سورۃ المائدہ (5): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المائدہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Maaida
سُورَةُ المَائـِدَةِ
صفحہ 127 (آیات 114 سے 120 تک)

قَالَ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ ٱللَّهُمَّ رَبَّنَآ أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ ٱلسَّمَآءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَءَاخِرِنَا وَءَايَةً مِّنكَ ۖ وَٱرْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ ٱلرَّٰزِقِينَ قَالَ ٱللَّهُ إِنِّى مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۖ فَمَن يَكْفُرْ بَعْدُ مِنكُمْ فَإِنِّىٓ أُعَذِّبُهُۥ عَذَابًا لَّآ أُعَذِّبُهُۥٓ أَحَدًا مِّنَ ٱلْعَٰلَمِينَ وَإِذْ قَالَ ٱللَّهُ يَٰعِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ ءَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ ٱتَّخِذُونِى وَأُمِّىَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ ٱللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَٰنَكَ مَا يَكُونُ لِىٓ أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِى بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُۥ فَقَدْ عَلِمْتَهُۥ ۚ تَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِى وَلَآ أَعْلَمُ مَا فِى نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّٰمُ ٱلْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَآ أَمَرْتَنِى بِهِۦٓ أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ أَنتَ ٱلرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ قَالَ ٱللَّهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ ٱلصَّٰدِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّٰتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ لِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌۢ
127

سورۃ المائدہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المائدہ کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

اس پر عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی "خدایا! ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہم کو رزق دے اور تو بہترین رازق ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala AAeesa ibnu maryama allahumma rabbana anzil AAalayna maidatan mina alssamai takoonu lana AAeedan liawwalina waakhirina waayatan minka waorzuqna waanta khayru alrraziqeena

اردو ترجمہ

اللہ نے جواب دیا "میں اُس کو تم پر نازل کرنے والا ہو ں، مگر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہوگی"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala Allahu innee munazziluha AAalaykum faman yakfur baAAdu minkum fainnee oAAaththibuhu AAathaban la oAAaththibuhu ahadan mina alAAalameena

اردو ترجمہ

غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر) اللہ فرمائے گا کہ "اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو؟" تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ "سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی، تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala Allahu ya AAeesa ibna maryama aanta qulta lilnnasi ittakhithoonee waommiya ilahayni min dooni Allahi qala subhanaka ma yakoonu lee an aqoola ma laysa lee bihaqqin in kuntu qultuhu faqad AAalimtahu taAAlamu ma fee nafsee wala aAAlamu ma fee nafsika innaka anta AAallamu alghuyoobi

روز قیامت نصاریٰ کی شرمندگی جن لوگوں نے مسیح پرستی یا مریم پرستی کی تھی، ان کی موجودگی میں قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت عیسیٰ ؑ سے سوال کرے گا کہ کیا تم ان لوگوں سے اپنی اور اپنی والدہ کی پوجا پاٹ کرنے کو کہہ آئے تھے ؟ اس سوال سے مردود نصرانیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور ان پر غصے ہونا ہے تاکہ وہ تمام لوگوں کے سامنے شرمندہ اور ذلیل و خوار ہوں۔ حضرت قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے اور اس پر وہ آیت (هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ) 5۔ المائدہ :119) سے استدلال کرتے ہیں۔ سدی فرماتے ہیں یہ خطاب اور جواب دینا ہی کافی ہے، امام ابن جریر ؒ اس قول کو ٹھیک بتا کر فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو آسمان دنیا پر چڑھا لیا تھا، اس کی دلیل ایک تو یہ ہے کہ کلام لفظ ماضی کے ساتھ ہے، دوسری دلیل آیت (ان تعذبھم) ہے لیکن یہ دونوں دلیلیں ٹھیک نہیں، پہلی دلیل کا جواب تو یہ ہے کہ بہت سے امور جو قیامت کے دن ہونے والے ہیں ان کا ذکر قرآن کریم میں لفط ماضی کے ساتھ موجود ہے، اس سے مقصود صرف اسی قدر ہے کہ وقوع اور ثبوت بخوبی ثابت ہوجائے، دوسری دلیل کا جواب یہ ہے کہ اس سے مقصود جناب مسیح ؑ کا یہ ہے کہ ان سے اپنی برات ظاہر کردیں اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیں، اسے شرط کے ساتھ معلق رکھنے سے اس کا وقوع لازم نہیں جیسے کہ اسی جگہ اور آیتوں میں ہے، زیادہ ظاہر وہی تفسیر ہے جو حضرت قتادہ وغیرہ سے مروی ہے اور جو اوپر گزر چکی ہے یعنی یہ کہ یہ گفتگو اور یہ سوال جواب قیامت کے دن ہوں گے تاکہ سب کے سامنے نصرانیوں کی ذلت اور ان پر ڈانٹ ڈپٹ ہو چناچہ ایک مرفوع غریب و عزیز حدیث میں بھی مروی ہے، جسے حافظ ابن عساکر ؒ ابو عبداللہ مولی عمر بن عبدالعزیز کے حالات میں لائے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن انبیاء اپنی اپنی امتوں سمیت اللہ کے سامنے بلوائے جائیں گے پھر حضرت عیسیٰ بلوائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے احسان انہیں جتلائے گا جن کا وہ اقرار کریں گے فرمائے گا کہ اے عیسیٰ جو احسان میں نے تجھ پر اور تیری والدہ پر کئے، انہیں یاد کر، پھر فرمائے گا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ کو الہ سمجھنا، آپ اس کا بالکل انکار کریں گے، پھر نصرانیوں کو بلا کر ان سے دریافت فرمائے گا تو وہ کہیں گے، ہاں انہوں نے ہی ہمیں اس راہ پر ڈالا تھا اور ہمیں یہی حکم دیا تھا، اسی لیے حضرت عیسیٰ کے سارے بدن کے بال کھڑے ہوجائیں گے، جنہیں لے کر فرشتے اللہ کے سامنے جھکا دیں گے بہ مقدار ایک ہزار سال کے یہاں تک کہ عیسائیوں پر حجت قائم ہوجائے گی، اب ان کے سامنے صلیب کھڑی کی جائے گی اور انہیں دھکے دے کر جہنم میں پہنچا دیا جائے گا، جناب عیسیٰ کے جواب کو دیکھئے کہ کس قدر باادب اور کامل ہے ؟ دراصل یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے، آپ کو اسی وقت یہ جواب سکھایا جائے گا جیسے کہ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ آپ فرمائیں گے کہ باری تعالیٰ نے مجھے ایسی بات کہنے کا حق تھا نہ میں نے کہا، تجھ سے نہ میری کوئی بات پوشیدہ ہے نہ میرا کوئی ارادہ چھپا ہوا ہے، دلی راز تجھ پر ظاہر ہیں، ہاں تیرے بھید کسی نے نہیں پائے تمام ڈھکی چھپی باتیں تجھ پر کھلی ہوئی ہیں غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے، جس تبلیغ پر میں مامور اور مقرر تھا میں نے تو وہی تبیلغ کی تھی جو کچھ مجھ سے اے جناب باری تو نے ارشاد فرمایا تھا وہی بلا کم وکاست میں نے ان سے کہہ دیا تھا۔ جا کا ما حصل یہ ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، وہی میرا رب ہے اور وہی تم سب کا پالنہار ہے، جب میں ان میں موجود تھا ان کے اعمال دیھکتا بھالتا تھا لیکن جب تو نے مجھے بلا لیا پھر تو تو ہی دیکھتا بھالتا رہا اور تو تو ہر چیز پر شاہد ہے، ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک واعظ میں فرمایا اے لوگو تم سب اللہ عز و جل کے سامنے ننگے پیر، ننگے بدن، بےختنہ جمع ہونے والے ہو، جیسے کہ ہم نے شروع پیدائش کی تھی ویسے ہی دوبارہ لوٹائیں گے، سب سے پہلے خلیل اللہ حضرت ابراہیم ؑ کو کپڑے پہنائے جائیں گے سنو کچھ لوگ میری امت کے ایسے لائے جائیں گے جنہیں بائیں جانب گھسیٹ لیا جائے گا تو میں کہوں گا یہ تو میرے ہیں، کہا جائے گا، آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا گل کھلائے تھے، تو میں وہی کہوں گا جو اللہ کے صالح بندے کا قول ہے کہ جب تک میں ان میں رہا، ان کے اعمال پر شاہد تھا، پس فرمایا جائیگا کہ آپ کے بعد یہ تو دین سے مرتد ہی ہوتے رہے۔ اس کے بعد کی آیت کا مضمون اللہ تعالیٰ کی چاہت اور اسکی مرضی کی طرف کاموں کو لوٹانا ہے، وہ جو کچھ چاہے کرتا ہے اس سے کوئی کسی قسم کا سوال نہیں کرسکتا اور وہ ہر ایک سے باز پرس کرتا ہے، ساتھ ہی اس مقولے میں جناب مسیح کی بیزاری ہے، ان نصرانیوں سے جو اللہ پر اور اس کے رسول پر بہتان باندھتے تھے اور اللہ کا شریک ٹھہراے تھے اور اس کی اولاد اور بیوی بتاتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کی ان تہمتوں سے پاک ہے اور وہ بلندو برتر ہے۔ اس عظیم الشان آیت کی عظمت کا اظہار اس حدیث سے ہوتا ہے، جس میں ہے کہ پوری ایک رات اللہ کے نبی ﷺ اسی ایک آیت کی تلاوت فرماتے رہے، چناچہ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات نماز پڑھی اور صبح تک ایک ہی آیت کی تلاوت فرماتے رہے، اسی کو رکوع میں اور اسی کو سجدے میں پڑھتے رہے، وہ آیت یہی ہے صبح کو حضرت ابوذر ؓ نے کہا یا رسول اللہ آج کی رات تو آپ نے اسی ایک آیت میں گزاری رکوع میں بھی اس کی تلاوت رہی اور سجدے میں بھی، آپ نے فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کی شفات کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا، پس میری یہ شفاعت ہر موحد شخص کیلئے ہوگی، انشاء اللہ تعالیٰ ، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے حضرت جرہ بنت دجاجہ عمرے کے ارادے سے جاتی ہیں جب ربذہ میں پہنچتنی ہیں تو حضرت ابوذر ؓ سے حدیث سنتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نے عشاء کی نماز پڑھائی، فرضوں کے بعد دیکھا کہ صحابہ نماز میں مشغول ہیں تو آپ اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے، جب جگہ خالی ہوگئی اور صحابہ چلے گئے تو آپ واپس تشریف لائے اور نماز میں کھڑے ہوگئے میں بھی آگیا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا تو آپ نے اپنی دائیں طرف کھڑا ہونے کا مجھے اشارہ کیا، میں دائیں جانب آگیا، پھر حضرت ابن مسعود ؓ آئے اور وہ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تو آپ نے اپنی بائیں طرف کھڑے ہونے کا اشارہ کیا چناچہ وہ آ کر بائیں جانب کھڑے ہوگئے، اب ہم تینوں نے اپنی اپنی نماز شروع کی الگ الگ تلاوت قرآن اپنی نماز میں کر رہے تھے اورحضور ﷺ کی زبان مبارک پر ایک ہی آیت تھی، بار بار اسی کو پڑھ رہے تھے، جب صبح ہوئی تو میں نے حضرت ابن مسعود سے کہا کہ ذرا حضور سے دریافت تو کرو کہ رات کو ایک ہی آیت کے پڑھنے کی کیا وجہ تھی ؟ انہوں نے کہا اگر حضور خود کچھ فرمائیں تو اور بات ہے ورنہ میں تو کچھ بھی نہ پوچھو گا، اب میں نے خود ہی جرات کر کے آپ سے دریافت کیا کہ حضور پر میرے ماں باپ فدا ہوں، سارا قرآن تو آپ پر اترا ہے اور آپ کے سینے میں ہے پھر آپ نے ایک ہی آیت میں ساری رات کیسے گزار دی ؟ اگر کوئی اور ایسا کرتا تو ہمیں تو بہت برا معلوم ہوتا، آپ نے فرمایا اپنی امت کے لئے دعا کر رہا تھا، میں نے پوچھا پھر کیا جواب ملا ؟ آپ نے فرمایا اتنا اچھا، ایسا پیارا، اس قدر آسانی والا کہ اگر عام لوگ سن لیں تو ڈر ہے کہ کہیں نماز بھی نہ چھوڑ بیٹھیں، میں نے کہا مجھے اجازت ہے کہ میں لوگوں میں یہ خوش خبری پہنچا دوں ؟ آپ نے اجازت دی، میں ابھی کچھ ہی دور گیا ہوں گا کہ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ اگر یہ خبر آپ نے عام طور پر کرا دی تو ڈر ہے کہ کہیں لوگ عبادت سے بےپرواہ نہ ہوجائیں تو آپ نے آواز دی کہ لوٹ آئے اور وہ آیت (ان تعذبھم) الخ، تھی ابن ابی حاتم میں ہے حضور نے حضرت عیسیٰ کے اس قول کی تلاوت کی پھر ہاتھ اٹھا کر فرمایا اے میرے رب میری امت اور آپ رونے لگے، اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو حکم دیا کہ جا کر پوچھو کہ کیوں رو رہے ہیں ؟ حالانکہ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے، حضرت جبرائیل ؑ آئے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اپنی امت کے لئے ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا جاؤ کہہ دو کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں خوش کردیں گے اور آپ بالکل رنجیدہ نہ ہوں گے، مسند احمد میں ہے حضرت حذیفہ فرماتے ہیں ایک روز رسول ﷺ ہمارے پاس آئے ہی نہیں یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ آج آپ آئیں گے ہی نہیں، پھر آپ تسریف لائے اور آتے ہی سجدے میں گرپڑے اتنی دیر لگ گئی کہ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں آپ کی روح پرواز نہ کرگئی ہو ؟ تھوڑی دیر میں آپ نے سر اٹھایا اور فرمانے لگے مجھ سے میرے رب عزوجل نے میری امت کے بارے میں دریافت فرمایا کہ میں ان کے ساتھ کیا کروں ؟ میں نے عرض کیا کہ باری تعالیٰ وہ تیری مخلوق ہے وہ سب تیرے بندے اور تیرے غلام ہیں تجھے اختیار ہے، پھر مجھ سے دوبارہ میرے اللہ نے دریافت فرمایا میں نے پھر بھی یہی جواب دیا تو مجھ سے اللہ عزوجل نے فرمایا اے نبی میں آپ کو آپ کی امت کے بارے میں کبھی شرمندہ نہ کروں گا، سنو مجھے میرے رب نے خوشخبری دی ہے کہ سب سے پہلے میری امت میں سے میرے ساتھ ستر ہزار شخص جنت میں جائیں گے، ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے، ان سب پر حساب کتاب مطلقاً نہیں، پھر میری طرف پیغام بھیجا کہ میرے حبیب مجھ سے دعا کرو میں قبول فرماؤں گا مجھ سے مانگو میں دوں گا میں نے اس قاصد سے کہا کہ جو میں مانگوں مجھے ملے گا ؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں اسی لئے تو مجھے اللہ نے بھیجا ہے، چناچہ میرے رب نے بہت کچھ عطا فرمایا، میں یہ سب کچھ فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا، مجھے میرے رب نے بالکل بخش دیا، اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیئے حالانکہ زندہ سلامت چل پھر رہا ہوں، مجھے میرے رب نے یہ بھی عطا فرمایا کہ میری تمام امت قحط سالی کی وجہ سے بھوک کے مارے ہلاک نہ ہوگی اور نہ سب کے سب مغلوب ہوجائیں گے، مجھے میرے رب نے حوص کوثر دیا ہے، وہ جنت کی ایک نہر ہے جو میرے حوض میں بہ رہی ہے، مجھے اس نے عزت، مدد اور رعب دیا ہے جو امتیوں کے آگے آگے مہینہ بھر کی راہ پر چلتا ہے، تمام نبیوں میں سب سے پہلے میں جنت ہی میں جاؤں گا، میرے اور میری امت کے لئے غنیمت کا مال حلال طیب کردیا گیا وہ سختیاں جو پہلوں پر تھیں ہم پر سے ہٹا دی گئیں اور ہمارے دین میں کسی طرح کی کوئی تنگی نہیں رکھی گئی۔

اردو ترجمہ

میں نے اُن سے اُس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی میں اُسی وقت تک ان کا نگراں تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا جب آپ نے مجھے واپس بلا لیا تو آپ ان پر نگراں تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگراں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma qultu lahum illa ma amartanee bihi ani oAAbudoo Allaha rabbee warabbakum wakuntu AAalayhim shaheedan ma dumtu feehim falamma tawaffaytanee kunta anta alrraqeeba AAalayhim waanta AAala kulli shayin shaheedun

اردو ترجمہ

اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In tuAAaththibhum fainnahum AAibaduka wain taghfir lahum fainnaka anta alAAazeezu alhakeemu

اردو ترجمہ

تب اللہ فرمائے گا "یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو اُن کی سچائی نفع دیتی ہے، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کامیابی ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala Allahu hatha yawmu yanfaAAu alssadiqeena sidquhum lahum jannatun tajree min tahtiha alanharu khalideena feeha abadan radiya Allahu AAanhum waradoo AAanhu thalika alfawzu alAAatheemu

موحدین کے لیے خوش خبریاں حضرت عیسیٰ بن مریم ؑ کو ان کی بات کا جو جواب قیامت کے دن ملے گا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ آج کے دن موحدوں کو توحید نفع دے گی، وہ ہمیشگی والی جنت میں جائیں گے، وہ اللہ سے خوش ہوں گے اور اللہ ان سے خوش ہوگا، فی الواقع رب کی رضامندی زبر دست چیز ہے، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اور ان سے کہے گا تم جو چاہو مجھ سے مانگو میں دوں گا، وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی خوشنودی طلب کریں گے، اللہ تعالیٰ سب کے سامنے اپنی رضامندی کا اظہار کرے گا، پھر فرماتا ہے یہ ایسی بےمثل کامیابی ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی، جیسے اور جگہ ہے اسی کیلئے عمل کرنے والوں کو عمل کی کوشش کرنی چاہیے اور آیت میں ہے رغبت کرنے والے اس کی رغبت کرلیں، پھر فرماتا ہے سب کا خالق، سب کا مالک، سب پر قادر، سب کا متصرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، ہر چیز اسی کی ملکیت میں اسی کے قبضے میں اسی کی چاہت میں ہے، اس جیسا کوئی نہیں، نہ کوئی اس کا وزیر و مشیر ہے، نہ کوئی نظیر و عدیل ہے نہ اس کی ماں ہے، نہ باپ، نہ اولاد نہ بیوی۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ کوئی اس کے سوا رب ہے، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں۔ سب سے آخری سورت یہی سورة مائدہ اتری ہے۔ (الحمد اللہ سورة مائدہ کی تفسیر ختم ہوئی)

اردو ترجمہ

زمین اور آسمانوں اور تمام موجودات کی پادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lillahi mulku alssamawati waalardi wama feehinna wahuwa AAala kulli shayin qadeerun
127