سورۃ المائدہ: آیت 14 - ومن الذين قالوا إنا نصارى... - اردو

آیت 14 کی تفسیر, سورۃ المائدہ

وَمِنَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّا نَصَٰرَىٰٓ أَخَذْنَا مِيثَٰقَهُمْ فَنَسُوا۟ حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا۟ بِهِۦ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ ٱلْعَدَاوَةَ وَٱلْبَغْضَآءَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ ۚ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ ٱللَّهُ بِمَا كَانُوا۟ يَصْنَعُونَ

اردو ترجمہ

اِسی طرح ہم نے اُن لوگوں سے بھی پختہ عہد لیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ہم "نصاریٰ" ہیں، مگر ان کو بھی جو سبق یاد کرایا گیا تھا اس کا ایک بڑا حصہ اُنہوں نے فراموش کر دیا آخر کار ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے دشمنی اور آپس کے بغض و عناد کا بیج بو دیا، اور ضرور ایک وقت آئے گا جب اللہ انہیں بتائے گا کہ وہ دنیا میں کیا بناتے رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamina allatheena qaloo inna nasara akhathna meethaqahum fanasoo haththan mimma thukkiroo bihi faaghrayna baynahumu alAAadawata waalbaghdaa ila yawmi alqiyamati wasawfa yunabbiohumu Allahu bima kanoo yasnaAAoona

آیت 14 کی تفسیر

(آیت) ” وَمِنَ الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّا نَصَارَی أَخَذْنَا مِیْثَاقَہُمْ فَنَسُواْ حَظّاً مِّمَّا ذُکِّرُواْ بِہِ فَأَغْرَیْْنَا بَیْْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاء إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَسَوْفَ یُنَبِّئُہُمُ اللّہُ بِمَا کَانُواْ یَصْنَعُونَ (14)

” اسی طرح ہم نے ان لوگوں سے بھی پختہ عہد لیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں مگر ان کو بھی جو سبق یاد کرایا گیا تھا اس کا ایک بڑا حصہ انہوں نے فراموش کردیا ۔ آخر کار ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کیلئے دشمنی اور آپس میں بغض وعناد کا بیج بو دیا اور ضرور ایک وقت آئے گا جب اللہ انہیں بتائے گا کہ یہ دنیا میں کیا کیا بناتے رہے ہیں ۔ ‘

یہاں ایک خاص انداز تعبیر ہے اور اس کے اندر ایک خاص اشارہ ہے ۔ (آیت) ” ومن الذین قالوا انا نصری “۔ (5 : 14) ” اسی طرح ان لوگوں سے بھی عہد لیا تھا جنہوں نے کہا ہم نصاری ہیں۔ “

اس انداز کے اندر اشارہ یہ ہے کہ انہوں نے نصاری ہونے کا دعوی تو کیا تھا ‘ لیکن عملا انہوں نے اس عہد کو پورا نہ کیا تھا ۔ اس عہد وپیماں کی اساس یہ تھی کہ ہم اللہ کو صرف وحدہ لاشریک سمجھیں گے ۔ لیکن انہوں نے اپنی گمراہی کا آغاز ہی اپنے اساسی عقیدہ توحید سے کیا ۔ اس لائن پر وہ آگے بڑھ گئے اور یہ وہ سبق (حظ) تھا جو انہوں نے بھلا دیا حالانکہ یہ سبق انہیں اچھی طرح یاد کرایا گیا تھا ۔ اور اس سبق کو بھلانے کے نتیجے میں وہ غلط راہ پر دور نکل گئے اور ان کے درمیان فرقہ ورانہ اور گروہی اختلاف پیدا ہوئے اور پھر ان کے اندر بہت سے مذاہب اور مکاتب فکر پیدا ہوگئے ۔

یہ مکاتب فکر اس قدر بڑھے کہ آج ان کا شمار ممکن نہیں ہے ۔ قدیم زمانے میں بھی ان کے بیشمار فرقے تھے اور جدید دور میں بھی ان کے بیشمار فرقے ہیں ۔ (اجمالی بحث عنقریب آئے گی ) ان فرقوں کے درمیان اس قدر بغض وعداوت پیدا ہوگیا جس کی کوئی مثال تاریخ مذاہب میں نہیں ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ اختلافات قیامت تک رہیں گے اور اس لئے رہیں گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے اپنے عہد کا کوئی پاس نہ رکھا ۔ انہوں نے اس سبق اور نظریہ حیات ہی کو بھلا دیا جو انہیں اچھی طرح یاد کرایا گیا تھا ۔ آخرت میں جب ان کو اللہ وہ تفصیلات بتائے گا کہ اس دنیا میں وہ کیا کیا کرتے رہے ہیں تب ان کی جزاء کا وہاں ہی فیصلہ ہوگا ۔ اس وقت اللہ کو ان کی تمام صنعت کاریوں کو ان کے سامنے رکھ کر ان کو خوب شرمندہ کرے گا اور پھر سزا دے گا ۔

جو لوگ نصاری (مددگار) ہونے کا دعوی کرتے تھے ان کے درمیان اس قدر اختلافات ‘ تفرقہ بازی اور بغض وعداوت پیدا ہوئی جس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ ان کی تاریخ قدیم میں بھی اور جدید تاریخ میں بھی جس کی حکایت اللہ تعالیٰ یہاں اپنی کتاب کریم میں فرماتے ہیں ۔ ان فرقہ وارانہ جنگوں میں اس قدر خون بہا کہ اس قدر خونریزی ان کی ان تمام تاریخی جنگوں میں نہ ہوئی جو انہوں نے اپنی پوری تاریخ میں لڑیں ، چاہے دینی عقائد سے پیدا ہونے والے اختلافات کے نتیجے میں یہ خونریزی ہوئی یا دینی سربراہی کے حصول کے لئے ہوئی یا سیاسی ‘ اقتصادی اور اجتماعی اختلافات کے نتیجے میں ہوئی ۔ یہ خونریز آویزش اس قدر طویل اور اس قدر گہری تھی کہ اس کے آثار صدیوں تک باقی رہے اور وہ زخم صدیوں بعد بھی مندمل نہ ہوئے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو اصدق القائلین ہیں ۔ یہ اختلاف قیامت تک رہیں گے اور ان کا سبب حقیقی صرف یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے اپنے عہد کو پس پشت ڈال دیا اور انہوں نے اس نظریاتی سبق کو بالکل بھلا دیا جو انہیں اچھی طرح یاد کرایا گیا تھا ، اس عہدوپیمان کی پہلی دفعہ یہ تھی کہ وہ عقیدہ توحید پر قائم رہیں گے ‘ جس سے انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے اٹھنے کے بہت تھوڑے عرصے بعد ہی انحراف کرلیا تھا اور اس کے اسباب اور واقعات کی تفصیلات یہاں پیش کرنا مشکل ہے ۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے محاضرات فی النصرانیہ ‘ ابو زہرہ اور فی ظلال القرآن پارئہ سوئم)

یہودیوں اور عیسائیوں کی جانب سے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان کی خلاف ورزی اور اس پر کئے جانے والے تبصروں کا بیان یہاں تک پہنچ کر اب خطاب یہود ونصاری دونوں سے ہے ۔ دونوں کے سامنے اب حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ رسالت تمہارے لئے بھیجی گئی ہے جس طرح یہ رسالت امی عرب اقوام اور تمام جہان کے لئے ہے ، دنیا کے سب لوگ اس رسالت اور دعوت کے مخاطب ہیں ۔ سب کو اللہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس آخری رسول پر ایمان لائیں یہ بات اللہ کی جانب سے یہود ونصاری دونوں کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان کی ایک دفعہ ہے ‘ جیسا کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے بیان کرچکے ہیں ۔ اس نبی آخر الزماں نے بعض ایسی باتوں کے انکشافات بھی کئے ہیں جنہیں وہ چھپاتے تھے ‘ حالانکہ وہ منکشف کردہ امور ان کے ہاں موجود کتابوں میں موجود تھے ۔ انہوں نے ان باتوں کو نہایت ہی حفاظت میں خفیہ رکھا ‘ جو ان کی جانب سے وعدہ خلافی تھی ، کئی ایسی اور باتیں بھی تھیں کہ رسول خدا ﷺ نے عفو درگزر کرتے ہوئے ان کا انکشاف نہ کیا ‘ اس لئے کہ اسلام کے جدید قانونی نظام میں ان کے بارے میں انکشافات کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کی بعض گمراہیوں اور انحرافات کا ذکر فرماتے ہیں جو انہوں نے اپنے صحیح اسلامی عقائد کے اندر کئے مثلا نصاری کا یہ قول کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم خدا ہیں اور یہودیوں کا یہ کہنا کہ موسیٰ اللہ کے محبوب ہیں اور آخر میں بتایا جاتا ہے کہ اس آخری رسالت کے ان انکشافات اور اعلانات اور کھلی روشنی پھیلا دینے کے بعد تمہارے لئے اللہ اور انسانوں کے نزدیک کوئی حجت نہ رہے گی اور ان کے لئے اب یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ ہم پر چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایک طویل دور گزر گیا تھا ‘ اس لئے خدا تعالیٰ کی تعلیمات ہم بھول گئے اور معاملہ ہم پر مشتبہ ہوگیا ۔

آیت 14 وَمِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّا نَصٰرآی اَخَذْنَا مِیْثَاقَہُمْ فَنَسُوْاحَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ وہ اس نصیحت سے فائدہ اٹھانا بھول گئے۔ فَاَغْرَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط ‘ یہاں ایک اہم نکتہ تو یہ ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان پورے انیس سو برس شدید دشمنی رہی ہے۔ موجودہ دور میں صورت حال عارضی طور پر کچھ تبدیل ہوگئی ہے۔ عیسائی جنھیں اللہ کا بیٹا بلکہ خدا سمجھتے ہیں ‘ یہودیوں نے انہیں ولد الزنا قرار دیا اور کافر و مرتد کہتے ہوئے واجب القتل ٹھہرایا۔ یہ بنیادی اختلاف دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں اس قدر اہم اور شدید ہے کہ اس کی موجودگی میں دونوں میں اتحاد و اتفاق ممکن ہی نہیں۔ لیکن آیت زیرنظر میں بنیادی طور پر عیسائیوں کی آپس کی دشمنی اور ان کا باہمی بغض وعناد مراد ہے۔ ان کے مختلف فرقوں کے درمیان نظر یاتی اختلافات ان کی دلی کدورتوں اور نفرتوں سے بڑھ کر بارہا باہمی جنگ و جدل کی شکل میں نمودار ہوتے رہے ہیں۔ مذہبی بنیادوں پر عیسائی فرقوں کی آپس کی خانہ جنگیوں کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مذہب کے نام پر عیسائیوں کی خون ریزی اور قتل و غارت گری کی عبرت آموز اور رونگٹے کھڑے کردینے والی تفصیلات Blood on the Cross نامی ضخیم کتاب میں ملتی ہیں ‘ جو لندن سے شائع ہوئی ہے۔ خاص طور پر پروٹسٹنٹس Protestants اور کیتھولکس Catholics کی باہمی چپقلش تو کوئی پوشیدہ راز نہیں ‘ جس کی ہلکی سی جھلک آج بھی ہمیں آئرلینڈ میں نظر آتی ہے۔ وَسَوْفَ یُنَبِّءُہُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ اب پھر وہی انداز ہے جو سورة النساء کے آخر میں تھا۔

آیت 14 - سورۃ المائدہ: (ومن الذين قالوا إنا نصارى أخذنا ميثاقهم فنسوا حظا مما ذكروا به فأغرينا بينهم العداوة والبغضاء إلى يوم القيامة ۚ...) - اردو