سورۃ الجمعہ (62): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Jumu'a کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الجمعة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الجمعہ کے بارے میں معلومات

سورۃ الجمعہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo itha noodiya lilssalati min yawmi aljumuAAati faisAAaw ila thikri Allahi watharoo albayAAa thalikum khayrun lakum in kuntum taAAlamoona

جمعہ کی نماز بغیر جماعت کے نہیں ہوسکتی ، اس میں یہ بات لازمی ہے کہ مسلمان اس میں جمع ہوں اور خطبہ جمعہ سنیں اور اس خطبے میں مسلمانوں کو دینی تعلیم دی جائے۔ یہ مسلمانوں کا ایک دینی اور تنظیمی اجتماع ہے ، جس میں دین اور دنیا اور آخرت سب کو ایک ہی سلسلہ اجتماع میں جمع کردیا گیا ہے اور یہ سب امور عبادت کا حصہ ہیں۔ نماز جمعہ سے اسلام کا اجتماعی نظریہ اور نظام بڑی خوبی سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں بیشمار احادیث وارد ہیں جن میں جمعہ کی فضیلت ، اس کی تیاری ، غسل ، کپڑوں کی صفائی اور خوشبو لگانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

صحیحین میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

اذا جاء احدکم الجمعة فلیغتسل ” جب تم میں کوئی جمعہ کو آئے تو اسے چاہئے کہ وہ غسل کرے “۔

اصحاب سنن اربعہ نے اوس ابن اوس ثقفی کی حدیث نقل کی ہے۔ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے نا اور جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور خوشبو لگائی ، اگر اس کو دستیاب ہو ، اور اچھے کپڑے پہنے ، پھر وہ مسجد کی طرف نکلا اور اگر نماز (نفل) پڑھنا چاہا ، پڑھے اور مسجد میں کسی کو اذیت نہ دی۔ اس کے بعد وہ مسجد میں بیٹھا ، یہاں تک کہ امام نکلا اور اس نے نماز پڑھائی تو یہ جمعہ اگلے جمعے تک کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔ “

یایھا الذین .................... ذروا البیع (26 : 9) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، جب پکارا جائے نماز کے لئے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو “۔ یعنی زندگی کی تمام سرگرمیاں بند کردو ، اور ذکر الٰہی میں مصروف ہوجاﺅ۔ “

ذلکم ................ تعلمون (26 : 9) ” یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔ “۔

اس میں یہ اشارہ ہے کہ زندگی کی تمام دلچسپیوں کو ترک کرکے ذکر الٰہی میں تھوڑا سا وقت گزارو ، یہاں معاشی سرگرمیاں چھوڑ کر۔

واسعوا الی ذکر اللہ (26 : 9) ” اللہ کے ذکر کی طرف سعی کرو “ کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ سے پہلے ذکروفکر میں مشغول ہوجاﺅ۔ خالص ذکر الٰہی۔ اور اپنا تعلق اس وقت میں عالم بالا کے ساتھ جوڑ دو ۔ اس طرح تمہیں قلبی تطہیر نصیب ہوگی اور اس ذکر کے نتیجے میں دل پر عالم بالا کی معطر خوشبو اور معطر باد نسیم کے جھونکے اثر چھوڑیں گے۔ اور پھر تلاش معاش میں بھی ذکر الٰہی اور فضل الٰہی :

اردو ترجمہ

پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha qudiyati alssalatu faintashiroo fee alardi waibtaghoo min fadli Allahi waothkuroo Allaha katheeran laAAallakum tuflihoona

فاذ قضیت ........................ تفلحون (26 : 01) ” پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاﺅ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو ، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے “۔

یہ ہے اسلامی نظام کا توازن۔ یعنی زمین ضر ضروریات زندگی کا توازن۔ مثلاً کام کاج اور تلاش معاش اور روح کا ذکر الٰہی میں مشغول کرنا اور ایک وقت کے لئے تلاش معاش کی سرگرمیوں سے نکل کر عزات نشیں ہوکر ذکر وفکر میں مشغول ہونا ، قلبی زندگی کے لئے یہ ضروری ہے اور اس قلبی اور روحانی بالیدگی کے بغیر کوئی شخص اس عظیم امانت کا حق ادا نہیں کرسکتا جو ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے اور ذکر الٰہی تلاشمعاش کے دوران بھی ضروری ہے۔ اور تلاش معاش کے اندر بھی اگر ذکر وفکر ہو تو یہ تلاش معاش عبادت بن جاتا ہے لیکن تلاش معاش کے دوران ذکر وفکر کے علاوہ ایک وقت صرف ذکر وفکر کے لئے خالص بھی ضروری ہے۔ جس میں اور کوئی کام نہ ہو جس طرح ان دو آیات میں اشارہ ہے۔

حضرت عراک ابن مالک ؓ جب جمعہ کی نماز پڑھتے تھے تو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر یہ فرماتے ہیں۔ اے اللہ میں نے آپ کی پکار کی تعمیل کردی اور فرض نماز ادا کردیا اور اب میں مسجد سے نکل رہا ہوں جس طرح تو نے حکم دیا ہے ، اے اللہ مجھے اپنا فضل نصیب کر۔ آپ خیرالرازقین ہیں (ابن ابو حاتم) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ حکم الٰہی کو کس سنجیدگی سے لیا کرتے تھے۔ کس قدر سادگی سے ، کیونکہ ان کے دل میں شعور تھا کہ ، قرآن اللہ کے احکام پر مشتمل ہے اور مسلمانوں نے اس کی تعمیل کرنی ہے۔

صحابہ کرام کا یہ سادہ ادراک ، سنجیدہ طرز عمل اور نہایت ہی سادگی سے رب تعالیٰ سے ہمکلامی ہی وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے وہ اس قدر بلند مقام تک پرواز کرگئے ، حالانکہ وہ جاہلیت سے نکل کر آئے تھے ، اور جاہلیت کی عادات اور میلانات ان کو ہر وقت اپنی طرف کھینچتے تھے۔ اور جاہلیت کی ایک عادت کا نمونہ اس سورت کی آخری آیات میں پیش کیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا ان سے کہو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha raaw tijaratan aw lahwan infaddoo ilayha watarakooka qaiman qul ma AAinda Allahi khayrun mina allahwi wamina alttijarati waAllahu khayru alrraziqeena

واذاراو ........................ الرزقین (26 : 11) ” اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو ، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتررزق دینے والا ہے “۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ ایک بار جب ہم نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک قافلہ آگیا ، جس میں کھانے کا سامان تھا۔ لوگ قافلے کی طرف لپک گئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو آدمی رہ گئے۔ ان میں حضرت ابوبکر اور عمر ؓ تھے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔

واذا ........................ وترکوک قائما (26 : 11) اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا “۔

آیت میں اشارہ ہے کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے ، وہ اس لہو اور تجارت سے بہتر ہے اور یہ بھی یہاں صراحت کے ساتھ بتایا کہ اللہ بہترین رزق دینے والوں میں سے ہے۔

واللہ خیر الرزقین (26 : 11) ” اللہ بہتر رزق دینے والا ہے “۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بدوی عربی معاشرے کی تعلیم وتربیت کے لئے اسلام نے کس قدر جدوجہد کی ، اور کس طرحان لوگوں سے صحابہ کی وہ جماعت تیار کردی جس نے انسانی تاریخ میں ایک ریکارڈ کردیا۔ پوری انسانی تاریخ میں جس کی مثال نہیں ہے اور ان کی زندگیوں میں ان لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہے جو زمانہ مابعد میں دعوت اسلامی کا کام کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے کس قدر صبرومصابرت سے کام لیا ، اور اسلامی انقلاب کی راہ میں پیش آنے والی کمزوریوں ، نقائص ، واماندگیوں اور لغزشوں پر کس طرح صبر کیا اور ان کو دور کیا۔ آج ہم بھی اسی طرح اپنی اصلاح کرسکتے ہیں۔ یہ نفس انسانی اپنے اندر خیر کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور شر کی بھی۔ اس کے اندر یہ صلاحیت بھی ہے کہ روحانی قوت اور روحانی اور قلبی صفائی کے اعلیٰ ترین مدارج تک پہنچ جائے جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ لیکن اس کے لئے صبروثبات ، فہم وادراک ، ثابت قدمی اور استقامت اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ گھبرا کر انسان نصف راستے سے واپس ہوجائے۔ واللہ المستعان علی ماتصفون۔

554