سورۃ المائدہ: آیت 12 - ۞ ولقد أخذ الله ميثاق... - اردو

آیت 12 کی تفسیر, سورۃ المائدہ

۞ وَلَقَدْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ ٱثْنَىْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ ٱللَّهُ إِنِّى مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَيْتُمُ ٱلزَّكَوٰةَ وَءَامَنتُم بِرُسُلِى وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّـَٔاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ

اردو ترجمہ

اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ "میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے زائل کر دوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، مگراس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو در حقیقت اُس نے سوا٫ السبیل گم کر دی"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad akhatha Allahu meethaqa banee israeela wabaAAathna minhumu ithnay AAashara naqeeban waqala Allahu innee maAAakum lain aqamtumu alssalata waataytumu alzzakata waamantum birusulee waAAazzartumoohum waaqradtumu Allaha qardan hasanan laokaffiranna AAankum sayyiatikum walaodkhilannakum jannatin tajree min tahtiha alanharu faman kafara baAAda thalika minkum faqad dalla sawaa alssabeeli

آیت 12 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 12 تا 14 ۔

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا وہ دو فریقوں کے درمیان معاہدہ تھا ۔ اس معاہدے کی عبارت شرط اور جزائے شرط کے انداز میں تھی ۔ قرآن کریم نے اس معاہدے کی شرط اور اجزاء کو بعینہ نقل کیا ہے ۔ یہ اصل عبارت عہد کے حالات اور واقعہ عقد کے ذکر کے بعد دی گئی ہے ۔ یہ عہد اللہ تعالیٰ اور بنی اسرائیل کے 12 نمائندوں کے درمیان ہوا تھا ۔ یہ نمائندے بنی اسرائیل کے 12 قبائل کے نمائندے تھے ۔ یہ 12 قبائل حضرت یعقوب (علیہ السلام) (جن کا نام اسرائیل تھا) کے پوتے اور ان کی اولاد تھے ۔ ان نمائندوں کی تعداد 12 تھی اور اس معاہدے کی عبارت یہ تھی :

(آیت) ” ً وَقَالَ اللّہُ إِنِّیْ مَعَکُمْ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلاَۃَ وَآتَیْْتُمُ الزَّکَاۃَ وَآمَنتُم بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوہُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللّہَ قَرْضاً حَسَناً لَّأُکَفِّرَنَّ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَلأُدْخِلَنَّکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ فَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ مِنکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاء السَّبِیْلِ (12)

” اور ان سے کہا تھا کہ ” میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے زائل کر دوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سواء السبیل گم کردی ۔ “

(انی معکم) میں تمہارے ساتھ ہوں ‘ کس قدر عظیم عہد ہے ۔ جس کی حمایت میں اللہ ہو ‘ اس کے خلاف کون ہو سکتا ۔ اور جو چیز بھی اس کے خلاف ہو ‘ نہ اس کی کوئی حقیقت ہوگی ‘ نہ اثر ہوگا اور جس کے ساتھ اللہ ہو اگا تو وہ ہر گز راستہ نہ بھولے گا ‘ اس لئے کہ اللہ جس کا ساتھی ہو وہ ہدایت پر ہی ہوگا ۔ پھر اللہ اس کے لئے کافی بھی ہوگا ۔

جس کے ساتھ اللہ ہو تو نہ ہو پریشان ہوگا اور نہ نامراد ہوگا کیونکہ اللہ کے ساتھ اس کی نزدیکی اور قرب اسے مطمئن کردیتا ہے اور اسے کامیاب کردیتا ہے ۔ غرض جو اللہ کا ساتھی ہو اور جس کا ساتھی اللہ ہوا تو اس کا ضامن اللہ ہوتا ہے ۔ وہ مراد کو پہنچ جاتا ہے ۔ اس مقام بلند پر اسے مزید کسی چیز کی ضرورت یا طلب نہیں رہتی ۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی رفاقت کا یہ اعلان محض گپ اور مزاح میں نہیں کیا یا ان کے ساتھ کسی خاص دوستی کی وجہ سے نہیں کیا اور نہ یہ ان کی کوئی ذاتی بزرگی کا استحقاق ہے کہ جس کے نہ کوئی اسباب ہیں اور نہ اس کے لئے کچھ شرائط وقیود ہیں ۔ بلکہ یہ رفاقت ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت طے پائی ہے ۔ یہ شرط وجزاء پر مبنی ہے ۔

وہ شرط یہ ہے کہ وہ نماز قائم کریں گے ۔ صرف نماز کی ادائیگی کافی نہیں ہے بلکہ اس کا قیام اس طرح ضروری ہے کہ اس کے پورے اصول اس کے اندر قائم ہوجائیں اور وہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان پورا رابطہ ہو ۔ نماز ان کے لئے ایک تہذیبی ‘ تربیتی عنصر ہو ‘ اللہ تعالیٰ کے سیدھے نظام تربیت اور نظام حیات کے مطابق ۔ اس طرح کہ یہ نماز نہیں تمام فحاشیوں سے روکتی ہو ‘ تمام برائیوں سے منع کرتی ہو اور نماز کو اس بات سے حیا آتی ہو کہ ہو فحاشی اور ناپسندیدہ افعال کے ذخیرے کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر رہے ‘ منکرات لئے ہوئے ۔

اللہ نے انہیں جو رزق اور دولت دی ہے اس کا حق نعمت ادا کرتے ہوئے وہ زکوۃ کی ادائیگی باقاعدگی کے ساتھ کرتا ہو اور یہ خیال کرتا ہو کہ اصل مالک اللہ ہے اور وہ اس مال کے تصرف میں اللہ کی پیروی کر رہا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ اصل مالک ہے اور اللہ کی مال میں لوگ بطوروکلاء اور ایجنٹ تصرفات کرتے ہیں ۔ پھر زکوۃ کی ادائیگی اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ اسلامی معاشرے کی اجتماعی ضروریات کو اس کے ذریعے پورا کیا جاسکے ۔ نیز اسلامی نظام معیشت کے اس زریں اصول کو بروئے کار لایا جاسکے کہ دولت صرف مالداروں ہی کے درمیاں گردش نہ کرتی رہے بلکہ معاشی زندگی کو اجتماعی کفالتی نظام کے اصول پر قائم کیا جائے ۔ نیز دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں نہ ہو ‘ جس کی وجہ سے عام معاشرے میں کساد بازاری پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کی قوت خرید ختم ہوجاتی ہے ۔ اور جس کا آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں کساد بازاری پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کی قوت خرید ختم ہوجاتی ہے ۔ اور جس کا آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے کے اندر پیداواری عمل معطل ہوجاتا ہے یا کم از کم بہت ہی سست پڑجاتا ہے ۔ اس کا واضح نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک قلیل تعداد عیاشی کرتی ہے اور عوام کی کثیر تعداد مفلوک الحال رہتی ہے اور غربت کی زندگی بسر کرتی ہے ‘ جس کے نتیجے میں معاشرتی بگاڑ اور فساد پیدا ہوتا ہے اور یہ بگاڑ مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتا ہے ۔ یہ تمام فساد ادائیگی زکوۃ سے رکتا ہے اور اس فساد کو دفع کرنے میں اسلامی نظام کا تقسیم دولت کا نظام بہت بڑا کام کرتا ہے اور اسلام اپنا اقتصادی کردار ادا کرتا ہے ۔

اللہ کے رسولوں پر ایمان ‘ تمام رسولوں پر بغیر کی تفرقہ اور جدائی کے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور سب کے سب اللہ کی دین لے کر آئے اور ان میں سے کسی بھی ایک کا انکار مستلزم کفر ہے ۔ کیونکہ یہ اس ذات کا انکا رہے جس نے ان سب کو بھیجا ہے ۔

یہ عہد صرف ایمان اور مجرد عقیدہ ہی نہ ہو بلکہ ایک مثبت اقرار ہو اور اس کے ساتھ عملا رسولوں کی نصرت ہو ۔ ان فرائض میں ان کے ساتھ مدد اور تعاون بھی ہو جو فرائض ان پر اللہ نے عائد کئے ہیں اور جن کو بروئے کار لانے کے لئے ان رسولوں نے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا ہے ۔ اللہ کے دین پر ایمان لازمی تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ دین کو قائم کرنا چاہتے ہیں ہر مومن اٹھے اور انکی بھرپور امداد کرے ۔ اس دین کو اس کرہ ارض کی کسی سرزمین پر قائم کر دے اور یہ دین لوگوں کی زندگیوں میں ایک حقیقت بن کر اٹھے ۔ اس لئے کہ اللہ کا دین محض اعتقادی تصورات کا نام نہیں ہے ‘ نہ یہ دین صرف مراسم عبادت کا نام ہے بلکہ یہ زندگی کا ایک واقعی اور عملی نظام ہے یہ ایک متعین نظام ہے جو زندگی کے تمام امور میں تصرف اور عمل کرتا ہے ۔ اور جو نظام بھی ہو اور جو منہاج بھی ہو وہ نصرت اور امداد اور تعاون کا محتاج ہوتا ہے ۔ اسے قوت کی فراہمی ضروری ہوتی ہے ۔ اس کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ قائم ہو ‘ اس کی حمایت ہو اور اسے بچایا جائے ۔ اگر ایسی صورت حال نہ ہو تو مومن نے ‘ یہ سمجھا جائے گا ‘ کہ اپنے کیے ہوئے عہد کا ایفا نہیں کیا ہے ۔

زکوۃ کے بعد اب عام انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے یہ عام انفاق فرض کیا ہے لیکن یہ قرض ہے ۔ حالانکہ اللہ خود تمام دولت کا مالک ہے اور وہی داتا ہے ۔ لیکن یہ اس کا فضل وکرم ہے کہ وہ اپنی دی ہوئی چیز کو اپنے لئے بطور قرض مانگتا ہے ۔ یہ تمام امور تو شرط تھے ۔ اب اس شرط کی جزاء کیا ہے ؟

پہلی جزاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے ۔ انسان سے خطا کا صدور خواہ مخواہ ہوتا ہے اور وہ برائی پر مائل ہوتا ہے ۔ اگرچہ وہ بہت ہی نیکوکار ہو ۔ اس کی خطاؤں کو معاف کرنا بھی اس کے لئے ایک بہت ہی بڑا انعام ہے ۔ اور اللہ کی وسیع رحمت کی وجہ سے اس کے ضعف ‘ اس کی کمزوری اور اس کے عجز و قصور کا تدارک ہوتا ہے ۔

پھر اس کی جزاء میں ایسے باغات آتے ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں اور یہ اللہ کا خالص فضل وکرم ہے ۔ کوئی انسان اللہ کے اس درجہ فضل وکرم تک محض اپنے عمل کے بل بوتے پر نہیں پہنچ سکتا ۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے جو کسی انسان کو اس مقام تک پہنچا سکتا ہے اور یہ مقام اس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اس کے لئے جدوجہد کرتا ہے ۔ جہاں تک اس کا بس چلے اور جس قدر اس کی وسعت میں ہو۔

اور عہد ومیثاق میں ایک جزئی شرط یہ بھی تھی ۔ (آیت) ” فمن کفر بعد ذلک منکم فقد ضل سوآء السبیل “۔ (5 : 12) ” مگر اس کے بعد تم میں سے جس نے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سواء السبیل گم کردی ۔ “

اس لئے اب اس کے لئے کوئی ہدایت نہ ہوگی اور نہ وہ گمراہی سے واپس ہوگا ۔ جب اس کے لئے ہدایت واضح ہو اور اس کے ساتھ معاہدہ ہوجائے اور راستہ واضح ہوجائے اور اس پر چلنے کی جزاء بھی متعین ہوجائے تو اب اس کی خلافت ورزی لازما گمراہی ہے ۔

یہ تھا اللہ تعالیٰ کا معاہدہ بنی اسرائیل کے نمائندوں کے ساتھ اور یہ پوری قوم بنی اسرائیل کے نمائندے تھے ۔ وہ سب ان کی نمائندگی پر راضی تھے ۔ اس طرح یہ میثاق گویا بنی اسرائیل کے ہر فرد کے ساتھ ہوگیا ۔ اس جماعت اور امت کے ساتھ بھی ہوگیا جو بنی اسرائیل پر مشتمل تھی لیکن ملاحظہ فرمائیں کہ بنی اسرائیل نے اس عہد کے ساتھ کیا کیا ۔

انہوں نے اپنے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے اس عہد کو کھلے بندوں توڑ دیا ۔ انہوں نے اپنے نبیوں کو ناجائز طور پر قتل کیا ۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل اور سزائے موت دلوانے کی سازش کی حالانکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے انبیاء میں سے آخری نبی تھے ۔ انہوں نے اپنی کتاب توراۃ میں تحریف کی ۔ انہوں نے اپنی شریعتوں کو بھلا دیا اور کسی بھی شریعت کو نافذ نہ کیا ۔ انہوں نے نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی بابت نہایت ہی مکارانہ ‘ معاندانہ اور غیر شریفانہ موقف اختیار کیا ۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیانت کی اور حضور ﷺ کے ساتھ کئے ہوئے معاہدوں کی خلاف ورزی کی اس لئے وہہ اللہ کی ہدایت سے نکل گئے ، ان کے دل سخت ہوگئے اور وہ اس قابل ہی نہ رہے کہ وہ ہدایت قبول کرسکیں ۔

اب یہاں سے بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند واقعات آ رہے ہیں۔ آیت 12 وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ج یعنی اے مسلمانو ! جس طرح آج تم سے یہ میثاق لیا گیا ہے اور اللہ نے تمہیں شریعت کے میثاق میں باندھ لیا ہے ‘ بالکل اسی طرح کا میثاق اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی لیا تھا۔وَبَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ط۔بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے ‘ ہر قبیلے میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک نقیب مقرر کیا۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی انصار میں بارہ نقیب فرمائے تھے ‘ نو خزرج میں سے اور تین اوس سے۔وَقَال اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ ط۔ میری مدد ‘ میری تائید ‘ میری نصرت تمہارے ساتھ شامل حال رہے گی۔لَءِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ یہ جن رسولوں کا ذکر ہے وہ پے در پے بنی اسرائیل میں آتے رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد تو رسالت کا یہ سلسلہ ایک تار کی مانند تھا جو چھ سو برس تک ٹوٹا ہی نہیں۔ پھر ذرا سا وقفہ چھ سوبرس کا آیا اور پھر اس کے بعد نبی آخر الزمان ﷺ تشریف لائے۔ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یعنی اللہ کے دین کے لیے مال خرچ کرتے رہے۔

عہد شکن لوگ ؟ اور امام مہدی کون ؟ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو عہد و پیمانے کی وفاداری، حق پر مستقیم رہنے اور عدل کی شہادت دینے کا حکم دیا تھا۔ ساتھ ہی اپنی ظاہری و باطنی نعمتوں کو یاد دلایا تھا۔ تو اب ان آیتوں میں ان سے پہلے کے اہل کتاب سے جو عہد و میثاق لیا تھا، اس کی حقیقت و کیفیت کو بیان فرما رہا ہے، پھر جبکہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان توڑ ڈالے تو ان کا کیا حشر ہوا، اسے بیان فرما کر گویا مسلمانوں کو عہد شکنی سے روکتا ہے۔ ان کے بارہ سردار تھے۔ یعنی بارہ قبیلوں کے بارہ چودھری تھے جو ان سے ان کی بیعت کو پورا کراتے تھے کہ یہ اللہ اور رسول کے تابع فرمان رہیں اور کتاب اللہ کی اتباع کرتے رہیں۔ حضرت موسیٰ جب سرکشوں سے لڑنے کیلئے گئے تب ہر قبیلہ میں سے ایک ایک سردار منتخب کر گئے تھے۔ اوبیل قبیلے کا سردار شامون بن اکون تھا، شمعونیوں کا چودھری شافاط بن جدی، یہودا کا کالب بن یوحنا، فیخائیل کا ابن یوسف اور افرایم کا یوشع بن نون اور بنیامین کے قبیلے کا چودھری قنطمی بن وفون، زبولون کا جدی بن شوری، منشاء کا جدی بن سوسی، دان حملاسل کا ابن حمل، اشار کا ساطور، تفتای کا بحر اور یا سخر کالابل۔ توراۃ کے چوتھے جز میں بنو اسرائیل کے قبیلوں کے سرداروں کے نام مذکور ہیں۔ جو ان ناموں سے قدرے مختلف ہیں۔ واللہ اعلم۔ موجودہ تورات کے نام یہ ہیں۔ بنو ادبیل پر صونی بن سادون، بنی شمعون پر شموال بن صور، بنو یہود پر حشون بن عمیاذب، بنو یساخر پر شال بن صاعون، بنو زبولوں پر الیاب بن حالوب، بنو افرایم پر منشا بن عنہور، بنو منشاء پر حمائیل بنو بیبا میں پر ابیدن، بنودان پر جعیذ ربنو اشاذ نحایل۔ بون کان پر سیف بن دعوابیل، بنو نفعالی پر اجذع۔ یاد رہے کہ لیلتہ العقبہ میں جب آنحضرت ﷺ نے انصار سے بیعت لی اس وقت ان کے سردار بھی بارہ ہی تھے۔ تین قبیلہ اوس کے۔ حضرت اسید بن حضیر، حضرت سعد بنی خیشمہ اور حضرت رفاعہ بن عبد المنذر اور نو سردار قبیلہ خزرج تھے۔ ابو امامہ، اسعد بن زرارہ، سعد بن ربیع، عبداللہ بن رواحہ، رافع بن مالک بن عجلان براء بن معرور عبادہ بن صامت، سعد بن عبادہ، عبداللہ بن عمرو بن حرام، منذربن عمرو بن حنیش اجمعین۔ انہی سرداروں نے اپنی اپنی قوم کی طرف سے پیغمبر آخر الزمان ﷺ سے فرامین سننے اور ماننے کی بیعت کی، حضرت مسروق فرماتے ہیں ہم لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے تھے، آپ ہمیں اس وقت قرآن پڑھا رہے تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ لوگوں نے حضور ﷺ سے یہ بھی پوچھا ہے کہ اس امت کے کتنے خلیفہ ہوں گے ؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا میں جب سے عراق آیا ہوں، اس سوال کو بجز تیرے کسی نے نہیں پوچھا، ہم نے حضور ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا تھا تو آپ نے فرمایا، بارہ ہوں گے، جتنی گنتی بنو اسرائیل کے نقیبوں کی تھی۔ یہ روایت سنداً غریب ہے، لیکن مضمون حدیث بخاری اور مسلم کی روایت سے بھی ثابت ہے، جابر بن سمرہ فرماتے ہیں " میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے، لوگوں کا کام چلتا رہے گا، جب تک ان کے والی بارہ شخص نہ ہو لیں، پھر ایک لفظ حضور ﷺ نے فرمایا لیکن میں نہ سن سکا تو میں نے دوسروں سے پوچھا کہ حضور ﷺ نے اب کونسا لفظ فرمایا، انہوں نے جواب دیا یہ فرمایا کہ یہ سب قریش ہوں گے۔ " صحیح مسلم میں یہی لفظ ہیں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بارہ خلیفہ صالح نیک بخت ہونگے۔ جو حق کو قائم کریں گے اور لوگوں میں عدل کرینگے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ سب پے درپے یکے بعد دیگرے ہی ہوں۔ پس چار خلفاء تو پے درپے حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت جن کی خلافت بطریق نبوت رہی۔ انہی بارہ میں سے پانچویں حضرت عمر بن عبد العزیز ہیں۔ بنو عباس میں سے بھی بعض اسی طرح کے خلیفہ ہوئے ہیں اور قیامت سے پہلے پہلے ان بارہ کی تعداد پوری ہونی ضروری ہے اور انہی میں سے حضرت امام مہدی ہیں، جن کی بشارت احادیث میں آچکی ہے ان کا نام حضور ﷺ کے نام پر ہوگا اور ان کے والد کا نام حضور ﷺ کے والد کا ہوگا، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے حالانکہ اس سے پہلے وہ ظلم و جبر سے پُر ہوگی لیکن اس سے شیعوں کا امام منتظر مراد نہیں، اس کی تو دراصل کوئی حقیقت ہی نہیں، نہ سرے سے اس کا کوئی وجود ہے، بلکہ یہ تو صرف شیعہ کی وہم پرستی اور ان کا تخیل ہے، نہ اس حدیث سے شیعوں کے فرقے اثنا عشریہ کے ائمہ مراد ہیں۔ اس حدیث کو ان ائمہ پر محمول کرنا بھی شیعوں کے اس فرقہ کی بناوٹ ہے جو ان کی کم عقلی اور جہالت کا کرشمہ ہے۔ توراۃ میں حضرت اسمعیل کی بشارت کے ساتھ ہی مرقوم ہے کہ ان کی نسل میں سے بارہ بڑے شخص ہونگے، اسے مراد بھی یہی مسلمانوں کے بارہ قریشی بادشاہ ہیں لیکن جو یہودی مسلمان ہوئے تھے، وہ اپنے اسلام میں کچے اور جاہل بھی تھے، انہوں نے شیعوں کے کان میں کہیں یہ صور پھونک دیا اور وہ سمجھ بیٹھے کہ اس سے مراد ان کے بارہ امام ہیں، ورنہ حدیثیں اس کے واضح خلاف موجود ہیں۔ اب اس عہد و پیمان کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں سے لیا تھا کہ وہ نمازیں پڑھتے رہیں، زکوٰۃ دیتے رہیں، اللہ کے رسولوں کی تصدیق کریں، ان کی نصرت و اعانت کریں اور اللہ کی مرضی کے کاموں میں اپنا مال خرچ کریں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ کی مدد و نصرت ان کے ساتھ رہے گی، ان کے گناہ معاف ہونگے اور یہ جنتوں میں داخل کئے جائیں گے، مقصود حاصل ہوگا اور خوف زائل ہوگا، لیکن اگر وہ اس عہد و پیما کے بعد پھرگئے اور اسے غیر معروف کردیا تو یقینا وہ حق سے دور ہوجائیں گے، بھٹک اور بہک جائیں گے۔ چناچہ یہی ہوا کہ انہوں نے میثاق توڑ دیا، وعدہ خلافی کی تو ان پر اللہ کی لعنت نازل ہوئی، ہدایت سے دور ہوگئے، ان کے دل سخت ہوگئے اور وعظ و پند سے مستفید نہ ہو سکے، سمجھ بگڑ گئی، اللہ کی باتوں میں ہیر پھیر کرنے لگے، باطل تاویلیں گھڑنے لگے، جو مراد حقیقی تھی، اس سے کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے سمجھانے لگے، اللہ کا نام لے کر وہ مسائل بیان کرنے لگے، جو مراد حقیقی تھی، اس سے کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے سمجھانے لگے، اللہ کا نام لے کر وہ مسائل بیان کرنے لگے جو اللہ کے بتائے ہوئے نہ تھے، یہاں تک کہ اللہ کی کتاب ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی، وہ اس سے بےعمل چھوٹ جانے کی توجہ سے نہ تو دل ٹھیک رہے، نہ فطرت اچھی رہی۔ نہ خلوص و اخلاص رہا، غداری اور مکاری کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ نت نئے جال نبی ﷺ اصحاب نبی کے خلاف بنتے رہے۔ پھر نبی ﷺ کو حکم ہوتا ہے کہ آپ ان سے چشم پوشی کیجئے، یہی معاملہ ان کے ساتھ اچھا ہے، جیسے حضرت عمر فاروق سے مروی ہے کہ جو تجھ سے اللہ کے فرمان کے خلاف سلوک کرے تو اس سے حکم الٰہی کی بجا آوری کے ماتحت سلوک کر۔ اس میں ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ ممکن ہے ان کے دل کھچ آئیں، ہدایت نصیب ہوجائے اور حق کی طرف آجائیں۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ یعنی دوسروں کی بدسلوکی سے چشم پوشی کر کے خود نیا سلوک کرنے والے اللہ کے محبوب ہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں " درگزر کرنے کا حکم جہاد کی آیت سے منسوب ہے۔ " پھر ارشاد ہوتا ہے کہ " ان نصرانیوں سے بھی ہم نے وعدہ لیا تھا کہ جو رسول آئے گا، یہ اس پر ایمان لائیں گے، اس کی مدد کرینگے اور اس کی باتیں مانیں گے۔ " لیکن انہوں نے بھی یہودیوں کی طرح بد عہدی کی، جس کی سزا میں ہم نے ان میں آپس میں عداوت ڈال دی جو قیامت تک جاری رہے گی۔ ان میں فرقے فرقے بن گئے جو ایک دوسرے کو کافر و ملعون کہتے ہیں اور اپنے عبادت خانوں میں بھی نہیں آنے دیتے " ملکیہ فرقہ یعقوبیہ فرقے کو، یعقوبیہ ملکیہ کو کھلے بندوں کافر کہتے ہیں، اسی طرح دوسرے تمام فرقے بھی، انہیں ان کے اعمال کی پوری تنبیہہ عنقریب ہوگی۔ انہوں نے بھی اللہ کی نصیحتوں کو بھلا دیا ہے اور اللہ پر تہمتیں لگائی ہیں اس پر بیوی اور اولاد والا ہونے کا بہتان باندھا ہے، یہ قیامت کے دن بری طرح پکڑے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ واحد واحد فرد و صمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد ہے۔

آیت 12 - سورۃ المائدہ: (۞ ولقد أخذ الله ميثاق بني إسرائيل وبعثنا منهم اثني عشر نقيبا ۖ وقال الله إني معكم ۖ لئن أقمتم...) - اردو