سورۃ الجمعہ: آیت 10 - فإذا قضيت الصلاة فانتشروا في... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورۃ الجمعہ

فَإِذَا قُضِيَتِ ٱلصَّلَوٰةُ فَٱنتَشِرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ وَٱبْتَغُوا۟ مِن فَضْلِ ٱللَّهِ وَٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اردو ترجمہ

پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha qudiyati alssalatu faintashiroo fee alardi waibtaghoo min fadli Allahi waothkuroo Allaha katheeran laAAallakum tuflihoona

آیت 10 کی تفسیر

فاذ قضیت ........................ تفلحون (26 : 01) ” پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاﺅ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو ، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے “۔

یہ ہے اسلامی نظام کا توازن۔ یعنی زمین ضر ضروریات زندگی کا توازن۔ مثلاً کام کاج اور تلاش معاش اور روح کا ذکر الٰہی میں مشغول کرنا اور ایک وقت کے لئے تلاش معاش کی سرگرمیوں سے نکل کر عزات نشیں ہوکر ذکر وفکر میں مشغول ہونا ، قلبی زندگی کے لئے یہ ضروری ہے اور اس قلبی اور روحانی بالیدگی کے بغیر کوئی شخص اس عظیم امانت کا حق ادا نہیں کرسکتا جو ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے اور ذکر الٰہی تلاشمعاش کے دوران بھی ضروری ہے۔ اور تلاش معاش کے اندر بھی اگر ذکر وفکر ہو تو یہ تلاش معاش عبادت بن جاتا ہے لیکن تلاش معاش کے دوران ذکر وفکر کے علاوہ ایک وقت صرف ذکر وفکر کے لئے خالص بھی ضروری ہے۔ جس میں اور کوئی کام نہ ہو جس طرح ان دو آیات میں اشارہ ہے۔

حضرت عراک ابن مالک ؓ جب جمعہ کی نماز پڑھتے تھے تو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر یہ فرماتے ہیں۔ اے اللہ میں نے آپ کی پکار کی تعمیل کردی اور فرض نماز ادا کردیا اور اب میں مسجد سے نکل رہا ہوں جس طرح تو نے حکم دیا ہے ، اے اللہ مجھے اپنا فضل نصیب کر۔ آپ خیرالرازقین ہیں (ابن ابو حاتم) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ حکم الٰہی کو کس سنجیدگی سے لیا کرتے تھے۔ کس قدر سادگی سے ، کیونکہ ان کے دل میں شعور تھا کہ ، قرآن اللہ کے احکام پر مشتمل ہے اور مسلمانوں نے اس کی تعمیل کرنی ہے۔

صحابہ کرام کا یہ سادہ ادراک ، سنجیدہ طرز عمل اور نہایت ہی سادگی سے رب تعالیٰ سے ہمکلامی ہی وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے وہ اس قدر بلند مقام تک پرواز کرگئے ، حالانکہ وہ جاہلیت سے نکل کر آئے تھے ، اور جاہلیت کی عادات اور میلانات ان کو ہر وقت اپنی طرف کھینچتے تھے۔ اور جاہلیت کی ایک عادت کا نمونہ اس سورت کی آخری آیات میں پیش کیا جاتا ہے۔

آیت 10{ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ } ”پھر جب نماز پوری ہوچکے تو زمین میں منتشر ہو جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو“ یعنی جمعہ کے حوالے سے اسلام میں یہودیوں کے یوم سبت جیسی سختی نہیں ہے کہ پورا دن اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص کر دو۔ بلکہ مسلمانوں سے اس دن صرف یہ تقاضا ہے کہ وہ نماز جمعہ سے قبل اپنے تمام کام کاج چھوڑ دیں۔ نہائیں دھوئیں ‘ اچھے کپڑے پہنیں ‘ خوشبو لگائیں اور بروقت مسجد میں پہنچ جائیں ‘ تاکہ تعلیمی و تربیتی نشست سے بھرپور استفادہ کرسکیں۔ اسی لیے نماز جمعہ کے لیے اوّل وقت مسجد میں آنے والے کو حدیث میں اونٹ کی قربانی کے برابر ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ دوسری طرف نماز جمعہ ترک کرنے والے کے لیے حضور ﷺ نے سخت وعید سنائی ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے : مَنْ تَرَکَ ثَلَاثَ جُمُعَاتٍ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ طُبِعَ عَلٰی قَلْبِہٖ 1”جو شخص بغیر کسی عذر کے مسلسل تین جمعے ترک کر دے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔“ اس وعیدی حکم میں بھی یہی فلسفہ کارفرما ہے کہ مسلمانوں کے درمیان کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ ہو جو تعلیم و تربیت کے اس اجتماعی پروگرام سے مستقل طور پر کٹ کر رہ جائے۔ بہرحال جمعہ کے دن ”شرعی مصروفیت“ صرف نماز جمعہ کی ادائیگی تک ہی ہے ‘ اس کے بعد ہر کوئی اپنی دنیوی مصروفیات کے لیے آزاد ہے۔ اس لیے حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ جمعہ کے دن ”آدھی چھٹی“ قرآن مجید کے مذکورہ حکم کے مطابق کرے۔ یعنی اگر جمعہ کے دن لوگوں کو آدھی چھٹی دینا ضروری ہے تو یہ چھٹی صبح کے وقت ہونی چاہیے تاکہ لوگ آسانی سے نماز جمعہ کی تیاری کریں ‘ نماز ادا کریں اور نماز کے بعد معمول کے مطابق اپنے کام نپٹائیں۔ { وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّــعَلَّــکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ } ”اور اللہ کو یاد کرو کثرت سے تاکہ تم فلاح پائو۔“

آیت 10 - سورۃ الجمعہ: (فإذا قضيت الصلاة فانتشروا في الأرض وابتغوا من فضل الله واذكروا الله كثيرا لعلكم تفلحون...) - اردو