سورہ حمزہ: آیت 7 - التي تطلع على الأفئدة... - اردو

آیت 7 کی تفسیر, سورہ حمزہ

ٱلَّتِى تَطَّلِعُ عَلَى ٱلْأَفْـِٔدَةِ

اردو ترجمہ

جو دلوں تک پہنچے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatee tattaliAAu AAala alafidati

آیت 7 کی تفسیر

التی ........................ الافئدة (7:104) ” جو دلوں تک پہنچے گی “۔ اس شخص کے دل تک ، جس سے ھمزة لمزة (1:104) کا فعل قبیع ابھرتا ہے اور جس کے اندر مزاح ، تکبر اور غرور کا مواد چھپا ہوا ہوتا ہے۔ یہ تصویر اس طرح مکمل ہوتی ہے کہ اس پھینکے ہوئے نظر انداز کیے ہوئے اور پاش پاش کردیئے گئے شخص کو جس آگ میں پھینکا گیا ہے وہ اس کے روبرو سربند کردی گئی ہے۔ کوئی اس سے نکل نہ سکے گا۔ کوئی وہاں اس کو پوچھنے کے لئے نہ آئے گا۔ اس آگ میں بھی یہ شخص ستونوں کے ساتھ بندھا ہوا ہوگا ، جس طرح مویشیوں کو باڑوں میں باندھ دیا جاتا ہے۔ اس تصویر کشی کے لئے الفاظ کا جو رنگ استعمال کیا گیا ہے وہ بہت ہی شدید اور شوخ ہے۔

عددہ ۔۔ کلا لینبذن ۔۔ تطلع ۔۔ ممددة پھر جملوں کی جو تراکیب ہیں وہ بھی نہایت موکد اور زور دار ہیں۔

کلا ................................ الموقدة (6:104) ” البتہ وہ شخص تو لازماً ایک چکنا چور کردینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ چکنا چور کردینے والی جگہ ؟ وہ اللہ کی آگ ہے ، خوب بھڑکائی ہوئی “۔ پہلے اسے مجمل لفظ سے تعبیر کیا گیا۔

الحطمة جہنم کے لئے صریح نہیں ہے اور یہ مبہم لفظ تھا۔ اس کے بعد اسے مزید خوفناک بنانے کے لئے سوال کیا تھا۔ اور اس کے بعد جواب دیا گیا اور تشریح کردی گئی۔ یہ تمام اسالیب تاکید اور ہولناکی اور عظمت کے بیان کے لئے آتے ہیں ، اور پھر انداز بیان تاکید کے ساتھ تہدید آمیز بھی ہے۔

ویل ” ہلاکت ہے اس کے لئے “۔ لینبذن ” اسے ضرور پھینکا جائے گا “۔ الحطمة ” پاش پاش کرنے والی ہیں “۔ نار اللہ الموفدة (6:104) ” اللہ کی آگ جو خوب بھڑکائی ہوئی ہے “۔ التی ................ الافئدة (7:104) ” جس کے اثرات دلوں تک پہنچیں گے “۔ انھا علیھم موصدة (8:104) ” اونچے ہوئے ستونوں میں بندھے ہوئے ہوں گے “۔ اس تصویر کشی کے لئے جو الفاظ چنے گئے ہیں ان میں تصویری اور شعوری مناسبت ہے ہمز اور لمز کا فعل بد کرنے والے شخص کے ساتھ۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم دعوت اسلامی کی رفتار پر نظر رکھ رہا تھا اور یہ قرآن ہی تھا جو روز مرہ کے واقعات پر تبصرہ کرکے رہنمائی کرتا تھا اور یہ بروقت راہنمائی ایک ایسا ہتھیار تھا جو دشمنوں کے سازشوں کا تانا بانا کاٹ کر رکھ دیتا تھا بلکہ ان پر ایک خوف طاری کردیتا تھا اور اہل ایمان کی روحیں اطمینان سے سرشار ہوجاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان دو تصویروں کی جو مذمت فرمائی ہے اس میں ہمیں حکمت کے دو نکات نظرآتے ہیں۔

(1) یہ ایک اسلامی سوسائٹی اخلاقی گراوٹ کو قبول نہیں کرتی۔ اور اس قسم کے لوگ جہاں اور جس معاشرے میں ہوں وہ قابل مذمت ہیں۔

(2) اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی مدافعت فرماتا ہے اور ان کو اس بات سے بچاتا ہے کہ لوگوں کے اس توہین آمیز رویے سے کہیں ان میں احساس کمتری پیدا نہ ہوجائے۔ چناچہ اس سورت میں ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے ، اللہ دیکھ رہا ہے ، اللہ اسے ناپسند کرتا ہے ، اس پر ان کو سزا دے رہا ہے ، اس طرح اہل ایمان روحانی تائیدپاتے ہیں ، اور ان کے اندر اخلاقی برتری کا احساس پایا جاتا ہے اور ان کو یقین ہوجاتا ہے کہ ان کے خلاف جو سازشیں ہورہی ہیں وہ بہت ہی گھناﺅنی ہیں اور گھٹیا لوگوں کی طرف سے ہیں۔

آیت 7 - سورہ حمزہ: (التي تطلع على الأفئدة...) - اردو