سورۃ المائدہ (5): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المائدہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Maaida
سُورَةُ المَائـِدَةِ
صفحہ 127 (آیات 114 سے 120 تک)

قَالَ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ ٱللَّهُمَّ رَبَّنَآ أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ ٱلسَّمَآءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَءَاخِرِنَا وَءَايَةً مِّنكَ ۖ وَٱرْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ ٱلرَّٰزِقِينَ قَالَ ٱللَّهُ إِنِّى مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۖ فَمَن يَكْفُرْ بَعْدُ مِنكُمْ فَإِنِّىٓ أُعَذِّبُهُۥ عَذَابًا لَّآ أُعَذِّبُهُۥٓ أَحَدًا مِّنَ ٱلْعَٰلَمِينَ وَإِذْ قَالَ ٱللَّهُ يَٰعِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ ءَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ ٱتَّخِذُونِى وَأُمِّىَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ ٱللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَٰنَكَ مَا يَكُونُ لِىٓ أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِى بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُۥ فَقَدْ عَلِمْتَهُۥ ۚ تَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِى وَلَآ أَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّٰمُ ٱلْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَآ أَمَرْتَنِى بِهِۦٓ أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ أَنتَ ٱلرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ قَالَ ٱللَّهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ ٱلصَّٰدِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّٰتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ لِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌۢ
127

سورۃ المائدہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المائدہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اس پر عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی "خدایا! ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہم کو رزق دے اور تو بہترین رازق ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala AAeesa ibnu maryama allahumma rabbana anzil AAalayna maidatan mina alssamai takoonu lana AAeedan liawwalina waakhirina waayatan minka waorzuqna waanta khayru alrraziqeena

اردو ترجمہ

اللہ نے جواب دیا "میں اُس کو تم پر نازل کرنے والا ہو ں، مگر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہوگی"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala Allahu innee munazziluha AAalaykum faman yakfur baAAdu minkum fainnee oAAaththibuhu AAathaban la oAAaththibuhu ahadan mina alAAalameena

اردو ترجمہ

غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر) اللہ فرمائے گا کہ "اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو؟" تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ "سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی، تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala Allahu ya AAeesa ibna maryama aanta qulta lilnnasi ittakhithoonee waommiya ilahayni min dooni Allahi qala subhanaka ma yakoonu lee an aqoola ma laysa lee bihaqqin in kuntu qultuhu faqad AAalimtahu taAAlamu ma fee nafsee wala aAAlamu ma fee nafsika innaka anta AAallamu alghuyoobi

(آیت) ” نمبر 116 تا 118۔

اللہ تعالیٰ تو خوب جانتے تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں کے سامنے کن عقائد کی تبلیغ کرتے رہے ہیں ۔ لیکن اس خوفناک دن میں یہ عظیم جواب طلبی اور پھر ایسے شخص سے جو ذمہ دار بھی نہیں ہے ‘ اس لئے کہ گئی کہ اس صالح بندے اور ان کی والدہ کو جو لوگ الہ تصور کرتے تھے ‘ ان کا یہ پورا موقف اچھی طرح واضح ہوجائے اور وہ خوب شرمندہ ہو۔

یہ اس قدر عظیم جسارت ہے کہ کوئی عام اور معقول انسان اس قسم کا کوئی دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ خود الہ ہے ۔ جبکہ وہ جانتا ہو کہ وہ بندہ ہے ۔ ایک رسول اس قسم کا دعوی کب کرسکتا ہے اور پھر اولوالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جیسا رسول ۔ حالانکہ اللہ نے رسالت سے پہلے اور رسالت کے بعد اسے معجزات اور مقامات عطا کئے تھے اور ان پر عظیم انعامات کئے تھے اور اعزاز بخشے تھے ۔ ایسے رسول کب ایسا دعوی کرسکتے ہیں ۔ ایک صالح اور راہ راست پر گامزن رسول ۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت کی طرف سے نہایت ہی خشوع و خضوع کے ساتھ عاجزانہ جواب آتا ہے ۔ نہایت ہی حمد وثنا کے ساتھ (آیت) ” سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِیْ أَنْ أَقُولَ مَا لَیْْسَ لِیْ بِحَقٍّ (5 : 116) ” سبحان اللہ ‘ میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا ۔ “ اس طرح حضرت جلدی سے جواب دے دیتے ہیں کہ میں نے مطلقا یہ بات نہیں کہی ۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی برات پر اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہیں اور اپنی عاجزی دکھاتے ہوئے اللہ کے خصائص الوہیت اور بندے کے شایان عبودیت کے افعال بتاتے ہیں ۔

(آیت) ” إِن کُنتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلاَ أَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ إِنَّکَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ (116)

” اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے ‘ آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں “۔

اس قدر تسبیح اور پاکی بیان کرنے کے بعد اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہ جرات کرتے ہیں کہ وہ کوئی مثبت بات کریں اور یہ کہیں کہ انہوں نے ہر گز نہیں ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے ۔ بلکہ انہوں نے تو یہ کہا ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور تم بھی سب صرف اللہ ہی کی بندگی کرو۔

(آیت) ” مَا قُلْتُ لَہُمْ إِلاَّ مَا أَمَرْتَنِیْ بِہِ أَنِ اعْبُدُواْ اللّہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ (5 : 117)

” میں نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا ‘ یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ “ اور آپ (علیہ السلام) یہ فرماتے ہیں کہ میں تو ان پر نگران صرف اس وقت تک کے لئے تھا جب میں ان کے سامنے تھا ۔ لیکن اپنی وفات کے بعد میں نگران نہ تھا ۔ قرآن کی ظاہری آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وفات دی اور پھر اپنی طرف اٹھا لیا جب کہ بعض آثار میں یہ آتا ہے کہ آپ اللہ کے ہاں زندہ ہیں ۔ میرے خیال میں دونوں قسم کے نصوص میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ زمین کی زندگی سے ان کا قطع تعلق ہوگیا ہو اور انہیں اٹھا لیا گیا ہو اور یہ بھی درست ہے کہ انہیں زندہ حالت میں اٹھا لیا گیا ہو کیونکہ شہداء بھی تو اللہ کے ہاں زندہ ہوتے ہیں اگرچہ دنیا سے ان کی زندگی کٹ جاتی ہے اگرچہ شہداء کی زندگی کی نوعیت کا ہمیں تفصیلی علم نہیں ہے ۔ یہی صورت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ میری وفات کے بعد مجھے علم نہ تھا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں ؟

(آیت) ” وَکُنتُ عَلَیْْہِمْ شَہِیْداً مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْْتَنِیْ کُنتَ أَنتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْْہِمْ وَأَنتَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ شَہِیْدٌ(117)

” میں اسی وقت تک ان کا نگران تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا ۔ جب آپ نے مجھے واپس بلا لیا تو آپ ان پر نگران تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگران ہیں ۔ “

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیتے ہیں کہ آپ چاہیں تو سزا دیں اور اگر آپ ان کو بخش دیں تو بھی آپ قادر مطلق ہیں ۔ بہرحال وہ ہیں تیرے ہی بندے اور آپ ہی جانتے ہیں کہ ان کے لئے سزا مقرر ہے یا مغفرت ۔

(آیت) ” إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (118)

” اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ غالب اور دانا ہیں ۔ “

ذرا ملاحظہ تو کیجئے کہ اللہ کے یہ صالح اور مقرب بندے بارگاہ الوہیت میں کس قدر خوفزدہ ہیں اور ان لوگوں کی جرات کو دیکھئے جنہوں نے یہ افتراء باندھا ‘ جس سے حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) صاف صاف برات کا اظہار کرتے ہیں اور ان لوگوں کی اس افتراء کی وجہ سے یہ بندہ اللہ کے سامنے اس طرح گڑ گڑاتے ہوئے کلام کرتا ہے ۔

ان لوگوں کے موقف کو دیکھئے اور اس عظیم دربار کو دیکھئے ۔ اس دربار میں اپنے اس غلط موقف کی وجہ سے اس قدر ذلیل و حقیر نظر آتے ہیں کہ اس پورے مکالمے میں ان کے ساتھ کوئی بات نہیں کی جاتی اور نہ ان کی طرف کوئی التفات کیا جاتا ہے ۔ شاید اس منظر میں شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے یہ لوگ پسینہ پسینہ ہوگئے ہوں گے ۔ جس طرح اللہ نے انہیں نظر انداز کیا ہم بھی انہیں اسی طرح چھوڑتے ہیں اور آئیے ذرا اس دربار کے آخری منظر کو دیکھیں ۔

اردو ترجمہ

میں نے اُن سے اُس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی میں اُسی وقت تک ان کا نگراں تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا جب آپ نے مجھے واپس بلا لیا تو آپ ان پر نگراں تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگراں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma qultu lahum illa ma amartanee bihi ani oAAbudoo Allaha rabbee warabbakum wakuntu AAalayhim shaheedan ma dumtu feehim falamma tawaffaytanee kunta anta alrraqeeba AAalayhim waanta AAala kulli shayin shaheedun

اردو ترجمہ

اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In tuAAaththibhum fainnahum AAibaduka wain taghfir lahum fainnaka anta alAAazeezu alhakeemu

اردو ترجمہ

تب اللہ فرمائے گا "یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو اُن کی سچائی نفع دیتی ہے، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کامیابی ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala Allahu hatha yawmu yanfaAAu alssadiqeena sidquhum lahum jannatun tajree min tahtiha alanharu khalideena feeha abadan radiya Allahu AAanhum waradoo AAanhu thalika alfawzu alAAatheemu

(آیت) ” نمبر 119۔

” یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے “ یہ اللہ کی بات ہے اور جھوٹوں کی اس شرمندگی پر یہ خوب تصرہ ہے ۔ انہوں نے یہ افتراء باندھا اور یہ افتراء بھی اولوا لعزم رسولوں میں ایک معزز رسول پر باندھا ۔ اور مسئلہ الوہیت اور بندگی میں یہ افتراء باندھا جس کی اساس پر یہ پوری کائنات قائم ہے اور جس کی اساس پر دنیا میں سچائی قائم ہے اور تمام مخلوقات قائم ہے ۔

” یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کیلئے ان کی سچائی مفید ہوگی ۔ “ اس عظیم منظر اور شاہی دربار کے سوال و جواب کے آخر میں یہ رب العالمین کا فیصلہ ہے ۔ تمام جہان کے لوگوں کی موجودگی میں اس منظر کے مکالے کے یہ آخری الفاظ ہیں اور کس قدر فیصلہ کن الفاظ ہیں اور اس کے بعد پھر سچوں کے انجام کی ایک جھلکی بھی دکھائی دیتی ہے ۔

(آیت) ” لَہُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (119)

” ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ‘ یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ‘ اللہ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ سے ‘ یہی بڑی کامیابی ہے ۔ “

درجوں کے بعد بلند درجے ‘ پھر ان میں دائمی زندگی اور پھر اللہ کی رضا مندی یقینا یہ بڑی کامیابی ۔ “

ہم نے یہ منظر دیکھا اور یہ منظر قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز اور اسلوب میں پیش کیا ۔ اس منظر کا آخری مکالمہ بھی ہم نے سنا ۔ ہم نے گویا اس منظر دیکھا اپنی آنکھوں کے ساتھ اور سنا اپنے کانوں کے ساتھ۔ قرآن کریم کے انداز تصویر کشی کے مطابق بات کا طریقہ یہ نہیں اختیار کیا جاتا ہے کہ ایسا ہوگا بلکہ عملا منظر پیش کردیا جاتا ہے ۔ انسان کو اس منظر موعودہ کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ۔ قرآن کریم محض خشک عبارت ہی پیش نہیں کرتا جسے صرف پڑھا جائے بلکہ وہ متحرک اور مجسم اور شخص مناظر پیش کرتا ہے جس میں انسان چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اور مکالمے ہوتے ہوئے اس طرح نظر آتے ہیں جس طرح اسکرین پر ۔

ہماری سوچ اور ہمارے تصور کے مطابق تو یہ ایک منظر ہوگا جو واقع ہوگا ‘ البتہ اللہ کے علم کے مطابق تو وہ وہ چکا اس لئے کہ اللہ کا علم زمان ومکان کے حدود وقیود سے آزاد ہے ۔ زمان ومکان کا تصور تو انسان کے محدود علم کے لئے ہے ۔ ہمارا علم محدود اور فانی ہے ۔

اس سبق کے آخر میں اور اس عظیم افتراء کے بیان کے خاتمے پر جس سے بڑا افتراء کسی رسول کے کسی پیروکار نے نہیں باندھا ۔ حضرت مسیح کے پیروکاروں کی اس عظیم غلط فہمی کے بیان کے آخر میں جس میں انہوں نے اس افتراء سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور ان افتراء پر دازی کرنے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ۔ اس کے بارے میں اس سوال و جواب اور اس سوال و جواب کے لئے قائم کئے گئے اس عظیم دربار کے خاتمے پر اب یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کے افتراؤں سے پاک ہے اور زمین وآسمانوں پر صرف اسی کی حکومت اور اس کی حکومت بےحد وبے قید ہے ۔

اردو ترجمہ

زمین اور آسمانوں اور تمام موجودات کی پادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lillahi mulku alssamawati waalardi wama feehinna wahuwa AAala kulli shayin qadeerun

(آیت) ” 120۔

یہ ایک ایسا اختتامی تبصرہ ہے جو اس عظیم مسئلے کی بحث کے خاتمے کے لئے موزوں اور مناسب ہے ۔ نیز اس عظیم منظر سے جو تاثر ملتا ہے اس کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے ۔ یہاں اللہ وحدہ الہ ہے اور وہی قادر مطلق ہے ۔ اس کے سامنے تمام رسول سرتسلیم خم کرتے ہیں اور سب رسول آخری فیصلہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں اس میں حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) بھی اپنا فیصلہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں ۔ جس کے ہاتھ میں زمین وآسماں کی حکومت ہے ۔

اور یہ آخری تبصرہ اس پوری سورت کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ اس سورة کا مرکزی موضوع ” الدین “ ہے اور دین اور دینداری کا اظہار اللہ کی شریعت کی اطاعت میں ہوتا ہے ۔ صرف اللہ کے قوانین و ضوابط اخذ کرنا اور صرف اسی کے مطابق فیصلے کرنا اس لئے کہ وہی بادشاہ ہے جس کے سوا کوئی بادشاہ نہیں ہے ۔ زمین و آسمان کے درمیان جس قدر چیزیں بھی ہیں وہ اس کی مملوک ہیں اور یہ مالک اور بادشاہ یہ آرڈنینس جاری فرماتا ہے ۔ (آیت) ” ومن لم یحکم بما انز اللہ فاولئک ھم الکافرون “ ” اور جو شخص اس قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتا جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہ کافر ہے ۔ “ یہی ایک مسئلہ ہے اور یہ اللہ کی حاکمیت کا مسئلہ ہے ۔ یہ عقیدہ توحید کا مسئلہ ہے ۔ اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا مسئلہ ہے ‘ جس کے بعد ہی مکمل توحید وجود میں آتی ہے اور صرف اللہ الہ وحاکم قرار پاتا ہے ۔

127