اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 11 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ ہَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَہُمْ فَکَفَّ اَیْدِیھُمْ عَنْکُمْ ج یہ غزوۂ احزاب کے بعد کے حالات پر تبصرہ ہے۔ اس غزوہ کے بعد ابھی کفارّ میں سے بہت سے لوگ پیچ و تاب کھا رہے تھے اور بعید نہیں تھا کہ وہ دو بار مہم جوئی کرتے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کردیے اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ دوبارہ لشکر کشی کی جرأت نہ کرسکے۔ اس صورت حال کا ذکر اللہ تعالیٰ یہاں پر اپنے انعام کے طور پر کر رہے ہیں کہ جب کفار نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر دست درازی کریں ‘ تمہارے اوپر زیادتی کرنے کے لیے ‘ تم پر فوج کشی کے لیے اقدام کریں۔اس میں خاص طور پر اشارہ صلح حدیبیہ کی طرف ہے۔ اس وقت بھی قریش لڑائی کے لیے بیتاب ہو رہے تھے ‘ ان کے نوجوانوں کا خون کھول رہا تھا ‘ لیکن بالآخر انہیں اس حقیقت کا ادراک ہوگیا کہ اب ہم مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور ان کے ہاتھوں کو مسلمانوں کے خلاف اٹھنے سے روک دیا۔
اب یہاں سے بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند واقعات آ رہے ہیں۔ آیت 12 وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ج یعنی اے مسلمانو ! جس طرح آج تم سے یہ میثاق لیا گیا ہے اور اللہ نے تمہیں شریعت کے میثاق میں باندھ لیا ہے ‘ بالکل اسی طرح کا میثاق اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی لیا تھا۔وَبَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ط۔بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے ‘ ہر قبیلے میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک نقیب مقرر کیا۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی انصار میں بارہ نقیب فرمائے تھے ‘ نو خزرج میں سے اور تین اوس سے۔وَقَال اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ ط۔ میری مدد ‘ میری تائید ‘ میری نصرت تمہارے ساتھ شامل حال رہے گی۔لَءِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ یہ جن رسولوں کا ذکر ہے وہ پے در پے بنی اسرائیل میں آتے رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد تو رسالت کا یہ سلسلہ ایک تار کی مانند تھا جو چھ سو برس تک ٹوٹا ہی نہیں۔ پھر ذرا سا وقفہ چھ سوبرس کا آیا اور پھر اس کے بعد نبی آخر الزمان ﷺ تشریف لائے۔ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یعنی اللہ کے دین کے لیے مال خرچ کرتے رہے۔
آیت 13 فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ لَعَنّٰہُمْ میں نے سورة النساء آیت 155 میں لَعَنّٰہُمْ محذوف قرار دیا تھا ‘ لیکن یہاں پر یہ واضح ہو کر آگیا ہے کہ ہم نے ان کے اس میثاق کو توڑنے کی پاداش میں ان پر لعنت فرمائی۔وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قٰسِیَۃًج ۔جیسے سورة البقرہ آیت 74 میں فرمایا : ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط پھر تمہارے دل سخت ہوگئے اس کے بعد ‘ پتھروں کی طرح بلکہ پتھروں سے بھی بڑھ کر سخت۔ یہاں پر وہی بات دہرائی گئی ہے۔یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ لا ‘ وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ ج اور انہوں نے اس سے فائدہ اٹھانا چھوڑ دیا۔ وَلاَ تَزَالُ تَطَّلِِعُ عَلٰی خَآءِنَۃٍ مِّنْہُمْ رسول اللہ ﷺ جیسے ہی مدینہ پہنچے تھے تو آپ ﷺ نے اس نئی جگہ پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے پہلے چھ مہینوں میں جو تین کام کیے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ یہود کے تینوں قبیلوں سے مدینہ کے مشترکہ دفاع کے معاہدے کرلیے کہ اگر مدینے پر حملہ ہوگا تو سب مل کر اس کا دفاع کریں گے ‘ لیکن بعد میں ان میں سے ہر قبیلے نے ایک ایک کرکے غداری کی۔ چناچہ نبی اکرم ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان کی طرف سے مسلسل خیانتیں ہوتی رہیں گی ‘ لہٰذا آپ کو ان کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہیے اور ان کا توڑ کرنے کے لیے پہلے سے تیار رہنا چاہیے۔ اِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ ان میں سے بہت تھوڑے لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں۔