سورۃ المائدہ: آیت 15 - يا أهل الكتاب قد جاءكم... - اردو

آیت 15 کی تفسیر, سورۃ المائدہ

يَٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَيَعْفُوا۟ عَن كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَآءَكُم مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ وَكِتَٰبٌ مُّبِينٌ

اردو ترجمہ

اے اہل کتاب! ہمارا رسول تمہارے پاس آ گیا ہے جو کتاب الٰہی کی بہت سی اُن باتوں کو تمہارے سامنے کھول رہا ہے جن پر تم پردہ ڈالا کرتے تھے، اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کر جاتا ہے تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آ گئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ahla alkitabi qad jaakum rasooluna yubayyinu lakum katheeran mimma kuntum tukhfoona mina alkitabi wayaAAfoo AAan katheerin qad jaakum mina Allahi noorun wakitabun mubeenun

آیت 15 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 15 تا 19۔

اہل کتاب اس بات کو پسند نہ کرتے تھے کہ ان کو اسلام کی طرف دعوت ایک ایسا نبی دے جو ان میں سے نہ ہو ۔ پھر یہ ان کوکب گوارا تھا کہ ان کے پاس نبی ایک ایسی امت سے آجائے جو ایک امی امت ہے اور جس کے مقابلے میں وہ اپنے آپ کو برتر اور ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو زیادہ عالم سمجھتے تھے ۔ اس لئے کہ وہ اہل کتاب تھے اور یہ عرب امی تھے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان امیوں کو سربلند کرنا چاہا تو ان میں ایک نبی مبعوث فرمایا ‘ اے خاتم النبین اور آخری رسول قرار دیا اور اس کی رسالت کو خاتم الرسالات قرار دیا ۔ اسے تمام انسانیت کے لئے عام رسالت قرار دیا گیا ۔ اللہ نے ان ان پڑھ لوگوں کو تعلیم دی اور ایک مختصر عرصے میں وہ تمام انسانیت کے مقابلے میں سب سے اونچے علمی مقام پر فائز ہوگئے وہ اپنے تصورات اور اعتقادات کے لحاظ سے ترقی یافتہ اور اپنے طریقہ کار اور نظام حیات کے لحاظ سے سب سے زیادہ درست ‘ اپنے نظم ونسق اور قانون کے اعتبار سے سب سے زیادہ افضل اور اپنے اخلاق اور معاشرت کے لحاظ سے سب سے زیادہ صالح تھے ۔ اور یہ سب باتیں اس میں شامل ہیں کہ یہ ان پر اللہ کا فضل وکرم تھا ۔ یہ دین ان کو بطور انعام دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دین پسند فرمایا تھا ۔ اگر عرب کے امیوں کو یہ نعمت نہ ملتی تو وہ ہر گز پوری انسانیت کے نگہبان نہ بن سکتے تھے ۔ اگر اس دین کو الگ کردیا جائے پھر عربوں کے پاس اور کیا تحفہ ہے جو وہ اس انسانیت کو دیں گے ۔

ان حالات میں اللہ تعالیٰ اہل کتاب کو پکارتا ہے ۔ یہ بات ریکارڈ پر لائی جاتی ہے کہ ان کو خصوصی طور پر اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جارہی ہے ۔ اس رسول پر ایمان لانے اور اس کی مدد کرنے کی دعوت ان کو دی جارہی ہے ۔ اس عہد و پیمان کے عین مطابق جو ان سے لیا گیا تھا کہ وہ نبی آخر الزمان کی مدد اور نصرت کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ یہ بات بھی ریکارڈ پر لاتا ہے کہ یہ رسول امی اللہ نے ان کے پاس بھیجا ہے ۔ وہ عربوں کا بھی رسول ہے ۔ اہل کتاب کے لئے بھی رسول ہے اور پھر پوری انسانیت کے لئے بھی رسول ہے ۔ اس لئے تم اس کی رسالت کا انکار نہیں کرسکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ آپ کی رسالت صرف عربوں کے لئے ہے یا یہ کہ اس رسالت میں اہل کتاب کو خصوصیت کے ساتھ کوئی دعوت نہیں دی گئی ہے ۔

(آیت) ” یاھل الکتب قد جآء کم رسولنا یبین لکم کثیرا مما کنتم تخفون من الکتب ویعفوا عن کثیر “ (4 : 15)

(اے اہل کتاب ‘ ہمارا رسول تمہارے پاس آگیا ہے جو کتاب الہی کی بہت سی ان باتوں کو تمہارے سامنے کھول رہا ہے جن پر تم پردہ ڈالا کرتے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرجاتا ہے)

یعنی حضرت محمد ﷺ تمہاری جانب ایک رسول ہیں اور تمہارے بارے میں اس کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ تم نے صدیوں تک جن حقائق کو چھپایا ‘ جو تمہاری کتابوں میں تھے ‘ وہ ان کا کھل کر بیان کرے ۔ رازوں کا انکشاف کرے اور مجمل باتوں کی وضاحت کرے اور اس باب میں یہود ونصاری دونوں برابر ہیں ۔ نصاری نے تو دین کی پہلی اساس ہی کو چھپا دیا تھا یعنی عقیدہ توحید کو ۔ اسی طرح یہودیوں نے کئی شرعی احکام کو چھپا دیا تھا ۔ مثلا زانی کے لئے رجم کی سزا اور تمام لوگوں کے لئے سود کی حرمت ، نیز انہوں نے نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے بارے میں وارد ہونے والی بشارت کو بھی چھپا دیا تھا جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے ۔ (آیت) ” الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل) ” وہ جسے وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں “۔ اور یہ کہ رسول کریم ﷺ نے بہت سی ایسی باتوں کو نہیں چھیڑا جو انہوں نے چھپائی تھیں ۔ لیکن چونکہ وہ اسلامی شریعت میں داخل نہ تھیں یعنی انکو اللہ نے سابقہ شریعتوں کی دوسری چیزوں کی طرح منسوخ کردیا ‘ جو انسانی معاشروں سے متروک ہوگئی تھیں اگرچہ وہ کبھی مشروع تھیں لیکن انبیائے سابقہ کے چھوٹے چھوٹے معاشروں میں ‘ جن کیلئے اس سے پہلے رسول بھیجے گئے تھے مگر محدود وقت کے لئے ۔ یہاں تک کہ یہ آخری اور آفاقی رسالت آگئی جو تمام انسانیت کے لئے تھی ، یہ آخری رسالت دنیا میں جم گئی اور اللہ نے اسے مکمل کردیا اور اسے بطور نعمت لوگوں کے لئے مکمل دین کے طور پر پسند کرلیا ۔ اب اس کا فسخ ‘ اس میں کسی قسم کی تبدیلی اور کسی قسم کی ترمیم ممنوع ہوگئی ۔

اب یہاں یہ بھی بیان کردیا جاتا ہے کہ رسالت آخری کے اہداف کیا ہیں اور اس کی نوعیت کیا ہے اور یہ رسالت لوگوں کی زندگیوں میں کیا کیا تبدیلیاں لائے گی ،

(آیت) ” ۔۔۔۔۔ قد جآء کم من اللہ نور وکتب مبین (15) یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلم ویخرجھم من الظلمت الی النور باذنہ یھدیھم الی صراط مستقیم (16) (4 : 15۔ 16)

( تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے ۔ )

اس کتاب پر اس سے زیادہ نہ کوئی اور لفظ صادق آتا ہے ‘ نہ اس سے زیادہ پوری طرح منطبق ہوتا ہے اور نہ اس سے زیادہ اس کی حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ یہ کتاب ‘ قرآن ‘ ایک نور ہے اور ایک نئی روشنی ہے ۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اسے ایک مسلمان اپنے دل ‘ اپنے وجود ‘ اپنی پوری زندگی ‘ اپنے نقطہ نظر اور اپنی اقدار اور اپنے واقعات اور معاشرے کے تمام افراد کے بارے میں اچھی طرح محسوس کرتا ہے ۔ جونہی ایک مسلمان کے دل میں شمع ایمان روشن ہوتی ہے وہ اپنے اندر ایک روشنی اور ایک نور محسوس کرتا ہے ۔ اس نور سے اس کی شخصیت منور ہوتی ہے ‘ وہ مطمئن ‘ ہوجاتی ہے ۔ اس کے ماحول میں جو چیز بھی آتی ہے وہ منور ہوجاتی ہے ۔ واضح ہوجاتی ہے ‘ صاف صاف دکھائی دیتی ہے اور درست ہوجاتی ہے ۔

انسان کی شخصیت کا فیچر ‘ اس کی مٹی کی تاریکی ‘ اس کے گوشت و پوست کی کثافت ‘ اس کی شہوت ولذت کا جوش و خروش سب منور ہوجاتے ہیں ۔ سب کے سب چمکتے ہیں ‘ روشن ہوجاتے ہیں اور واضح ہو کر نکھر جاتے ہیں ۔ مادیت کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے ۔ کثافت اور جوش میں لطافت اور ٹھنڈک آجاتی ہے ۔ انسان کی فکر ونظر سے غبار اور اجمال دور ہوجاتا ہے۔ اس کے اقدام سے تردو اور خلجان ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کی جہت نظر سے حیرانی اور پریشانی دور ہوجاتی ہے ۔ وہ مویشیوں کے راستے پر نہیں چلتا جس کی کوئی منزل ہوتی ہے نہ نشان منزل ۔ اس کا راستہ واضح ‘ سیدھا اور روشن ہوجاتا ہے ۔ اس کا نصب العین واضح اور مقاصد حیات متعین ہوجاتے ہیں اور نفس انسانی اس راہ پر مطمئن ہوجاتا ہے ۔

” یہ نور اور واضح کتاب ہے “ یہ دونوں اوصاف نور اور مبین ایک چیز کے اوصاف نور اور مبین ایک چیز کے اوصاف ہیں اور یہ وہ کتاب ہے جسے نبی ﷺ لے کر آتے ہیں ۔

آیت 15 یٰٓاَ ہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍط قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ ۔ یہاں نور سے مراد نبی اکرم ﷺ کی شخصیت بھی ہوسکتی ہے۔ سورة النساء آیت 174 میں جو فرمایا گیا : وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا اور نازل کردیا ہے ہم نے تمہاری طرف ایک روشن نور وہاں نور سے مراد قرآن ہے ‘ اس لیے کہ حضور ﷺ کے لیے فعل اَنْزَلْنَادرست نہیں۔ لیکن یہاں زیادہ احتمال یہی ہے کہ نور سے مراد رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ ہے ‘ یعنی آپ ﷺ کی روح پر نور ‘ کیونکہ آپ ﷺ کی روح اور روحانیت آپ ﷺ کے پورے وجود پر غالب تھی ‘ چھائی ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے آپ ﷺ کو نور مجسم بھی کہا جاسکتا ہے۔ گویا آپ ﷺ کو استعارۃً نور کہا گیا ہے۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہاں نور بھی قرآن پاک ہی کو کہا گیا ہو اور و اس میں واؤ تفسیری ہو۔ اس صورت میں مفہوم یوں ہوگا : آگیا ہے تمہارے پاس نور یعنی کتاب مبین۔

علمی بددیانت فرماتا ہے کہ رب العلی نے اپنے عالی قدر رسول حضرت محمد ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تمام مخلوق کی طرف بھیج دیا ہے، معجزے اور روشن دلیلیں انہیں عطا فرمائی ہیں جو باتیں یہود و نصاریٰ نے بدل ڈالی تھیں، تاویلیں کر کے دوسرے مطلب بنا لئے تھے اور اللہ کی ذات پر بہتان باندھتے تھے، کتاب اللہ کے جو حصے اپنے نفس کے خلاف پاتے تھے، انہیں چھپالیتے تھے، ان سب علمی بد دیانتیوں کو یہ رسول ﷺ بےنقاب کرتے ہیں۔ ہاں جس کے بیان کی ضرورت ہی نہ ہو، بیان نہیں فرماتے۔ مستدرک حاکم میں ہے " جس نے رجم کے مسئلہ کا انکار کیا، اس نے بےعملی سے قرآن سے انکار کیا " چناچہ اس آیت میں اسی رجم کے چھپانے کا ذکر ہے، پھر قرآن عظیم کی بابت فرماتا ہے کہ " اسی نے اس نبی کریم پر اپنی یہ کتاب اتاری ہے، جو جویائے حق کو سلامتی کی راہ بتاتی ہے، لوگوں کو ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتی ہے اور راہ مستقیم کی رہبر ہے۔ اس کتاب کی وجہ سے اللہ کے انعاموں کو حاصل کرلینا اور اس کی سزاؤں سے بچ جانا بالکل آسان ہوگیا ہے یہ ضلالت کو مٹا دینے والی اور ہدایت کو واضح کردینے والی ہے۔ "

آیت 15 - سورۃ المائدہ: (يا أهل الكتاب قد جاءكم رسولنا يبين لكم كثيرا مما كنتم تخفون من الكتاب ويعفو عن كثير ۚ قد جاءكم...) - اردو