سورۃ الجمعہ: آیت 11 - وإذا رأوا تجارة أو لهوا... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورۃ الجمعہ

وَإِذَا رَأَوْا۟ تِجَٰرَةً أَوْ لَهْوًا ٱنفَضُّوٓا۟ إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَآئِمًا ۚ قُلْ مَا عِندَ ٱللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ ٱللَّهْوِ وَمِنَ ٱلتِّجَٰرَةِ ۚ وَٱللَّهُ خَيْرُ ٱلرَّٰزِقِينَ

اردو ترجمہ

اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا ان سے کہو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha raaw tijaratan aw lahwan infaddoo ilayha watarakooka qaiman qul ma AAinda Allahi khayrun mina allahwi wamina alttijarati waAllahu khayru alrraziqeena

آیت 11 کی تفسیر

واذاراو ........................ الرزقین (26 : 11) ” اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو ، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتررزق دینے والا ہے “۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ ایک بار جب ہم نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک قافلہ آگیا ، جس میں کھانے کا سامان تھا۔ لوگ قافلے کی طرف لپک گئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو آدمی رہ گئے۔ ان میں حضرت ابوبکر اور عمر ؓ تھے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔

واذا ........................ وترکوک قائما (26 : 11) اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا “۔

آیت میں اشارہ ہے کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے ، وہ اس لہو اور تجارت سے بہتر ہے اور یہ بھی یہاں صراحت کے ساتھ بتایا کہ اللہ بہترین رزق دینے والوں میں سے ہے۔

واللہ خیر الرزقین (26 : 11) ” اللہ بہتر رزق دینے والا ہے “۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بدوی عربی معاشرے کی تعلیم وتربیت کے لئے اسلام نے کس قدر جدوجہد کی ، اور کس طرحان لوگوں سے صحابہ کی وہ جماعت تیار کردی جس نے انسانی تاریخ میں ایک ریکارڈ کردیا۔ پوری انسانی تاریخ میں جس کی مثال نہیں ہے اور ان کی زندگیوں میں ان لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہے جو زمانہ مابعد میں دعوت اسلامی کا کام کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے کس قدر صبرومصابرت سے کام لیا ، اور اسلامی انقلاب کی راہ میں پیش آنے والی کمزوریوں ، نقائص ، واماندگیوں اور لغزشوں پر کس طرح صبر کیا اور ان کو دور کیا۔ آج ہم بھی اسی طرح اپنی اصلاح کرسکتے ہیں۔ یہ نفس انسانی اپنے اندر خیر کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور شر کی بھی۔ اس کے اندر یہ صلاحیت بھی ہے کہ روحانی قوت اور روحانی اور قلبی صفائی کے اعلیٰ ترین مدارج تک پہنچ جائے جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ لیکن اس کے لئے صبروثبات ، فہم وادراک ، ثابت قدمی اور استقامت اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ گھبرا کر انسان نصف راستے سے واپس ہوجائے۔ واللہ المستعان علی ماتصفون۔

آیت 1 1{ وَاِذَا رَاَوْ تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَا نِ انْفَضُّوْآ اِلَـیْہَا } ”اور جب انہوں نے دیکھا تجارت کا معاملہ یا کوئی کھیل تماشا تو اس کی طرف چل دیے“ { وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا } ”اور آپ ﷺ کو کھڑا چھوڑ دیا۔“ یہ خاص طور پر منافقین کے طرز عمل کا ذکر ہے کہ وہ تجارت اور کھیل تماشے کو اللہ کے ذکر پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس آیت کا شان نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مدینہ طیبہ میں شام سے ایک تجارتی قافلہ عین نماز جمعہ کے وقت آیا اور اہل شہر کو اطلاع دینے کے لیے ڈھول بجانے شروع کردیے۔ چونکہ قحط کا زمانہ تھا ‘ لہٰذا حاضرین مسجد قافلے کی آمد کی اطلاع پا کر فوراً اس کی طرف لپکے۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اکثر لوگ اس دوران اٹھ کر چلے گئے اور تھوڑے لوگ باقی رہ گئے جن میں عشرئہ مبشرہ بھی شامل تھے۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ ہجرت کے بعد بالکل قریبی دور کا ہے جبکہ لوگوں کو صحبت ِنبوی ﷺ سے فیض یاب ہونے کا موقع بہت کم ملا تھا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابتدا میں عیدین کے خطبہ کی طرح جمعہ کا خطبہ بھی نماز کے بعد ہوتا تھا ‘ اس لیے خطبہ کے دوران اٹھ کر جانے والے لوگوں نے یہی سمجھا ہوگا کہ نماز تو پڑھی جا چکی ہے اس لیے اب اٹھ جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بہرحال اس آیت میں بھی ڈانٹ کا انداز ہے اور اس میں جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے اس سے بھی مسلمانوں کی صفوں میں اسی کمزوری کی نشاندہی ہوتی ہے جس کا ذکر قبل ازیں سورة الحدید کے مطالعہ کے دوران تفصیل سے کیا جا چکا ہے۔ { قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْـرٌ مِّنَ اللَّہْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِط وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۔ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کہیں بہتر ہے کھیل کود اور تجارت سے۔ اور اللہ بہترین رزق عطا کرنے والا ہے۔“

تجارت عبادت اور صلوۃ جمعہ٭٭ مدینہ میں جمعہ والے دن تجارتی مال کے آجانے کی وجہ سے جو حضرات خطبہ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے، انہیں اللہ تعالیٰ عتاب کر رہا ہے کہ یہ لوگ جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھ لیتے ہیں تو اس کی طرف چل کھڑے ہوتے ہیں اور تجھے خطبہ میں ہی کھڑا چھوڑ دیتے ہیں، حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں یہ مال تجارت وحیہ بن خلیفہ کا تھا جمعہ والے دن آیا اور شہر میں خبر کے لئے طب بجنے لگا حضرت وحیہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے، طبل کی آواز سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے صرف چند آدمی رہ گئے، مسند احمد میں ہے صرف بارہ آدمی رہ گئے باقی لوگ اس تجارتی قافلہ کی طرف چل دیئے جس پر یہ آیت اتری۔ مسند ابو یعلی میں اتنا اور بھی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اگر وہ بھی باقی نہ رہتے اور سب کی طرف چل دیئے جس پر یہ آیت اتری۔ مسند ابو یعلی میں اتنا اور بھی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اگر یہ بھی باقی نہ رہتے اور سب اٹھ کر چلے جاتے تو تم سب پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی، جو لوگ حضور ﷺ کے پاس سے نہیں گئے تھے، ان میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق عنہما بھی تھے، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا چاہئے، صحیح مسلم میں ہے نبی ﷺ جمعہ کے دن دو خطبے پڑھتے تھے درمیان میں بیٹھ جاتے تھے قرآن شریف پڑھتے تھے اور لوگوں کو تذکیرہ نصیحت فرماتے تھے، یہاں یہ بات بھی معلوم رہنی چاہئے کہ یہ واقعہ بہ قول بعض کے اس وقت کا ہے جب آنحضرت ﷺ جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا کرتے تھے۔ مراسیل ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ سے پہلے جمعہ کی نماز پڑھا کرتے تھے جیسے عیدین میں ہوتا ہے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ خطبہ سنا رہے تھے کہ ایک شخص نے آن کر کہا وحیہ بن خلیفہ مال تجارت لے کر آگیا ہے، یہ سن کر سوائے چند لوگوں کے اور سب اٹھ کھڑے ہوگئے۔ پھر فرماتا ہے اے نبی ﷺ انہیں خبر سنا دو کہ دار آخرت کا ثواب عند اللہ ہے وہ کھیل تماشوں سے خریدو فروخت سے بہت ہی بہتر ہے، اللہ پر توکل رکھ کر، طلب رزق اوقات اجازت میں جو کرے اللہ اسے بہترین طریق پر روزیاں دے گا۔ الحمد اللہ سورة جمعہ کی تفسیر پوری ہوئی۔

آیت 11 - سورۃ الجمعہ: (وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما ۚ قل ما عند الله خير من اللهو ومن التجارة ۚ...) - اردو