا یا لاہوت اور ناسوت کے اندر امتزاج کیسے ہوگیا ؟ قسطنطنیہ کے پادری نسطور کی رائے یہ تھی کہ ایک اقنوم ہے اور ایک طبیعت ہے ۔ اقنوم کی الوہیت باپ سے ہے اور اس کی نسبت باپ کی طرف ہوگی اور انسانی طبیعت مریم سے ولادت میں منتقل ہوئی اور مریم الہ نہ تھی اس لئے کہ وہ ایک انسان کی والدہ تھی وہ الہ کی والدہ نہ تھی ۔۔۔۔۔ کے بیٹے لکھتے ہیں کہ مسیح جو لوگوں کے اندر آیا اور اس نے لوگوں کے ساتھ بات چیت کی :

” یہ انسان جو کہتا ہے کہ وہ مسیح ہے اور محبت کے ساتھ بیٹے سے متحد سے اور کہا جاتا ہے وہ اللہ اور ابن اللہ ہے ۔ یہ حقیقت میں نہیں ہے بلکہ یہ وہبی ہے ۔ “

پھر کہتا ہے :

” نسطور کا عقیدہ یہ تھا کہ ہمارا رب یسوع المسیح الہ نہ تھا ۔ یعنی اپنی ذات کے اعتبار سے بلکہ ‘ وہ انسان تھا جو برکت اور نعمت سے پر تھا یا وہ سہم من اللہ تھا تو اس نے کوئی غلطی نہیں کی ہے اور نہ اس نے کفریہ بات کی ہے ۔ “

اسقف روم نے اس کی رائے کی مخالفت کی ‘ اسی طرح اسکندریہ کے صدر پادری نے اور انطاکیہ کے اسقفوں نے بھی مخالفت کی اس لئے انہوں نے ایک چوتھی مجلس پر اتفاق کیا ۔ یہ مجلس انس میں 413 ء میں منعقد ہوئی اس مجلس نے فیصلہ کیا جس طرح ابن بطریق کہتے ہیں :

” مریم اللہ کی والدہ ہیں اور حضرت مسیح سچے الہ اور انساں ہیں اور وہ دو طبیعتوں کے ساتھ مشہور ہیں اور یہ دونوں ایک ہی اقنوم میں ایک ہوگئی ہیں ۔ “ اس مجلس نے نسطور پر لعنت بھیجی ۔

اس کے بعد اسکندریہ کے کنیسہ نے ایک نئی رائے اختیار کی ۔ اس کے لئے پھر افس میں ایک دوسری مجلس منعقد ہوئی اور اس نے فیصلہ کیا :

” مسیح ایک ہی طبیعت ہے جس میں لاہوت اور ناسوت جمع ہوگئے ہیں “ لیکن اس رائے کو تسلیم نہ کیا گیا اور اس بارے میں شدید اختلاف جاری رہے ۔ اس پر طلقدونیہ کی مجلس 451 ء میں منعقد ہوئی اس نے فیصلہ کیا : کہ مسیح کی دو طبیعتیں ہیں ‘ ایک نہیں ہے ۔ لاہوت ایک طبیعت ہے جو علیحدہ ہے اور ناسوت ایک جدا طیبعت ہے ۔ اور دونوں کا النقاء مسیح کی ذات میں ہوگیا ہے ۔ “ ان لوگوں نے افس کی مجلس دوئم پر لعن طعن کیا۔

لیکن مصریوں نے اس مجلس کے فیصلوں کو تسلیم نہ کیا ۔ اس کے نتیجے میں مصر کے مذہب متوفییہ اور ساہی مذہب جو قیصر روم کی حکومت کا پروردہ تھا ‘ کے درمیان خونریز اختلافات ہوئے جس کے بارے میں اس سے پہلے ہم آرنولڈ کے مقالے کا حوالہ دے چکے ہیں ۔ دیکھئے اس کی کتاب ” دعوت اسلامی “ ۔ آغاز سورة آل عمران میں۔

ہمارا خیال ہے کہ الوہیت مسیح کے بارے میں اس قدر افکار باطلہ کے حوالے کافی ہیں کہ اس غلط عقیدے کی وجہ سے کس قدر خونریز فسادات ہوتے رہے اور کس قدر طویل عداوتیں ہوئیں اور کس قدر فرقے وجود میں آئے جو آج تک موجود ہیں ۔

اس کے بعد آخری رسالت آتی ہے تاکہ وہ اس مسئلے کا سچائی کے ساتھ فیصلہ کر دے اور فیصلہ کے ساتھ ناقابل تردید بات کرے ۔ چناچہ آخری رسول آتا ہے اور وہ اہل کتاب کو صحیح عقیدے کی تلقین یوں کرتا ہے ” وہ لوگ بھی کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ مسیح ابن مریم ہیں۔ “ اور ” وہ لوگ بھی کافر ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تینوں کا ایک ہے “ (تفصیلات آگے آرہی ہیں)

اللہ تعالیٰ ان کو متوجہ کرتے ہیں کہ ذرا عقل سے تو کام لو اور ذرا واقعی صورت حالات پر بھی غور کرو (ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کردینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اس کو اس ارادے سے باز رکھ سکے ؟ )

اس طرح اللہ کی ذات ‘ اس کی طبیعت ‘ اس کی مشیت ‘ اس کی قوت اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات کے اندر مکمل طور پر جدائی کردی جاتی ہے ۔ اسی طرح اس کی والدہ کی ذات اور تمام دوسری ذاتوں کو اللہ سے علیحدہ کردیا جاتا ہے ۔ نہایت ہی قطعیت اور نہایت ہی وضاحت کے ساتھ ۔ یوں کہ اللہ کی ذات وحدہ لاشریک ہے ۔ اس کی مشیت بےقید ہے ۔ اس کی حکومت صرف اس کی ہے۔ کوئی بھی اس کی مشیت کو رد نہیں کرسکتا نہ اس کے احکام کو رد کرسکتا ہے ۔ وہ مسیح ابن مریم ‘ اس کی والدہ اور تمام باشندگان زمین کو ہلاک کرسکتا ہے ۔ وہ ہر چیز کا مالک ہے ۔ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور خالق لازما مخلوق سے جدا ہوتا ہے اور ہر چیز اس کی مخلوق ہے۔

(آیت) ” وللہ ملک السموت والارض وما بینھما یخلق ما یشآء واللہ علی کل شیء قدیر “۔

اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور ان سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان پائی جاتی ہے ۔ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے ۔

یوں اسلامی عقیدہ صاف ہوکر خالص ہوجاتا ہے ۔ نہایت ہی واضح اور نہایت ہی سادہ اور وہ بےراہ روی ‘ افکار پریشاں ‘ بےحقیقت داستانوں اور بت پرستوں کے مقابلے میں جو اہل کتاب کے ایک گروہ کے عقائد کے ساتھ شامل تھے ‘ ان کے تہ بہ تہ ڈھیروں کے مقابلے میں بالکل صاف اور معقول بن جاتا ہے اور اسلامی عقیدے اور نظریے کا پہلا خاصہ یعنی یہ کہ الوہیت اور حاکمیت صرف اللہ کے لئیی ہے اور بندگی صرف اللہ کی ہوگی ‘ بلاکسی شبہ ‘ بلاکسی پیچیدگی اور بغیر کسی گردوغبار کے دونوں حقیقتوں کے درمیان فیصلہ کن اور واضح فرق ہوجاتا ہے ۔

آیت 17 لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ ط حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں عیسائیوں کے ہاں جودو عقیدے رہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ ہی مسیح علیہ السلام ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد اس نظریہ پر قائم ہے کہ خدا خود ہی انسانی شکل میں ظہور کرلیتا ہے۔ اس عقیدے کو God Incarnate کہا جاتا ہے ‘ یعنی اوتار کا عقیدہ جو ہندوؤں میں بھی ہے۔ جیسے رام چندر جی ‘ کرشن جی مہاراج ان کے ہاں خدا کے اوتار مانے جاتے ہیں۔ چناچہ عیسائیوں کا فرقہ Jacobites خاص طور پر God Incarnate کے عقیدے کا سختی سے قائل رہا ہے ‘ کہ اصل میں اللہ ہی نے حضرت مسیح علیہ السلام کی شکل میں دنیا میں ظہور فرمایا۔ جیسے ہمارے ہاں بھی بعض لوگ نبی مکرم ﷺ کی محبت و عقیدت اور عظمت کے اظہار میں غلو سے کام لے کر حد سے تجاوز کرتے ہوئے یہاں تک کہہ جاتے ہیں : ؂وہی جو مستوئ عرش تھا خدا ہو کر اُتر پڑا وہ مدینے میں مصطفیٰ ہو کر عیسائیوں کے اسی عقیدے کا ابطال اس آیت میں کیا گیا ہے۔وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۔وہ جو چاہتا ہے ‘ جیسے چاہتا ہے ‘ تخلیق فرماتا ہے۔ اس نے آدم ‘ عیسیٰ اور یحییٰ f کو تخلیق فرمایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اعجاز تخلیق کی مختلف مثالیں ہیں۔

اللہ وحدہ شریک ہے اللہ تبارک و تعالیٰ عیسائیوں کے کفر کو بیان فرماتا ہے کہ انہوں نے اللہ کی مخلوق کو الوہیت کا درجہ دے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ شرک سے پاک ہے، تمام چیزیں اس کی محکوم اور مقدور ہیں، ہر چیز پر اس کی حکومت اور ملکیت ہے۔ کوئی نہیں جو اسے کسی ارادے سے باز رکھ سکے، کوئی نہیں جو اس کی مرضی کے خلاف لب کشائی کی جرأت کرسکے۔ وہ اگر مسیح کو، ان کی والدہ کو اور روئے زمین کی تمام مخلوق کا موجد و خالق وہی ہے۔ سب کا مالک اور سب کا حکمراں وہی ہے۔ جو چاہے کر گزرے کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں، اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا، اس کی سلطنت و مملکت بہت وسیع ہے، اس کی عظمت، عزت بہت بلند ہے، وہ عادل و غالب ہے۔ جسے جس طرح چاہتا ہے بناتا بگاڑتا ہے، اس کی قدرتوں کی کوئی انتہاء نہیں۔ نصرانیوں کی تردید کے بعد اب یہودیوں اور نصرانیوں دونوں کی تردید ہو رہی ہے کہ انہوں نے اللہ پر ایک جھوٹ یہ باندھا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں، ہم انبیاء کی اولاد ہیں اور وہ اللہ کے لاڈلے فرزند ہیں، اپنی کتاب سے نقل کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسرائیل کو کہا ہے (انت ابنی بکری) پھر تاویلیں کر کے مطلب الٹ پلٹ کر کے کہتے کہ جب وہ اللہ کے بیٹے ہوئے تو ہم بھی اللہ کے بیٹے اور عزیز ہوئے حالانکہ خود ان ہی میں سے جو عقلمند اور صاحب دین تھے وہ انہیں سمجھاتے تھے کہ ان لفظوں سے صرف بزرگی ثابت ہوتی ہے، قرابت داری نہیں۔ اسی معنی کی آیت نصرانی اپنی کتاب سے نقل کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا (انی ذاھب الی ابی وابیکم) اس سے مراد بھی سگا باپ نہ تھا بلکہ ان کے اپنے محاورے میں اللہ کیلئے یہ لفظ بھی آتا تھا پس مطلب اس کا یہ ہے کہ میں اپنے اور تمہارے رب کی طرف جا رہا ہوں اور عبادت کا مفہوم واضح بتارہا ہے کہ یہاں اس آیت میں جو نسبت حضرت عیسیٰ کی طرف سے، وہی نسبت ان کی تمام امت کی طرف ہے لیکن وہ لوگ اپنے باطل عقیدے میں حضرت عیسیٰ کو اللہ سے جو نسبت دیتے ہیں، اس نسبت کا اپنے اپنے اوپر اطلاق نہیں مانتے۔ پس یہ لفظ صرف عزت و وقعت کیلئے تھا نہ کہ کچھ اور۔ اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے کہ اگر یہ صحیح ہے تو پھر تمہارے کفر و کذب، بہتان و افتراء پر اللہ تمہیں سزا کیوں کرتا ہے ؟ کسی صوفی نے کسی فقیہ سے دریافت فرمایا کہ کیا قرآن میں یہ بھی کہیں ہے کہ حبیب اپنے حبیب کو عذاب نہیں کرتا ؟ اس سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو صوفی نے یہی آیت تلاوت فرما دی، یہ قول نہایت عمدہ ہے اور اسی کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ راہ سے گزر رہے تھے۔ ایک چھوٹا سا بچہ راستہ میں کھیل رہا تھا، اس کی ماں نے جب دیکھا کہ اسی جماعت کی جماعت اسی راہ آرہی ہے تو اسے ڈر لگا کہ بچہ روندا نہ جائے میرا بچہ میرا بچہ کہتی ہوئی دوڑی ہوئی آئی اور جھٹ سے بچے کو گود میں اٹھا لیا اس پر صحابہ نے کہا " حضور ﷺ یہ عورت تو اپنے پیارے بچے کو کبھی بھی آگ میں نہیں ڈال سکتی " آپ نے فرمایا " ٹھیک ہے، اللہ تعالیٰ بھی اپنے پیارے بندوں کو ہرگز جہنم میں لے جائیگا۔ " یہودیوں کے جواب میں فرماتا ہے کہ تم بھی منجملہ اور مخلوق کے ایک انسان ہو تمہیں دوسروں پر کوئی فوقیت و فضیلت نہیں، اللہ سبحان و تعالیٰ اپنے بندوں پر حاکم ہے اور وہی ان میں سچے فیصلے کرنے والا ہے، وہ جسے چاہے بخشے جسے چاہے پکڑے، وہ جو چاہے کر گزرتا ہے، اس کا کوئی حاکم نہیں، اسے کوئی رد نہیں کرسکتا، " وہ بہت جلد بندوں سے حساب لینے والا ہے۔ زمین و آسان اور ان کے درمیان کی مخلوق سب اس کی ملکیت ہے " اس کے زیر اثر ہے، اس کی بادشاہت تلے ہے، سب کا لوٹنا اس کی طرف ہے، وہی بندوں کے فیصلے کریگا، وہ ظالم نہیں عادل ہے، نیکوں کو نیکی اور بدوں کو بدی دے گا، نعمان بن آصا، بحربن عمرو، شاس بن عدی جو یہودیوں کے بڑے بھاری علماء تھے، حضور ﷺ کے پاس آئے آپ نے انہیں سمجھایا بجھایا، آخرت کے عذاب سے ڈرایا تو کہنے لگے سنئے، حضرت آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں، ہم تو اللہ کے بچے اور اس کے پیارے ہیں، یہی نصرانی بھی کہتے تھے پس یہ آیت اتری۔ ان لوگوں نے ایک بات یہ بھی گھڑ کر مشہور کردی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسرائیل کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تیرا پہلو نٹھا بیٹا میری اولاد میں سے ہے۔ اس کی اولاد چالیس دن تک جہنم میں رہے گی، اس مدت میں آگ انہیں پاک کر دے گی اور ان کی خطاؤں کو کھاجائے گی، پھر ایک فرشتہ منادی کرے گا کہ اسرائیل کی اولاد میں سے جو بھی ختنہ شدہ ہوں، وہ نکل آئیں، یہی معنی ہیں ان کے اس قول کے جو قرآن میں مروی ہے وہ کہتے ہیں ہمیں گنتی کے چند ہی دن جہنم میں رہنا پڑے گا۔

آیت 17 - سورۃ المائدہ: (لقد كفر الذين قالوا إن الله هو المسيح ابن مريم ۚ قل فمن يملك من الله شيئا إن أراد أن...) - اردو