سورۃ المائدہ: آیت 119 - قال الله هذا يوم ينفع... - اردو

آیت 119 کی تفسیر, سورۃ المائدہ

قَالَ ٱللَّهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ ٱلصَّٰدِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّٰتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ

اردو ترجمہ

تب اللہ فرمائے گا "یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو اُن کی سچائی نفع دیتی ہے، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کامیابی ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala Allahu hatha yawmu yanfaAAu alssadiqeena sidquhum lahum jannatun tajree min tahtiha alanharu khalideena feeha abadan radiya Allahu AAanhum waradoo AAanhu thalika alfawzu alAAatheemu

آیت 119 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 119۔

” یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے “ یہ اللہ کی بات ہے اور جھوٹوں کی اس شرمندگی پر یہ خوب تصرہ ہے ۔ انہوں نے یہ افتراء باندھا اور یہ افتراء بھی اولوا لعزم رسولوں میں ایک معزز رسول پر باندھا ۔ اور مسئلہ الوہیت اور بندگی میں یہ افتراء باندھا جس کی اساس پر یہ پوری کائنات قائم ہے اور جس کی اساس پر دنیا میں سچائی قائم ہے اور تمام مخلوقات قائم ہے ۔

” یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کیلئے ان کی سچائی مفید ہوگی ۔ “ اس عظیم منظر اور شاہی دربار کے سوال و جواب کے آخر میں یہ رب العالمین کا فیصلہ ہے ۔ تمام جہان کے لوگوں کی موجودگی میں اس منظر کے مکالے کے یہ آخری الفاظ ہیں اور کس قدر فیصلہ کن الفاظ ہیں اور اس کے بعد پھر سچوں کے انجام کی ایک جھلکی بھی دکھائی دیتی ہے ۔

(آیت) ” لَہُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (119)

” ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ‘ یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ‘ اللہ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ سے ‘ یہی بڑی کامیابی ہے ۔ “

درجوں کے بعد بلند درجے ‘ پھر ان میں دائمی زندگی اور پھر اللہ کی رضا مندی یقینا یہ بڑی کامیابی ۔ “

ہم نے یہ منظر دیکھا اور یہ منظر قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز اور اسلوب میں پیش کیا ۔ اس منظر کا آخری مکالمہ بھی ہم نے سنا ۔ ہم نے گویا اس منظر دیکھا اپنی آنکھوں کے ساتھ اور سنا اپنے کانوں کے ساتھ۔ قرآن کریم کے انداز تصویر کشی کے مطابق بات کا طریقہ یہ نہیں اختیار کیا جاتا ہے کہ ایسا ہوگا بلکہ عملا منظر پیش کردیا جاتا ہے ۔ انسان کو اس منظر موعودہ کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ۔ قرآن کریم محض خشک عبارت ہی پیش نہیں کرتا جسے صرف پڑھا جائے بلکہ وہ متحرک اور مجسم اور شخص مناظر پیش کرتا ہے جس میں انسان چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اور مکالمے ہوتے ہوئے اس طرح نظر آتے ہیں جس طرح اسکرین پر ۔

ہماری سوچ اور ہمارے تصور کے مطابق تو یہ ایک منظر ہوگا جو واقع ہوگا ‘ البتہ اللہ کے علم کے مطابق تو وہ وہ چکا اس لئے کہ اللہ کا علم زمان ومکان کے حدود وقیود سے آزاد ہے ۔ زمان ومکان کا تصور تو انسان کے محدود علم کے لئے ہے ۔ ہمارا علم محدود اور فانی ہے ۔

اس سبق کے آخر میں اور اس عظیم افتراء کے بیان کے خاتمے پر جس سے بڑا افتراء کسی رسول کے کسی پیروکار نے نہیں باندھا ۔ حضرت مسیح کے پیروکاروں کی اس عظیم غلط فہمی کے بیان کے آخر میں جس میں انہوں نے اس افتراء سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور ان افتراء پر دازی کرنے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ۔ اس کے بارے میں اس سوال و جواب اور اس سوال و جواب کے لئے قائم کئے گئے اس عظیم دربار کے خاتمے پر اب یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کے افتراؤں سے پاک ہے اور زمین وآسمانوں پر صرف اسی کی حکومت اور اس کی حکومت بےحد وبے قید ہے ۔

رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ یہ ہے باہمی رضا مندی کا آخری مقام ‘ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔

موحدین کے لیے خوش خبریاں حضرت عیسیٰ بن مریم ؑ کو ان کی بات کا جو جواب قیامت کے دن ملے گا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ آج کے دن موحدوں کو توحید نفع دے گی، وہ ہمیشگی والی جنت میں جائیں گے، وہ اللہ سے خوش ہوں گے اور اللہ ان سے خوش ہوگا، فی الواقع رب کی رضامندی زبر دست چیز ہے، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اور ان سے کہے گا تم جو چاہو مجھ سے مانگو میں دوں گا، وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی خوشنودی طلب کریں گے، اللہ تعالیٰ سب کے سامنے اپنی رضامندی کا اظہار کرے گا، پھر فرماتا ہے یہ ایسی بےمثل کامیابی ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی، جیسے اور جگہ ہے اسی کیلئے عمل کرنے والوں کو عمل کی کوشش کرنی چاہیے اور آیت میں ہے رغبت کرنے والے اس کی رغبت کرلیں، پھر فرماتا ہے سب کا خالق، سب کا مالک، سب پر قادر، سب کا متصرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، ہر چیز اسی کی ملکیت میں اسی کے قبضے میں اسی کی چاہت میں ہے، اس جیسا کوئی نہیں، نہ کوئی اس کا وزیر و مشیر ہے، نہ کوئی نظیر و عدیل ہے نہ اس کی ماں ہے، نہ باپ، نہ اولاد نہ بیوی۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ کوئی اس کے سوا رب ہے، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں۔ سب سے آخری سورت یہی سورة مائدہ اتری ہے۔ (الحمد اللہ سورة مائدہ کی تفسیر ختم ہوئی)

آیت 119 - سورۃ المائدہ: (قال الله هذا يوم ينفع الصادقين صدقهم ۚ لهم جنات تجري من تحتها الأنهار خالدين فيها أبدا ۚ رضي الله...) - اردو