سورۃ الانسان: آیت 25 - واذكر اسم ربك بكرة وأصيلا... - اردو

آیت 25 کی تفسیر, سورۃ الانسان

وَٱذْكُرِ ٱسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

اردو ترجمہ

اپنے رب کا نام صبح و شام یاد کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waothkuri isma rabbika bukratan waaseelan

آیت 25 کی تفسیر

واذکراسم ........................ طویلا (25:76 تا 26) ” اپنے رب کا نام صبح وشام یاد کرو ، رات کو بھی اس کے حضور سجدہ ریز ہو اور رات کے طویل اوقات میں اس کی تسبیح کرتے رہو “۔ یہ ہے زادراہ ۔ صبح وشام اللہ کا نام لینا اور طویل راتوں میں اللہ کی پاکی بیان کرنا ، اس سرچشمے سے رابطہ بحال رکھنا جہاں سے قرآن کریم کا نزول ہورہا ہے۔ جہاں سے دعوت اسلامی اور تحریک اسلامی برپا کرنے کا حکم صادر ہوا ہے۔ یہی سرچشمہ قوت کا بھی سرچشمہ ہے۔ یہی اس راہ کے سازو سامان کا بھی ماخذ ہے۔ اور اس کے ساتھ رابطے کا طریقہ ذکروفکر ، تسبیح وتہلیل اور دعاء و عبادت ہے۔ خصوصاً طویل راتوں کے اوقات میں۔ اس لئے کہ یہ راہ طویل ہے۔ اور یہ بوجھ بھاری ہے۔ لہٰذا اس راہ کے لئے بہت ہی بڑی مقدار میں زادراہ کی ضرورت ہے۔ اور طویل راتوں کی تنہائیوں میں صرف بندے اور رب کی ملاقات تنہائی میں رہتی ہے۔ نہایت پر امیدی اور محبت کی فضا میں۔ اس ملاقات سے تمام تھکاوٹیں اور تمام الجھنیں حل ہوجاتی ہیں۔ اور ضعیفی اور قلت وسائل کی کمی دور ہوجاتی ہے۔ اور تمام تھکاوٹیں ختم ہوجاتی ہیں۔ اور انسان دیکھ لیتا ہے کہ جس مقصد کے لئے وہ کام کررہا ہے وہ ایک عظیم مقصد ہے اور پھر اس کے مقابلے میں جدوجہد اور قربانیاں اور راہ کی مشکلات اور قربانیاں بہت کم نظر آتی ہیں۔

اللہ رحیم وکریم ہے ، اس نے اپنے بندوں کو دعوت کا ذمہ دار بنایا ، اس پر قرآن نازل فرمایا ، انہیں بتایا گیا کہ ان ذمہ داریوں کا بوجھ کیا ہے ، اور راہ کی مشکلات کیا ہیں۔ لہٰذا اللہ نے اپنے نبی کو بےسہارا نہیں چھوڑا۔ اس کی نصرت فرمائی اور یہ تربیت اور راہ کی ان مشکلات کے مقابلے کے لئے تیاری کروانا بھی دراصل اللہ کی مدد اور نصرت ہے۔ اصحاب دعوت اور احیائے اسلام کے لئے کام کرنے والوں کا یہی زادراہ ہے۔ ہر دور میں اور ہر جگہ .... یہ دعوت ایک ہے۔ اس کا طریق کار بھی ایک ہے اور حالات اور واقعات بھی ایک ہیں۔ اہل باطل نہ ہمیشہ اس کے خلاف ایک ہی راستہ اختیار کیا ہے۔ جو وسائل نبی ﷺ کے بر خلاف باطل نے اختیار کیے وہی ہر باطل ہر حق کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ ہمیشہ باطل ایک ہی قسم کے اسباب و وسائل لے کر حق کے مقابلے میں آتا ہے۔ لہٰذا حق کے اسباب اور وسائل بھی وہی ہونے چاہئیں۔ جو اللہ نے اختیار کیے ہیں۔

وہ حقائق کیا ہیں جن کے اندر داعیان حق کو رہنا چاہئے ؟ یہ وہی ہیں جو داعی اول نبی ﷺ کو سکھائے گئے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ دعوت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یہ کام اللہ کا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ حق جو اللہ کی طرف سے آیا ہے۔ اس کے ساتھ باطل کا آمیزہ نہیں ہوسکتا۔ نہ اہل حق اور اہل باطل کے درمیان باہم تعاون ہوسکتا ہے۔ یا کچھ لو اور کچھ دو پر سودا بازی ہوسکتی ہے۔ اس لئے کہ دونوں کے منہاج باہم مختلف ہیں ، دونوں کے راستے جدا ہیں۔ اگر کسی وقت باطل اپنی قوت اور دبدبے کی وجہ سے غالب ہوتا ہے تو اس میں بھی اللہ کی رضا اور حکمت ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں اہل ایمان کے لئے صبر ضروری ہوتا ہے اور اس میں اللہ کی حکمت ہوتی ہے۔ اور اہل حق کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ صبر ، نماز اور تسبیح اور تہلیل اور ذکر وفکر کے ذریعہ مشکلات پر قابو پائیں .... یہ ہے وہ عظیم حقیقت جس کا ادراک ان تمام لوگوں کو اچھی طرح کرلینا چاہئے جو دعوت دین لے کر اٹھتے ہیں۔

اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کے منہاج اور طریق کار کے درمیان جو جاہلیت کا منہاج ہے۔ اور اسلامی منہاج اور طریق کار کے درمیان جو خدائی منہاج ہے۔ مکمل جدائی اور فرق ہے۔ یہ لوگ اپنا بھلا نہیں چاہتے ، ان کے اغراض ومقاصد نہایت گرے پڑے ہیں اور ان کی سوچ بہت ہی چھوٹی ہے۔ کیا فرق ہے دونوں میں ؟

آیت 25 - سورۃ الانسان: (واذكر اسم ربك بكرة وأصيلا...) - اردو